آج جمعرات کا دن تھا اور سمندر
کے کنارے واقع دئیے والے بابا کے مزار پر انتہا کا رش، ہو کا عالم اور تل
دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں کئی دفعہ موسلا دھار بارش
اور سمندری طوفان آ ۓ لیکن مزار جو کا توں کئی صدیوں سے قائم ہے۔ مزار پر
ایک طرف قوالی والوں کا ہجوم تھا
انکی آواز میں ایک درد تھا۔
مائے نی میں کینوں آکھا
درد ونچھوڑے دا حال نی
اور کچھ لوگ دھمال ڈالتے ہوئے دنیا و مافیا سے بے خبر تصوف کی حدود میں
داخل ہو رہے تھے۔ مزار کے باہر تسبیح، جاے نماز، مٹی کے دئیے اور چوڑیوں
والے صدا لگانے میں محو تھے۔ ایک طرف لنگر کا انتظام تھا۔ بھوک کے ستاۓ
اپنے پیٹ کا جہنم بجھانے میں مصروف تھے تو کہیں منت پوری ہونے والے تبرک
بانٹنے میں۔ سمندر سے اٹھنے والی ہوا سورج کی تپش سے ہوا میں خنکی اور حبس
کا سماء باندھ رہی تھی۔
سورج کی تپش سے حلق سوکھنے لگا۔ سامنے پانی کا سمندر اور پیاس۔گلے کو تھوک
سے تر کرتے میں اپنی بے بسی کے بارے میں سوچنے لگی۔ میں پانی کی تلاش میں
نکل کھڑی ہوئی میرے ساتھ لایا ہوا پانی کا ذخیرہ ختم ہو چکا تھا۔ مزار کے
احاطے میں مجھے ایک پانی کا کنواں نظر آیا گویا مجھے تو کائنات مل گی۔ اپنے
حلق کو تر کرتے ہی میں نے مزار میں موجود لوگوں کا جائزہ لینا شروع کیا.
مجھے ایک کہانی چاہیے تھی جسے میری اگلی فلم کے لیے۔ اب مجھے احساس ہونے
لگا یہاں آ کر میں نے اپنا وقت ضائع کیا مجھے ایسی کوئی بھی بات نظر نہیں
آئی جو مجھے چاہیے -
جیسے ہی عصر کی اذان مزار میں گونجی گویا انسانوں کا سیلاب اترنے لگا۔ لوگ
مسجد کی طرف دوڑے۔ میں دھوپ کی تپش سے بچنے کے لیے سامنے بنے کچے مکان کی
طرف بڑھنے لگی۔ راستے میں ایک مزار سے کچھ فاصلے پر مجھے ایک بوڑھی عورت
دکھائی دی۔ اسکے چہرے کی جھریاں ایسے کے بوڑھا درخت شرما جائے۔ اسکے سوکھے
ہوئے ہونٹ اور اسکے گرد جمی پیڑیاں اس بات کی چغلی کھا رہی تھی کہ اس نے
دنوں سے پانی نہیں پیا ہے۔ پاس کھڑے بچے اسے پاگل پاگل پکار رہے تھے اور
پتھر مار رہے تھے۔ اسکے پیوند لگے میلے اور گدلے کپڑوں سے مجھے گھن آنے لگی
لیکن اسکے باوجود میں نے ان بچوں کو اسے مارنے سے منع کیا تو وہ مجھ پر
برہم ہونے لگی ۔ ایسی نظروں سے دیکھا کہ میں اسکی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوے
نظر جھکانے پر مجبور ہو گئی۔ وہ سحر تھا یا کچھ اور۔ اسے دیکھتے میرے دماغ
میں ایک جھمکا سا ہوا۔
میرا یہاں تین دن کا قیام تھا اور مجھے میرے مرتبے کی وجہ سے چودھری کے گھر
مدعو کیا گیا۔ گاؤں کے چودھری میرے شوہر کے دوست کے رشتہ دار تھے۔ انکے
توسط سے مجھے کافی دلچسپ قسم کا وی آئی پی پروٹوکول دیا گیا۔ انوع و اقسام
کے کھانے، لسی، پھل سوغات غرضیکہ وہ لوگ صدقے واری ہونے لگے۔ گاؤں کے کچھ
لوگ مجھ سے ملنے آے اور وہ لوگ شہری زندگی سے اسقدر متاثر تھے کہ وہ ایک
خیالی شہر بسا بیٹھے تھے اور میں انکے خوابوں کا وہ محل توڑنا نہیں چاہتی
تھی لہذا میں انہیں نہ بتا سکی کہ وہ کس جنت نظیر زمین پر رہ رہے ہیں۔
چوہدری صاحب کو دوسرے گاؤں دعوت میں مدعو کیا گیا تھا تو وہ اپنے ایک
وفادار ملازم کی ذمہ داری لگا گئے کہ مجھے گاؤں دکھاۓ وہ درمیانی عمر کا
شخص تھا۔ لنگڑا کے چلتا تھا۔ اسکے سفید بال اور بڑھی ہوئی داڑھی اسکی ہیبت
نا کی میں اضافہ کر رہی تھی۔ چوہدری صاحب نے خاص ٹانگے کا انتظام کر دیا
تھا۔ دوپہر کے وقت میں تیار ہو کر نکل پڑی۔ ٹانگے کی سواری خاصی دلچسپ
تھی۔راستے میں کچھ بچے ملکر کانچ کی گولیوں سے کھیل رہے تھے۔ سب ہمیں دیکھ
کر کھیل چھوڑ کر پیچھے بھاگنے لگ گئے۔ کچھ دیر میں ہم انکی دسترس سے دور ہو
گئے۔
راستے میں مجھے وہی عورت دکھائی دی۔ میں نے تانگہ والے سے رکنے کا کہا،
بادل ناخواستہ
وہ رک گیا۔
میں نے پوچھا یہ عورت ......
تانگہ والا: ایک ہی بیٹا ہے اسکا۔ اسکا شوہر زمیندار کے پاس کسان تھا۔
محنتی آدمی تھا اسے لیے گزر بسر خوب ہو رہی تھی
رات بھر میں اسکے بارے میں سوچتی رہی! نیند تو جیسے کوسوں دور ہو آنکھوں
سے۔ میں جتنا کوشش کرتی خیالات کو جھٹکنے کی وہ اتنی ہی تکلیف اور شدت سے
آتے تھے.
پھر سے وہی فلم چلنے لگی، ایک نہایت امیر آدمی کے ساتھ بیاہ کر بھی اسے
دنیا کی انمول نعمت اولاد نصیب نہ ہوئی۔ دادی ایک سخت مزاج کی عورت تھی۔
بانجھ ہونے کا طعنہ دے دے کے میری ماں کا جینا دوبھر کر دیا۔ والد صاحب
والدہ کو بے پناہ چاہتے تھے۔ اسی محبت نے انہیں زندگی بھر دوسری شادی سے
باز رکھا۔ پھر انکے امید سے ہونے کی خوشی میں تو جیسے سب پاگل ہو گۓ مٹھائی
بانٹی شہنائی بجائی اور ساتھ دادی نے کہا بہو بیٹا ہو سن لو۔
میری ماں میری پیدائش پر وفات پا گئی۔
منحوس کہیں کی اپنی ماں کو بھی کھا گئی !!
دادی نے یہ کہا اور منہ پھیر لیا
ناچار رونا والد صاحب نے ایک ملازمہ کا انتظام کر لیا وقت پر لگا کر اڑ گیا
اور میں خود ایک بیٹی کی ماں ہوں۔ ماں کی ممتا اور جذبات سے عاری ماں ۔ اگر
میں نے ماں کا پیار نہیں دیکھا تو اس میں میری بیٹی کا کیا قصور میں کیوں
اسے سزا دے رہی تھی۔
اللہ ھو اکبر کی صدا نے میرا سکوت توڑا۔ فجر کی اذان کی سنتے ہی میرے قدم
نماز کے لئے اٹھنے لگے۔ سجدے میں گر کر میں اتنا روئی کے ہوش نہ رہا۔ پھر
ایک حسین و جمیل عورت میرے پاس آئی ماتھے پر بوسہ دیا اور میرا سر اپنی گود
میں رکھ لیا
''وہ میری ماں تھی''
دروازے پر دستک کے ساتھ میری آنکھ کھلی نیچے سب ناشتے کی پر میز پر موجود
میرا انتظار کر رہے تھے۔ چوہدراہن شفقت سے بولی بیٹی طبعیت ناساز معلوم
ہوتی ہے آپکی۔ کہو تو طبیب کو بلا لوں۔ میں نے کہا نہیں میں ٹھیک ہوں اور
مکھن کو کاٹنے لگی۔
ناشتے سے فراغت کے بعد چوہدری صاحب سے میں نے مائی اللہ رکھی کے گھر جانے
کی فرمائش کر دی۔ انہوں نے شکور کو حکم دیا کے مجھے لے جائے اور واپس لے
آۓ۔
سارے راستے میں خاموش رہی۔
کچھ دیر کی مسافت کے بعد اسکا گھر آ گیا. میں نے دروازے پر دستک دی. ایک
نوجوان لڑکی باہر نکلی، مجھے دیکھتے ہی چلا اٹھی مائی وہ آ گئی۔ کیا اسے
معلوم تھا کہ میں آنے والی ہوں، حیران کن تھا۔ جانے خدا کیا کیا کام لیتا
ہے اپنے بندوں سے
یہ مائی اللہ رکھی کی بہن کی بیٹی تھی۔ شور و غل سن کر مائی بھی باہر آگئی.
آتے ہی نحیف سی آواز میں بولی کون ہے رے لڑکی کاہے شور مچاوے ہے ری
وہ لڑکی بول اٹھی مائی وہ آ گئی میں عالم حیرت میں کبھی مائی اللہ رکھی کو
دیکھوں تو کبھی اس لڑکی کو۔ اماں نے آگے بڑھ کر محبت سے میرے ماتھے کو
چوما۔ بے اختیار میری آنکھوں کے سیلاب کا بند ٹوٹ گیا.
ڈاکٹر صاحب اس کے بچنے کی امید کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے جو کل کچھ بہتری
نظر آئی تھی وہ بھی آج معدوم ہو گئی۔ نرس نے آتے ہی مایوس لہجے میں گوش
گزار کیا.
ڈاکٹر شکلا نیورولجسٹ تھے اپنے شعبہ کے قابل اور ماہر ڈاکٹر لیکن وہ بھی بے
بس نظر آنے لگے تھے۔
مائی مجھے اندر لے گئی۔ یہ تین کمروں پر مشتمل ایک صاف ستھرا مکان تھا لگتا
تھا کسی نے بہت محبت اور عقیدت سے بنایا ہے۔ اسکے در و دیوار میں اور اسکی
فضا میں محبت کی مہک تھی ممتا کی مہک۔
آج اسکا جھریوں والا چہرہ پر نور تھا اسکے بالوں کی چاندی سے گویا چاند بھی
شرما جائے۔ دھلے اور صاف کپڑوں میں وہ جنت کا گوشہ معلوم ہوتی تھی
وہ لڑکی میرا ہاتھ پکڑ کر دیوڑھی سے منسلک کمرے میں لے گئی اس کمرے میں جاۓ
نماز بچھی ہوئی تھی، قرآن پاک ایک صندوق میں پڑے ہوے تھے پھر میری نظر ان
دیئوں پر گئی وہاں دو دیئے جل رہے تھے وہ لڑکی بولی بی بی جی
مائی اللہ رکھی کا بیٹا کئی سالوں سے بے ہوش ہے نہ ہوش میں آتا ہے نہ کچھ
بولتا ہے پگلا گئی ہے خالہ۔
نہ کھانے کا ہوش نہ سونے کا۔ گلیوں میں ماری ماری پھرتی ہے۔ بچے اسے پاگل
پاگل پکار رتے تھے اور پتھر مارتے
دیئے والے بابا نے کہا تھا آپ آئیں گی تو سب اچھا ہو جائے گا۔
میں محو حیرت اسے تکتی رہی اسی اثناء میں مائی بھی اندر آ گئی بولی رب نے
تجھے مسیحا بنایا ہے میرے لیے اپنی ذمہ داری سمجھ اور پوری کر۔ میں حیرت سے
اسکا منہ تکنے لگی میں وہ عاصی جسے نماز پڑھے ایک عرصہ ہوا جو معجزات پہ
یقین نہیں رکھتی تھی اسے رب نے چن لیا۔
کمرے میں گہرا سکوت چھا گیا۔ گلے کو کنگھارتے ہوے لڑکی نے سکوت توڑا بولی
بیبی بابا نے مائی سے کہا تھا کہ کچھ عرصے بعد شہر سے ایک ایمان نامی لڑکی
آے گی رب نے اسے چن لیا ہے اور بنا دیا تیرا مسیحا۔
میں ان باتوں پر یقین نہیں رکھتی تھی اور نہ ہی ان چیزوں سے واقف پر دل
گواہی دے رہا تھا رب پر یقین رکھ رب سب پر قادر ہے۔
مائی نے بولنا شروع کیا پانچ سال قبل رات کو دوسرے قصبے سے آتے ہوے میرے
بیٹے کو حادثہ پیش آیا.
اسکے باپ کی ناگہانی موت کے بعد یہی میرا سہارا بعد خدا۔ میں نے اپنا پیٹ
کاٹ کے مہینوں روزے رکھ کر اسے بارہویں تک پڑھایا۔ پھر اسے پاس کے قصبے کے
وڈیرے کے یہاں نوکری مل گئی اسکے بچے کو قرآن اور دنیاوی تعلیم دینا۔ ایک
رات جب وہ گھر نہیں آیا تو میں اسے ڈھونڈنے نکل گئی کافی تگ و دود کے بعد
وہ نہ ملا صبح خبر آئی کہ وہ اسپتال ہے میں وہاں دوڑی تو دیکھا بے سدھ پڑا
ہے نہ بولتا ہے نہ سنتا ہے.
پھر میں نے دیۓ والے بابا کے مزار پر جا کر منت مانی تو انہوں نے تیرا
بتایا۔
یہ سب ڈرامائی تھا لیکن یہ کوئی فلم نہیں تھی
کچھ توقف کے بعد بولی۔ بس تو نے دعا کرنی ہے ایسے ہی جیسے ایک ماں اپنے بچے
کے لیے کرتی ہے. میں چکرا گئی
یا رب کیسے امتحان میں ڈال دیا تو نے میں ماں ہو کے بھی اس جذبے سے عاری
ہوں میں نے آج تک اپنی بچی کو پیار نہیں کیا۔
وہ التجا بھری اکھیوں سے مجھے تکنے لگی
کچھ دیر میں ہم درگاہ پہنچ گئے سر راہ سب خاموش تھے لیکن میری روح میں
طوفان برپا تھا۔ نہ تھمنے والا۔ ایک جنگ جذبات اور عقیدے کی جنگ۔
کچھ مسافت کے بعد ہم پہنچ گئے. ابھی باہر ہی کھڑے تھے کہ ایک نورانی چہرے
والے بابا نے دروازے پر استقبال کیا۔ بولے ایمان بی بی وقت آگیا ہے تخیل کو
تعبیر کے رنگ دینے کا۔ مڑ کے دیکھا بزرگ غائب
مزار ایک مانوس خوشبو سے مہک رہا تھا۔ ممتا کی خوشبو سے۔ اندر اندر داخلی
راستے پر ایک سکہ ملا اس دنیا کا معلوم نہ ہوتا تھا میں نے بے اختیار اٹھا
لیا۔ اندر احاطے میں جا کر میں نے دیا جلایا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے
موتیوں کی برسات شروع ہو گئی
میرے اندر کا غبار پھوٹ پڑا
میرے لب ہلنے لگے اے رب اے ستر ماؤں سے ذیادہ چاہنے والے اک ماں کی فریاد
سن لے۔
نرس بھاگی آئی ڈاکٹر شکلا مریض میں حرکت پیدا ہو رہی ہے جلدی آئیے۔ او مائی
گاڈ امپاسبل
ہے بھاگوان تو نے اسکی ماں کی سن لی.
مجھے لگا کائنات پھر سے پیدا ہوئی ہے۔
میری نظر کیا دیکھ رہی تھی اللہ رکھی اپنے بیٹے کا ماتھا چوم رہی ہے میں
مزار کے احاطے میں کھڑے ہو کر ہی یہ نظارہ کر رہی تھی اچانک مجھے گنبد نظر
آنے لگا سبز مائل اذان کی صدا گونجنے لگی اور لوگ دوڑنے لگے
میں چکرا کر گر پڑی میں شعور کی حدوں سے نکل گئی
لاشعوری حدوں میں داخل ہو گئی جہاں تک فہم اور عقل نہیں پہنچ سکتے۔ مائی
اللہ رکھی کو اسکا جہاں مل گیا اور مجھے رب ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت
کرنے والا رب. |