علامہ ابن تیمیہ (661. 728ھ :-
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ (1263۔ 1328ء)
اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم میں لکھتے ہیں :
وکذلک ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصاري في ميلاد عيسي عليه السلام،
وإما محبة للنبي صلي الله عليه وآله وسلم وتعظيمًا. واﷲ قد يثيبهم علي هذه
المحبة والاجتهاد، لا علي البدع، من اتخاذ مولد النبي صلي الله عليه وآله
وسلم عيدًا.
’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے
ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ
اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن
لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید
اپنایا۔‘‘
ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 404
اِسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں :
فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويکون له فيه أجر عظيم؛
لحسن قصده، وتعظيمه لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، کما قدمته لک أنه
يحسن من بعض الناس ما يستقبح من المؤمن المسدد.
’’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس
میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے
کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے
ہیں۔‘‘
ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406
اِمام ابو عبد اﷲ بن الحاج المالکی (م 737ھ :-
امام ابو عبد اللہ ابن الحاج محمد بن محمد بن محمد المالکی (م 1336ء) اپنی
کتاب ’’المدخل الی تنمیۃ الاعمال بتحسین النیات والتنبیہ علی کثیر من البدع
المحدثۃ والعوائد المنتحلۃ‘‘ میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
فضیلت کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں :
أشار عليه الصلاة والسلام إلي فضيلة هذا الشهر العظيم بقوله للسائل الذي
سأله عن صوم يوم الاثنين، فقال له عليه الصلاة والسلام : ذلک يوم ولدت فيه.
فتشريف هذا اليوم متضمن لتشريف هذا الشهر الذي ولد فيه، فينبغي أن نحترمه
حق الاحترام ونفضله بما فضل اﷲ به الأشهر الفاضلة، وهذا منها لقوله عليه
الصلاة والسلام : أنا سيد ولد آدم ولا فخر. ولقوله عليه الصلاة والسلام :
آدم ومن دونه تحت لوائي.
وفضيلة الأزمنة والأمکنة بما خصَّها اﷲ تعالي من العبادات التي تفعل فيها،
لما قد علم أن الأمکنة والأزمنة لا تتشرف لذاتها، وإنما يحصل لها التشريف
بما خصّت به من المعاني. فانظر رحمنا اﷲ وإيّاک إلي ما خصَّ اﷲ تعالي به
هذا الشهر الشريف ويوم الاثنين. ألا تري أن صوم هذا اليوم فيه فضل عظيم
لأنه صلي الله عليه وآله وسلم ولد فيه؟
فعلي هذا فينبغي إذا دخل هذا الشهر الکريم أن يکرَّم ويعظَّم ويحترم
الاحترام اللائق به وذلک بالاتّباع له صلي الله عليه وآله وسلم في کونه کان
يخصّ الأوقات الفاضلة بزيادة فعل البر فيها وکثرة الخيرات. ألا تري إلي قول
البخاري : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أجود الناس بالخير، وکان
أجود ما يکون في رمضان. فنمتثل تعظيم الأوقات الفاضلة بما امتثله علي قدر
استطاعتنا.
فإن قال قائل : قد التزم عليه الصلاة والسلام في الأوقات الفاضلة ما التزمه
مما قد علم، ولم يلتزم في هذا الشهر ما التزمه في غيره. فالجواب : أن
المعني الذي لأجله لم يلتزم عليه الصلاة والسلام إنما هو ما قد عُلم من
عادته الکريمة في کونه عليه الصلاة والسلام يريد التخفيف عن أمته، والرحمة
لهم سيّما فيما کان يخصّه عليه الصلاة والسلام.
ألا تري إلي قوله عليه الصلاة والسلام في حق حرم المدينة : اللّهم! إن
إبراهيم حرّم مکة، وإني أحرّم المدينة بما حرّم به إبراهيم مکة ومثله معه؟
ثم إنه عليه الصلاة والسلام لم يشرّع في قتل صيده ولا في قطع شجره الجزاء،
تخفيفاً علي أمته ورحمة لهم، فکان عليه الصلاة والسلام ينظر إلي ما هو من
جهته. . . وإن کان فاضلاً في نفسه يترکه للتخفيف عنهم.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اپنی ولادت کے) عظیم مہینے کی
عظمت کا اِظہار ایک سائل کے جواب میں فرمایا جس نے پیر کے دن کا روزہ رکھنے
کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے فرمایا :
’’یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی۔‘‘
’’پس اس دن کی عظمت سے اُس ماہِ (ربیع الاول) کی عظمت معلوم ہوتی ہے جس میں
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس مہینے
کا کما حقہ احترام کریں اور اِس ماہِ مقدس کو اس چیز کے ساتھ فضیلت دیں جس
چیز کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے فضیلت والے مہینوں کو فضیلت بخشی ہے۔ اِسی حوالے
سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’میں اولادِ
آدم کا سردار ہوں اور اس میں کوئی فخر نہیں۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا ایک اور فرمان ہے : ’’روزِ محشر آدم علیہ السلام سمیت سب میرے پرچم
تلے ہوں گے۔‘‘
’’زمانوں اور مکانوں کی عظمتیں اور فضیلتیں ان عبادتوں کی وجہ سے ہیں جو ان
(مہینوں) میں سرانجام دی جاتی ہیں۔ جیسا کہ یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ زمان و
مکاں کی خود اپنی کوئی عظمت و رفعت نہیں بلکہ ان کی عظمت کا سبب وہ خصوصیات
و امتیازات ہیں جن سے انہیں سرفراز فرمایا گیا۔ پس اس پر غور کریں، اﷲ
تعالیٰ ہمیں اور تمہیں اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے اور اس کی وجہ سے اللہ
تعالیٰ نے اس مہینے اور پیر کے دن کو عظمت عطا کی۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ
اس دن روزہ رکھنا فضلِ عظیم ہے کیوں کہ رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی ولادت اس روز ہوئی۔
’’لہٰذا لازم ہے کہ جب یہ مبارک مہینہ تشریف لائے تو اس کی بڑھ چڑھ کر
تکریم و تعظیم اور ایسی توقیر و اِحترام کیا جائے جس کا یہ حق دار ہے۔ اور
یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُس اُسوۂ مبارکہ کی تقلید ہوگی کہ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خصوصی (عظمت کے حامل) دنوں میں کثرت سے نیکی اور
خیرات کے کام کرتے تھے۔ کیا تو (حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے)
اِمام بخاری (194۔ 256ھ) کا روایت کردہ یہ قول نہیں دیکھتا : حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھلائی میں سب لوگوں سے زیادہ فیاض تھے اور ماہِ
رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت فیاضی اور دریا دلی کا مظاہرہ
فرماتے تھے۔ اس بناء پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فضیلت والے اوقات کی
عزت افزائی فرماتے تھے ہمیں بھی فضیلت کے حامل اوقات (جیسے ماہِ ربیع
الاول) کی بہ قدرِ اِستطاعت تعظیم کرنی چاہیے۔
’’اگر کوئی کہے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فضیلت والے
اوقات کی عزت افزائی فرمائی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی جیسا
کہ اوپر جانا جا چکا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس ماہ کی
جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی اس طرح عزت افزائی نہیں
کی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے مہینوں کی کرتے تھے؟ اس کا
جواب یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمت کے لیے تخفیف
اور آسانی و راحت کا بہت خیال رہتا تھا بالخصوص ان چیزوں کے بارے میں جو آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی ذات مقدسہ سے متعلق تھیں۔
’’کیا تو نے حرمتِ مدینہ کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول نہیں
دیکھا : ’’اے اﷲ! بے شک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا
تھا اور میں مدینہ منورہ کو اُنہی چیزوں کی مثل حرم قرار دیتا ہوں جن سے
ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا۔‘‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے اپنی اُمت کے لیے تخفیف اور رحمت کے سبب مدینہ منورہ کی حدود
میں شکار کرنے اور درخت کاٹنے کی کوئی سزا مقرر نہیں فرمائی۔ حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذاتِ مقدسہ سے متعلقہ کسی اَمر کو اس کی ذاتی
فضیلت کے باوجود امت کی آسانی کے لیے ترک فرما دیتے۔‘‘
1. ابن الحاج، المدخل إلي تنمية الأعمال بتحسين النيات والتنبيه علي کثير
من البدع المحدثة والعوائد المنتحلة، 2 : 2 - 4
2. سيوطي، حسن المقصدفي عمل المولد : 57 - 59
3. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 203، 204
4. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ،
1 : 371، 372
ابن الحاج مالکی ایک جگہ لکھتے ہیں :
فإن قال قائل : ما الحکمة في کونه عليه الصلاة والسلام خصّ مولده الکريم
بشهر ربيع الأول وبيوم الاثنين منه علي الصحيح والمشهور عند أکثر العلماء،
ولم يکن في شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن، وفيه ليلة القدر، واختص بفضائل
عديدة، ولا في الأشهر الحرم التي جعل اﷲ لها الحرمة يوم خلق السموات والأرض
ولا في ليلة النصف من شعبان، ولا في يوم الجمعة ولا في ليلتها؟
فالجواب من أربعة أوجه :
الوجه الأول : ما ورد في الحديث من أن اﷲ خلق الشجر يوم الاثنين. وفي ذلک
تنبيه عظيم وهو أن خلق الأقوات والأرزاق والفواکه والخيرات التي يتغذي بها
بنو آدم ويحيون، ويتداوون وتنشرح صدورهم لرؤيتها وتطيب بها نفوسهم وتسکن
بها خواطرهم عند رؤيتها لاطمئنان نفوسهم بتحصيل ما يبقي حياتهم علي ما جرت
به العادة من حکمة الحکيم سبحانه وتعالي فوجوده صلي الله عليه وآله وسلم في
هذا الشهر في هذا اليوم قرّة عين بسبب ما وجد من الخير العظيم والبرکة
الشاملة لأمته صلوات اﷲ عليه وسلامه.
الوجه الثاني : أن ظهوره عليه الصلاة والسلام في شهر ربيع فيه إشارة ظاهرة
لمن تفطن إليها بالنسبة إلي اشتقاق لفظة ربيع إذ أن فيه تفاؤلاً حسنًا
ببشارته لأمته عليه الصلاة والسلام والتفاؤل له أصل إشار إليه عليه الصلاة
والسلام. وقد قال الشيخ الإمام أبو عبد الرحمن الصقلي : لکل إنسان من اسمه
نصيب.
الوجه الثالث : أن فصل الربيع أعدل الفصول وأحسنها.
الوجه الرابع : أنه قد شاء الحکيم سبحانه وتعالي أنه عليه الصلاة والسلام
تتشرف به الأزمنة والأماکن لا هو يتشرف بها بل يحصل للزمان والمکان الذي
يباشره عليه الصلاة والسلام الفضيلة العظمي والمزية علي ما سواه من جنسه
الا ما استثني من ذلک لأجل زيادة الأعمال فيها وغير ذلک. فلو ولد صلي الله
عليه وآله وسلم في الأوقات المتقدم ذکرها لکان ظاهره يوهم أنه يتشرف بها.
1. ابن الحاج، المدخل إلي تنمية الأعمال بتحسين النيات والتنبيه علي کثير
من البدع المحدثة والعوائد المنتحلة، 2 : 26 - 29
2. سيوطي، حسن المقصدفي عمل المولد : 67، 68
3. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 207
4. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله
وسلم : 238
’’اگر کوئی کہنے والا کہے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ربیع
الاول میں اور پیر کے دن ولادتِ مبارکہ کی حکمت کے بارے میں سوال کیا جائے
کہ ان کی ولادت رمضان المبارک جو نزولِ قرآن کا مہینہ ہے اور جس میں لیلۃ
القدر رکھی گئی ہے یا دوسرے مقدس مہینوں یا 15 شعبان المعظم اور جمعہ کے دن
میں کیوں نہ ہوئی؟
’’اس سوال کا جواب چار زاویہ ہائے نظر سے دیا جاسکتا ہے :
1۔ ذخیرۂ احادیث میں درج ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیر کے دن درختوں کو پیدا
کیا۔ اس میں ایک لطیف نکتہ مضمر ہے۔ وہ یہ کہ پیر کے دن اللہ تعالیٰ نے
غذا، رزق، روزی اور پھلوں اور دیگر خیرات کی چیزوں کو پیدا فرمایا جن سے
بنی نوع انسان غذا حاصل کرتا ہے اور زندہ رہتا ہے۔ اور ان کو بہ طور علاج
بھی استعمال کرتا ہے اور انہیں دیکھ کر انہیں شرحِ صدر نصیب ہوتا ہے (دلی
خوشی ہوتی ہے)۔ اور ان کے ذریعے ان کے نفوس کو خوشی و فرحت نصیب ہوتی ہے
اور ان کے دلوں کو سکون میسر آتا ہے کیوں کہ (ان کے ذریعے) نفوس اس چیز کو
حاصل کرکے جس پر ان کی زندگی کا دار و مدار ہوتا ہے۔ مطمئن ہوتے ہیں۔ جیسا
کہ رب تعالیٰ کی سنت اور طریقہ ہے (کہ اس نے جانوں کو انہی چیزوں کے ساتھ
زندہ رکھا ہوا ہے) پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجودِ اَطہر اس مبارک
مہینہ میں اس مبارک دن میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ہے بسبب اس کے کہ (آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے سبب) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
امت کو خیر کثیر اور عظیم برکتوں سے نوازا گیا۔
2۔ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ربیع کے مہینہ میں ظہور
اس میں واضح اشارہ ہے ہر اس کے لیے جو لفظ ربیع کے اشتقاق، معنی و مفہوم پر
غور کرے کیوں کہ لفظ ربیع (موسم بہار) میں اشتقاقی طور پر ایک اچھا اور نیک
شگون پایا جاتا ہے۔ اس میں نیک شگون یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی امت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت دی گئی۔ اور نیک شگونی کی
کوئی نہ کوئی اصل ہوتی جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ
فرمایا۔ ابو عبد الرحمان صقلی بیان کرتے ہیں کہ ہر شخض کے لیے اس کے نام
میں اس کا ایک حصہ رکھ دیا گیا ہے یعنی اس کے نام کے اثرات اس کی شخصیت پر
مرتسم ہوتے ہیں۔
3۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ربیع (بہار) تمام موسموں میں انتہائی معتدل اور حسین
ہوتا ہے۔ اور اسی طرح رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت تمام
شرائع میں انتہائی پر اعتدال اور آسان ترین ہے۔
4۔ بے شک اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے چاہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے وجودِ مسعود سے زمان و مکان شرف حاصل کریں نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اُن سے شرف پائیں۔ بلکہ وہ زمان و مکان جس میں براہِ راست آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہو اس کو فضیلتِ عظمیٰ اور دیگر زمان و مکان پر
نمایاں ترین مقام و مرتبہ حاصل ہو جائے۔ سوائے اس زمان و مکاں کے جن کا اس
لیے استثناء کیا گیا کہ ان میں اعمال کی کثرت کی جائے اور اس کے علاوہ باقی
اسباب کی وجہ سے۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان اوقات میں تشریف
لاتے جن کا ذکر (اوپر اعتراض میں) گزر چکا ہے تو وہ بہ ظاہر اس وہم میں ڈال
دیتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے متشرف ہوئے ہیں۔‘‘
اِمام شمس الدین الذہبی (673۔ 748ھ :-
اِمام شمس الدین ابو عبد اﷲ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی (1274۔ 1348ء) کا
شمار عالمِ اسلام کے عظیم محدثین و مؤرّخین میں ہوتا ہے۔ اُنہوں نے اُصولِ
حدیث اور اَسماء الرجال کے فن میں بھرپور خدمات سرانجام دیں اور کئی کتب
تالیف کی ہیں، مثلاً تجرید الاصول فی احادیث الرسول، میزان الاعتدال فی نقد
الرجال، المشتبۃ فی اسماء الرجال، طبقات الحفاظ وغیرہ۔ فنِ تاریخ میں اُن
کی ایک ضخیم کتاب تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والاعلام موجود ہے۔ اَسماء
الرجال کے موضوع پر ایک ضخیم کتاب سیر اعلام النبلاء میں رُواۃ کے حالاتِ
زندگی پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ یہ کتاب علمی حلقوں میں بلند پایہ مقام
رکھتی ہے۔ امام ذہبی نے اس کتاب میں سلطان صلاح الدین ایوبی (532۔ 589ھ /
1138۔ 1193ء) کے بہنوئی اور اِربل کے بادشاہ سلطان مظفر الدین ابو سعید
کوکبری (م 630ھ) کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور ان کی بہت تعریف و تحسین
کی ہے۔ بادشاہ ابو سعید کوکبری بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والے اور مہمان
نواز تھے۔ اُنہوں نے دائمی بیماروں اور اندھوں کے لیے چار مسکن تعمیر
کروائے اور ہر پیر و جمعرات کو ان سے ملاقات و دریافت اَحوال کے لیے جاتے۔
اِسی طرح خواتین، یتیموں اور لاوارث بچوں کے لیے الگ الگ گھر تعمیر کروائے
تھے۔ وہ بیماروں کی عیادت کے لیے باقاعدگی سے ہسپتال جاتے تھے۔ اَحناف اور
شوافع کے لیے الگ الگ مدارس بنوائے اور صوفیاء کے لیے خانقاہیں تعمیر
کروائی تھیں۔ اِمام ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ بادشاہ سنی العقیدہ، نیک دل اور
متقی تھا۔ اُنہوں نے یہ واقعہ اپنی دو کتب ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ اور
’’تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والاعلام‘‘ میں بالتفصیل درج کیا ہے۔
اِمام ذہبی ملک المظفر کے جشنِ میلاد منانے کے بارے میں لکھتے ہیں :
و أما احتفاله بالمَوْلِد فيقصر التعبير عنه؛ کان الخلق يقصدونه من العراق
والجزيرة . . . و يُخْرِجُ من البَقَر والإبل والغَنَم شيئاً کثيراً
فَتُنْحَر وتُطْبَخ الألوان، ويَعْمَل عِدّة خِلَع للصُّوفية، ويتکلم
الوُعّاظ في الميدان، فينفق أموالاً جزيلة. وقد جَمَعَ له ابن دحية ’’کتاب
المولد‘‘ فأعطاه ألف دينار. وکان مُتواضعًا، خيراً، سُنّ. يّاً، يحب
الفقهاء والمحدثين. . . . وقال سِبط الجوزي : کانَ مُظفّر الدِّين ينفق في
السنة علي المولد ثلاث مائة ألف دينار، وعلي الخانقاه مائتي ألف دينار. . .
. وقال : قال من حضر المولد مرّة عددت علي سماطه مائة فرس قشلميش، وخمسة
آلاف رأس شوي، و عشرة آلاف دجاجة، مائة ألف زُبدية، و ثلاثين ألف صحن
حلواء.
’’اَلفاظ ملک المظفر کے محفلِ میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے
کا انداز بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ جزیرۂ عرب اور عراق سے لوگ کشاں کشاں اس
محفل میں شریک ہونے کے لیے آتے۔ ۔ ۔ اور کثیر تعداد میں گائیں، اونٹ اور
بکریاں ذبح کی جاتیں اور انواع و اقسام کے کھانے پکائے جاتے۔ وہ صوفیاء کے
لیے کثیر تعداد میں خلعتیں تیار کرواتا اور واعظین وسیع و عریض میدان میں
خطابات کرتے اور وہ بہت زیادہ مال خیرات کرتا۔ ابن دحیہ نے اس کے لیے
’’میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے موضوع پر کتاب تالیف کی تو اس
نے اسے ایک ہزار دینار دیئے۔ وہ منکسر المزاج اور راسخ العقیدہ سنی تھا،
فقہاء اور محدثین سے محبت کرتا تھا۔ سبط الجوزی کہتے ہیں : شاہ مظفر الدین
ہر سال محفلِ میلاد پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا جب کہ خانقاہِ صوفیاء
پر دو لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔ اس محفل میں شریک ہونے والے ایک شخص کا
کہنا ہے کہ اُس کی دعوتِ میلاد میں ایک سو (100) قشلمیش گھوڑوں پر سوار
سلامی و اِستقبال کے لیے موجود تھے۔ میں نے اُس کے دستر خوان پر پانچ ہزار
بھنی ہوئی سِریاں، دس ہزار مرغیاں، ایک لاکھ دودھ سے بھرے مٹی کے پیالے اور
تیس ہزار مٹھائی کے تھال پائے۔‘‘
1. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 16 : 274، 275
2. ذهبي، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (621 - 630ه)، 45 : 402 -
405
جاری ہے--- |