رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور مبارک اور سوانح عمری -2

ملک شام کا دوسرا سفر
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی راست گوئی و نجابت، شرافت، امانت داری اور اخلاق و کردار کی بلندی کا ہر شخص قائل تھا۔

حضرت خویلد کی دختر حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا بہت نیک سیرت اور شریف خاتون تھیں۔ انہیں اپنے والد سے بہت سا مال ورثے میں ملا تھا۔ وہ بھی مکہ کے بہت سے مردوں اور عورتوں کی طرح اپنے مال سے تجارت کرتی تھیں۔ جس وقت انہوں نے امین قریش کے اوصاف سنے تو انہوں نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ تجویز رکھی، اگر آپ میرے سرمائے سے تجارت کرنے کے لیے ملک شام تشریف لے جائیں تو میں جتنا حصہ دوسروں کو دیتی ہوں اس سے زیادہ حصہ آپ کو دوں گی۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابو طالب سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت خدیجہ کی تجویز کو قبول کرلیا اور ان کے ”میسرہ“ نامی غلام کے ہمراہ 25 سال کی عمر میں مال تجارت لے کر ملک شام کی طرف روانہ ہوئے۔

کاروانِ تجارت میں رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا بابرکت و باسعادت وجود قریش کے تاجروں کے لیے نہایت ہی سود مند و منفعت بخش ثابت ہوا اور انہیں توقع سے زیادہ منافع ملا۔ نیز رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ نفع حاصل ہوا۔ سفر کے خاتمے پر ”میسرہ“ نے سفر کی پوری کیفیت حضرت خدیجہ کو بتائی اور آپ کے فضائل و اخلاقی اوصاف و مکارم نیز معجزات کو تفصیل سے بیان کیا۔

حضرت خدیجہ کے ساتھ عقد مبارک
حضرت خدیجہ رشتے میں پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی چچا زاد بہن تھیں اور دونوں کا شجرہ نسب جناب قصیٰ بن کلاب سے جا ملتا تھا۔ حضرت خدیجہ کی ولادت و پرورش اس خاندان میں ہوئی تھی جو نسب کے اعتبار سے اصیل، ایثار پسند اور خانہ کعبہ کا حامی و پاسدار تھا اور خود حضرت خدیجہ اپنی عفت و پاکدامنی میں ایسی مشہور تھیں کہ دورِ جاہلیت میں انہیں ”طاہرہ“ اور ”سیدہ قریش“ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ان کے لیے بہت سے رشتے آئے اگرچہ شادی کے خواہشمند مہر ادا کرنے کے لیے کثیر رقم دینے کے لیے تیار تھے مگر وہ کسی سے بھی شادی کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوئیں۔

جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ملک شام سے سفر تجارت کے بعد واپس مکہ تشریف لائے تو حضرت خدیجہ نے پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں قاصد بھیجا اور آپ سے شادی کرنے کا اظہار کیا۔

رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسئلے کو حضرت ابو طالب اور دیگر چچاؤں کے درمیان رکھا سب نے اس رشتے سے اتفاق کیا تو آپ نے قاصد کے ذریعے حضرت خدیجہ کو اس رشتے کی منظوری کا مثبت جواب دیا۔ رشتے کے منظور کئے جانے کے بعد حضرت ابوطالب اور دوسرے چچا حضرت حمزہ نیز حضرت خدیجہ کے قرابت داروں کی موجودگی میں حضرت خدیجہ کے گھر پر محفل تقریب نکاح منعقد ہوئی اور نکاح کا خطبہ دولہا اور دلہن کے چچاؤں ”حضرت ابوطالب“ اور ”عمر بن اسد“ نے پڑھا۔

شادی کے وقت رسول خدا کا سن مبارک 25 سال اور حضرت خدیجہ کی عمر40 سال تھی۔

حضرت خدیجہ سے شادی کے محرکات
بعض وہ لوگ جو ہر چیز کو مادی مفاد کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں انہوں نے اس شادی کو بھی مادی پہلو سے ہی دیکھا ہے اور یہ ظاہر کیا ہے: چونکہ حضرت خدیجہ کو تجارتی امور کے لیے کسی مشہور و معروف اور معتبر شخص کی ضرورت تھی اس لیے انہوں نے پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کا پیغام بھیجا۔ دوسری طرف پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم یتیم و نادار تھے اور حضرت خدیجہ کی شرافتمانہ زندگی سے وافق تھے اسی لیے ان کی دولت حاصل کرنے کی غرض سے یہ رشتہ منظور کرلیا گیا، اگرچہ سن کے اعتبار سے دونوں کی عمروں میں کافی فرق تھا۔

اس کے برعکس اگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو اس شادی کے محرکات میں بہت سے معنوی پہلو شامل تھے۔ اس سلسلے میں ہم یہاں پہلے پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اور بعد میں حضرت خدیجہ کی نمائندگی کرتے ہوئے ذیل میں چند نکات بیان کرتے ہیں:

اول تو پیغمبر کی پوری زندگی ہمیں زہد و تقویٰ و معنوی اقدار سے پر نظر آتی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت کی نظر میں دنیوی مال و دولت اور جاہ و حشم کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی اور آپ نے حضرت خدیجہ کی دولت کو کبھی بھی اپنے ذاتی آرام و آسائش کی خاطر استعمال نہیں کیا۔

دوسرے اس شادی کی پیشکش حضرت خدیجہ نے کی تھی نہ کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے۔

اب ہم یہاں حضرت خدیجہ کی جانب سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:

حضرت خدیجہ عفیف و پاکدامن خاتون تھیں اور انہیں متقی و پرہیزگار شوہر کی تلاش تھی۔

دوسرے یہ کہ ملک شام سے واپس آنے کے بعد جب ”میسرہ“ غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ کو بتائے تو ان کے دل میں ”امین قریش“ کے لیے جذبہ محبت و الفت بڑھ گیا چنانچہ اس محبت کا سرچشمہ پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات نفسانی اور اخلاقی فضائل تھے اور حضرت خدیجہ کو ان ہی کمالات سے تعلق اور واسطہ تھا۔

تیسرے یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کرنے کے بعد حضرت خدیجہ نے آپ کو سفر تجارت پر جانے کی ترغیب نہیں دلائی۔ اگر انہوں نے یہ شادی اپنے مال و دولت میں اضافہ کرنے کی غرض سے کی ہوتی تو وہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو ضرور سفر پر روانہ کرتیں تاکہ مال و دولت میں اضافہ ہوسکے۔ اس کے برعکس حضرت خدیجہ نے اپنی دولت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دی تھی تاکہ اسے آپ ضرورت مند لوگوں پر خرچ کریں۔

حضرت خدیجہ نے رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرتے ہوئے شادی کی درخواست کے اصل محرک کو اس طرح بیان کیا ہے۔

اے میرے چچا کے بیٹے! چونکہ میں نے تمہیں ایک شریف، دیانتدار، خوش خلق اور راست گو انسان پایا تو میں تمہاری جانب مائل ہوئی اور شادی کے لیے پیغام بھیجا۔

پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے منہ بولے بیٹے
حضر خدیجہ سے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شادی کے بعد حضرت خدیجہ کے بھتیجے حکیم بن حزام ملک شام سے اپنے ساتھ کچھ غلام لے کر آئے جن میں ایک آٹھ سالہ لڑکا زید ابن حارثہ بھی تھا، جس وقت حضرت خدیجہ ان غلاموں کو دیکھنے کے لیے آئیں تو حکیم نے ان سے کہا کہ پھوپھی جان آپ ان غلاموں میں سے جسے بھی چن لیں گی وہ آپ ہی کو مل جائے گا۔ حضرت خدیجہ نے زید کو چن لیا۔

جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے زید کو حضرت خدیجہ کے پاس دیکھا تو آپ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ یہ غلام مجھے دے دیا جائے۔ حضرت خدیجہ نے اس غلام کو پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دیا۔ پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسے آزاد کر کے اپنا فرزند (متبنی) بنا لیا لیکن جب پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی تو قرآن نے حکم دیا کہ انہیں متبنی نہیں صرف فرزند کہا جائے۔

جب زید کے والد ”حارث“ کو یہ معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا شہر مکہ میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں ہے تو وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ان کا بیٹا ان کو واپس دے دیا جائے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے زید سے فرمایا:

ہمارے ساتھ رہو گے یا اپنے والد کے ساتھ جاؤ گے؟
اگر چاہو تو ہمارے ساتھ رہو اور چاہو تو اپنے والد کے ساتھ واپس چلے جاؤ، حضرت زید نے پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہی رہنا پسند کیا۔ جب رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی تو حضرت علی علیہ السلام کے بعد وہ پہلے مرد تھے جو آنحضرت پر ایمان لائے۔

رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نکاح پاک دامن اور ایثار پسند خاتون ام ایمن سے کر دیا جن سے ”اسامہ“ پیدا ہوئیں اس کے بعد آپ نے اپنے چچا کی لڑکی ”زینب بنت حجش“ سے ان کی شادی کر دی۔

جاری۔۔۔۔

آپ کی رائے باعث عزت افزائی ہو گی
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 119382 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More