✕
ARTICLES
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
NEWS
BUSINESS
MOBILE
CRICKET
ISLAM
WOMEN
NAMES
HEALTH
SHOP
More
SHOP
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Calculators
Directory
Photos
Urdu Editor
Travel & Tours
English
اردو
Home
Articles
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
Home
Urdu Articles
Politics Articles
ایسی ہے جمہوریت تو خریدار نہیں میں
(Qadir Khan, Karachi)
ہم کسی انسان کو سمجھنے کیلئے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں اور اس کی آنکھوں سے اترتے ہوئے اس کا دل ٹٹولتے ہیں ، اس کا دماغ پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ایک نتیجہ اخذ کرکے سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے کسی انسان کو سمجھ لیا ہے۔ لیکن جب یہ کہا جاتا ہے کہ کسی عورت کو سمجھنا مشکل ہے تو یہ کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا کہ عورت بھی تو انسان ہوتی ہے ۔ لہذا ایسے یوں اگر کہا جائے کہ انسان کو سمجھنا مشکل ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا ۔ ہمارے یہاں جمہوری نظام کے تحت ووٹ ڈالنے کو مقدس امانت کہا جاتا ہے ، لیکن خیبر پختونخوا و بلوچستان کیبعض علاقوں میں خواتین کے دوران انتخابات ووٹ ڈالنے پر متعدد سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے ایک روایتی معاہدہ کرلیا جاتا ہے کہ خواتین ووٹ کا حق استعمال نہیں کریں گی۔اس معاہدے کو الیکشن کمیشن جرم قرار دیتی ہے اور سول سوسائٹی سمیت شہری حقوق کی تنظیمیں اس پر شوروغوغا کرتی ہیں ۔ ہمارا میڈیا بھی اس ایشو کو شدت سے اٹھاتا ہے۔شدت پسندوں کی جانب سے جمہوری نظام کو کفر کا نظام کہا جاتا ہے اس لئے وہ تو پور ے جمہوری عمل ہی کے مخالف ہیں۔لیکن یہ بھی دیکھا جا چکا ہے کہ ان ہی عناصر سے جو جمہوری نظام کو کفر کا نظام قرار دیتے ہیں جمہوری کے داعی بیٹھ کر مذاکرات کرتے ہیں ان کے علاقوں میں جاتے ہیں ، سپر پاور کہلانے والی قوتیں بھی مسکرا مسکرا کر ان کو تسلیم کرتی ہیں۔
جمہوریت کا نظام اسلامی ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا اس لئے کہ اس میں اقلیت ، اکثریت پر حکومت کرتی ہے اور ایوانوں میں اکثریت اقلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے من پسند قوانین بنا کر ایسے عوام پر زبردستی مسلط کردیا جاتا ہے۔بلدیاتی انتخابات سے لیکر سینیٹ کے انتخابات امیدواران لاکھوں ، کروڑوں ، اربوں روپے خرچ کرتے ہیں ، جیتنے والے اپنی بولیاں لگاتے ہیں ، جماعتوں سے وابستگی رکھنے والے کسی بھی شخص کے معیار کے پیمانے کے بغیر اپنی قیادت کے حکم پر کسی بھی نا اہل کو مسند اقتدار پر بیٹھا کر جمہوریت کی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ اعلی عہدوں کیلئے ہر وہ کام کر گذرتے ہیں جیسے اخلاقی قرار نہیں دیا جا سکتا ، اس کا مظاہرہ یونین چیئرمین ، تحصیل چیئرمین ، سٹی میئر ، صوبائی و وفاقی وزراتوں ، سمیت وزرائے اعلی اور ارباب اختیار کے مشیران و معاونین کی لمبی فہرست دیکھ باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جمہوری نظام کے تحت کس قسم کے احباب ہم نے خود پر مسلط کرالئے ہیں ۔جب جمہوری نظام نہیں تھا تو دور نوح سے لیکر خلافت عثمانیہ کے خاتمے تک لاکھوں ہزاروں سال کی حکومتیں بھی کسی نہ کسی نظام کے تحت چلتی رہی ہیں اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ خواتین بھی اتنی با اختیار ہوئی کہ اقتدار کے مسند پر بیٹھ کر مردوں پر حکومت چلاتی رہیں ۔ خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی باتیں کرنے والے کیوں اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ ان علاقوں کی اپنی کچھ ثقافتیں ہیں روایتیں ہیں ۔ اگر آپ روشن خیالی کے نام پر اپنے اہل خانہ ، خواتین کی فیس بک پر تصاویر لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سب ایسا کریں تو یہ سب کچھ نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر کسی ڈانس پارٹی میں اپنی بیوی کو کسی دوسرے کی بانہوں میں دیکر اس کی بیوی اپنی بانہوں میں لے لیتے ہیں تو اس قسم کی جمہوریت نما ثقافت یا ثقافت بنا روایت سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی عوام نا آشنا ہیں بلکہ سندھ ، پنجاب کے لاکھوں خاندان بھی ایسی جمہوریت پر لعنت بھیجتے ہیں جس میں ترقی اور حقوق کے نام پر خواتین کی عزت و حرمت کی پامالی جاتی ہو۔ ووٹ دینا ایک گواہی ہے کہ جس کو ووٹ دیا جا رہا ہے ، وہ نیک خصلت ہے ایماندار ہے ، وغیرہ ، وغیرہ ، اب پردے دار ، گھر بیٹھی خاتون خانہ خواتین کو کیا معلوم کہ فلاں شخص کون ہے ، کیا کرتا ہے ، اس کا کردار کیسا ہے ، اس نے قوم کی کتنی خدمت کی ، یہ جمہوریت کا امیدوار خواتین کے مسائل کو سمجھتا بھی ہے کہ نہیں ، تو خاتون جھوٹی گواہی صرف اس لئے دے کیونکہ جمہوریت ہے۔ سابق امریکن صدر ابراہیم لنکن جمہوریت کو عوام کا نظام قرار دیتے تھے ۔ لیکن کیا آپ دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں جو جمہوریت کا نظام نافذ ہے وہ عام آدمی کیلئے ہے یا خواص کیلئے ہے۔ ؟افلاطون پہلا شخص تھا جس نے سیاسیات کو باضابطہ طور پر اپنے مطالعہ کا موضوع بنایا اور اس کے تمام پہلوؤں کا باریکی سے جائزہ لینے کے بعد بڑی بے باکی کے ساتھ اپنا نظریہ پیش کیا ، افلاطون نے یونانی جمہوریت پسندوں کے ہاتھوں اپنے استاد سقراط کی موت کے بعد یہ نتیجہ The Laws اور قوانین Statesmanمدبر Republic اخذ کیا کہ جمہوریت جم غفیر کی حکمرانی ہے ، افلاطون جموری روایتوں کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ایک فرسودہ نظام قرار دیتا ہے۔ اور اس نے جمہوریت سے تنگ آکر کیمونزم( اشتمالیت ) کا نظریہ پیش کیا ۔ اس کی آرا کی سب سے بڑی خوبی یہ رہی کہ ُاس وقت کے مفکرین اس کا متبادل پیش کرنے سے قاصر رہے، بعد میں چل کر افلاطون کے شاگرد ارسطو نے اپنے استاد کے نظریات کی تردید کی لیکن وہ بھی متبادل تجویز لانے میں ناکام رہے۔افلاطون کے مطابق" سیاست کے مسئلے کا حل یہ ہے یا تو فلسفی کو حکمران بنادو یا حکمرانوں کو فلسفی بنادو " ۔
ہندوؤں کی تاریخ میں ’ رام‘ کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے ، قرآن و حدیث میں ’ رام ‘ کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔لیکن بعض مفکریں ’ رام ‘ کے کردار کے حوالے سے دلچسپ نظریات رکھتے ہیں اور ’ رام ‘ کی صفات کے حوالے سے مختلف دعوے بھی کرتے ہیں۔ ’ رام شہزادے تھے اور اقتدار کے مستحق مگر ان کے والد نے ان کی سوتیلی ماں سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ اپنے بعد اس کے بیٹے کو بادشاہ بنائیں گے۔ ’ رام ‘ کے والد کا انتقال ہوا تو رام کے سوتیلے بھائی کو بادشاہ بنا دیا گیا۔پھر چودہ سال جنگلوں میں اپنی بیوی سیتا اور سوتیلے بھائی لکشمن کے ساتھ رہنا ، ایسی داستان ہے جیسے بھارتی ثقافتییلغار کی وجہ سے بچے بچے بھی جانتے ہیں۔ لیکن اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ سوتیلا بھائی اپنے بڑے بھائی کو بادشاہ بناناچاہتا تھا لیکن انھوں نے اپنے والد کی نصیحت پر عمل کیا ، چھوٹے بھائی نے ان سے جوتے مانگے کہ کم ازکم اپنے جوتے دے جائیں ، بھائی کی ضد کے بعد انھوں نے اپنے جوتے اپنے سوتیلے بھائی کو دے دیئے ، ’ رام ‘ کے جوتوں کو تخت پر رکھ دیا گیا کہ چودہ سال تک بھائی کے جوتوں کی حکمرانی ہوگی اور ان کا سوتیلا بھائی ایک کارندے کے طور پر حکومت چلائے گا۔یہاں یہ سوچنے کی بات ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری حکومت بھارت ، رام کو بھگوان کا درجہ دیتی ہے لیکن اس کے کئے گئے عمل پر بھی عمل نہیں کرتی۔یہودی اپنے مذہب ، تہذیب اور پانی تاریخ کے سب سے بڑے منکر ہیں ، یہودیوں نے اسرائیل کی ریاست حضرت سلیمان علیہ السلام کی ’ یاد ‘ میں قائم کی اور وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔یہ اور بات ہے کہ اسرائیل پہلے دن سے سیکولر ریاست کہلانے پر مصر ہے۔ بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور حکومت سے لاتعلقی کا بھی بعض یہودی اعلان کرتے ہیں بلکہ ایسے "زائن ازم " کی سازش قرار دیتے ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ "مفہوم کے مطابق ، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میرا زمانہ رہے گا ، جب تک اﷲ تعالی چاہے گا ، میرے زمانے کے بعدخلافت راشدہ ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا ، جب تک اﷲ تعالی چاہے گی ، خلافت کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اﷲ تعالی چاہے گا ، ملوکیت کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی ، اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اﷲ تعالی چاہے گا اور اس کے بعد زمانہ ایک بار پھرخلافت علی منہاج انبوہ کی جانب جائے گا۔ اسلام میں حکمرانی چار طاقتوں کا مجوعہ ہے ، روحانی طاقت ، اخلاقی طاقت ، علمی طاقت اور جسمانی طاقت ،۔۔ اقبال کہہ چکے ہیں کہـ" جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔" جمہوریت کا نیا نظام اقبال کے مفہوم کے مطابق فریب کے سوا کچھ نہیں۔کہنے کو امریکہ دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ امریکہ کے اکثر فیصلے امریکی عوام نہیں بلکہ امریکی سی آئی اے ، پینٹاگون ، امریکہ کے ایوان صنعت و تجارت ، ملٹی نیشنلز اور امریکہ کے ذرائع ابلاغ کرتے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستان کا آئین اس بات پر رکھا کہ قرآن و سنت کے علاوہ کسی قانون کو تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔ مسلم معاشرے میں حاکمیت صرف اﷲ تعالی کے قوانین کی ہوگی۔ لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے اسلام کو کبھی آئین کی قید سے نکلنے نہیں دیا ۔دیکھا جائے تو پاکستان کا آئین اسلام کا سب سے بڑا زندان ہے ۔جمہوریت اسلامی نظام نہیں ہے ، اس لئے اگر کوئی اپنی معاشرتی اقدار کے مطابق ووٹ نہیں ڈالتا تو وہ اسلام سے خارج نہیں ہوجائے گا۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے پہلے اپنے گھر کو درست کریں ، اپنے گھر میں انسان کو آزاد کریں ۔لاکھوں برسوں کی تاریخ میں دیکھیں کہ جمہوریت کہاں تھی ؟۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ جمہوریت کفر کا نظام ہے تو اس کا متبادل تو وہ پیش کر رہا گو کہ بیشتر کے پیش کرنے کا طریقہ خودساختہ و متشدد ہے ، جمہوریت کے نقصانات جنگ عظیم اول دوئم اور آج تک ہم سب بھگت رہے ہیں ۔ اور پھر دل چسپ بات یہی ہے کہ یہی توجمہوریت کہ ایک طرف یہ جماعتیں معاہدے کرتی ہیں تو دوسری جانب اسٹیجوں اور جلسوں میں خواتین سمیت رقص کرتے ہیں ۔ تو جمہوری جماعتوں کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کرکے ـ ’ کفر جمہوریت‘ کے مرتکب کیوں بنتے ہو ؟۔
< PREVIOUS
میر جعفر اور میر صادق کے بعد اب پیش ہے میر طارق
NEXT >
ایم کیو ایم کیلئے بھارتی فنڈنگ؟
Facebook
WhatsApp
Pinterest
Twitter
Comments
Print
01 Jul, 2015
Views: 689
About the Author:
Qadir Khan
Read More Articles by
Qadir Khan
:
937 Articles with 819423 views
Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile
here.
Add Your Article
Article Categories
Politics
سیاست
Society & Culture
معاشرہ اور ثقافت
Religion
مذہب
Other/Miscellaneous
متفرق
Literature & Humor
ادب و مزاح
Education
تعلیم
Health
صحت
Famous Personalities
مشہور شخصیات
Science & Technology
سائنس / ٹیکنالوجی
Novel
افسانہ
Sports
کھیل
True Stories
سچی کہانیاں
Books Intro
تعارفِ کتب
Travel & Tourism
سیر و سیاحت
Career
کیریر
Entertainment
انٹرٹینمنٹ
Kids Corner
بچوں کی دنیا
Poetry
شعر و شاعری
100 Lafzon Ke Kahani
سو لفظوں کی کہانی
Young Writers
نوجوان قلم کار
Arts
ہنر
Military Democracy
سول فوجی جمہوریت
Hamariweb Writers Club
ہماری ویب رائٹرز کلب
Recent
Politics
Articles
غزہ کے لیے آخرہم تماشائی کیوں ؟
بیڑ مسجد دھماکہ :ہندو دہشت گردوں پر یو اے پی اے
ڈونلڈ ٹرمپ پر چینی سرخ آنکھوں کا قہر
کانپور تشدد: جنگل راج میں چیتے کی سواری
View all Politics Articles
Most Viewed
(
Last 30 Days
|
All Time
)
چین کی معاشی پالیسیاں اور عالمی ترقی
"Can a Green Card Be Canceled in America? Understanding the Risks and Protections"
بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت اور عالمی سازشیں
عالمی ترقی میں "ایشیائی رفتار"
قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کا مقصد
Musharraf Era, Martial Law and Major Reforms:
لال مسجد آپریشن کی کہانی تصویروں کی زبانی
بھارتی جاسوس کلبھوشن کو پکڑنےوالے کیپٹن قدیر شہید کی داستان