ہم کسی انسان کو سمجھنے کیلئے اس
کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں اور اس کی آنکھوں سے اترتے ہوئے اس کا دل ٹٹولتے
ہیں ، اس کا دماغ پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ایک نتیجہ اخذ کرکے سمجھ
لیتے ہیں کہ ہم نے کسی انسان کو سمجھ لیا ہے۔ لیکن جب یہ کہا جاتا ہے کہ
کسی عورت کو سمجھنا مشکل ہے تو یہ کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا کہ عورت بھی تو
انسان ہوتی ہے ۔ لہذا ایسے یوں اگر کہا جائے کہ انسان کو سمجھنا مشکل ہے تو
یہ غلط نہیں ہوگا ۔ ہمارے یہاں جمہوری نظام کے تحت ووٹ ڈالنے کو مقدس امانت
کہا جاتا ہے ، لیکن خیبر پختونخوا و بلوچستان کیبعض علاقوں میں خواتین کے
دوران انتخابات ووٹ ڈالنے پر متعدد سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے ایک
روایتی معاہدہ کرلیا جاتا ہے کہ خواتین ووٹ کا حق استعمال نہیں کریں گی۔اس
معاہدے کو الیکشن کمیشن جرم قرار دیتی ہے اور سول سوسائٹی سمیت شہری حقوق
کی تنظیمیں اس پر شوروغوغا کرتی ہیں ۔ ہمارا میڈیا بھی اس ایشو کو شدت سے
اٹھاتا ہے۔شدت پسندوں کی جانب سے جمہوری نظام کو کفر کا نظام کہا جاتا ہے
اس لئے وہ تو پور ے جمہوری عمل ہی کے مخالف ہیں۔لیکن یہ بھی دیکھا جا چکا
ہے کہ ان ہی عناصر سے جو جمہوری نظام کو کفر کا نظام قرار دیتے ہیں جمہوری
کے داعی بیٹھ کر مذاکرات کرتے ہیں ان کے علاقوں میں جاتے ہیں ، سپر پاور
کہلانے والی قوتیں بھی مسکرا مسکرا کر ان کو تسلیم کرتی ہیں۔
جمہوریت کا نظام اسلامی ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا اس لئے کہ اس میں اقلیت
، اکثریت پر حکومت کرتی ہے اور ایوانوں میں اکثریت اقلیت کو نظر انداز کرتے
ہوئے من پسند قوانین بنا کر ایسے عوام پر زبردستی مسلط کردیا جاتا
ہے۔بلدیاتی انتخابات سے لیکر سینیٹ کے انتخابات امیدواران لاکھوں ، کروڑوں
، اربوں روپے خرچ کرتے ہیں ، جیتنے والے اپنی بولیاں لگاتے ہیں ، جماعتوں
سے وابستگی رکھنے والے کسی بھی شخص کے معیار کے پیمانے کے بغیر اپنی قیادت
کے حکم پر کسی بھی نا اہل کو مسند اقتدار پر بیٹھا کر جمہوریت کی کامیابی
کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ اعلی عہدوں کیلئے ہر وہ کام کر گذرتے ہیں جیسے
اخلاقی قرار نہیں دیا جا سکتا ، اس کا مظاہرہ یونین چیئرمین ، تحصیل
چیئرمین ، سٹی میئر ، صوبائی و وفاقی وزراتوں ، سمیت وزرائے اعلی اور ارباب
اختیار کے مشیران و معاونین کی لمبی فہرست دیکھ باآسانی اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ جمہوری نظام کے تحت کس قسم کے احباب ہم نے خود پر مسلط کرالئے
ہیں ۔جب جمہوری نظام نہیں تھا تو دور نوح سے لیکر خلافت عثمانیہ کے خاتمے
تک لاکھوں ہزاروں سال کی حکومتیں بھی کسی نہ کسی نظام کے تحت چلتی رہی ہیں
اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ خواتین بھی اتنی با اختیار ہوئی کہ اقتدار کے
مسند پر بیٹھ کر مردوں پر حکومت چلاتی رہیں ۔ خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم
کرنے کی باتیں کرنے والے کیوں اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ ان علاقوں
کی اپنی کچھ ثقافتیں ہیں روایتیں ہیں ۔ اگر آپ روشن خیالی کے نام پر اپنے
اہل خانہ ، خواتین کی فیس بک پر تصاویر لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے
ہیں کہ سب ایسا کریں تو یہ سب کچھ نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر کسی ڈانس پارٹی
میں اپنی بیوی کو کسی دوسرے کی بانہوں میں دیکر اس کی بیوی اپنی بانہوں میں
لے لیتے ہیں تو اس قسم کی جمہوریت نما ثقافت یا ثقافت بنا روایت سے خیبر
پختونخوا اور بلوچستان کی عوام نا آشنا ہیں بلکہ سندھ ، پنجاب کے لاکھوں
خاندان بھی ایسی جمہوریت پر لعنت بھیجتے ہیں جس میں ترقی اور حقوق کے نام
پر خواتین کی عزت و حرمت کی پامالی جاتی ہو۔ ووٹ دینا ایک گواہی ہے کہ جس
کو ووٹ دیا جا رہا ہے ، وہ نیک خصلت ہے ایماندار ہے ، وغیرہ ، وغیرہ ، اب
پردے دار ، گھر بیٹھی خاتون خانہ خواتین کو کیا معلوم کہ فلاں شخص کون ہے ،
کیا کرتا ہے ، اس کا کردار کیسا ہے ، اس نے قوم کی کتنی خدمت کی ، یہ
جمہوریت کا امیدوار خواتین کے مسائل کو سمجھتا بھی ہے کہ نہیں ، تو خاتون
جھوٹی گواہی صرف اس لئے دے کیونکہ جمہوریت ہے۔ سابق امریکن صدر ابراہیم
لنکن جمہوریت کو عوام کا نظام قرار دیتے تھے ۔ لیکن کیا آپ دل پر ہاتھ رکھ
کر کہہ سکتے ہیں جو جمہوریت کا نظام نافذ ہے وہ عام آدمی کیلئے ہے یا خواص
کیلئے ہے۔ ؟افلاطون پہلا شخص تھا جس نے سیاسیات کو باضابطہ طور پر اپنے
مطالعہ کا موضوع بنایا اور اس کے تمام پہلوؤں کا باریکی سے جائزہ لینے کے
بعد بڑی بے باکی کے ساتھ اپنا نظریہ پیش کیا ، افلاطون نے یونانی جمہوریت
پسندوں کے ہاتھوں اپنے استاد سقراط کی موت کے بعد یہ نتیجہ The Laws اور
قوانین Statesmanمدبر Republic اخذ کیا کہ جمہوریت جم غفیر کی حکمرانی ہے ،
افلاطون جموری روایتوں کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ایک فرسودہ نظام قرار دیتا
ہے۔ اور اس نے جمہوریت سے تنگ آکر کیمونزم( اشتمالیت ) کا نظریہ پیش کیا ۔
اس کی آرا کی سب سے بڑی خوبی یہ رہی کہ ُاس وقت کے مفکرین اس کا متبادل پیش
کرنے سے قاصر رہے، بعد میں چل کر افلاطون کے شاگرد ارسطو نے اپنے استاد کے
نظریات کی تردید کی لیکن وہ بھی متبادل تجویز لانے میں ناکام رہے۔افلاطون
کے مطابق" سیاست کے مسئلے کا حل یہ ہے یا تو فلسفی کو حکمران بنادو یا
حکمرانوں کو فلسفی بنادو " ۔
ہندوؤں کی تاریخ میں ’ رام‘ کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے ، قرآن و حدیث
میں ’ رام ‘ کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔لیکن بعض مفکریں ’ رام ‘ کے کردار کے
حوالے سے دلچسپ نظریات رکھتے ہیں اور ’ رام ‘ کی صفات کے حوالے سے مختلف
دعوے بھی کرتے ہیں۔ ’ رام شہزادے تھے اور اقتدار کے مستحق مگر ان کے والد
نے ان کی سوتیلی ماں سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ اپنے بعد اس کے بیٹے کو
بادشاہ بنائیں گے۔ ’ رام ‘ کے والد کا انتقال ہوا تو رام کے سوتیلے بھائی
کو بادشاہ بنا دیا گیا۔پھر چودہ سال جنگلوں میں اپنی بیوی سیتا اور سوتیلے
بھائی لکشمن کے ساتھ رہنا ، ایسی داستان ہے جیسے بھارتی ثقافتییلغار کی وجہ
سے بچے بچے بھی جانتے ہیں۔ لیکن اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ سوتیلا بھائی
اپنے بڑے بھائی کو بادشاہ بناناچاہتا تھا لیکن انھوں نے اپنے والد کی نصیحت
پر عمل کیا ، چھوٹے بھائی نے ان سے جوتے مانگے کہ کم ازکم اپنے جوتے دے
جائیں ، بھائی کی ضد کے بعد انھوں نے اپنے جوتے اپنے سوتیلے بھائی کو دے
دیئے ، ’ رام ‘ کے جوتوں کو تخت پر رکھ دیا گیا کہ چودہ سال تک بھائی کے
جوتوں کی حکمرانی ہوگی اور ان کا سوتیلا بھائی ایک کارندے کے طور پر حکومت
چلائے گا۔یہاں یہ سوچنے کی بات ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری حکومت بھارت
، رام کو بھگوان کا درجہ دیتی ہے لیکن اس کے کئے گئے عمل پر بھی عمل نہیں
کرتی۔یہودی اپنے مذہب ، تہذیب اور پانی تاریخ کے سب سے بڑے منکر ہیں ،
یہودیوں نے اسرائیل کی ریاست حضرت سلیمان علیہ السلام کی ’ یاد ‘ میں قائم
کی اور وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔یہ اور بات
ہے کہ اسرائیل پہلے دن سے سیکولر ریاست کہلانے پر مصر ہے۔ بلکہ حضرت سلیمان
علیہ السلام کے دور حکومت سے لاتعلقی کا بھی بعض یہودی اعلان کرتے ہیں بلکہ
ایسے "زائن ازم " کی سازش قرار دیتے ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ
ہے کہ "مفہوم کے مطابق ، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میرا زمانہ رہے گا ، جب
تک اﷲ تعالی چاہے گا ، میرے زمانے کے بعدخلافت راشدہ ہوگی اور اس کا زمانہ
رہے گا ، جب تک اﷲ تعالی چاہے گی ، خلافت کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا
زمانہ رہے گا جب تک اﷲ تعالی چاہے گا ، ملوکیت کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت
ہوگی ، اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اﷲ تعالی چاہے گا اور اس کے بعد زمانہ
ایک بار پھرخلافت علی منہاج انبوہ کی جانب جائے گا۔ اسلام میں حکمرانی چار
طاقتوں کا مجوعہ ہے ، روحانی طاقت ، اخلاقی طاقت ، علمی طاقت اور جسمانی
طاقت ،۔۔ اقبال کہہ چکے ہیں کہـ" جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں
کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔" جمہوریت کا نیا نظام اقبال کے مفہوم کے
مطابق فریب کے سوا کچھ نہیں۔کہنے کو امریکہ دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت ہے
لیکن سب جانتے ہیں کہ امریکہ کے اکثر فیصلے امریکی عوام نہیں بلکہ امریکی
سی آئی اے ، پینٹاگون ، امریکہ کے ایوان صنعت و تجارت ، ملٹی نیشنلز اور
امریکہ کے ذرائع ابلاغ کرتے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستان کا آئین
اس بات پر رکھا کہ قرآن و سنت کے علاوہ کسی قانون کو تسلیم نہیں کیا جائے
گا ۔ مسلم معاشرے میں حاکمیت صرف اﷲ تعالی کے قوانین کی ہوگی۔ لیکن پاکستان
کے حکمران طبقے نے اسلام کو کبھی آئین کی قید سے نکلنے نہیں دیا ۔دیکھا
جائے تو پاکستان کا آئین اسلام کا سب سے بڑا زندان ہے ۔جمہوریت اسلامی نظام
نہیں ہے ، اس لئے اگر کوئی اپنی معاشرتی اقدار کے مطابق ووٹ نہیں ڈالتا تو
وہ اسلام سے خارج نہیں ہوجائے گا۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے پہلے اپنے
گھر کو درست کریں ، اپنے گھر میں انسان کو آزاد کریں ۔لاکھوں برسوں کی
تاریخ میں دیکھیں کہ جمہوریت کہاں تھی ؟۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ جمہوریت کفر
کا نظام ہے تو اس کا متبادل تو وہ پیش کر رہا گو کہ بیشتر کے پیش کرنے کا
طریقہ خودساختہ و متشدد ہے ، جمہوریت کے نقصانات جنگ عظیم اول دوئم اور آج
تک ہم سب بھگت رہے ہیں ۔ اور پھر دل چسپ بات یہی ہے کہ یہی توجمہوریت کہ
ایک طرف یہ جماعتیں معاہدے کرتی ہیں تو دوسری جانب اسٹیجوں اور جلسوں میں
خواتین سمیت رقص کرتے ہیں ۔ تو جمہوری جماعتوں کے فیصلوں کو ماننے سے انکار
کرکے ـ ’ کفر جمہوریت‘ کے مرتکب کیوں بنتے ہو ؟۔
|