کبھی کبھی آدمی کو اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیئے۔
بہت سے عریاں رازوں کا پتہ چلتا ہے ۔ ہم سب جو ایک دوسرے کا بے وقوف بنا
رہے ہوتے ہیں کبھی کبھی ہمیں دوسروں کے گریبان چھوڑ کراپنا گریبان بھی پکڑ
لینا چاہیئے ۔ بے وقوف بنانے کے مشق توسب ہی کر رہے ہیں۔ لیڈر عوام کو ۔
آجر مزدور کو ۔دولت مند غریب کو۔ امام مقتدی کو۔ مبلغ مخاطب کو۔ چھوٹا بڑے
کو۔ اور دلچسب بات تو یہ ہے کہ عوام اپنے آپ کو۔۔! ایک گرداب ہی تو ہے جس
میں سب پھنس چکے ہیں اورشائید اس گرداب سے نکلنے کا بھی ایک ہی راستہ ہے کی
کبھی کبھی آدمی کو اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیئے۔
صحافت جسے ریاست کا چوتھا ، پانچواں یا پھر چھٹا ستون گردانا جاتا ہے وہ
بھی تو اسی گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ کبھی ہمارے ملک میں بھی صحافت بہت ہی
پُروقار، پُراثر، پُرکشش اور آبرومندہوا کرتی تھی لیکن فی زمانہ ترقی نے
جہاں دیگر شعبوں کو غرقِ گرداب کیا وہاں صحافت بھی نہ بچ سکی۔
ؔ ؔ اب ترقی کا زمانہ ہے تیرے عشق پر
انگلیاں اُٹھی تھیں ،اب ہاتھ اُٹھا کرتے ہیں
پاکستان میں بہت کم وقت میں صحافت کا شعبہ دنیا کے مقابل آ کھڑا ہوا لیکن
تربیت کے فقدان اور بڑھتی ہوئی طلب نے اس شعبے کو نہ صرف عدم توازن سے
دوچار کردیا بلکہ بہت سے ایسے لوگوں کو اس صف میں لا کھڑا کیا کہ جو اس کے
اہل نہ تھے۔ آج میں اس لیئے اپنے گریبان میں جھانک رہا ہوں بلکہ ہاتھ ڈال
رہا ہوں کہ میرے چند دوستوں نے سوشل میڈیا اور اپنے اپنے میڈیم پر آج کی
صحافت اور صحافی کے حوالے سے مختلف عنوانات کے تحت ایک بحث کا آغاز کیا ہے
۔آزاد کشمیر کے معروف کالم نویس اطہر مسعود وانی نے صحافی کون ہوتا ہے کے
عنوان سے کالم لکھ کر اس بحث کی ابتداٗ کی اس کے بعدبرطانیہ میں موجود
نوجوان سیاسی کارکن ،وکیل اور کالم نویس سیدتصور حسین نقوی نے صحافی برائے
رینٹ کے عنوان سے کالم لکھ کر اس بحث کو آگے بڑھایا۔ اس کے بعد معروف
کشمیری صحافی خالد گردیزی اور شہزاد احمد راٹھور نے اس پر طبع آزمائی کرتے
ہوئے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اس بحث میں دیگرحصہ لینے والے بھی
اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ آج کا صحافی اپنے
قلم کو خود ہی قلم کرنے کے در پہ ہیں ، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا رہا ہے
کہ صحافی خود اپنے قلم کے قاتل کے روپ میں سامنے آرہے ہیں۔ اپنی ذاتی
گاڑیوں پر پریس کی بڑی بڑی پلیٹیں لگانا بڑے صحافیوں کی نشانی بن چکا ہے ۔
گھروں کے باہر لگی تختیاں بھی بلند آواز سے پکا ر پکار کر بتا رہی ہوتی ہیں
کہ یہاں بہت ہی سینئر صحافی رہائش پزیر ہے۔ اس بحث میں جہاں خود اپن�آآپ کو
تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہاں صحافت کے موجودہ معیار کا بھی پتہ چل
رہاہے ۔بات آجر یا مزدور کی نہیں اور نہ ہی بات اچھی تنخوہوں کے ملنے یا نہ
ملنے کی ہو رہی ہے بات ہو رہی ہے رویوں کی۔۔۔ ! ہم اکثر سنا کرتے تھے کہ
ایک زرد صحافت ہوا کرتی ہے لیکن آجکل تو نیلی پیلی سبز لال اور نا جانے
کتنے رنگوں کی صحافت موجود ہے ۔
زرد صحافت کا آغاز غالباً امریکہ میں 1895-1898میں دوا خبارات کی سرکولیشن
کی جنگ سے ہوا تھا اس کے بعد سے زرد صحافت کی اصطلاح عام ہوئی۔
زرد صحافت کو اس وقت پانچ نکات کے تحت دیکھا جاتا تھا۔
1۔چھوٹی خبر کی بڑی بڑی ڈراونی سرخیاں لگانا
2۔بے انداز تصاویر اور تصواراتی اشکال کا استعمال
3۔جعلی انٹرویو ، گمراہ کن سرخیوں کا استعمال۔ pseudoscience۔اور جعلی قسم
کی رائے بنا کر پیش کرنا۔
4۔مکمل رنگین ضمیموں کی اشاعت اور مزاحیہ پٹیوں پر زور
5۔نظام کے مقا بلے میں کمزور اشخاص کے لیئے ڈرامائی ہمدردی جتانا۔
اُس زمانے میں اس طرح کے ڈرامائی طریقے اختیار کرکے اخبارات کی ترسیل میں
اضافے کی کوششوں کو زرد صحافت کا نام دیا گیا بعد میںیہ اصطلاح اپنے اندر
وسعت پیدا کرتی گئی پاکستان کی حد تک بلیک میلنگ کر کے مال بنانے اور پیسے
لیکر خبریںیا بیانات لگانے کو لفافہ جرنلزم کا نام دیا گیا ۔
موجودہ حالات کے تجزیہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ صحافت کا باقائدہ ایک اور
فرقہ معرضِ وجود میں آچکا ہے جو سیدھے سادھے صحافیوں کو بائی پاس کرتے ہوئے
ان دنوں اوجِ ثریا پر ہے اس فرقے کے اندر صحافیوں کی بہت سی اقسام پائی
جاتی ہیں جن میں بیاناتی صحافی، برساتی صحافی ، تنظیماتی صحافی اور کراماتی
صحافی نمایاں ہیں ۔
بیاناتی صحافی: صحافیوں کی یہ قسم اگرچہ شروع دن سے ہی موجود ہے لیکن فی
زمانہ نئی جہت اورپوری آن بان شان کے ساتھ دندناتی پھرتی ہے چونکہ بیانات
کی صحافت ا یک سود مند پیشے کے طور پر سامنے آرہی ہے اس لیئے اس قسم سے
وابستہ لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ پہلے بھی لوگوں کے بیانات
شائع ہوتے تھے لیکن اس وقت میرٹ کا خیال بھی رکھا جاتا تھا اور آج بھی کچھ
اخبارات اس میرٹ پر چلنے کی وجہ سے نقصان کا شکار ہیں ۔ کبھی وہ دور بھی
تھا جب بیانات اور خبریں چھپوانے کے لیئے ایک لیٹر ہیڈ کی ضرورت ہوتی تھی
اور لوگ اخبارات کے دفاتر تک خود چل کر جا تے تھے لیکن جب سے زمانہ قیامت
کی چال چل گیاہے اب کسی کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے اور پھر بیاناتی
صحافتی طبقے نے تواسے مزید آسان بنا دیا ہے اب کسی کو اپنے بیانات لیٹر ہیڈ
پر لکھنے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ سرے سے لکھنے کی ہی ضرورت نہیں یہ طبقہ تو
بیا نات کی فیکٹری ہے خود ہی بنا کر شائع بھی کرواتا ہے۔ بڑی بڑی تقریبات
کے انعقاد کی اب ضرورت نہیں بلکہ کم خرچ اور بالا نشیں کا نسخہ اپناتے ہوئے
کم پیسوں میں وہی کام آسانی سے ہو جاتا ہے ریڈی میڈ تقریبات کا ایک بہت بڑا
ذخیرا ان ساپیوں کے پاس موجود ہوتا ہے پرانے جلسوں کے سامعین ری فریش کر کے
لگانا اور مقررین کو مکمل مہارت سے ان کے ساتھ فٹ کرنا آج کی اس بیاناتی
صحافت کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے ۔
برساتی صحافی: برسات کے دنوں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ کس طرح مینڈک کونوں
کھدروں سے نکل کر سامنے آجاتے ہیں بلکل ایسے ہی پرساتی صحافت کے علمبردار
بھی فی زمانہ ان مینڈکوں کی طرح آپکو نظر آئیں گے۔ کیا ہوا اگر اخبارات میں
ان کو جگہ نہیں ملتی سوشل میدیا تو ہے ۔ تصاویر اور خبروں کا طوفان آپ کو
وہاں ملے گااور یہ ماہرین سوشل میڈیا یا دوسرے لفظوں میں برساتی صحافتی
طبقہ چھوٹے چھوٹے لوگوں کے بڑے بڑے بیانات باقائدہ کمپوز کرکے تصاویر کے
ساتھ غلط املا کی پرواہ کیئے بغیر سوشل میڈیا پر بکھیرتا بخوبی نظر آئے
گا۔
تنظیماتی صحافی: چونکہ صحافیوں کی تعداد میں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے
خوفناک اضافہ ہوچکا ہے اس لیئے ان کی فلاح و بہبود کے حوالے سے تنظیموں کی
تعداد بھی ا سی رجحان کو ظاہر کرتی ہے عموماً دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ از
خود صدر اور سیکرٹری وغیرہ بننے والے یا بزورِ طاقت ان عہدوں سے عہدہ براٗ
ہونے والے ان تنظیموں کے مالکان کی شعبہ صحافت میں کارکردگی ہمیشہ خفیہ ہی
رہتی ہے نہ ان کی کبھی کوئی خبر منظرِ عام پر آتی ہے اور نہ کوئی کالم شالم
منطرِ شہود پر۔۔! خدا جانے کب کہاں کس جگہ اور کس اخبار میں یہ کچھ لکھتے
ہیں یا کس ٹی وی پر کچھ کرتے ہیں ہاں ان کے دل میں صحافیوں کا درد ہمیشہ
جاگزیں رہتا ہے اور ان کے لیئے پلاٹوں کا بندو بست کرنے کی جدوجہد کرتے نظر
آتے ہیں اس جدو جہد میں انہوں نے اپنے رشتے داروں کو بھی لائین میں لگایا
ہوتا ہے۔
کراماتی صحافی: ہتھیلی پر سرسوں جمانا جیسے محاوروں کو سچ ثابت کرنا ہی
کراماتی صحافیوں کا اصل کام ہے اپنے آپ کو بادشاہ گر کہتے ہیں معاوضے کے
بغیر کرامات نہیں دکھاتے اور یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان کا نصاب پڑھنے کے
بعد ایک عام شخص خاص ، ایک سیاسی ورکر لیڈر، ایک لیڈر وزیر اور وزیر ،
وزیراعظم بن جاتا ہے ان کی اصل کرامت یہ ہے کہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی
کو دور سے پہچان لیتے ہیں اور اسے ہر گز ذبح نہیں کرتے ۔
آ ج کے اس جدید دور کی صحافت اور پہلے دور کی صحافت میں فرق جاننے کے لیئے
مجھے ایک کہانی کا سہارا لینا پڑے گا۔ کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ تھا جو ایک
آنکھ سے کانا اور ایک ٹانگ سے لنگڑا تھا اس کے دل میں شوق سمایا کہ کیوں نا
اپنی ایک ایسی تصویر بنوائے جس میں اس کے یہ جسمانی عیوب ظاہر نہ ہوں
کیونکہ وہ فوٹو گرافی اور فوٹو شاپ کا زمانہ نہیں تھا اس لیئے بادشاہ نے
اپنی مملکت کے ماہر مصوروں کو بلا کر اپنی فرمائش اس شرط کے ساتھ آگے رکھی
کی اس کے جسمانی عیب تصویر میں نظر نہیں آنے چاہیئے۔ لیکن سب مصوروں نے
سوائے ایک کے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ حقیقت کے پر عکس کوئی تصویر نہیں
بنائیں گے ۔بادشاہ کو غصہ تو بہت آ یا تاہم اس نے اجتماعی انکار کی نفی
کرنے والے مصور کو اپنی تصویر بنانے کا حکم دیا۔ تصویر تیار ہوگئی اور اسے
خوبصورتی میں ایک مثال اور شہکار قرار دیا گیا ۔ تصویر میں مصور نے رنگ
بازی کرتے ہوئے بادشاہ کو جسمانی عیوب سے پاک ایک شکاری کے روپ میں دکھایا
گیا تھا ۔ آج کے دور میں صورتحال اس کے بلکل برعکس ہے ۔۔۔ کانے اور لنگڑے
بادشاہ کی بے عیب تصویر بنانے والے آپ کو لاتعداد ملیں گے اور انکار کرنے
والا شائد صرف ایک ہی مل سکے۔
یہ موضوع بہت وسیع ہے اور کالم کا دامن تنگ ہے سو
فرصت ملی تو ہوگی دو ٹوک گفتگو
یہ بارِ گراں ہم سے اُٹھایا نہ جائے گا |