’’چچ نامہ ‘‘سندھ کی تاریخ کے
حوالے سے ایک مشہور کتاب ہے چونکہ یہ چچ خاندان کے بارے میں ہے اس لئے چچ
نامہ کہلاتی ہے۔ کتاب کے اصل مصنف کے بارے میں تو کچھ معلوم نہیں مگر اس کا
فارسی ترجمہ محمد بن علی نے کیا۔ محمد بن علی 58 برس کی عمر میں اپنے وطن
سے بھکر منتقل ہوا تو اسے سندھ کی تاریخ لکھنے کا خیال آیا۔ اس نے اپنے اس
ارادے کے بارے وہاں کے مشہور عالم اسماعیل بن علی سے تذکرہ کیا تو انہوں نے
بتایا کہ ان کے پاس ان کے کسی بزرگ کی لکھی ہوئی سندھ کے بارے ایک کتاب
موجود ہے جو عربی میں ہے۔ محمد بن علی بن حامد نے خوشی سے وہ کتاب لے کر اس
کا ترجمہ فارسی میں کیا۔ سندھ کی تاریخ کے حوالے سے آج بھی یہ کتاب سب سے
زیادہ معلومات مہیا کرتی ہے۔
ساہ سی سندھ کا حکمران تھا۔ چچ ایک معمولی برہمن تھا جو اُس کے دربار میں
ملازم تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ چچ کا رسوخ بڑھتا گیا یہاں تک کہ جب ساہ سی
مرا تو چچ نے اس کی بیوہ سے شادی کر لی اور سندھ کا حکمران بن گیا۔ چچ نے
تقریباً چالیس سال سندھ پر حکومت کی۔ چچ کے بعد اس کا بھائی چندر سندھ کا
حکمران ہوا۔ چندر نے آٹھ (8) سال حکومت کی اور اس کے مرنے کے بعد اس کا
بیٹا واہر سندھ کا حکمران ہو ااور 33 سال حکومت کرنے کے بعد 93 ھ میں محمد
بن قاسم سے لڑائی میں مارا گیا۔
ہندوستان پر مسلمانوں کا پہلا حملہ مکران کی طرف سے ہوا اس کے بعد بھی
متعدد چھوٹے حملے کئے گئے مگر مسلمانوں کو کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔
خلیفہ عبدالمالک کے دور میں سری لنکا سے مسلمانوں کا ایک جہاز جب دیبل کی
بندرگاہ کے قریب سے گزرا تو سندھ کے قزاقوں نے اسے لوٹ لیا ۔ اس واقعہ کے
بعد حجاج بن یوسف نے سندھ کی طرف توجہ کی۔ اس نے سندھ کے راجہ داہر کو لکھا
کہ قیدی مردوں، عورتوں اور بچوں کو رہا کیا جائے اور لوٹا ہوا مال واپس کیا
جائے۔ راجہ داہر نے کوئی بھی بات ماننے سے انکار کیا اور قزاقوں سے لاتعلقی
کا اظہار کیا۔ اس وقت تک عربوں کو سندھ کی طرف کوئی خیال بھی نہیں تھی۔
یہاں کی آبادی ہندو تھی اور زبردست جنگ جُو تھی اور مسلمانوں کے زیر تسلط
علاقوں اور سندھ کے درمیان لامتناہی پہاڑوں، صحراؤں اور دریاؤں کا سلسلہ
تھا۔ مگر حجاج بن یوسف کی ہدایت پر ان تمام باتوں سے بے نیاز جذبہ ایمانی
سے سرشار چند ہزار سواروں پر مشتمل مسلمان فو ج ایک 17 سالہ ناتجربہ کار
نوجوان کی زیر قیادت ہندوؤں کو سبق سکھانے ہندوستان کی سرزمین پر داخل ہو
گئی۔ 93ھ کے موسم بہار میں دیبل کا محاصرہ کیا گیا اور چند دنوں میں
مسلمانوں نے دیبل فتح کر لیا اور وہاں برصغیر کی پہلی مسجد کی بنیاد ڈالی
گئی۔ دیبل کی فتح کے بعد محمد بن قاسم چار ہزار سپاہی وہاں چھوڑ کر راجہ
داہر کی مرکزی فوج کی طرف بڑھا۔ دریا عبور کیا اور راجہ داہر کی زیر قیادت
آہن پوش ہاتھیوں پر مشتمل فوج سے ٹکرا گیا۔ اس لڑائی میں راجہ داہر مارا
گیا۔ داہر کی بہن نے تمام عورتوں کو اکٹھا کیا اور گھروں کو آگ لگا کر سب
جل کر خاک ہو گئیں۔ اس کے بعد محمد بن قاسم سندھ کے دیگر علاقوں کو فتح
کرتا پنجاب تک پہنچ گیا۔
اسی دوران خلافت خلیفہ ولید کی بجائے خلیفہ سلیمان نے لے لی۔ خلافت کی اس
تبدیلی نے ہر طرف اثر ڈالا۔ خلیفہ سلیمان نے خلیفہ ولید کے پچھلے تمام
انتظامات کالعدم قرار دے دئے۔ حجاج اور اس کے ساتھیوں کو چُن چُن کر قتل
کیا۔ محمد بن قاسم جو حجاج کا بھتیجا اور داماد تھا ،کو بھی طلب کیا اور
ہلاک کر دیا۔ کہتے ہیں اس وقت محمد بن قاسم سندھ کے عوام میں اس قدر محبوب
اور ہردلعزیز تھا کہ جب اسے واپس بلایا گیا تو یہاں کے لوگ روتے تھے اور اس
کے جانے کے بعد اس کے بت بنا کر اُس کی پرستش کرتے رہے۔
چچ نامہ کے مطابق اس قتل کی وجہ یہ ہے کہ جب راجہ داہر کی دو بیٹیاں سورج
دیوی اور پرمل دیوی داہر کے قتل ہونے کے بعد گرفتار ہو کر خلیفہ کے پاس
پہنچیں اور خلیفہ نے ان کو خلوت میں بلایا تو انہوں نے محمد بن قاسم کے
بارے میں شکایت کی کہ اس نے ان کی عصمت خراب کی ہے۔ خلیفہ بہت برہم ہو ااور
حکم دیا کہ محمد بن قاسم جہاں بھی ہو اسے ایک گائے کے چمڑے میں بند کر کے
سی دیا جائے اور اسی حال میں یہاں لایا جائے۔ خلیفہ کے حکم کی تعمیل ہوئی۔
جب محمد بن قاسم کی لاش وہاں پہنچی اور اسے لڑکیوں کو دکھایا گیا تو انہوں
نے کہا کہ ہم نے تو اپنے باپ کا بدلہ لینے کے لئے محمد بن قاسم پر یہ الزام
لگایا تھا۔ خلیفہ یہ سن کر بہت برہم ہوا اور لڑکیوں کو گھوڑے کی دُم سے
بندھوا کر ہلاک کرا دیا اور ان کی لاشیں دریائے دجلہ میں پھینکوا دیں۔اس
افسانے کے مطابق یہ سندھ کی سب سے پہلی بوری بند لاش تھی۔مگر یہ روایت کسی
صورت بھی صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ محمد بن قاسم سپہ سالار تھا، عملی طور پر
سندھ کا حکمران تھا اور بہت ہردلعزیز حکمران تھا۔ ایسے حکمران کو گائے کے
چمڑے میں سینا تو بہت دور کی بات گرفتار کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ یہ محمد بن
قاسم کی فرمانبرداری اور تابعداری تھی کہ اس نے خلیفہ کا حکم قبول کیا اور
واپس چلا گیا، جہاں اسے قتل کر دیا گیا۔
آج بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ سندھ میں بوری بند لاشوں کا جوسلسلہ محمد بن
قاسم سے شروع ہوا تھا وہ آج تک جاری ہے۔ سندھ میں قزاقوں کے ٹولے کسی نہ
کسی شکل میں آج بھی موجود ہیں اور عوام کو لوٹتے ہیں، آج بھی حالات ماضی سے
مختلف نہیں۔ آج سندھ کے حکمرانوں کا طرز عمل بھی راجہ داہر جیسا ہی ہے۔ وہ
لٹیروں اور قزاقوں سے لاتعلقی کا جھوٹا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ
یہ سب ایک دوسرے کے شریک کار ہیں اور ان سب کا علاج بھی کوئی محمد بن قاسم
ہی ہے۔ عوام منتظر ہیں کہ کب کوئی محمد بن قاسم آئے، داہروں کا سدباب ہو
اور عوام کو قزاقوں اور ڈاکوؤں سے نجات ملے۔ |