تحقیقات اور انتظار
(Dr Murtaza Mughal, Lahore)
بی بی سی کی رپورٹ آنے کے بعد
خیال کیا جارہا تھا کہ وزارت داخلہ حرکت میں آئے گی اور ایم کیو ایم کے
متحرک رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے پڑیں گے‘ دفاتر سیل ہوں گے اور الطاف حسین
صاحب کو برطانیہ سے طلب کیا جائے گا۔ ’’ایگزیکٹ‘‘ کے معاملے میں چوہدری
نثار علی خان نے جو سرعت دکھائی تھی‘ اس سے یہی توقع تھی ۔ نیو یارک ٹائمز
اور بی بی سی کا’’ تقدس‘‘ تقریباً ایک جیسا ہے تو ردعمل بھی برابر کا ہونا
چاہیے۔ لیکن چوہدری صاحب اس کے برخلاف بارہ گھنٹے تک خاموش رہے ‘ وزیر دفاع
نے بین السطور گفتگو کی اور قومی اسمبلی میں طعنہ دیا کہ ایم ۔ کیو ۔ ایم
کی ’’لوڈشیڈنگ ‘‘ ہونے والی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو کہیں سے
فون آیا ہوگا انہوں نے چوہدری نثار کو بی بی سی کی رپورٹ کے حوالے سے
تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چوہدری صاحب نے تحقیقات کے اس کام کو طول
دینے کے لئے برطانیہ سے معلومات حاصل کرنے کی راہ ڈھونڈی ہے۔ خط جائے گا‘
کب جائے گا‘ پھر جواب آئے گا۔بی بی سی والے حکومت پاکستان کو ثبوت فراہم
کریں گے یا ٹال دیں گے۔ ابلتا پانی ہے اور اس میں ٹھنڈی مدھانی ہے۔ وزارت
داخلہ اسے گھماتی رہے گی۔ہلکا پُھلکا شور اُٹھے گا اور پھر میڈیا کو کوئی
بڑی خبر مل جائے گی۔ جس طرح ایم۔ کیو۔ ایم کے خلاف بی بی سی کی رپورٹ نے
ملک میں جاری لوڈشیڈنگ کے سبب جاری حملوں سے مسلم لیگ (ن) کو نجات دلائی ہے
اسی طرح کوئی بڑی خبر ایم۔ کیو ۔ ایم کو موجودہ صورتحال سے نکال دے
گی۔1990ء سے لے کر آج تک ایم۔کیو۔ایم کے خلاف وطن سے غداری کے متعدد
الزامات لگائے گئے لیکن ثابت کچھ نہ ہوسکا الٹا متحدہ کے ووٹ بنک میں اضافہ
ہوا۔ مارچ میں نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا ‘چیختے چنگھاڑے ثبوت ملے۔ قاتل
پکڑے گئے ۔غیر ملکی اسلحہ برآمد ہوا ۔لیکن اسی حلقے میں جب الیکشن ہوا تو
پی ٹی آئی الیکشن ہار گئی۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ پہلے بھی چل چکی ہے الطاف حسین کی لائیو تقاریر
ریکارڈ پر ہیں جن کی بنیاد پر ماہرین قانون کہہ چکے ہیں کہ اشتعال اور خون
خرابے کے مقدمات بن سکتے ہیں۔ ایک بھاری بھر کم فائل جناب عمران خان صاحب
بھی برطانوی پولیس کو فراہم کرچکے ہیں۔ ذوالفقار مرزا مستند ثبوت دے چکے
ہیں۔آخر وہ کونسی طاقت ہے جو ریاست پاکستان کو ایم۔ کیو ۔ایم کے خلاف کوئی
مقدمہ دائر نہیں کرنے دیتی۔ راؤ انور اور صورت مرزا کے بیانات کے بعد کونسا
ثبوت چاہیے؟
دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ یا تو ایمِ۔کیو۔ایم کے بقول انہیں غریب اور مڈل
کلاس عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے کی سزا دی جارہی ہے یا پھر کوئی خفیہ ہاتھ
ہیں جو ایم۔کیوِ۔ایم کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ اندرونی ہاتھ ہیں یا
بیرونی۔ یہ بھی ایک راز ہے۔
بی بی سی کا ادارہ اپنی رپورٹ پر قائم ہے لیکن الطاف حسین نے اس رپورٹ کو
بالکل جھوٹ قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے پرجوش کارکنوں سے جذباتی خطاب کیا
ہے ۔ ان کا یہ جملہ بہت ہی کاٹ دار ہے ’’جب ضرورت ہوتی ہے تو ایم۔کیو۔ ایم
محب وطن اور جب کام نکل جاتا ہے تو غدار‘‘۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلم لیگ
(ن) اور پی پی پی نے اپنے سیاسی مفادات کے لئے متحدہ کے ساتھ اتحاد بنائے
ہیں۔ متحدہ کے لوگ اسمبلیوں اور قائمہ کمیٹیوں میں موجود ہیں۔ متحدہ کے
خلاف جتنے ثبوت آرہے ہیں۔ وہ کسی سول یا وفاقی ادارے کی طرف سے مہیا نہیں
کئے گئے۔ رینجرز کی تحویل میں آنے والے مجرموں کی زبانی سامنے آئے ہیں ۔ان
ثبوتوں کو عدالت لے جانے میں کیا چیز مانع ہے۔
عوام یہ توقع کرتے ہیں کہ اور ان کی یہ توقع بجا بھی ہے کہ آئیں بائیں
شائیں کرنے کی بجائے آپریشن ضرب عضب کو اس کے منطقی انجام تک پہنچنے دیںِ۔
غیر ملکی اطلاعاتی اداروں کی رپورٹوں کو بنیاد بنا کر اگر تحقیقات ہونی ہیں
تو پھر بی بی سی کی رپورٹ پر بھی ٹھوس ردعمل کی ضرورت ہےِ۔ تحقیقات کے لئے
خط لکھنے جیسے وقت گذاری کے اقدامات سے پتہ چلے گا کہ آپ رینجرز کی پیٹھ
میں چھرا گھونپنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ایسا تاثر تقویت پا رہا ہے ۔ سندھ
حکومت سے وابستہ کرپٹ لوگوں کو خاموشی سے باہر جانے دیا جارہا ہےِ۔(ن) لیگ
کو یاد رکھنا چاہیے کہ فوج نے ہی اسے دھرنے سے بچایا ہے۔ایسا نہ ہو کہ اب
کی بار یہ سہارا بھی کام نہ آسکے اس لئے تحقیقات کروائیں ‘انتظار نہیں !!
|
|