رمضان المبارک اور بالخصوص
اس کے آخری عشرہ کے اعمال میں سے ایک اعتکاف ہے ۔ روح انسانی کی تربیت ،
ترقی اور نفسانی قوتوں پر اس کو غالب کرنے کے لئے پورے مہینے رمضان المبارک
کے روزے تمام مسلمانوں پر فرض کئے گئے گویا کہ اتنا مجاہدہ اور نفسانی
خواہشات کی اتنی قربانی توہر مسلمان کے لئے لازم کردی گئی کہ وہ اس پورے
محترم اور مقدس مہینے میں اﷲ کے حکم کی تعمیل اور اس کی عبادت کی نیت سے دن
کو نہ کھائے نہ پیئے‘ اﷲ کے حکم کی وجہ سے عام دنوں میں حلال کی گئی چیزوں
کے کھانے اور ہر طرح کے گناہ اور برائی سے باز و ممنوع رہے، اور اس کے ساتھ
ہر قسم کی فضول باتوں سے بھی پرہیز کرے اوریہ پورا مہینہ ان پابندیوں کے
ساتھ گزارے پس یہ تو رمضان المبارک میں روحانی تربیت و تزکیہ کا عوامی
اورضروری کورس ہے۔
اور اس سے آگے اﷲ تعالیٰ سے تعلق میں خصوصی ترقی پیدا کرنے کے لئے اعتکاف
رکھا گیاہے ۔ اس اعتکاف میں اﷲ کا بندہ سب سے کٹ کے اور سب سے ہٹ کر اپنے
مالک و رازق کے در پر اور گویا اسی کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، اس کو یاد کرتا
ہے، اسی کے دھیان میں رہتا ہے ، اس کی تسبیح و تقدیس کرتا ہے اس کے حضور
میں توبہ و استغفار کرتا ہے، اپنے گناہوں اور قصوروں پر روتا ہے اور رحیم و
کریم مالک سے رحمت و مغفرت مانگتا ہے، اس کی رضا اور اس کا قرب چاہتا ہے۔
اسی حال میں اس کے دن گزرتے ہیں ،اور اسی حال میں اس کی راتیں۔ ظاہر ہے کہ
اس سے بڑھ کر کسی بندے کی سعادت اور کیا ہوسکتی ہے، اس طرح بندہ رمضان
المبارک کے آخری عشرے میں شب قدر کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفیض ہوجاتا ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اہتمام سے ہر سال رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف
فرماتے تھے ،بلکہ ایک سال کسی وجہ سے رہ گیا تو اگلے سال آپ نے دو عشروں کا
اعتکاف فرمایا۔ ازواج مطہرات اپنے حجروں میں اعتکاف فرماتی تھیں‘ اور
خواتین کے لئے اعتکاف کی جگہ ان کے گھر کی وہی جگہ ہے جو انہوں نے نماز
پڑھنے کی مقرر کر رکھی ہیں، اگر گھر میں نماز کی کوئی خاص جگہ مقرر نہ ہو
تو اعتکاف کرنے والی خواتین کو ایسی جگہ مقرر کرلینی چاہئے۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے
آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ ایک سال آپ اعتکاف نہیں کرسکے‘ تو
اگلے سال بیس دن تک اعتکاف فرمایا۔ ( ترمذی)، حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی اس
روایت میں یہ مذکورنہیں ہے کہ ایک سال اعتکاف نہ ہوسکنے کی کیا وجہ پیش آئی
تھی۔جبکہ سنن نسائی اور سنن ابی داؤد میں حضرت ابی بن کعب کی ایک حدیث مروی
ہے اس میں تصریح ہے کہ ایک سال رمضان کے عشرۂ اخیر میں سرکاردوعالم صلی اﷲ
علیہ وسلم کو کوئی سفر کرنا پڑگیا تھا اس کی وجہ سے اعتکاف نہیں ہوسکا تھا
اس لئے اگلے سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ اور صحیح بخاری میں حضرت
ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی روایت سے مروی ہے کہ جس سال سرکاردوعالم صلی اﷲ
علیہ وسلم کا وصال ہوا اس سال کے رمضان میں بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیس
دن کا اعتکاف فرمایا تھا۔ یہ بیس دن کا اعتکاف غالباً اس وجہ سے فرمایا تھا
کہ آپ کو یہ اشارہ مل چکا تھا کہ عنقریب آپ کو اس دنیا سے اٹھالیا جائے گا
،اس لئے اعتکاف جیسے اعمال کاشغف بڑھ جانا بالکل قدرتی عمل تھا۔ نزول قرآن
سے پہلے سرکا ردوعالم کی طبیعت مبارک میں سب سے یکسو اور الگ ہوکر تنہائی
میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکروفکر کا جو بے قراری والا جذبہ پیدا
ہوا تھا جس کے نتیجہ میں آپ مسلسل کئی کئی مہینے غار حرا میں خلوت نشینی
کرتے رہے ،یہ گویا آپ کا پہلا اعتکاف تھا اور اس اعتکاف ہی میں آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ چنانچہ غار حرا کے اس اعتکاف کے
آخری ایام ہی میں اﷲ رب العزت کی طرف سے حضرت جبرئیل ؑ سورۂ اقرأ کی
ابتدائی آیات لے کر نازل ہوئے ،تحقیق یہ ہے کہ یہ رمضان المبارک کا مہینہ
اور اس کا آخری عشرہ تھا، اور وہ رات شب قدر تھی‘ اس لئے بھی اعتکاف کے لئے
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا انتخاب کیا گیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے فرمایا کہ معتکف کے لئے شرعی
دستور اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ نہ مریض کی عیادت کو جائے، نہ نماز جنازہ میں
شرکت کے لئے باہر نکلے نہ عورت سے صحبت کرے نہ بوس و کنارکرے اور اپنی
ضرورتوں کے لئے بھی مسجد سے باہر نہ جائے سوائے ان ضرورتوں کے جو بالکل
ناگزیر ہیں (جیسے پیشاب پاخانہ ) اور اعتکاف (روزہ کے ساتھ ہونا چاہیے)
بغیر روزہ کے اعتکاف نہیں‘ اور جامع مسجد میں ہونا چاہیے، اس کے سوا نہیں۔
(سنن ابی داؤد) آجکل رفع حاجت کے لیے مسجد کے مخصوص حصوں میں بیت الخلا
موجود ہیں اس لیے اب مسجد سے باہر نکلنا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ
والہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ وہ (اعتکاف کی وجہ سے)
گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کا نیکیوں کا حساب ساری نیکیاں کرنے والے
بندے کی طرف جاری رہتا ہے ، اور نامہ اعمال میں لکھا جاتا رہتا ہے۔ (ابن
ماجہ) یعنی جب بندہ اعتکاف کی نیت سے اپنے آپ کو مسجد میں مقید کردیتا ہے
تو اگرچہ وہ عبادت اور ذکروتلاوت کے راستہ سے اپنی نیکیوں میں خوب اضافہ
کرتا ہے لیکن بعض بہت بڑی نیکیوں سے وہ مجبور بھی ہوجاتا ہے، مثلاً وہ
بیماروں کی عیادت اور خدمت نہیں کرسکتا جو بہت بڑے ثواب کا کام ہے، کسی
لاچار مسکین یتیم اوربیوہ کی مدد کے لئے دوڑ دھوپ نہیں کرسکتا، کسی میت کو
غسل نہیں دے سکتا، جو اگر ثواب کے لئے اور اخلاص کے ساتھ ہو تو بہت بڑے اجر
کا کام ہے، اسی طرح نماز جنازہ کی شرکت کے لئے نہیں نکل سکتا میت کے ساتھ
قبرستان نہیں جاسکتا، جس کے ایک ایک قدم پر گناہ معاف ہوتے ہیں اور نیکیاں
لکھی جاتی ہیں۔ لیکن اس حدیث میں اعتکاف کرنے والے کو بشارت سنائی گئی ہے
کہ اس کے حساب اور اس کی نامہ اعمال میں اﷲ تعالیٰ کے حکم سے وہ سب نیکیاں
بھی لکھی جاتی ہیں جن کے کرنے سے وہ اعتکاف کی وجہ سے مجبور ہوجاتا ہے ،
اوروہ ان کا عادی تھا۔ لیکن اﷲ پاک ان محروم نیکیوں کا نعم البدل بہت بڑے
اجر کی شکل میں عطاء فرماتے ہیں ۔ اس طرح معتکف اپنی عبادات اور اعمال کی
نیکیوں کو تو سمیٹتا ہی ہے ساتھ ساتھ ان نیکیوں کا بھی حقدار قرار پاتا ہے
جو کہ اعتکاف کی وجہ سے وہ نہ کرسکا۔اس طرح اعتکاف کی بہت فضیلت وارد ہوئی
ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اعتکاف کی فضیلت کو اجاگر کیا جائے تاکہ ذیادہ
سے ذیادہ لوگ اعتکاف کا شرف حاصل کرکے اﷲ تعالیٰ کو راضی کرسکیں۔ اﷲ پاک
ہمیں زیادہ سے زیادہ عبادت کی توفیق عطا فرمائے ، اور ہمارے گناہوں کو معاف
فرمائے ۔آمین |