موجودہ حالات میں نظام زکوٰۃ کی اہمیت

تاریخ میں کئی ایسی تحریکیں اٹھیں جو مظلوم اورمحتاج کی آواز بن کر انکے حقوق دلوانے میں کوشاں رہیں۔ مگر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جہاں ایک طبقے کے حقوق کی ادائیگی ہوتی ہے وہاں دوسرے طبقے کی حق تلفی بھی ہوئی ہے۔ کارل مارکس(karl Marx,1818-1883) نے مزدوروں کے حقوق کی حمایت میں محاذ آرائی قائم کی،توسرمایہ داروں کے ساتھ زیادتی ہونے لگی، ان کے اپنے کمائے ہوئے مال ناحق ضبط ہونے لگے۔ لیکن قربان جائیے اسلام کے بے نظیر’’نظام زکوۃ‘‘پر کہ یہاں مجبور و محتاج کو انکا حق تو ملتا ہے مگرکسی کی حق تلفی تو در کنار اس کاتصور بھی نا ممکن ہے ۔

دین میں زکوۃ کی اہمیت:
زکوۃ ایک عظیم اجتماعی مالی عبادت ہے،یہ اسلامی بنیاد کا دوسرااہم ستون ہے ۔ نبی ٔکریم ﷺ کا معروف فرمان ہے: بنی الاسلام علی خمس ،شہادۃ ان لا الہ الا اﷲ وشہادۃ ان محمدعبدہ و رسولہ ، و اقامۃ الصلوۃ و ایتاء الزکوۃ ۔۔۔الخ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا اور زکوۃ دینا…… الخ، اور یہ زکوۃ دین کا اہم حصہ ہے اس کے بغیر دین مکمل نہیں ہوتا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت کا مشہورواقعہ ہے کہ حضور ﷺکے وصال کے بعد فتنۂ ارتداداٹھاکہ کچھ افراد زکوۃ کی ادائیگی سے مکر رہے تھے ،اسکے علاوہ باقی تمام دینی امور پر عمل پیرا تھے ،ان کی یہ خواہش تھی کہ انہیں زکوۃ کی ادایئگی سے رخصت مل جائے،ان کے فہم کے مطابق زکوۃ کی فرضیت اسلام کے اوائل دور میں مسلمانوں کے قابل ترس حالت کی وجہ سے تھی، اب وہ حال باقی نہ رہا لہٰذا زکوۃ کی فرضیت بھی ساقط ہوجانا چاہئے،چنانچہ انہوں نے حکومت اسلامیہ کو زکوۃ کی رقم اداکرنے سے انکار کیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ تک جب یہ معاملہ پہنچا تو آپ نے برجستہ جو فرمایاتاریخ کے صفحات پر وہ جملہ محفوظ ہے : واﷲ لاقاتلنہ من فرق بین الصلوۃ والزکوۃ (بخاری )۔یعنی خدا کی قسم میں اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کرے۔ ایسی ہی ایک اور مثال حضور ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں بھی ملتی ہے کہ بشیر بن خصاعیہ نام کا ایک شخص نبی اکرمﷺ کی بارگاہ میں آپ کے دست اقدس پر بیعت کرنے آیا ،کہا: یا رسول اﷲ ﷺ مجھے زکوۃ اور جہاد سے چھٹکارا دلوائیں میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کر وں گا،ان کے سوا باقی تمام دینی امور بجا لاؤں گا ،جواباً آپﷺ نے فرمایا : یا بشیر لا صدقۃ ولاجہاد فبم اذن تدخل الجنۃ (مسند احمد )۔یعنی اے بشیر صدقہ نہ جہاد تو پھر کس بنیاد پر جنت میں داخل ہوگے۔آپﷺ کایہ فرمان واضح کر رہاہے کہ زکوۃ کی حیثیت صرف تعاون یا عطیہ کی نہیں بلکہ وہ اسلام کا عظیم جز اور حصہ ہے اوردخول جنت کا بھی سبب ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں جابجا زکوۃ کا تذکرہ موجود ہے، بالخصوص 82بار تقریباً نمازکے ساتھ زکوۃ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس طرز بیان سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ نماز انسان کے روحانی تقاضوں کی تکمیل کرتی ہے اور زکوۃ مادی ضروریات کو پورا کرتی ہے ،اس خالص مادی عمل کو عبادت قرار دے کر اسلام یہ تصور دینا چاہتا ہے کہ مادی اور روحانی تقاضوں میں باہم کوئی تضاد نہیں ہے بشرطیکہ ان کو ان کے دائرۂ کار میں رہ کر پوراکیاجائے،جب ایک مباح کام (جیسے کھانا،پینا) خالص مادی عمل ہونے کے باوجود نیک نیتی کے سبب عبادت اور روحانی تقویت کا باعث بن جاتاہے، تورضائے الہٰی کے حصول کے لئے زکوۃ ادا کی جائے تو یہ بہ درجہ اولیٰ روحانی تقویت کا باعث بن سکتی ہے۔

زکوۃ سابقہ شریعتوں میں:
زکوۃ انسانی معاشرے کا ایک ایسا لازمی جز ہے کہ اس کے بغیر معتدل معاشرے کا تصور ممکن نہیں لہٰذا اس کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اسی لئے اسلام نے سابقہ شریعتوں میں بھی زکوۃ کو لازمی قرار دیا تھا۔ لیکن جس طرح نماز روزہ بھی سابقہ شریعتوں میں مطلوب تھے مگر ادائیگی کی کیفیت مختلف تھی ،یوں ہی زکوۃ کی ادائیگی کی کیفیت بھی سابقہ شریعتوں سے مختلف رہی ہے۔ اُس وقت زکوۃ اپنے وسیع معنی’’مال کے ایک حصہ سے نادار و حاجت مند کی اعانت کرنا ‘‘ کے ساتھ بطور فرض نافذ تھی۔ چنانچہ خداوند قدوس نے حضرت ابراہیم ، اور ان کے بیٹے اسحاق اور ان کے پوتے حضرت یعقوب علیہم السلام کے متعلق فرمایا : ﴿واوحینا فعل خیرات واقام الصلوۃ وایتاء الزکوۃ وکانوا لنا عابدین﴾(سورہ انبیاء:۷۳)یعنی ہم نے انہیں بھلے کام کرنے ،اور نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے کی وحی کی اور وہ ہمارے عبادت گزار بندے ہیں۔ بنی اسرائیل سے کئی امور پر عہد وپیمان لیاگیا تھا ان کا ذکر قرآن میں یوں آتا ہے: ﴿وقولوا للناس حسناً واقیمواالصلوۃ وآتواالزکوۃ﴾(البقرہ :۸۳)یعنی لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز قائم کرواور زکوۃ ادا کرو۔اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آغوش مادر میں رہ کر اپنے قوم سے یوں مخاطب ہوئے : ﴿ واوصا نی بالصلوۃ والزکوۃ مادمت حیاً﴾ (مریم:۳۱)۔ اور اس نے مجھے نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیاجب تک میں زندہ ہوں۔ان تمام شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ زکوۃ ہر دور میں صالح معاشرے کا جز اور حصہ رہی ہے ،صالح معاشرے کو ہر دور میں اس کی حاجت رہی ہے۔

زکوۃ شریعت محمدی میں:
زکوۃ کا حکم تفصیلی احکام کے ساتھ ہجرت کے دوسرے سال یا اس کے بعد نافذ ہوا۔ مگر وہ اپنے وسیع مفہوم کے ساتھ ابتدائی دور ہی سے مطلوب تھا۔ اس وقت زکوۃ کا مقصد یہ تھا کہ حاجت مندوں کی حاجت روائی ، خیر و فلاح کے دوسرے کاموں میں حصہ لیا جائے ۔ چنانچہ اسلام کے اوائل دور میں نازل ہونے والی مکی سورتوں میں کئی مقامات پر زکوۃ کا تذکرہ ہے۔ سورہ فصلت مکی میں اﷲ تعالیٰ زکوۃ کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے لئے فرمایا: ﴿ویل للمشرکین الذین لایؤتون الزکوۃ وہم بالآخرۃ ہم کافرون﴾یعنی ویل(عذاب)ہے ان مشرکین کے لئے جو زکوۃ نہیں ادا کرتے اور وہ آخرت کے بھی منکر ہیں ۔سورہ شورہ مکی میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے مذکورہے: ﴿ و مما رزقنہم ینفقون﴾یعنی جو ہمارے دئے ہو ے میں سے خر چ کرتے ہیں۔ یوں ہی سورہ مزمل میں مومنوں کے لئے حکم ہے :﴿واقیمو الصلوۃ وآتوالزکوۃ﴾ نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو ۔ اس کے علاوہ سورہ مومنون ،سورہ نمل ، سورہ لقمان کے ابتدائی آیات میں نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے کا ذکر مومنین کے لازمی صفات کے طورپر آیاہے۔ ان کے علاوہ کئی اور مقامات پر زکوۃ کا ذکر ملتا ہے۔ احادیث سے بھی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مکی دور کے اوائل ہی سے زکوۃ مطلوب تھی۔ چنانچہ بعثت کے پانچویں سال مکہ کے مظلوم مسلمان حبشہ ہجرت کر جانے کے بعد وہاں نجاشی کی بارگاہ میں نبی اسلام ﷺکاتعارف کرواتے ہوئے جعفر بن ابی طا لب ؓنے جو خطبہ دیا تھا اس میں یہ الفاظ بھی شامل ہیں:وامرنا ان نعبداﷲ و اقام الصلوۃ وایتاء الزکوۃ۔ یعنی نبی کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیاکہ ہم اﷲ کی عبادت کریں ، نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں۔

فہم زکوۃ :
عربی زبان میں زکوٰۃ کے بنیادی دو معنے ہیں۔ (۱)طہارت و نظافت (۲) ترقی اور بڑھوتری(اضافہ) ۔ اسلام نے لفظ ’’زکوٰۃ‘ ‘کو معین مالیاتی فریضہ کے تعبیر کیلئے اختیار کیا ہے ۔ قرآن مجید میں زکوٰۃ کے علاوہ صدقہ،انفاق وغیرہ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔زکوٰۃ کے بنیادی معنی کی طرف یہ آیت نشاندہی کرتی ہے:﴿خذ من اموالہم صدقۃ تطہرہم و تزکیہم﴾ (سورہ توبہ :۱۰۳) یعنی اے نبی ﷺ ! آپ ان کے مال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک اور ستھرا کریں۔

زکوۃ کامقصدانسان کے اندر قومی ہمدردی ،باہمی تعاون اور ایثار کا جذبہ پیدا کرنا ہے جس سے ایسا معاشرہ وجود میں آئے جہاں ’’لوٹنے والے ‘‘ نہیں ’’لٹانے والے ‘‘ ہوں۔ زکوۃ حصول تزکیہ کا بہترین ذریعہ ہے بلکہ خود مال کی حفاظت کا بھی ذریعہ ہے اس حوالے سے کئی روایات آئی ہیں کہ زکوۃ کے ساتھ اپنے مال کی حفاظت کرو(ابوداؤد)۔

زکوۃ میں جہاں بیشمار خوبیاں موجود ہیں وہیں ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی کہ وہ مال کو نہ صرف پاک کرتی بلکہ افزائش واضافہ کا باعث ہے۔

کیا زکوۃ کی ادائگی سے مال میں کمی ہوتی ہے؟
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بظاہر زکوۃ سے مال کا کچھ حصہ نکل جانے سے مال کا نقصان نظر آتا ہے لیکن در حقیقت اس ظاہری کمی کے پیچھے حقیقی زیادتی ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ بے شمار لوگ جو اسلام کے قائل نہیں مگر غریب و نادار اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے ہیں اور خطیر رقم ان پر خرچ کرتے ہیں، اس کے باوجود وہ مالدار کبھی محتاج نہیں ہوتے ۔ یوں ہی کئی سرمایہ دار حکومتیں غریب ممالک کو کروڑوں اربوں روپئے بطور عطیہ دیتی ہیں۔ یہ عبادت سمجھ کر نہیں ……اﷲ کے لئے نہیں…… اس کے باوجود وہ ممالک غریب نہیں ہوتے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ غریبی و محتاجی کا یہ خدشہ محض ایک شیطانی وسوسہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اﷲ کا کلام اس کی گواہی دیتا ہے۔ ﴿الشیطان یعد کم الفقرویامرکم بالفحشاء﴾ (سورہ البقرہ :۲۶۸)یعنی شیطان تمہیں تنگدستی و محتاجی کا خوف دلاتا ہے اور تمہیں بے حیائیوں کا حکم دیتا ہے۔ اس کے برخلاف قرآن مجید کئی مقامات پر اعلان کررہا ہے کہ زکوۃ سے مال گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے : ﴿وما انفقتم من شئی فہو یخلفہ وہو خیر الرازقین﴾ (سورہ سبا:۳۹)اور جو کچھ تم اﷲ کے راہ میں خرچ کرتے ہو وہ اس کے بدلے اور دے گا اور وہ سب سے بہترین رزق عطا کرنے والا ہے۔ اور ایک مقا م پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿ ومااٰتیتم من زکوۃ تریدون وجہ اﷲ فاولئک ہم المضعفون﴾(سورہ روم :۳۹) جو زکوۃ تم اﷲ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہوتو ،وہی لوگ درحقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں۔

یہ ہمارا ایمان ہے کہ ہم اﷲ کو مطلقاً بغیر کسی سبب کے خالق و مالک مانتے ہیں، یوں ہی اس بات پر بھی یقین ہے کہ وہ بغیر کسی سبب کے اشیاء کو پردۂ عدم سے عالم وجود میں لانے پر قادر ہے، تو وہ عظیم ہستی کیا ’’موجودمال ‘‘میں کچھ اضافہ نہیں کرسکتی؟ ……

لمحۂ فکر:
یاد رکھیں زکوٰۃعبادت کے ساتھ ’’باہمی تعاون، ہمدردی اور سماجی خدمت‘‘ جیسے اہم اقدار کی عملی تصویر ہے اور یہ غریب ہو یا امیرسب کی خوشحال زندگی کی ضامن ہے،اور ایک سکون پرور معاشرے کی تشکیل اسی سے ممکن ہے۔ مگر آج بھی ہمیں ان اقدارکی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوسکا۔ ورنہ آج ہماری قوم اس کسم پرسی ،غربت کے عالم میں نہ ہوتی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ شعور کے دریچوں پر غفلت کے تالے پڑے ہیں،اب کوئی عصاے موسیٰ کا کرشمہ ہی انہیں توڑ سکتا ہے!

Abdul Rahman
About the Author: Abdul Rahman Read More Articles by Abdul Rahman: 4 Articles with 7983 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.