ایک غیر اردو' اردو نواز کی تلاش

زبان کوئی بھی ہو' اس سے تعلق رشتہ استوار ہونا برا نہیں۔ اظہار کے لیے' کسی بھی زبان کا استعمال میں لانا' عیب نہیں۔ اس کے لیے کسی زبان' خصوصا اپنی زبان میں' نقائص ہی نقائص دیکھائی دینا' اچھی اور صحت مند بات نہیں۔ جب آپ کسی زبان کی وسعت اور اظہاری صلاحیت سے آگاہ نہیں ہیں' تو اچھی یا بری رائے دینے کا' آپ کو حق حاصل نہیں۔ دوسری بات یہ کہ' زبانوں کا لسانیاتی اور اظہاری موازناتی مطالعہ' ابھی تک ہوا ہی نہیں' تو کسی قسم کی رائے دینے کا جواز ہی نہیں اٹھتا۔

ادبی ذخیرے کے حوالہ سے' جرمن' فرانسیسی' چینی' جاپانی یا پھر روسی وغیرہ کب پیچھے ہیں۔ پہلے موازناتی مطالعہ ہونا چاہیے۔ نتائج کی حصولی کے بعد ہی' کسی زبان کو' زبانوں کی ماسی بنانا' مبنی بر انصاف ہوکا۔

اردو' نام کے حوالہ سے کل پرسوں کی زبان ہے۔ ذرا اس کے اندر جا کر دیکھیے سورگ لوک کیا' اندر لوک' برہما لوک ہی نہیں' یم لوک بھی اپنے کامل جوبن کے ساتھ دکھائی دے گا۔

مجنوں کا کوئی کیا حال پوچھے
ہر گھر صحرا کا نقشا ہے
..........
چشم قاتل تھی مری دشمن ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکائتیں نہ شکائتیں
ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گیے
..........

اردو کہہ لیں ہندی' ہندوستانی' ہندوی کہہ لیں' ریختہ نام دے دیں' آل ہند کی شروع سے زبان رہی ہے۔ یہ کسی ناکسی حوالہ سے' پورے برصغیر کے لوگوں کے استعمال میں رہی ہے۔ اس کے رسم الخط بدلتے آئے ہیں۔ اس کے ہر قسم کے تحریری ریکارڈ میں ہر زبان بولنے والوں کا حصہ رہا ہے۔ اسے سمجھنے کی سکل رکھنے والوں نے بھی' اسے نظر انداز نہیں کیا۔ وہ بھی باقدر ضرورت' لطف لیتے آئے ہیں۔ بعض معاملات میں متاثر بھی ہوئے ہیں۔ شعر و ادب کا ذخیرہ دیکھ لیں' ہر زبان بولنے والے نے' اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر' اپنا حصہ ڈالا ہے۔ یقینا یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس سے بڑی بات ایک اور بھی ہے' برصغیر سے باہر کے لوگ بھی' اس میں اپنا حصہ ڈالتے آئے ہیں۔ اس زبان کے بارے میں' اس قسم کی رائے رکھتے آئے ہیں۔

اس زبان کی سحر آفرینی' شریں بیانی اور لطف اندوزی نے گرویدہ کر لیا۔۔۔۔۔۔
ریشہءحنا ص 4

یہ الفاظ ایک غیر برصغیری کے ہیں۔ ایک ہم ہیں' جو اس زبان سے متعلق ہیں' اس زبان کی پیٹھ ٹھوک رہے ہیں اور انگریزی کی' جو لسانی اعتبار سے کم زور ترین ہے' کی ریکٹم چوسائی میں ترقی اور فلاح سمجھتے ہیں۔

اردو کے استعمال کرنے والے' اس قسم کی بات کرنے والے' اردو محسنوں کے نام تک سے آگاہ نہیں ہوں گے۔ تحقیقی کام بھی' اپنا یا اپنی ٹاہنی کا بندہ ہے' کے حوالہ سے ہو رہے ہیں ۔ یا ہوا ہے۔ یہ بات محض رائےتک ہی محدود نہیں' بات آگے بھی بڑھتی ہے۔ ملاحظہ ہو

میں نے اردو میں مہارت تامہ بہم پہنچائی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ شعر کہنے لگی اور لاہور کے بعض مشاعروں میں بھی شرکت کی۔
ریشہءحنا ص 4

گویا زیر حوالہ شخصیت' صرف نثر سے متعلق ہی نہیں تھی' اردو میں شعر بھی کہتی تھی۔ میں شیریں زاد بہنام کے حوالہ سے بات کر رہا ہوں۔ آپ کا تعلق تہران' ایران سے تھا اور یہاں خانہءفرہنگ ایران سے وابستہ تھیں۔ اردو شاعری سے دل چسپی ہونے کے سبب' ان کا یہاں کے اردو شعرا سے واسطہ رہتا۔ ان سے شعر وادب سے متلعلق تبادلہءخیال ہوتا۔ اس بات کا انہوں نے دیباچے میں تذکرہ بھی کیا ہے۔

اردو شعر کے حوالہ سے' انہوں نے کیا خوب صررت بات لکھی ہے' لکھتی ہیں۔

اردو شعر میں وہ سارے لوازمات پائے جاتے ہیں جو فارسی شعر کا خاصہ ہیں۔....... گویا اردو اور فارسی یک جان دو قالب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ریشہء حنا ص11

پیش نظر شیریں زاد بہنام کی نثر' بڑے پائے کی نثر ہے۔ ان کے کام کو جمع ہونا چاہیے تھا۔ اردو والے اس جانب توجہ دیتے' خانہ فرہنگ ایران یا ان کے گھر والے ضرور تعاون کرتے۔ یہ ماننے کی بات نہیں کہ سب کچھ ضائع ہو گیا۔ رف پرزے وغیرہ تلاش کرنے پر' مل ہی جائیں گے۔ قمر نقوی صاحب کے ذخیرہ میں کچھ ناکچھ تو ضرور ہو گا۔ خطوط' رقعے' یاد داشتیں وغیرہ مل سکتی ہیں۔ ان سے ملنے والے بہت سے' شاعر بھی تھے۔ وہ شعرا کا کلام صرف سنتی ہی نہیں' سناتی بھی ہوں گی۔ ان کے ساتھ خط و کتابت بھی کرتی ہوں گی۔ ایک ایک قطرے سے دریا بن جائے گا۔ قمر نقوی صاحب سے' ان کے تعلقات تھے' انہیں اس کام کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ یقین ہے وہ اس ذیل میں' تررد فرما کر اردو نوازی کا ثبوت بہم فرمائیں گے۔
maqsood hsni
About the Author: maqsood hsni Read More Articles by maqsood hsni: 184 Articles with 211138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.