اعتکاف کے احکام و اقسام

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الْمُرسَلِیْنَ
اَمّابَعْدُ فَاَ عُوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم

اعتکاف کی تعریف:
'مسجِدمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا کیلئے بہ نیّتِ اِعتِکاف ٹھہرنا اِعتِکاف ہے۔'' اس کیلئے مسلمان کا عاقِل اورجَنابت سے پاک ہوناشرط ہے۔بُلوغ شرط نہیں نابالِغ بھی جو تمیز رکھتا ہے اگر بہ نیّتِ اعتِکاف مسجِد میں ٹھہرے تواُس کا اعتِکاف صحیح ہے۔ (عالمگیری )
نوٹ؛ نابالِغ بھی جو تمیز رکھتا ہے ان کے لیے جائز تو ہے لیکن مشاہدہ ہے کے مسجد کے ماحول کو بچے خراب کرتے ہیں اگر کوئی خاص بچوں پر کنٹرول ہو یا بچے خد سلجھے ہوئے ہوں تو تب اعتکاف کی اجازت دیں ورنا روکا جائے ۔
اعتکاف کے لغوی معنی:
اِعتِکاف کے لُغوی معنی ہیں،''دَھرنامارنا'' مطلب یہ کہ مُعْتَکِف اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلّ َکی بارگاہِ عظمت میں اُس کی عبادت پرکمَرَ بَستَہ ہو کردھرنا مارکر پڑا رہتا ہے۔ اس کی یِہی دُھن ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کا پَروردگارعَزَّوَجَلَّ اس سے راضی ہوجائے ۔
اب تو غنی کے در پر بستر جمادیئے ہیں
حضرتِ سیِّدُناعطاء خُراسانی قدسَ سِرّہُ النُّورانی فرماتے ہیں، '' مُعتَکِف کی مِثال اس شخص کی سی ہے جواﷲتعالیٰ کے درپر آپڑا ہواوریہ کہہ رہا ہو، ''یا اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلّ جب تک تُو میر ی مغفِرت نہیں فرمادے گامیں یہاں سے نہیں ٹلوں گا۔'' (شُعَبُ الایمان )
ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اٹھتے ہوں گے
اب تو غنی کے در پر بستر جما دیئے ہیں
اقسام اعتکاف
اِعتِکاف کی تین قسمیں ہیں(١)اعتِکافِ واجِب(٢)اعتِکافِ سُنّت(٣)اِعتِکافِ نَفل۔
اعتکاف واجب
اِعتِکاف کی نَذْر(یعنی مَنّت)مانی یعنی زَبان سے کہا: ''میں اللہُ ربُّ العزّت کیلئے فُلاں دن یااتنے دن کااِعتِکاف کرو ں گا۔'' تواب جتنے بھی دن کا کہا ہے اُتنے دن کا اِعتِکاف کرناواجِب ہوگیا۔یہ بات خاص کر یاد رکھئے کہ جب کبھی کسی بھی قسم کی مَنَّت مانی جائے اُس میں یہ شَرط ہے کہ مَنَّت کے اَلفاظ زَبان سے اداکئے جائیں صِرْف دل ہی دل میں مَنَّت کی نیَّت کرلینے سے مَنَّت صحیح نہیں ہوتی ۔
اعتکاف سنت
مَنَّت کااعتِکاف مَردمسجِدمیں کرے اورعورت مسجد بَیْت میں۔اِس میں روزہ بھی شَرْط ہے۔(عورت گھرمیں جوجگہ نَمازکیلئے مخصوص کرلے اسے ''مسجدِ بَیت''کہتے ہیں) رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عَشرہ کااعتِکاف ''سنَّتِ مُؤَکَّدَہ عَلَی الْکِفایہ''ہے(دُرِّمُخْتارمعہ رَدُّالْمُحْتار )
یعنی پورے شَہرمیں کسی ایک نے کرلیاتوسب کی طرف سے ادا ہو گیا اوراگرکسی ایک نے بھی نہ کیاتوسبھی مُجرِم ہوئے۔
اِس اعتِکاف میں یہ ضَروری ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی بیسویں تاریخ کوغُروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مسجِدکے اندر بہ نیّتِ اعتِکاف موجودہواور انتیس کے چاندکے بعد یاتیس کے غُروبِ آفتاب کے بعدمسجِدسے باہَر نکلے۔
اگررَمَضانُ المبارک کوغُروبِ آفتاب کے بعدمسجِدمیں داخِل ہوئے تو اِعتِکاف کی سنّتِ مُؤَکَّدَ ہ ادانہ ہوئی بلکہ سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے مسجِد میں توداخِل ہوچکے تھے مگرنیَّت کرنابھول گئے تھے یعنی دل میں نیَّت ہی نہیں تھی (نیَّت دل کے ارادہ کوکہتے ہیں ) تواِس صورت میں بھی اعتِکاف کی سنّتِ مُؤَکَّدہ ادانہ ہوئی۔ اگرغُروبِ آفتاب کے بعد نیّت کی تونفلی اعتِکاف ہوگیا۔دل میں نیّت کرلیناہی کافی ہے زَبان سے کہنا شرط نہیں۔البتّہ دل میں نیَّت حاضِرہونا ضَروری ہے ساتھ ہی زَبان سے بھی کہہ لینا زیادہ بہترہے:
اعتکاف کی نیت
''میں اللہ عَزَّوَجَلّ کی رِضاکیلئے رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عَشرہ کے سنّتِ اِعتِکاف کی نیَّت کرتا ہوں۔''
اعتکاف نفل
نذْر اور سنّتِ مُؤَکَّدہ کے علاوہ جو اعتِکاف کیاجائے وہ مستَحب(یعنی نفلی ) و سنّتِ غَیر مُؤَکَّدہ ہے۔
اس کیلئے نہ روزہ شرط ہے نہ کوئی وَقْت کی قید۔جب بھی مسجِدمیں داخِل ہوں اِعتِکاف کی نیّت کرلیجئے۔جب تک مسجِدمیں رہیں گے کچھ پڑھیں یا نہ پڑھیں اِعتِکاف کاثَواب ملتا رہے گا،جب مسجِد سے باہَرنکلیں گے اِعتِکاف خَتم ہوجائے گا۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :مذہبِ مُفتی بِہٖ پر (نفلی) اِعتِکاف کیلئے روزہ شرط نہیں اور ایک ساعت کا بھی ہوسکتا ہے جب سے داخِل ہو باہر آنے تک (کیلئے)اِعتِکاف کی نیّت کرلے ،انتظارِ نماز و ادائے نماز کے ساتھ اِعتِکاف کا بھی ثواب پائے گا۔ (فتاویٰ رضویہ ) ایک اور جگہ فرماتے ہیں:جب مسجد میں جائے اِعتِکاف کی نِیَّت کرلے، جب تک مسجد ہی میں رہے گا اِعتِکاف کا بھی ثواب پائے گا۔ (ایضاً ) اِعتِکاف کی نیّت کرناکوئی مشکِل کام نہیں،نیَّت دل کے ارادہ کوکہتے ہیں، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کرلیاکہ''میں سنّتِ اِعتِکاف کی نیّت کرتاہوں۔''یِہی کافی ہے اور اگردل میں نیّت حاضِرہے اور زَبان سے بھی یِہی الفاظ ادا کرلیں توزیادہ بہتر ہے ۔ مادَری زَبان میں بھی نیّت ہوسکتی ہے اوراگرعَرَبی میں نیّت یاد کرلیں تو زیادہ مناسِب ہے۔ہوسکے توآپ یہ عَرَبی نیّت یادکرلیجئے:جیسا کہ'' اَلْمَلْفُوظ ،حصہ 2ص272پرہے: نَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاِعْتِکَاف ترجَمہ:میں نے سنّتِ اِعتِکاف کی نیّت کی۔
مسجدُ النَّبَوِیِّ الشَّریف علٰی صاحِبِہا الصَّلٰوۃ والسلام کے قدیم اور مشہور دروازہ''بابُ الرَّحمۃ''سے داخِل ہوں تو سامنے ہی سُتونِ مبارک ہے اُس پر یاددہانی کیلئے قدیم زَمانے سے نُمایاں طور پر نَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاعتِکَاف لکھا ہوا ہے۔
مکرمی!جب بھی آپ کسی عبادت مَثَلًا نَماز ، روزہ، اِحرام، طوافِ کَعبہ وغیرہ کی عَرَبی میں نیّت کریں تواس بات کا خاص خیال رکھئے کہ اس عَرَبی عبارت کے معنٰی بھی آپ سمجھ رہے ہوں کیوں کہ نیّت دل کے ارادے کو کہتے ہیں اگرآپ نے رَٹی ہوئی''عَرَبی نیّت''کے الفاظ ادا کرلئے یاکتاب میں دیکھ کرپڑھ لئے اوردھیان کسی اور طرف لگا ہوا تھااور ارادہ دل میں موجودنہ تھا تو نیّت سِرے سے ہوگی ہی نہیں۔ مَثَلًاآپ مسجِدمیں داخِل ہو کر نَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاعتِکَا ف کہیں تودل میں بھی ارادہ ہونا لازِمی ہے کہ میں یہ اعتِکاف کی نیّت کررہا ہوں ۔ یہ بات خاص طورپرذِہن نشین کرلیں کہ یہ آخِری عَشَرَہ رَمَضانُ الْمُبارَک کا اعتِکاف نہیں یہ نَفْلی اعتِکاف ہے اور ایک لمحہ کیلئے بھی کیا جا سکتا ہے، آپ جب بھی مسجِدسے باہَرنکلیں گے یہ نفلی اِعتِکاف اُسی وَقت خَتْم ہوجائے گا ۔
مسجد میں کھانا پینا
یاد رکھئے ! مسجِدکے اندر کھانے پینے اور سونے کی شَرْعاً اجازت نہیں ، اگر اعتِکاف کی نیّت تھی توضِمناً کھانے پینے اورسونے کی اجازت بھی ہوجائے گی ۔ ہمارے یہاں اکثر مساجِدمیں دُرُود وسلام وغیرہ کاوِردہوتاہے یا محفل وغیرہ کے بعد لنگر تقسیم ہوتا ہے۔بے شک یہ ایک بَہُت اچّھاعمل ہے۔ البتّہ کسی مسلمان کی اِعتِکاف کی نیّت نہ ہو تو وہ مسجِد میں یہ کھاپی نہیں سکتا۔ اسی طرح مسجِدکے اندر جس نے اعتِکاف کی نیّت کی ہوئی تھی وُہی مسجِد کے اندر رَمَضانُ الْمُبارَک میں اِفطار کرسکتاہے۔مسجِدُالحرام شریف میں بھی آبِ زم زم شریف پینے ،اِفطار کرنے یاسونے کیلئے اِعتِکاف کی نیّت ہونی چاہئے۔ اسی طرح تمام مساجد کا حکم ہے ۔یہاں یہ بات بھی سمجھ لیناضَروری ہے کہ اعتِکاف کی نیَّت صِرف کھانے،پینے اورسونے کیلئے نہ کی جائے، ثواب کیلئے کی جائے۔ رَدُّالمُحْتَار(شامی) میں ہے، اگرکوئی مسجِد میں کھانا ، پینا یا سونا چاہے تو اعتِکا ف کی نیّت کرلے۔کچھ دیر ذِکرُاﷲعَزَّوَجَلَّ کرے پھر جوچاہے کرے (یعنی اب چاہے تو کھاپی یاسوسکتا ہے)۔
(رَدُّالمُحتار )
اعتکاف کس مسجد میں کرے؟
اِعتِکاف کیلئے تمام مساجِد سے مسجِدُالْحرام شریف افضل ہے، پھر مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَاالصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پھر مسجِداقصٰی شریف (بیتَ الْمُقَدَّس )پھرایسی جامع مسجِد جس میں پنج وقتہ باجماعت نَمازہوتی ہو۔ (فتحُ القدیر )
معتکف اور احترامِ مسجد
مُعْتَکِف بھائیو!چُونکہ آپ کو دس روز مسجِدہی میں گزار نے ہیں اِس لئے مناسِب یِہی ہے کہ چند باتیں اِحتِرامِ مسجِدسے مُتَعَلِّق سیکھ لیجئے۔ دَورانِ اعتِکاف مسجِد کے اندر ضَرورۃًدُنیَوِی بات کرنے کی اجازت ہے لیکن دِھیمی آوازکے ساتھ اوراحتِرامِ مسجِدکو مَلحُوظ رکھتے ہوئے بات کیجئے۔یہ نہیں ہوناچاہئے کہ آپ چِلّا کر کسی بھائی کوبُلا رہے ہوں اوروہ بھی آپ کوچِلّاکرجواب دے رہا ہو، ''ابے تبے''اورغُل غَپَاڑے سے مسجِدگونج رہی ہو۔ یہ انداز ناجائز وگناہ ہے۔ یادرکھئے! مسجِد میں بِلاضَرو ر ت دُنیَوی بات چیت کی مُعْتَکِف کو بھی اجاز ت نہیں۔
ان کو اﷲ سے کچھ کام نہیں
سیِّدُنا حَسَن بصری رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ رَحمت، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ ذی شان ہے : یَأتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌیَکُوْنُ حَدِیْثُھُمْ فِیْ مَسَاجِدِھِمْ فِیْ اَمْرِ دُنْیَاھُمْ فَلَا تُجَالِسُوْھُمْ فَلَیْسَ لِلّٰہِ فِیْھِمْ حَاجَۃٌ۔ (شُعَبُ الایمان)
ترجَمہ:لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ مساجِدمیں دُنیاکی باتیں ہوں گی،تم ان کے ساتھ مت بیٹھوکہ ان کواﷲ عَزَّوَجَلَّ سے کچھ کام نہیں۔
حضرتِ سیِّدُناابوہُرَیرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ ُسے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:
مَنْ سَمِعَ رَجُلًا یَنْشُدُ ضَالَّۃً فِی الْمَسْجِدفَقُوْلُوْا لَارَدَّھَا اللہ عَلَیْکَ فَاِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِہَذا (صحیح مسلم )
ترجَمہ:جو کسی کو مسجِد میں بآوازِ بلند گمشدہ چیز ڈھونڈتے سنیں تووہ کہیں،''اﷲ عَزَّوَجَلَّ وہ گمشدہ شے تجھے نہ ملائے''۔کیونکہ مسجِدیں اس کام کیلئے نہیں بنائی گئیں۔
مسجد میںگمشدہ اشیاء تلا ش کرتے پھرنا
برادرانِ اسلام !جولوگ اپنے جوتے یاکوئی اور چیزگم ہوجانے پر مسجِد میں شور کرتے ہوئے ڈھونڈتے پھرتے ہیں ان کو بیان کردہ حدیث ِ مبارک سے درس حاصل کرنا چاہئے ۔معلوم ہواکہ ہراُس کام سے مسجدکو بچانا ضَروری ہے جس سے مسجِدکا تقدُّس پامال ہوتاہو۔دُنیوی باتیں،ہنسی مذاق اوراسی طرح کی لَغویات کیلئے مسجِدیں نہیں بنائی گئیں بلکہ مسجدیں تو عبادتِ الہٰی، کیلئے بنائی گئی ہیں۔مسجِد میں بُلند آوازسے گفتگو کرنے کو صَحابہء کرام علیھم الرضوان کتناناپسندکرتے ہیں اس کااس روایت سے اندازہ لگائیے۔
چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُناسَائِب بن یزیدرضی اﷲتعالیٰ عنہُ فرماتے ہیں، میں مسجِد میں کھڑاہوا تھا کہ مجھے کسی نے کنکری ماری ۔میں نے دیکھاتووہ حضرتِ سیِّدُنا امیرُالْمُؤمِنین عمرفاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہُ تھے،اُنھوں نے مجھ سے (اشارہ کرکے) فرمایا:''ان دوشخصوں کومیرے پاس لاؤ!''میں ان دونوں کولے آیا حضرت سیِّدُناعمررضی اﷲتعالیٰ عنہ نے اُن سے اِسْتِفْسار فرمایا،''تم کہاں سے تَعَلُّق رکھتے ہو؟ عرض کی،''طائف سے۔'' فرمایا، ''اگرتم مدینہ منوَّرہ کے رہنے والے ہوتے (کیونکہ وہ مسجِدکے آداب بخوبی جانتے ہیں ) تو میں تمہیں ضَرور سزا دیتا (کیونکہ) تم رسولُ اﷲعَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسجِد میں اپنی آوازیں بُلند کرتے ہو! (صحیح بخاری )
حضرتِ سیِّدُنامُلّاعلی قاری علیہ رَحمۃُاللہ الباری، مُحَقِّق عَلَی الْاِطْلاق شیخ ابن ھُمام علیہ رحمۃُاﷲ السّلام کے حوالے سے نَقْل فرماتے ہیں، ''اَلْکَلَامُ الْمُبَاحُ فِی الْمَسْجِدِ مکروہٌ یَا کُلُ الْحَسَنَاتِ۔'' (مرقاۃالمفاتیح )
(ترجَمہ)''مسجِدمیں مُباح (یعنی جائز) بات کرنا مکروہِ(تحریمی)ہے اور نیکیو ں کو کھاجاتا ہے۔''
قبر میں اندھیرا: سَیِّدُنا اَنَس بن مالِک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَروی ہے کہ، شَہَنْشاہِ اَبرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :
اَلضَّحْکُ فِی الْمَسْجِد ظُلُمَۃٌ فیِ الْقَبْرِ (الجامِعُ الصَّغی)
ترجَمہ:''مسجِد میں ہنسنا قبر میں اندھیرا (لاتا) ہے۔''
مشفوی! مذکورہ بالا رِوایات کوباربارپڑھئے اور اﷲ عَزَّوَجَلَّ کے خوف سے لرزئیے!کہیں ایسانہ ہوکہ مسجِدمیں داخِل تو ہوئے ثواب کمانے مگر خوب ہَنس بَول کرنیکیاں بربادکرکے باہَرنکلے کہ مسجِد میں دُنیا کی جائز بات بھی نیکیوں کوکھاجاتی ہے۔لہٰذامسجِدمیں پُرسُکون اورخاموش رہئے۔ بیان بھی کریں یاسنیں توسنجیدَگی کے ساتھ کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے لوگوں کو ہنسی آئے۔نہ خودہنسئے نہ لوگوں کوہنسنے دیجئے کہ مسجِدمیں ہنسناقَبْرمیں اندھیرا لاتا ہے۔ ہاں ضَرورتاًمسکرانامنع نہیں۔مسجِد کے اِحتِرام کا ذِہن بنائیے۔
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 350463 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.