روزے کے با وجود بھی رحمت سے دور شخص
(syed imaad ul deen, smandri)
حضرتِ سَیِّدُنا داتا گنج بخش
علی ہجویری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ''روزے کی حقیقت ''رُکنا''ہے
اور رُکے رہنے کی بَہُت سی شَرائِط ہیں مَثَلاً مِعْدے کو کھانے پینے سے
رَوکے رکھنا،آنکھ کو شَہوانی نظر سے روکے رکھنا، کان کو غِیبت سُننے ،
زَبان کو فُضُول اور فِتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حُکْمِ الہٰی
عَزَّوَجَلَّ کی مخالَفَت سے روکے رکھناروزہ ہے۔ جب بندہ اِن تمام شرائِط
کی پیروی کریگاتَب وہ حَقیقتاً روزہ دار (کَشْفُ الْمَحْجُوب ص۳۵۴،۳۵۳)
ہوگا افسوس صَدکروڑافسوس!ہمارے بھائی روزہ کے آداب کا بِالکل ہی لِحاظ نہیں
کرتے وہ صِرف ''بُھوکے پیاسے''رَہنے ہی کو بَہُت بڑی بَہادُری تصوُّر کرتے
ہیں۔روزہ رکھ کر بے شُمار ایسے اَفْعال کر گُزرتے ہیں جو خِلافِ شَرع ہوتے
ہیں۔اِس طرح فِقہی اِعتِبار سے روزہ ہو تَو جائے گالیکن ایسا روزہ رکھنے سے
روحانی کیف وسُرور حاصِل نہ ہوسکے گا۔۔
محترم قارئین! خُدا را! اپنے حالِ زار پر تَرس کھایئے اور غور فرمایئے! کہ
روزہ دار ماہِ رَمَضانُ المُبارَک میں دن کے وَقت کھانا پینا چھوڑدیتا ہے
حالانکہ یہ کھانا پینا اِس سے پہلے دِن میں بھی بِالکل جائِز تھا۔پھر خُود
ہی سوچ لیجئے کہ جو چیزیں رَمَضان شریف سے پہلے حَلال تھیں وہ بھی جب اِس
مُبارَک مہینے کے مُقَدَّس دِنوں میں مَنْع کردی گئیں۔تو جو چیزیں رَمَضانُ
الْمُبارَک سے پہلے بھی حرام تھیں ، مَثَلاً جُھوٹ ،غِیبت ،چغلی ، بد گمانی
، گالم گلوچ ،فلمیں ڈِرامے، گانے باجے، بد نگاہی، داڑھی مُنڈانا یا ایک
مُٹّھی سے گھٹانا، والِدین کو ستانا، بِلا اجازتِ شَرعی لوگوں کا دل
دُکھانا وغیرہ وہ رَمَضانُ المبارَک میں کیوں نہ اور بھی زیادہ حرام
ہوجائیں گی؟ روزہ دار جب رَمَضانُ المبارَک میں حلال وطیِّب کھانا پینا
چھوڑدیتا ہے،حرام کام کیوں نہ چھوڑے ؟ اب فرمائیے ! جو شخص پاک اور حلال
کھانا ،پینا تَو چھوڑ دے لیکن حرام اور جہنَّم میں لے جانے والے کام
بدستُور جاری رکھے۔ وہ کس قسم کا روزہ دار ہے؟
اللہ کو کچھ حاجت نہیں
یادرکھئے !نبیوں کےسلطان،سرورِ ذیشان، صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمان ہے،''جو بُری بات کہنا اور اُ س پر عَمَل کرنا نہ چھوڑے
تَو اُس کے بُھوکا پیاسا رہنے کی اللہ عَزّوَجَل کو کچھ حاجت نہیں ۔ ' '
(صحیح بُخار ی ج۱ص۶۲۸حدیث۱۹۰۳)
ایک اور مقام پر فرمایا،''صِرف کھانے اور پینے سے باز رہنے کا نام روزہ
نہیں بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ لَغو اور بے ہُودہ باتوں سے بچاجائے ۔''
(مُسْتَدْرَک لِلْحَاکِم ج۲ص۶۷حدیث۱۶۱۱)
میں روزہ دار ہوں
مطلب یہ کہ روزہ دار کو چائیے کہ وہ روزے میں جہاں کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے
، وہاں جُھوٹ ،غیبت، چغلی،بد گمانی ، الزام تراشی اور بد زَبانی وغیرہ
گُناہ بھی چھوڑ دے ۔ ایک مَقام پر حُضُور سَراپا نُورصلی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم سے اگر کوئی لڑائی کر،گالی دے تَو تم اُس سے کہدو
کہ میں روزہ سے ہوں۔ (الترغیب والترہیب ج۱ص۸۷حدیث۱)
روزہ تجھ سے کھولوں گا!
پیارو؛ آجکل تَو مُعامَلہ ہی اُلٹا ہو گیا ہے یعنی اگر کوئی کسی سے لڑ بھی
پڑتا ہے تو گَرَج کر یُوں گویا ہوتا ہے،''چُپ ہوجا! ورنہ یاد رکھنا میں
روزے سے ہوں اورروزہ تجھ ہی سے کھولوں گا۔''یعنی تجھے کھاجاؤں
گا۔(مَعاذاللہ ) توبہ ! تَوبہ!اِس قِسم کی بات ہر گز زَبان سے نہ نکلنی
چاہیئے بلکہ عاجِزی کا مُظاہَرہ کرنا چاہیئے۔اِن تمام آفَتوں سے ہم صِر ف
اُسی صُورت میں بچ سکتے ہیں کہ اپنے اَعضاء کو روزے کا پابند کرنے کی کوشِش
کریں۔
اعضاء کے روزوں کی تعریف
اَعضاء کا روزہ یعنی'' جِسم کے تمام حِصّوں کو گُناہوں سے بچانا''یہ صِرف
روزہ ہی کیلئے مخصوص نہیں بلکہ پُوری زندگی اِن اَعضاء کو گُناہوں سے بچانا
ضَروری ہے اور یہ جَبھی ممکِن ہے کہ ہمارے دِلوں میں خوفِ خُدا
عَزَّوَجَلَّ راسِخ ہوجائے۔آہ! قِیامت کے اُس ہَوشرُبا منظر کو یاد کیجئے
جب ہر طرف ''نَفسی نَفسی '' کا عالَم ہوگا۔سُورج آگ برسا رہا ہو گا۔
زَبانیں شِدَّتِ پیاس کے سبب مُنہ سے باہَر نِکل پڑی ہوں گی۔بیوی شَوہر سے
،ماں اپنے لَخْتِ جِگر سے اور باپ اپنے نورِ نظرسے نَظربچا رہا ہوگا۔
مُجرِموں کو پکڑ پکڑ کر لایا جارہا ہوگا۔اُن کے مُنہ پر مُہر ماردی جائے گی
اور اُن کے اَعضاء اُن کے گُناہوں کی داستان سُنارہے ہوں گے جِس کا قُرآن
پاک کی ''سُورہ یٰسۤ ''میں یوں تَذکِرہ کیاگیا ہے-:
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤی اَفْوَاہِھِمْ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡھِمْ
وَ تَشْہَدُ اَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوۡا یَکْسِبُوۡنَ ﴿۶۵﴾
ترجَمہ کنزالایمان:آج ہم اِن کے مُونہوں پر مُہر کردینگے اور ان کے ہاتھ ہم
سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کئے کی گواہی دیں گے۔ ( پ۲۳ یٰس۶۵) آہ
!اے کمزور ونَاتواں اسلامی بھائیو!قِیامت کے اُس کڑے وَقت سے اپنے دِل کو
ڈرایئے اور ہر وَقت اپنے تمام اَعضائے بَدَن کو مَعصِیَت کی مُصیبَت سے باز
رکھنے کی کوشِش فرمایئے۔ اب اَعضاء کے روزے کی تفصیلات پیش کی جاتی ہیں۔
آنکھ کا روزہ
محترم! آنکھ کا روزہ اِس طرح رکھنا چاہئے کہ آنکھ جب بھی اُٹھے تَو صِرف
اورصِرف جائِز اُمُور ہی کی طرف اُٹھے۔آنکھ سے مسجِد دیکھئے، قُرآنِ مجِید
دیکھئے، مزاراتِ اَولیاء رَحِمَہُمُ اللہُ تعالٰی کی زیارت کیجئے ،عُلَمائے
کرام،مشائخِ عِظام اور اللہ تبارَکَ وَ تَعالٰی کے نیک بندوں کا دیدار
کیجئے ،اللہ عَزَّوَجَلّ َدِکھائے تَو کعبہ مُعَظَّمہ کے اَنوار دیکھئے ،
مکّہ مُکرّمہ زادَھَااللہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً کی مَہَکی مَہَکی گلیاں
اور وہاں کے وادی و کُہسار دیکھئے ،مدینہ منوَّرہ زادَھَااللہُ شَرَفًاوَّ
تَعظِیْما کے دَرودیوار دیکھئے، سَبز سَبز گُنْبدومِینار دیکھئے ، میٹھے
میٹھے مدینے کے صَحرا و گلزار دیکھئے ، سُنہَری جالیوں کے اَنوار دیکھئے ،
جنَّت کی پیاری پیاری کِیاری کی بہار دیکھئے۔ تاجدارِ اہلسنّت حُضُور مفتی
اَعظم ہند سَیِّدُنا محمد مُصطَفٰے رضَا خان عَلَیہِ رَحمۃُ الرَّحمٰن
خدائے حنّان و منّان عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں عرض کرتے ہیں
پیارے روزہ دارو! آنکھ کا روزہ رکھئے اور ضَرور رکھئے بلکہ آنکھ کا روزہ
تَو ڈبل بارہ گھنٹے ،تیسوں دِن اور بارہ مہینے ہونا چائیے ۔اللہ
عَزّوَجَلَّکی عطا کردہ آنکھوں سے ہرگز ہرگز فِلم نہ دیکھئے ،ڈِرامے نہ
دیکھئے ،نامَحرم عورتوں کو نہ دیکھئے، شَہوَت کے ساتھ اَمردوں کو نہ دیکھئے
،کِسی کا کُھلا ہوا سِتْر نہ دیکھئے ، بلکہ بِلا ضَرورت اپنا کُھلا ہوا
سِتربھی نہ دیکھئے ،اللہ عَزّوَجَلَّ کی یاد سے غافِل کرنے والے کھیل تماشے
مَثَلاً ریچھ اور بند ر کا ناچ وغیرہ نہ دیکھئے ( ان کو نچانا اور ناچ
دیکھنا دونوں ناجائز ہیں)کِرکٹ ،کَبَڈّی ،فُٹبال ،ہاکی ، تاش ، شَطْرَنج
،وِڈیوگیمز ،ٹیبل فُٹبال وغیرہ وغیرہ کھیل نہ دیکھئے ۔(جب دیکھنے کی اِجازت
نہیں تو کھیلنے کی اِجازت کس طرح ہوسکتی ہے؟اور اِن میں بَعْض کھیل تَو
ایسے ہیں جو نیکر یا چَڈّی پَہن کر کھیلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے گُھٹنے
بلکہ مَعَاذاللہ عَزّوَجَل رانیں تک کُھلی رہتی ہیں اور اِس طرح دُوسروں کے
آگے رانیں یا گُھٹنے کھولے رہنا گُناہ ہے اور دُوسروں کو اِس طرف نظر کرنا
بھی گناہ)کسی کے گھر میں بے اِجازت نہ جھانکئے ،کسی کا خَط یا چٹّھی(
رُخصتِ شَرعی کے بِغیر) نہ دیکھئے ، کسی کی ڈائری کی تحریر بھی بے اجازتِ
شَرعی نہ دیکھئے ۔اور یاد رکھئے ! حدیثِ پاک میں ہے ، ''جو اپنے بھائی کے
خط کو بِغیر اجازت دیکھتا ہے گویا وہ آگ میں دیکھتا ہے۔'' (مُسْتَدْرَک
لِلْحَاکِم ج۵ص۳۸۴حدیث۷۷۷۹)
کان کا روزہ
کانوں کا روزہ یہ ہے کہ صِرف اور صِرف جائِز باتیں سُنیں۔ مَثَلاً کانوں سے
تِلاوت ونَعْت سُنئے،سُنتوں بھرے بیانات سُنئے ،اچّھی بات ،اَذان واِقامت
سُنئے ،سُن کر جواب دیجئے،ہرگز ہرگزڈَھول،باجے اور مُوسیقی نہ سُنئے ، گانے
اور نغمے اورفُضُول یافُحش لطیفے نہ سُنئے ،کسی کی غِیبت نہ سُنئے ،کسی کی
چُغلی نہ سُنئے ،کسی کے عَیب ہر گز ہرگز نہ سُنئے اور جب دو آدمی چُھپ کر
بات کریں تو کان لگا کر نہ سُنئے۔فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو شخص کسی قوم کی باتیں کان لگا کر سنے اور وہ اِس بات
کو ناپسند کرتے ہوں تو قِیامت کے روز اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا
جائے گا۔
( المعجم الکبیر ج۱۱ ص ۱۹۸)
زبان کا روزہ
زَبان کا روزہ یہ ہے کہ زَبان صِرف اور صِرف نیک وجائِز باتوں کیلئے ہی
حَرَکت میں آئے ۔مَثَلاً زَبان سے تِلاوتِ قُرآن کیجئے ،ذِکْر و دُرُود کا
وِرد کیجئے ۔ نَعت شریف پڑھئے، درس دیجئے،سُنّتوں بھرا بیان کیجئے ،نیکی کی
دعوت دیجئے ،اچھّی اچھّی اور پیاری پیاری دینداری والی باتیں
کیجئے۔فُضُول'' بک بک '' سے بچتے رہئے۔ خَبردار! گالی گلوچ، جُھوٹ، غِیبت ،
چُغلی وغیرہ سے زَبان ناپاک نہ ہونے پائے کہ ''چَمچہ اگر نَجاست میں ڈال
دیا جائے تو دو ایک گلاس پانی سے پاک ہوجائے گا مگر زَبان بے حَیائی کی
باتوں سے ناپاک ہوگئی تواِسے سات سَمُندر بھی نہیں دھوسکیں گے۔''
زبان کی بے احتیاطی کی تباہ کاریاں
حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایَت ہے، سلطانِ دوجہان
شَہَنْشاہِ کون ومکان، رحمتِ عالمیان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے صَحابہ کرام علیھم الرضوان کوایک دِن روزہ رکھنے کا حُکم دیا اور ارشاد
فرمایا:''جب تک میں تمہیں اِجازت نہ دوں ،تم میں سے کوئی بھی اِفطار نہ
کرے۔ '' لوگوں نے روزہ رکھا۔ جب شام ہوئی تو تمام صَحابہ کِرام علیھم
الرضوان ایک ایک کرکے حاضِرِ خدمتِ بابَرَکت ہوکر عَرض کرتے رہے ،
''یَارَسولَ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !
میں روزے سے رہا ، اب مجھے اِجازت دیجئے تاکہ میں روزہ کھول دُوں۔'' آپ
صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلَّم اُسے اِجازت مَرحمت فرمادیتے ۔ایک
صَحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حاضِر ہوکر عَرض کی ، آقا صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم !میرے گھر والوں میں سے دونوجوان لڑکیاں بھی ہیں جِنہوں
نے روزہ رکھا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمتِ
بابَرَکت میں آنے سے شرماتی ہیں ۔ اُنہیں اجازت دیجئے تاکہ وہ بھی روزہ
کھول لیں '' اللہ کے مَحبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب
عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُن سے رُخِ انور
پھیرلیا،اُنہوں نے دوبارہ عَرض کی۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے پھر چِہرہ انور پَھیرلیا۔ جب تیسری بار اُنہوں نے بات دُہرا ئی
تَو غیب دان رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے (غَیب کی خبر
دیتے ہوئے) ارشاد فرمایا: ''اُن لڑکیوں نے روزہ نہیں رکھا وہ کیسی روزہ دار
ہیں ؟وہ تَو سارا دن لوگوں کا گوشت کھاتی رہیں!جاؤ ،ان دونوں کو حُکْم دو
کہ وہ اگر روزہ دار ہیں تَو قَے کردیں۔ '' وہ صَحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اُن کے پاس تشریف لائے اور انہیں فرمانِ شاہی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سُنایا۔اِن دونوں نے قَے کی ، تَو قَے سے خُون اور چِھیچھڑے
نِکلے ۔ اُن صَحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی خِدمتِ بابَرَکت میں واپَس حاضِر ہو کر صُورتِحال عَرض کی
۔ مَدَنی آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' اُس
ذات کی قَسم ! جس کے قَبضہ قُدرت میں میری جان ہے،اگر یہ اُن کے پیٹوں میں
باقی رہتا ، تَو اُن دونوں کوآگ کھاتی۔''(کیوں کہ انہوں نے غِیبت کی تھی۔)
(الترغیب والترہیب ج۳ص۳۲۸حدیث۱۵)
بَہَرحال روزہ ہویا نہ ہو، زَبان قابُو ہی میں رکھنی چاہئے ورنہ یہ ایسے
گُل کِھلاتی ہے کہ تَوبہ ! اگر ان تین اُصُولُوں کو پیشِ نظر رکھ لیا جائے
تواِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ بڑا نَفع ہوگا: (۱) بُری بات کہنا ہر حال میں
بُرا ہے (۲)فُضُول بات سے خاموشی اَفْضل ہے(۳)اچھّی بات کرنا خاموشی سے
بِہتر ہے۔
ہاتھوں کا روزہ
ہاتھوں کا روزہ یہ ہے کہ جب بھی ہاتھ اُٹھیں، صِرف نیک کاموں کے لئے
اُٹھیں۔مَثَلاً باطہارت قراٰنِ مجِید کو ہاتھ لگائیے،نیک لوگوں سے مُصافحہ
کیجئے۔فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : اللہ
عَزَّوَجَلَّ کی خاطر آپس میں مَحَبَّت رکھنے والے جب باہم ملیں اور
مُصافحہ کریں اور نبی( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) پر دُرُود
پاک بھیجیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے دونوں کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے
جاتے ہیں ۔ (مسند ابی یعلیٰ ج۳ص۹۵حدیث ۲۹۵۱ )ہوسکے تَو کسی یتیم کے سر پر
شَفقَت سے ہاتھ پھیر یئے کہ ہاتھ کے نِیچے جِتنے بال آئیں گے ہر بال کے
عِوَض ایک ایک نیکی مِلے گی۔
(بچّہ یا بچّی اُس وَقت تک ہی یتیم ہیں جب تک نا بالغ ہیں جُوں ہی بالغ
ہوئے یتیم نہ رہے۔لڑکا بارہ اور پندرہ سال کے درمیان بالِغ اور لڑکی نو اور
پندرہ سال کے درمیان بالِغہ ہو تی ہے)خبردار ! کسی پر ظُلماً ہاتھ نہ
اُٹھیں،رِشوت لینے دینے کے لئے نہ اُٹھیں، نہ کسی کامال چُرائیں،نہ تاش
کھیلیں نہ پتنگ اُڑائیں ، نہ کسی نامَحرم عورت سے مُصافحہ کریں ۔ (بلکہ
شَہوت کا اندیشہ ہو تو اَمْرَد سے بھی ہاتھ نہ مِلائیں،اُس کی دل آزاری نہ
ہو اس طرح حکمتِ عملی سے کترا جا ئیں)
پاؤں کا روزہ
پاؤں کا روزہ یہ ہے کہ پاؤں اُٹھیں تَو صِرف نیک کاموں کیلئے اُٹھیں ۔
مَثَلاً پاؤں چلیں تومساجد کی طرف چلیں،مزاراتِ اولیاء رَحِمَہُمُ اللہُ
تعالٰی کی طرف چلیں،عُلَماء و صُلحا کی زیارت کے لئے چلیں،سُنّتوں بھرے
اِجتِماع کی طرف چلیں ، نیکی کی دعوت دینے کیلئے چلیں،سُنّتوں کی تربیّت
کیلئے مَدَنی قافِلوں میں سفرکیلئے چلیں،نیک صُحبتوں کی طرف چلیں،کسی کی
مدد کیلئے چلیں،کاش! مکّہ مکرّمہ زادَھَااللہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْما ومدینہ
منوَّرہ زادَھَااللہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً کی طرف چلیں ،سوئے منیٰ و
عرفات و مُزْدلِفہ چلیں،طواف وسَعی میں چلیں۔ہر گز ہرگز سینما گھر کی طرف
نہ چلیں،ڈِرامہ گاہ کی طرف نہ چلیں،بُرے دوستوں کی مجلِسوں کی طرف نہ
چلیں،شَطْرَنج ،لُڈّو ، تاش ،کِرکِٹ ، فُٹ بال ، وِڈیوگیمز ،ٹیبل فُٹبال
وغیرہ وغیرہ کھیل کھیلنے یا دیکھنے کی طرف نہ چلیں، کاش!پاؤں کبھی تَو ایسے
بھی چلیں کہ بس مدینہ ہی مدینہ لَب پر ہواور سَفَر بھی مدینے کا ہو۔ ؎
رہیں بھلائی کی راھوں میں گامزن ہر دم
کریں نہ رُخ مِرے پاؤں گناہ کا یا ربّ!
مدینے جائیں پھر آئیں دوبارہ پھر جائیں
اِسی میں عمر گزر جائے یا خدا یا ربّ!
بقیعِ پاک میں مدفَن نصیب ہو جائے
برائے غوث و رضا مرشدی ضیا یا ربّ!
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! واقِعی حَقِیقی مَعنوں میں روزے کی بَرَکتیں
تَو اُسی وَقت نصیب ہوں گی،جب ہم تمام اَعضاء کا بھی روزہ رکھیں گے۔ورنہ
بھوک اور پیاس کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو گا جیسا کہ حضرت سیّدُِنا
ابوہُریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَروی ہے کہ سرکارِ عالی وَقار صلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے ، ''بَہُت سے روزہ دار ایسے
ہیں کہ اُن کو ان کے روزے سے بُھوک اور پیاس کے سِوا کچھ یعنی بَعض لوگ
روزہ تَو رکھتے ہیں مگر اپنے اَعضاء کو چُونکہ بُرائیوں سے نہیں بچاتے اِس
لئے اُن کو روزہ کی نُورانیت اوراُس کی اَصل رُوح سے مَحرُومی ہی رہتی
ہے۔نِیز جو لوگ خواہ مخواہ رات جاگ کر گَپْ شَپ لگاتے ہیں۔انہیں وقت، صحّت
اور آخِرت کے نقصان کے سوا کچھ ہا تھ نہیں آتا۔ |
|