پاکستان میں روز اول سے ہی
یہ الیمہ رہا ہے کہ یہاں پر جو بھی حکومت آئی ہے اس نے چیزوں کو جیسے پایا
ویسے ہی رگڑا لگایا مطلب استعمال کیا اور اُس کو بہتر کرنے کی بالکل کوشش
نہیں کی اور اگر کی تو وہ بھی محض اکا دکا کیسز اور جو اونٹ کے منہ میں
زیرے کے برابر ہے۔ اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں ممکن ہے میری بات
غلط ہو ہو سکتا ہر کوئی شخص ایماندر ہو مگر اس نظام کے اندر جب وہ آتا ہے
تو وہ برا بن جاتا ہے ہم آئے روز کسی نہ کسی محکمے کی کارکردگی کو زیر بحث
لاتے ہیں مگر آج کا موضوع بحث ریلوئے ہے۔ گزشتہ روز گوجرانوالہ میں
افسوسناک سانحہ پیش آیا جس میں بد قسمت ٹرین خستہ حال پل ٹوٹنے کے باعث چٹھ
کینال میں گر گئی ۔ٹرین کی چار بوگیاں نہر میں گر ی جس کے نتیجے میں 12پاک
آرمی کے اعلی آفسیر نے جام شہادت نوش کیا اور 85زخمی بھی ہوگے۔ آئی ایس پی
آر کے مطابق ٹرین پنو عاقل سے پاک آرمی کے جوانوں کو لے کر کھاریاں جا رہی
تھی کے ٹرین کو حادثہ پیش آ گیا۔
ریسکیو ٹیموں اور پاک آرمی کے جوانوں نے مل کر آپریشن میں حصہ لیا جس سے
بہت سی جانیں بچ گئی ممکن تھا امدادی کاروائیوں میں تاخیر سے ہلاکتیں مزید
بڑھ جاتیں۔ سول ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹر اور ایس ایس جی کے غوطہ خوروں نے
بھی تعاون کیا۔ ٹرین ڈرائیور جو آل ریڈی عارضہ قلب میں مبتلا تھا وہ بھی
ڈوب گیا اور نعش جب ا سکے گھر پہنچی تو قیامت برپا ہوگئی۔ یہ تو تھی بریکنگ
نیوز جو میں نے آپ کے سامنے رکھی اگر پاکستان کی ریلوئے پر نظر ڈالی جائے
تو پتہ چلتاہے کہ ریلوئے لائن کا منصوبہ کچھ اسطرح سے بنا کہ جب ایسٹ انڈیا
کمپنی برصغیر میں آئی تو کراچی پورٹ جوکہ تجارتی لحاظ سے پوری دنیا میں
اپنا اعلی مقام رکھتا ہے وہاں ساری دنیا سے مال امپورٹ ہو تا اور مال بردار
جہاز یہاں لنگر انداز ہوتے تو اس مال کو کراچی سے برصغیر میں سپلائی کرنے
کے لیے انگریز نے ریلوئے کا منصوبہ بنایا۔1847میں انگریزوں کے دماغ پر اس
منصوبے نے دستک دی اور انہوں نے سوچ وبچار شروع کر دیا۔اسطرح ٹریک بچھانا
شروع کر دیا گیا اور13مئی1861 میں ریلوئے کو پبلک کے لیے کھول دیا
گیا۔پاکستان میں کل ریلوئے ٹریک 7791کلومیٹر ہے۔ اور تب سے ریلوئے برصغیر
میں کام کررہی ہے چھناواں پُل جس پر ٹرین کو حادثہ پیش آیا ہے1906میں تعمیر
کیا گیا تھا اور اسطرح اس پل کو تعمیر ہوئے 109سال گزر چکے ہیں ۔ یہ ہی
نہیں پاکستان میں ریلوئے کے محکمہ ان سپیکشن نے 169پُلوں کو خطرناک قراردیا
ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں72پُلوں کی مرمت مکمل کی گئی تھی اور رواں
سال21پُلوں کی مرمت کا ہدف مقرر کیا گیاتھا۔ محکمہ انسپکشن کی رپورٹ کے
مطابق 40سے زائد پُل ایسے ہیں جنکی عمریں پوری ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں
ماہرین کے مطابق پاکستانی سیمنٹ کی معینہ مدت کارآمد 50سال بتائی جاتی ہے
اسکے بعد بلڈنگ، پل جو بھی ہے وہ خطرہ سے خالی نہیں ہے ۔ یورپی ممالک اور
دنیا بھر میں اب تو نقشہ نویس اور سیول انجینئرز جو تعمیراتی کام کرتے ہیں
وہ بتا دیتے ہیں کے اس منصوبے کی عمر اتنے سال ہے اور اسکے بعد یہ نقصان دہ
ثابت ہو سکتا ہے ۔ یورپی ممالک میں معینہ مدت پوری ہونے پر روڈز، بلڈنگز،
پُلوں کو مسمار کر کے دوبارہ نئے سرے سے تعمیر کیا جاتا ہے کس لیے ؟تاکہ
عوام محفوظ رہ سکے مگر پاکستان کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔یہاں جو چیز
جہیز میں آگئی ہے بس وہ آگئی اسکی مرمت کا کوئی رواج نہیں ۔ یہ بھی خبریں
گردش کر رہی ہیں کہ چھناواں پل کو پاکستان ریلوئے نے کلیر قرار دیا تھا۔ اب
دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان ریلوئے کا پلوں کو جانچنے کا کیا معیار ہے جس سے
پتہ چلتا ہے کہ یہ ابھی مزید کام دے سکتا ہے اور کس حضرت انجینئر نے اسکو
کلئیر قرار دیا تھا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارے پُل انگریز زمانے کے
ہیں اور سارا ریلوئے ٹریک جو زیر استعمال ہے انگریز کی انتھک محنت کا ثمر
ہے بیشتر ریلوئے ٹریک تو ویسے ہی ختم ہو چکا ہے اور جو ہے وہ خستہ حال اور
ناقص ہے۔ ایک وقت تھا پاکستان ریلوئے منافع بخش ادارہ تھا مگر آج اربوں
روپے کا خسارہ ہے اور کچھ گاڑیاں بھی پرائیوٹ چل رہی ہیں اورمجال ہے کہ وہ
مقررہ وقت پر نہ پہنچے۔ جائے وقوعہ پر شجاعت خانزادہ پہنچے تو انہوں نے کہا
کہ حادثۃ تخریب کاری کانہیں لگتا مگر خواجہ سعد رفیق کہتے نہ تھک رہے تھے
کہ ممکن ہے کہ تخریب کاری ہوئی ہو۔ او بابا اتنا پرانا پُل ہے اور ویسے بھی
تخریب کاری ، کوئی مواد کوئی ثبوت جائے وقوعہ سے میسر ہی نہیں آسکے اور نہ
ہی اہل علاقہ نہ کوئی آواز سنی تو بظاہر 99فیصد چانسز پُل کی خستہ حالی کے
باعث پاک آرمی کے اعلی افسر لقمہ اجل بن گئے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی میں اسکو
محکموں کی غفلت لکھوں یا نااہل گورننس کیونکہ کبھی ہمارا ہاں مسافر طیارہ
مارگلہ سے ٹکرا جاتا ہے تو کبھی ٹرین نہر میں گر جاتی ہے تو کہیں گھوٹکی کے
مقام پر تین ٹرینیں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں جس میں 132افراد ہلاک
جبکہ800افراد زخمی ہوئے تھے۔ کبھی پشاور ائیرپورٹ پر حملہ ہوتا ہے تو کبھی
کراچی ائیرپورٹ پر دہشتگرد پہنچ جاتے ہیں۔ کبھی سانحہ صفورا چورنگی پر بس
کو اندھا دھند فایرنگ کر کے مسافروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے تو
کبھی کامرہ ائیر بیس پر حملہ ہو جاتا ہے ۔ کبھی اسلام آباد میں سکندر آجاتا
ہے تو کبھی کراچی میں کاشف اسلحہ لے کر خوف وہراس پھیلا دیتا ہے ۔کبھی آرمی
پبلک اسکول پر حملہ ہوتا ہے تو کبھی پولیس سول لائن پر دہشتگرد دھاوا بول
دیتے ہیں۔کبھی بھوکا پیاسا تھر لوگوں کو نکلتا ہے تو کبھی لوڈشیڈنگ ،گرمی
اور پانی کی عدم دستیابی سے 1300ہلاکتیں ہو جاتی ہیں۔ کبھی خانقاہوں،
جنازگاہوں، درگاہوں، امام بارگاہوں ، عیدگاہوں اور مساجد پر حملے ہوتے ہیں
کہیں بھتہ خوری ، ذخیرہ اندوزی تو کہیں لینڈ مافیا اور منافع خور سرگرم ہیں
۔ آخر ان سب کا ذمہ دار کون ہے ؟؟؟میں کس کو پوچھو؟؟؟آخر کب تک ہم یوں ہی
مرتے رہیں گے ؟ کبھی حکمرانوں کی گاڑی کو کیوں حادثہ پیش نہیں آتا؟؟ کیوں
غریب ہی روٹی پانی کو ترس کر خودکشی کرتا ہے؟؟ آخر کس کے ہاتھ پر لہو تلاش
کروں؟؟ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں عوام مر رہی ہے اور سیاست دان طواف
کرسی کر رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاست دان جنہوں نے سو کالڈ
بھاری مینڈیٹ لیا ہے ہوش کے ناخن لیں عوام کا بھلا سوچیں نہیں تو وہ وقت
دور نہیں جب ہاتھ عوام کا ہو گا اور گریبان حکمرانوں کا! اور ریلوئے وزیر
صاحب آپ بھی کچھ کارکردگی دیکھائیں باقی پاکستانیوں سے التماس ہے کہ اﷲ
توبہ کریں اور خدا کو منائیں ان چوروں ، ڈاکوں ،بھتہ خوروں،بدمعاشوں
،قاتلوں، عوامی مال کھانے والوں سے بھلے کی کوئی امید نظر نہیں آتی اﷲ
پاکستان پر رحمت فرمائے۔(آمین) |