روزہ نہ رکھنے کی مجبوریاں اورہماراطرزعمل
(syed imaad ul deen, smandri)
سَفر میں چاہے روزہ رکھو،چاہے نہ رکھو
اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
رِوایَت فرماتی ہیں، حضرتِ سَیَّدُنا حَمزہ بِن عَمر و اَسلَمی رضی اللہ
تعالیٰ عنہ بہُت روزے رکھا کرتے تھے ۔اُنہوں نے تاجدارِ رسالت ، شَہَنْشاہِ
نُبُوَّت، پکرَِ جُودو سخاوت ، سراپا رَحمت، محبوبِ رَبُّ الْعِزَّت
عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے دریافت
کیا، سَفر میںر روزہ رکھوں؟ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علہم واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: ''چاہے رکھو،چاہے نہ رکھو۔'' (صحیح بُخاری )
حضرتِ سَیِّدُنا ابُو سَعِید خُدری رضی اللہ تعالیٰ عنہُ فرماتے ہیں،سَو
لہویں رَمَضانُ الْمُبارَک کو سرورِ کائنات،شاہِ موجودات صلی اللہ تعالی
علہا والہ وسلم کے ساتھ ہم جِہاد میں گئے،ہم میں بعض نے روزہ رکھا اور بعض
نے نہ رکھا۔نہ تو روزہ داروں نے غَیر روزہ داروں پر عَیب لگایا اور نہ
اِنہوں نے ان پر۔
(صحیح مُسلم)
حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس بن مالِک کَعبِی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایَت ہے
کہ مَدینے کے تاجدار، غریبوں کے غمگُسارصلَّی اللہ تعالیٰ علہّ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمان ہے اللہ عزوجل نے مُسافِر سے آدھی نَماز مُعاف فرمادی ۔
(چار رَکْعَت والی فَرْض نَماز دو رَکْعَت پڑھے )اور مُسافِر اور دُودھ
پِلانے والی حامِلہ سے روزہ مُعاف فرمادیا۔ (کہ اجازت ہے اُس وَقْت نہ
رکھیں بعد میںر وزوں کی مِقْدار پُوری کرلیں)
(جامع تِرمذی )
محترم بعض مجبوریاں ایسی ہیںر جن کے سَبَب رَمَضانُ الْمُبارَک میں روزہ نہ
رکھنے کی اِجازت ہے۔مگر یہ یاد رہے کہ مجبوری میں روزہ مُعاف نہیںو وہ
مجبوری خَتْم ہوجانے کے بعد اس کی قَضاء رکھنا فَرض ہے۔ البتّہ قَضاء
کاگُناہ نہیںک ہوگا۔جیسا کہ 'دُرِّمُختار ''میں لکھاہے کہ سَفَر و حَمل اور
بچہّ کو دُودھ پِلانا اور مَرض اور بُڑھاپا اور خوفِ ہَلاکت و اِکراہ (یینھ
اگر کوئی جان سے مار ڈالنے یا کسی عُضو کے کاٹ ڈالنے یا سخت مار مارنے کی
صححو دھمکی دے کر کہے کہ روزہ توڑ ڈال اگر روزہ دار جانتا ہو کہ یہ کہنے
والا جو کچھ کہتا ہے وہ کر گزرے گا تو اییت صورت مںو روزہ فاسِد کر دینا
یاترک کرنا گناہ نہںا۔ ''اِکراہ سے مُراد یی ہے'' ) ونُقصانِ عَقل اور
جِہاد یہ سب روزہ نہ رکھنے کے عُذْر ہں اِن وُجُوہ سے اگر کوئی روزہ نہ
رکھے تو گُناہ گار نہیں۔
(دُرِّمُخْتار، رَدُّالْمُحتَار)
سفر کی تعریف
دَورانِ سَفَربھی روزہ نہ رکھنے کی اِجازت ہے۔سَفَر کی مِقْدار بھی ذِہن
نشین کرلیجئے شَرْعاً سَفَر کی مِقْدارساڑھے ستاون میل ( تقریباً بانوے
کلومیٹر)ہے جو کوئی اِتنی مِقدار کا فاصِلہ طے کرنے کی غَرَض سے اپنے شہر
یا گاؤں کی آبادی سے باہَر نِکل آیا ، وہ اب شرعاً مُسافِر ہے۔اُسے روزہ
قَضا ء کرکے رکھنے کی اِجاز ت ہے اور نَماز میں بھی وہ قَصْر کریگا۔مُسافِر
اگر روزہ رکھنا چاہے تَو رکھ سکتا ہے مگر چار رَکْعَت والی فَرض نَمازوں
میں اُسے قَصر کرنا واجِب(لازم) ہے۔ نہیںکریگا تَو گُنہگار ہوگا۔اور
جَہالَتاً ( علم نہ ہونے کی وجہ سے)پوری (چار)پڑھی تو اس نَماز کا
پھیرنابھی واجب ہے (مُلَخَّصاًفتاوٰی رضویہ ) یعنی معلومات نہ ہونے کی
بِناء پر آج تک جتنی بھی نمازیں سفر میں پڑھی ہیں ان کا حساب لگا کرچار
رکعتی فرض قصر کی نیّت سے دو دو لوٹانے ہوں گے۔ ہاں مسافر کو مقیم امام کے
پچھے فرض چار پورے پڑھنے ہوتے ہیں سنتیںا اور وتر لوٹانے کی ضرورت نہیں۔
قَصْر صِرف ظُہر ،عَصْر اور عِشاء کی فَرْض رَکْعَتوں میںکرنا ہے۔یعنی اِن
میں چار رَکْعَت فَرْض کی جگہ دو رَکْعَت ادا کی جائیں گی۔باقی سُنَّتوںاور
وِتَرْ کی رَکْعَتیں پُوری اداکی جائیںگی۔ دُوسرے شہر یا گاؤں وغیرہ میں
پہنچنے کے بعد جب تک پندرہ دِن سے کم مُدَّت تک قِیام کی نِیَّت تھی
مُسافِر ہی کہلائے گا اور مُسافِرکے اَحْکام رہیں گے۔اور اگر مُسافِر نے
وہاں پہنچ کر پندرہ دِن یا اُس سے زِیادہ قِیام کی نِیَّت کرلی تَو اب
مُسافِر کے اَحکام خَتْم ہو جائیں گے ۔اور وہ مُقیم کہلائے گا ۔اب اسے روزہ
بھی رکھنا ہوگا اور نَماز بھی قَصْر نہیںکریگا۔
معمولی بیماری کوئی مجبوری نہیں
کوئی سخت بیمار ہو اور اُسے روزہ رکھنے کی صُورت میںمَرض بڑھ جانے یا دیر
میں شِفا یابی کا گُمانِ غالِب ہو تَو ایسی صُورت میں بھی روزہ قَضاء کرنے
کی اِجازت ہے۔مگر آج کل دیکھا جاتا ہے کہ معمولی نَزلہ،بُخار یا دَرْ دِ
سَر کی وجہ سے لوگ روزہ تَرک کردیا کرتے ہیںیا مَعَاذَاللہ عزوجل رکھ کر
توڑ دیتے ہیں،ایسا ہر گز نہیں ہوناچاہیے۔اگر کسی صحیح شَرعی مجبوری کے
علاوہ روزہ چھوڑدے اگرچِہ بعد میں ساری عُمْربھی روزے رکھے، اُس ایک روزے
کی فضیلت کو نہیں پاسکتا۔ |
|