مثنوی ماسٹر نرائن داس' ایک ادبی جائزہ

دوسری زبانوں کی طرح اردو' وہ جس رسم الغط میں بھی رہی' مختلف حوالوں سے' اس کے ساتھ دھرو ہوتا آیا ہے۔ مثلاجنگجوں نے' اسے دشمن کا ذخیرہءعلم سمجھتے ہوئے' برباد کر دیا' حالاں کہ لفظ کسی قوم یا علاقہ کی ملکیت نہیں ہوتے۔
اردو کو مسمانوں کی زبان سمجھتے ہوئے' غیر مسلموں کی تحریوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ جب کہ اصل حقیقت تو یہ ہے' کہ زبان تو اسی کی ہے' جو اسے استعمال میں لاتا ہے۔
گھر والوں نے' چھنیوں' کولیوں اور لکڑیوں کو ترجیح میں رکھتے ہوئے' علمی وادبی سرمایہ ردی میں بیچ کر' دام کھرے کر لیے۔
بہت کچھ' حالات' حادثات اور عدم توجہگی کی نذر ہو گیا۔
قددرتی آفات بھی' اپنے حصہ کا کردار ادا کرتی آئی ہیں۔
تہذیبں مٹ گئیں' وہاں محض کھنڈر اور ٹیلے رہ گیے۔ بہت کچھ ان میں بھی دب گیا۔ بعد کے آنے والوں نے' انہیں بلڈوز کرکے صاف زمین کے ٹکڑے کو' سب کچھ سمجہ لیا۔ اگر محتاط روی اختیار کی جاتی تو وہاں سے' بہت کچھ دستیاب ہو سکتا تھا۔

ماسٹر نرائن داس' اردو کے خوش فکر اور خوش زبان' شاعر اور نثار تھے۔ سردست ان کی ایک کاوش فکر فوٹو کاپی کی صورت میں' دستیاب ہوئی ہے' جو پیش خمت ہے۔ اس سے پہلے سوامی رام تیرتھ کا کلام پیش کر چکا ہوں۔

ماسٹر نرائن داس' جو قصور کے رہنے والے تھے اور فرید کوٹ کے مڈل سکول میں' باطور ہیڈ ماسٹر فرائض انجام دے رہے تھے' اٹھائیس بندوں پر مشتمل مسدس باعنوان۔۔۔۔۔جوہر صداقت۔۔۔۔۔ تحریر کیا۔ یہ 1899 میں بلالی پریس ساڈھورہ ضلع انبالہ میں کریم بخش و محمد بلال کے اہتمام طبع ہوا۔ گویا یہ آج سے' 116 سال پہلے شائع ہوا۔ اس مسدس کی زبان آج سے' رائی بھر مختلف نہیں۔ خدا لگتی یہ ہے' اسے پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا' کہ ماسٹر نرائن داس کو زبان پر کامل دسترس تھی۔ زبان وبیان میں فطری روانی موجود ہے۔ اپنا نقطہء نظر' انہوں نے پوری دیانت' خلوص اور ذمہ داری سے پیش کیا ہے۔

انہوں نے اپنی پیش کش کے لیے' دس طور اختیار کیے ہیں۔
مزے کی بات یہ کہیں مذہبی یا نظریاتی پرچھائیں تک نہیں ملتی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے' فقط آٹھائیس بندوں میں زبان بیان کے دس اطوار اختیار کیے۔ بلاشبہ ماسٹر نرائن داس بڑے سچے کھرے اور بااصول انسان رہے ہوں گے۔

انہوں نے سچائی کو مذہب پر فضیلت دی ہے۔ ان کے مطابق خدا سچائی سے الفت رکھتا ہے۔ کہتے ہیں۔
سچائی کے عقیدے کو مذہب پر فضیلت ہے
خدا کو بندگان راستی سے خاص الفت ہے

صداقت اپنی حیثیت میں ہے کیا۔
سچائی رحمت ازلی و ابدی کا خزینہ ہے
صدق اوج سعادت کا عظیم الشان زینہ ہے

اس کا فنکشن کیا ہے۔
ذرا چھونے سے ادنے چیز کو اعلے بناتی ہے
وہ قیمت بیشتر اکسیر اعظم سے بھی پاتی ہے

صداقت اور کذب کا موازنہ
ملمع محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچائی کے
نکما محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچائی کے

صداقت کے فوائد
سچائی ہر دوعالم میں ہے دیتی رتبہ اعلے
سچائی کرتی ہے ہر دو جہاں میں مرتبہ اعلے

سچائی کے ضمن میں دلائل

حکومت بھرتری نے چھوڑ دی خاطر سچائی کی
..........
تیاگی ہو گیا ساکی منی خاطر سچائی کی
.............
سچائی کو بنایا راہنما پہلاد نے اپنا
...........
پکڑ کر ہاتھ سے اپنے پئے خاطر سچائی کی
پیالے زہر کے سقراط نے خاطر سچائی کی
...........
مسیحا بھی ہوئے صلوب تھے خاطر سچائی کی
.............
ہزاروں سر ہوئے تن سے جدا خاطر سچائی کی
.............
کئی بچھڑے پیارے وطن سے خاطر سچائی کی
.............
پڑے شعلوں میں جلتی آگ کے خاطر سچائی کی

سچائی فقرا کا مسلک ہوتی ہے۔

سچائی ہی قدر قیمت فقیروں کی بڑھاتی ہے
سچائی معرفت کے راستے انکو بتاتی ہے
سچائی کردگار پاک کی قربت دلاتی ہے
یہی آخر انہیں درگاہ ایزد میں پہنچاتی ہے

کذب کا انجام کیا ہوتا ہے۔

کذب دم میں گنواتا ہے شہنشاہونکی عزت کو
تباہ کرتا ہے انکی شان کو شوکت کو ہیبت کو
اسی سے ڈر ہے وقعت کو خطر اس سے دولت کو
گراتا سرنگوں ہے غرض ان کے عالم رفعت کو
ہزل پیشوں کو الله خاک میں آخر ملاتا ہے
مگر سچوں کا حافظ اور مودی اور داتا ہے

حکائتی انداز بھی اختیار کیا گیا ہے۔

گڈریے کی حکایت بھی نصیحت خوب دیتی ہے
کہ جسکی شیر کے پنجے سے پیاری جان نکلتی ہے
کذب کے ہاتھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی ہے
سزا جھوٹوں کو اپنے جھوٹ کی ایسے ہی ملتی ہے

اہل ہند کے بارے چینیوں اور رومیوں کی آراء

صداقت اہل ہندوستاں کے یونانی ثنا خواں تھے
چلن کے اہل ہندوستاں کے چینی ثنا خواں تھے

موجودہ صورت حال

صداقت ہو گئی ہے دور ہندوستاں کے لوگوں سے
ہوئی ہے راستی کافور ہندوستاں کے لوگوں سے

سچائی کے رستے پر چلنے والوں کی تحسین اور مبارکباد

مبارک ہو خوشی اے راستی کے چاہنے والو
مبارک مخروقی اے راستی کے چاہنے والو
مبارک برتری اے راستی کے چاہنے والو
مبارک خوش روی اے راستی کے چاہنے والو
مبارک آپ کو مژدہ یہ خوشخبری مبارک ہو
مبارک آپ کو یہ مہر ربانی مبارک ہو

ان کی مذہبی عصبت سے دوری کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے ذات باری کے لیے کردگار' ایزد' الله'رب' خدا نام استعمال کیے ہیں۔

ماسٹر صاحب کے پاس متبادلات کا خزانہ موجود ہونے کا گمان گزرتا ہے۔

سچائی سے خدا تعالے کی رحمت کی ترقی ہے
........
خدا کو بندگان راستی سے خاص الفت ہے
........
صدق کو یا زرہ سمجھو کہ یہ اک زیب تن کی ہے
........
نہ ہرگز سانچ کو ہے آنچ اس نے آزما دیکھا
........
صداقت کی مدد ان کو سچائی کے سہارے ہیں

اب کچھ مرکبات ملاحظہ ہوں۔

وہ فلک راستی کے چمکتے گویا ستارے ہیں
........
مبارک گلستان راستی کے ٹہلنے والو
مبارک زیور صدق و صداقت پہننے والو
.........
ستون سرخ آہن سے خوشی سے دوڑ کر لپٹا
.........
شہیدان صداقت نے دیا خاطر سچائی کی
.........
فتح کےلوک میں پرلوک میں ڈنکے بجاتے ہیں
........
کیا خوب مصرع ہیں۔ فصاحت و بلاغت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس ناصحانہ انداز میں تلخی ضرور ہے' لیکن فکری و لسانی حوالہ سے' ان مصرعوں کو نظرانداز کرنا' زیادتی ہو گی۔ بےشک ان مصرعوں میں' انہوں نے آفاقی سچائی بیان کی ہے۔

ہوا کرتا ہے جھوٹوں پر سدا قہر خدا نازل
کبھی درگاہ سچی میں نہیں کازب ہوئے داخل
..........
ہزل پیشوں کو الله خاک میں آخر ملاتا ہے
.........
مبارک آپ کو یہ مہر ربانی مبارک ہو


ماسٹر صاحب کی زبان کا مہاورہ بھی نفاست سے گرا ہوانہیں۔ دو ایک مثالیں ملاحظہ ہوں

کذب کے ہاتھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی ہے
...........
کلہاڑی ہاتھ سے اپنے وہ خود پاؤں پہ دھرتے ہیں
...........
سچائی کا نصیبے والے ہی دامن پکڑتے ہیں
............
اسی سے نام رہتا ہے جہاں میں یاد سچوں کا
..........
ہوئی ہے راستی کافور ہندوستاں کے لوگوں سے


مثنوی کا پہلا شعر ہی تشبیہ پر استوار ہے۔ ملاحظہ ہو

سچائی مثل کندن چمکتی ہے دندناتی ہے
وہ جلوہ نور کوہ نور سے بڑھ کر دکھاتی ہے

صنعت تکرار لفظی کا استعمال بھی ہوا ہے۔ ہاں البتہ' دندناتی کی جگہ' کوئی اور لفظ رکھ دیتے' تو زیادہ اچھا ہوتا۔
ایک اور خوب صورت سی تشبیہ ملاحظہ ہو۔

مگر ہے جھوٹ مثل کانچ اس نے آزما دیکھا

اب صنعت تضاد کی کچھ مثالیں ملاحظہ فرما لیں۔

شروع میں ہے خوشی اسکے خوشی ہی انتہا اسکا
انتہا کو مونث باندھا گیا ہے اور یہ غلط نہیں۔
.......
سچائی راحت ازلی و ابدی کا خزینہ ہے
.......
زبان پاک کو اے دل نہ آلودہ کذب سے کر

ماسٹر نرائن داس نے' اپنے عہد کی سچائی کے حوالہ سے' ہندوستان کی حالت کو' ریکارڈ میں دے دیا ہے۔ کہتے ہیں

بنایا جھوٹ کو ابتو ہے ہمنے راہنما اپنا
سچائی الودع! ہے آجکل کذب وریا اپنا
دھرم باقی رہا اپنا نہ دل قائم رہا اپنا
نہ یارو جھوٹ کے ہاتھوں سے ایماں ہی بچا اپنا
صداقت ہو گئی ہے دور ہندوستاں کے لوگوں سے
ہوئی ہے راستی کافور ہندوستاں کے لوگوں سے

مثنوی کا آخری شعر جس میں تخلص استعمال ہوا ہے' پیش خدمت ہے
یہ عاصی اے سچائی تیرے ہی گھر کا سوالی ہے
ترا ہی داس اور تیرے ہی گھر کا سوالی ہے

کہا جاتا ہے' انسان نے ترقی کر لی ہے۔ خاک ترقی کی ہے' جہاں علم دو نمبر کی چیز ہو اور اہل قلم کی موت کے بعد' ان کے پچھلے' ان کے لہو پاروں کو' ردی میں بیچ دیں یا طاقت کے نشہ میں چور حکمرانوں کے پیشہ ور بےرحم جنگجو' اس انسانی ورثے کو' نیست ونابود کر دیں. وہاں ہوس لالچ اور نفسا نفسی کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ اگر ہوس' لالچ اور نفسا نفسی ترقی ہے' تو وہ بہت زیادہ ہوئی ہے۔

ماسٹر صاحب نے اور بھی بہت کچھ' شعر و نثر میں لکھا ہو گا' کچھ کہہ نہیں سکتے۔ تقسیم ہند کا عمل تقریبا نصف صدی بعد کا ہے۔۔ اس لیے' وہ تقسیم میں ضائع نہیں ہوا ہو گا۔ آج جامعات' تحیقی ڈگری چھاپنے میں مصروف ہیں' اگر وہ خاموش اردو کے خدمت گاروں کو' تلاشنے کو بھی' تحقیق سمجھیں' تو یہ اردو زبان کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔
 
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 184 Articles with 211033 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.