|
سلطان العارفین سلطان الفقرحضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ
اپنی کتاب امیر الکونین میں فرماتے ہیں :
''میں علمِ دیدارِ الٰہی کا عالم ہوں مجھے نور ہی نور دکھائی دیتا ہے۔مجھے
علمِ دیدارِ الٰہی کے سوا کوئی اور علم ذکر ، فکر اورمراقبہ معلوم نہیں اور
نہ ہی پڑھتا ہوں اور نہ ہی کرتا ہوں۔ کیونکہ تمام علوم علمِ دیدار کی خاطر
ہیں جو مجھے حاصل ہے۔ جہاں دیدارِ الٰہی ہے وہاں نہ صبح ہے نہ شام نہ منزل
ہے نہ مقام، بے مثل و بے مثال ذات لاہوت لامکان کے اندر ہے ''اسمِ اللہ ذات
''سے انوارو تجلیات کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اس نور میں دیدارو لقا نظر
آتا ہے۔
میں دیدار کا علم جانتا ہوں اور پڑھتا ہوں مجھے یہ مراتب جناب سرورِ کائنات
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے
صحابہ کرامؓ اور پنجتن پاکؓ کی رفاقت میں نصیب ہوئے ہیں۔
دیدار الٰہی سے مشرف ہونے کا طریقہ :
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فر ماتے ہیں:
دیدارِ الٰہی سے مشرف ہونا اور واصل باللہ ہونا کون سے علم اور کون سی چیز
سے ممکن ہے؟ وہ محض سیر فی اللہ اور مشاہدہِ نور حضور و قرب کا علم ہے جو
دانش ، عقل اور تمیز سے بالا تر ہے ۔ معرفتِ الٰہیہ کا یہ علم وہ شخص پڑھ
سکتا ہے جو اس کا سبق اسمِ اللہ ذات (ذکر ، تصور اور مشقِ وجودیہ) سے پڑھتا
ہے اور وہ ہمار اجان سے پیارا بھائی ہے۔ (نور الہدیٰ)
شد وسیلہ نقش بہر نقاش بین
نقش و نقاشے یکے شد بالیقین
ترجمہ: دیکھ لے نقش(اسم) اپنے نقاش(مسمّٰی) کی پہچان کا ذریعہ ہوتا ہے جب
نقش اور نقاش باہم ایک ہوجاتے ہیں تو مرتبہ حق الیقین حاصل ہو جاتا ہے۔ اور
یہ کہاں سے حاصل ہوتا ہے؟ اسم اللہ ذات سے۔ اگر تو ہستیِ وحدانیت کا راز
جاننا چاہتا ہے تو تجھے معلوم ہوناچاہیے کہ تیرے وجود میں اللہ تعالیٰ اس
طرح پوشیدہ ہے جس طرح پستہ مغز کے اندر۔ (نور الہد یٰ)
دیدار الٰہی کے درمیان حائل رکاوٹ اور اس رکاوٹ کو دور کرنے کے بارے میں آپ
فرماتے ہیں :
جان لے دیدارِ الٰہی اور اہلِ دیدار کے درمیان کوئی پتھر پہاڑ یا دیوار
حائل نہیں ہوسکتی بلکہ دیو نفس حائل ہوتا ہے جو پتھر اور دیوار سے بھی سخت
تر حجاب ہے اور جس کا مارنا بے حد مشکل و دشوار ہوتا ہے۔ مرشدِ کامل سب سے
پہلے اسی دیو خبیث،مصاحبِ ابلیس نفس کو تصورِ اسمِ اللہ ذات کی تلوار سے
قتل کرواتا ہے اور جب تصورِ اسمِ اللہ ذات کی تلوار سے یہ دیو نفس مرجاتا
ہے تو بندے اور ربّ کے درمیان سے بیگانگی کا پردہ ہٹ جاتا ہے اور بندہ ہر
وقت بلا حجاب دیدارِ پروردِگار کرتا رہتا ہے ۔ (نورالہدیٰ)
بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پہاڑ یا دیوار حائل نہیں ہے اور نہ ہی
میلوں تک پھیلی ہوئی طویل مسافت ہے بلکہ پیاز کے پردہ سے بھی زیادہ باریک
پردہ ہے جسے تصور اسمِ اللہ ذات اور صاحبِ راز مرشد کی توجہ سے توڑنا کوئی
مشکل کام نہیں ہےُ تو آنا چاہے تو دروازہ کھلا ہے ۔ اگر نہ آئے تو حق بے
نیاز ہے۔(کلیدِالتوحید کلاں)
دیدارِ الٰہی کہاں سے اور کس سلسلہ اور طریق کے ذریعے حاصل ہوتا ہے؟ اس
سلسلہ میںآپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
منصب ومرتبہِ دیدارِ پروردِگار کی توفیق و برداشت و تحقیق طالب مرید سروری
قادری کو حاصل ہے۔ دیگر طریقے والا اگر کوئی دیدارِ الٰہی کا دعویٰ کرتا ہے
تو وہ لاف زن ہے، جھوٹا ہے اور اہلِ حجاب ہے۔(نورالہدیٰ)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتب میں
دیدارِ الٰہی کے علم کو کھول کر بیان فرمایا ہے ۔آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:
طالب دیدار با دیدار بر
جز خدا دیگر نہ بیند بانظر
ہر طرف بینم بیانم حق ز حق
بامطالعہ دائمی دل دم غرق
ترجمہ: طالبِ دیدار کو چونکہ صرف دیدارِ الٰہی سے غرض ہوتی ہے اس لیے وہ
اللہ کے سواکسی چیز کو دیکھتا ہی نہیں اس لیے ہر لمحہ مطالعہ دِل میں غرق
رہتے ہوئے جدھر دیکھتا ہے اللہ ہی نظر آتا ہے۔
بہ از ہر لذت بود لذتِ لقا
لذت دنیا چہ باشد بے بقا
ترجمہ:تمام لذّات سے بہتر لذّت ''لذّتِ دیدار''ہے اُس کے مقا بلے میں لذّتِ
دنیا کی کیا وقعت کہ وہ بے بقا ہے۔(نور الہدیٰ)
'عین الفقر' میں آپ رحمتہ اللہ علیہ میں فرماتے ہیں:
جو شخص اپنی جان کے بدلے اسمِ اللہ ذات خرید لیتا ہے وہ کھلی آنکھوں سے
دیدارِ حق تعالیٰ کر تا ہے۔
اللہ تو ہر وقت تیرے ساتھ ہے لیکن تو ہی اس کی دید سے اندھا اور گمراہ ہو
گیا ہے۔
دیدارِ حق کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ مردار ہے اس لئے عاشق ہمیشہ طالبِ
دیدار ہوتا ہے۔
جس نورِ تجلی کو موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر دیکھا تھا اسی نور تجلی
کو میں عین عیان دیکھتا ہوں اور خاص الخاص تجلی وہ ہے جو حروفِ اسم اللہ
ذات سے نمودار ہوتی ہے۔
دِل اگر بیدار نہ ہو تو دیدارِ الٰہی کس طرح ہوسکتا ہے؟ سجدہ دیوار سجدہ
دیدار تو نہیں۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ نور الہدیٰ کلاں میں فرماتے ہیں:
عارفوں کا یہ ابتدائی مرتبہ ہے کہ لقائے الٰہی سے مشرف ہو جاتے ہیں ۔لقائے
الٰہی کے یہ مراتب میں نے اسم اللہ ذات سے پائے ہیں اس لئے اسمِ اللہ ذات
کو میں نے اپنا پیشوا بنا رکھا ہے۔ جو شخص اپنے جسم کو اسمِ اللہ ذات میں
گم کر دیتا ہے وہ بہت جلد معرفتِ دیدار الٰہی کو پالیتا ہے۔ دیدارِ الٰہی
کیونکر روا ہو سکتا ہے؟ لیکن میں دیدار کرتا ہوں کہ مجھے مصطفی علیہ الصلوۃ
والسلام دیدار کرواتے ہیں۔
دراصل مراتب دو ہیں ایک مرتبے والے انسان ہوتے ہیں اور دوسرے مرتبے والے
صورت کے انسان لیکن سیرت کے حیوان ہوتے ہیں جو ہمیشہ بے جمعیت و پریشان
رہتے ہیں سو انسان نما حیوان اور اشرف انسان کی پہچان کیا ہے؟ انسان وہ ہے
جو ہمیشہ دیدارِ الٰہی سے مشرف رہے اور انسان نما حیوان کو ہمیشہ دنیا
مردار کی طلب رہتی ہے۔
جو عارف ہر وقت دیدارِ الٰہی میں غرق رہتا ہے اُسے مطالعہِ علمِ پیغام و
اعلام و الہام و آواز کی کیا حاجت ہے۔
لقائے حق کے لائق وہ طالب ہوتا ہے جو غرق فی التوحید (فنا فی اللہ ) ہو کر
دیدارِ الٰہی کر تا ہے ۔
اگر تیرے پاس آنکھیں ہیں تو جی بھر کر دیدارِ الٰہی کر۔
صاحبِ نظر دیدار کرتے ہیں لیکن جھوٹے اور مکار لوگوں کو کچھ نظر نہیں آتا۔
آنکھ کو دیدار سے ہی یقین نصیب ہوتا ہے جو اس بات کو نہ مانے پکا لعین ہے۔
جس کی آنکھیں اللہ تعالیٰ کے کرم سے نور ہو گئیں وہ دیدار الٰہی سے مشرف
ہوگیا ایسے صاحبِ دیدارکو کو ئی غم نہیں۔
روح جب اللہ کے پاس موجود تھی تو اللہ کے دیدار میں مگن تھی لیکن جب اللہ
تعالیٰ نے اس روحانی انسان کو اپنی پہچان کے امتحان کے لیے اس دنیا میں
بھیجا تو اپنے جلوؤں کے نور اور انسان کے درمیان نفس کی دیوار حائل کر دی۔
انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ نفسانی خواہشوں کے جال سے نکل کر نفس کے ان
حجابوں کو توڑے اور اپنے رب کا دیدار اور پہچان حاصل کرے۔ اللہ کے جلوؤں کا
نور ہی وہ امانت ہے جو انسان کے قلب میں پوشیدہ ہے اور جس کے بارے میں اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے:
انا عرضنا الا مانت علی السموت والارض والجبال فابین ان یحملنھا واشفقن
منھا و حملھا الانسان انہ کان ظلوما جھولا
ترجمہ: ''ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمینوں پر پیش کیا۔ سب نے اس کے
اٹھانے سے عاجزی ظاہر کر دی لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا بے شک وہ (اپنے نفس
پر) ظالم اور (اپنی حقیقت سے) جاہل ہے۔''
انسانی قلب (باطن) میں پوشیدہ یہ نورِ الٰہی اللہ کی امانت ہے جسے بروزِ
قیامت واپس لوٹانا ہے۔ اس امانت کی حفاظت تبھی ممکن ہے جب باطنی یا روحانی
انسان ترقی اور قوت حاصل کرے اور نفس کے پردوں کو توڑتے ہوئے اپنی ذات کے
اندر ہی موجود اس نورِ الٰہی تک رسائی حاصل کرے۔ جب تک وہ اس امانت تک
رسائی حاصل نہ کر لے' نہ اس کی اہمیت کو سمجھ سکتا ہے اور نہ اس کی حفاظت
کر سکتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی لیے فرمایا ''جس میں امانت
نہیں اس میں ایمان نہیں۔''کیونکہ ایمان دراصل اسی امانت کی حفاظت کا نام
ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کامیابی کی ضمانت بھی نورِ الٰہی سے معمور
قلب کی اصل حالت میں واپسی کو قرار دیا ہے۔
یوم لا ینفع مال ولا بنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم
ترجمہ: اور قیامت کے دن مال اور اولاد کچھ نفع نہ دیں گے۔ بلکہ قلبِ سلیم
ہی کام آئے گا۔
چنانچہ اللہ کی معرفت اور پہچان انسان کو اپنے ہی باطن میں پوشیدہ نورِ
الٰہی کی امانت تک رسائی سے حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وفی انفسکم افلا تبصرون
ترجمہ :اور میں تمہاری سانس اور تمہاری جان کے اندر ہوں کیا تمہیں دکھائی
نہیں دیتا۔
ونحن اقرب الیہ من حبل الورید
ترجمہ: اور ہم تو شہ رگ سے بھی نزدیک ہیں۔
حدیثِ قدسی میں فرمایا
لا یسعنی ارضی ولاسمائی ولکن یسعنی قلب عبد المومن
ترجمہ:نہ میں آسمانوں میں سماتا ہوں نہ زمینوں میں لیکن بندہ مومن کے دل
میں سما جاتا ہوں۔
قلب المومن عرش اللہ تعالٰی
ترجمہ: مومن کا قلب اللہ کا عرش ہے۔
اسی لیے اپنے رب کی معرفت کے لیے انسان کو اپنے باطن میں ہی سفر کرنا ہے
اور اپنی ذات کی حقیقت سے اپنے رب کی حقیقت حاصل کرنا ہے۔ حدیث قدسی میں
اللہ بیان فرماتا ہے:
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ
ترجمہ: ''جس نے اپنی ذات کو پہچانا اس نے یقیناًاپنے رب کو پہچانا۔''
اپنی اسی حقیقی پہچان کو اقبالؒ نے خودی کا نام دیا ہے اور امت مسلمہ کو اس
کی پہچان حاصل کرنے کا درس دیا۔
خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل
یہی ہے اب تیرے لیے صلاح کار کی راہ
افسوس کا مقام یہ ہے کہ انسان اپنے ظاہری جسم کو پالنے 'سجانے اور ہر تکلیف
و بیماری سے بچانے کے لیے تو ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اپنی پوری توجہ اس کی
دیکھ بھال میں لگا دیتا ہے لیکن اپنے باطنی حقیقی انسان کی طرف اس کی کوئی
توجہ ہی نہیں۔ روح جو اپنے رب سے ملاقات اور دیدار کے لیے بے چین رہتی ہے'
انسان کی اس بے توجہی اور نفسانی و دنیاوی خواہشوں کے جال میں الجھے رہنے
کی وجہ سے روح بیمار اور پژمردہ ہوجاتی ہے۔ انسان کی اندرونی بے چینی کی
وجہ اس کی اپنی روح سے بے توجہی ہی ہے۔ جب روح پژمردہ ہوگئی تو نفسِ امارہ
(جو برائی کا حکم دیتا ہے) کو انسان کے باطن پر غلبہ اور قوت حاصل کرنا
آسان ہوگیا یوں نہ انسان کا باطن درست رہا نہ ظاہر۔ نتیجہ انفرادی و
اجتماعی بربادی۔
رسالہ غوثیہ میں اللہ تعالیٰ حضرت غوث الاعظمرضی اللہ عنہٗ سے فرماتا ہے:
''جو میری طرف باطن میں سفر کرنے سے محروم رہا میں اسے ظاہری سفر میں مبتلا
کر دیتا ہوں۔ ''یعنی جب انسان اپنے باطن کو درست کر کے اللہ کا قرب حاصل
کرنے کی کوشش نہیں کرتا اور اپنی تمام تر توجہ باطن کی بجائے ظاہر پر رکھتا
ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ظاہری مشکلات میں الجھا دیتا ہے۔ ہمارے اردگرد کے
ماحول کی بہتری کا دارومدار بھی اسی بات پر ہے کہ ہم اپنی باطنی درستی پر
توجہ دیں کیونکہ جب باطن درست ہو جائے تو ظاہر از خود درست ہوجاتا ہے۔
لیکن باطن ذکر اسمِ اللہ ذات یعنی سلطان الاذکار ھُو ، تصورِ اسمِ اللہ ذات
اور تصورِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بغیر نہ زندہ اور نہ ہی درست
ہو سکتا ہے گویا ذکرِ ھُو اور تصورِ اسم اللہ ذات باطن کے بند تالے کو
کھولنے والی کلید(چابی) ہے تصورِ اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مجلسِ
محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کی کلید ہے بشرطیکہ یہ کسی مرشد
کامل اکمل نور الہدیٰ سے حاصل ہوئی ہو۔
تحریر : خادم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس |