حق کی صبح نمودار ہوئی۔ صدیوں کی تھکی ہوئی اور ظلم سے
جھوجھتی انسانیت کو قرار آ گیا۔ بجھی بجھی طبیعتیں کھل اٹھیں۔ خزاں دور
ہوئی اور بہار چھا گئی۔ وہ آئے جن کے آنے کی زمانے کو ضرورت تھی۔ وہ آئے جن
کے آنے سے کاینات میں زندگی کی حرارت دوڑ گئی۔ پژمردہ دل کھل اٹھے۔ عرب سے
چاند طلوع ہو گیا۔ صحراے عرب میں خوش بو پھیل گئی۔ دعاے خلیلی بار آور ہوئی۔
سیدالانبیا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آ گئے۔ وہ آئے انسانیت کی بہار بن کر۔
دلوں کا قرار بن کر۔ کونین کا نکھار بن کر۔ اور پھر! چمن کا ہر ذرہ رشکِ
ارم بن گیا۔ صحرا مثلِ چمن بن گیا۔
باطل لرز اٹھا۔ خرمنِ شیاطیں میں خاک اُڑنے لگی۔ کفر کے ایواں لرزنے لگے۔
شرک کے طرف دار کانپنے لگے۔ چراغِ مصطفوی بجھانے کے لیے شرارِ بولہبی نے
پَر تولے۔ نامرادی انھیں دامن گیر ہوئی۔ پشیمانی ان کا مقدر بنی۔ ہر شورش
دم توڑ گئی۔ میدانِ کار زار گرم کیا گیا۔ ہجومِ باطل یک جا ہوا۔ ہتھیاروں
سے لیس فوجیں میدان میں اتاری گئیں۔ ۳۱۳؍ کے مقابلے میں ہزاروں آئے۔ تیر و
تفنگ اور شمشیر و سناں کے ساتھ آئے۔ نیزوں اور برچھیوں کے ساتھ آئے۔ شعور
کے اندھیروں اور باطل کی ظلمتوں کے ساتھ آئے۔ ایمان کے مقابل آئے۔ عزم مصمم
کیا کہ حق کی لَو بجھا دیں گے۔ اندھیرے بڑھا دیں گے۔ باطل کو چھا دیں گے۔
لیکن! حق کی رحمت و مدد نازل ہوئی۔ ایمان کے جیالے کفر کے مقابل آئے،
وارفتگی ساتھ لائے، ایمان کے ہتھیار سے لیس آئے، ان کی مدد کو فرشتگانِ
الٰہی آئے، میدان میں فوجیں اُتریں، فرسودہ ہتھیار والے اہلِ حق غالب آئے،
کفار مکہ شکست و ہزیمت سے دوچار ہوئے، ذلت ناک شکست، عبرت ناک شکست۔ تاریخ
انسانی میں کیا کوئی ایسا واقعہ ملتا ہے کہ انتہائی قلیل ہزاروں پر غالب
آئے ہوں؟ یہ حق کی لڑائی تھی، باطل کی پسپائی تھی، اسے ’’جنگ بدر‘‘ کا
تاریخی نام دیا گیا، جس کے آثار اسلامی تاریخ کا زریں نقش بن گئے۔ کفار لرز
گئے، اصنامِ باطل میں زلزلہ آ گیا، حق کا اُجالا پھیلا۔
بدر کی شکست نے بے نور دلوں کو مبتلاے آشام کر دیا۔ وہ انتقام کے جذبات سے
بھر گئے۔ ایک غلام مصطفی جس نے اپنی زندگی کو اسلام کے لیے وقف کر دیا تھا،
نام اس پروانے کا حضرت خبیب تھا، مقامِ صحابیت نے اس کی عظمت کو بلند کر
دیا تھا۔ وہ دیوانہ تھا، ایسا دیوانہ کہ ہزاروں فرزانے اس پر نثار، اس کی
عظمت کے ہم قربان، وہ نگہِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں محبوب تھا،
اور وہ ایک عاشق رسول تھا، زندگی اس کی جہدِ مسلسل سے عبارت تھی۔ وہ محبوب
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ناموس پر نثار ہونے کو بے تاب تھا۔ فطرت نے اس
کی خواہش کے اِتمام کا اہتمام فرما دیا۔ ایک شام کفارِمکہ نے دھوکے سے اس
عاشق صادق کو پکڑ لیا، اور بدر میں اپنی رسوائی کا انتقام لینے کو تُلے۔ ان
کے مکرو فریب کا ایک اور نمونہ دنیاکو دیکھنا تھا۔ ان کے تشدد کی ایک اور
مثال قایم ہونی تھی۔
مکہ کے کافر جب بھی اپنے انتقام کی تسکین کے لیے کسی مظلوم کا انتخاب کرتے
تو اسے تنعیم کے میدان میں من چاہی سزا دیتے۔ حضرت خبیب کو مکہ کی وادیوں
سے تنعیم کے میدان میں لے آئے۔ سردارانِ قریش جوشِ انتقام میں بھرے ہوئے
تھے۔ ان کے دل انسانی ہم دردی سے خالی تھے۔ چند لمحوں میں پروانہ محبوب صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر نثار ہونے والا تھا۔ اس کا چہرہ پر سکون تھا۔ لبوں
پر تبسم تھا۔ آنکھوں میں چمک تھی۔ ایمان کا نور چہرے سے ہویدا تھا۔ گویا
زندگی کا سویرا ہونے والا تھا۔ سچ ہے زندگی وہی زندگی ہے جو محبوبِ رب پر
نثار ہو جائے۔ ہمارا جینا ہمارا مرنا سب رضاے محبوبِ رب میں ہو تو یہی اصل
میں جینا ہے۔
تختۂ دار پر ایک عاشق چڑھایا جانے والا تھا۔ میدان تماش بینوں سے بھرا تھا۔
سردارانِ قریش منتظر تھے کہ کب جوشِ انتقام کی تسکیں کا موقع ملے۔ قتل گاہِ
عشق میں جب حضرت خبیب کو اتارا گیا تو انھوں نے دو رکعت نماز ادا کرنے کی
اجازت چاہی، اجازت ملی اور نمازِ عشق تلواروں کی چھاؤں میں ادا ہونے لگی۔
لذتِ وصال سے عاشقِ صادق ہی واقف ہوگا کہ وہ نماز کیسی تھی جس نے اساتینِ
قریش کو ہیبت زدہ کر دیا۔ وہ ہزاروں تھے لیکن لرز رہے تھے۔ نماز سے فراغت
کے بعد حق کے داعی نے کہا:
’’خدا کی قسم! اگر تمھیں یہ گمان نہ ہوتا کہ میں موت کے خوف سے نماز کو
طویل کر رہا ہوں تو میں اپنی نماز کو اور طویل کرتا……‘‘
اتنا کہنا تھا کہ کفار کا مجمع ٹوٹ پڑا۔ درندگی کے مظاہرے خاک دانِ گیتی پر
برپا ہوئے۔ جسمِ ناز سے لہو رِسنے لگا۔ مگر مقدس چہرہ ان زخموں کو سہہ کر
بھی اضطراب سے عاری تھا۔ ہر ہر زخم پر کفار کے انسانیت سوز قہقہے بلند
ہوتے۔ وہ ظالم یہ کہہ رہے تھے:
’’کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) تمھاری جگہ
ہوں اور تمھیں نجات ہو جائے؟……‘‘
حضرت خبیب جو زخموں سے چٗور چٗور تھے، برملا جواب دیا:
’’خدا کی قسم! میں ہرگزیہ پسند نہیں کرتا کہ میں اپنے اہلِ خانہ کے درمیان
امن اور سکون سے رہوں اور میرے آقا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایک کانٹا
بھی چبھے……‘‘ اس ایمان افروز کلام نے ان کے جذبات کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ
چلانے لگے: اسے قتل کر دو؛ اسے قتل کر دو……! تختۂ دار پر حضرت خبیب کو چڑھا
دیا گیا، لہو بہتا رہا، لیکن زبان اﷲ کی تعریف اور محبوب صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کی توصیف سے تر رہی۔ اور پھر کچھ ہی لمحوں میں روح جسم اقدس سے
بارگاہِ الٰہی میں پہنچ گئی۔ قربانی مقبول ہو چکی تھی۔ فضا میں حضرت خبیب
کے الفاظ رقص کر رہے تھے جس میں توحید و رسالت کا پیغام تھا۔ وارفتگی و جاں
نثاری کا درس تھا۔ عشق کی فتح مبین ہوئی اور باطل کی شکست مہین۔ زندگی کا
قافلہ شاہ راہِ حیات پر رواں دواں رہا۔ حضرت خبیب کی جاں نثاری نمونہ بن
گئی۔ عزم و حمیت کا ایک سبق آگے کی نسلوں میں منتقل ہوا۔ گویا ہر قربانی
چمنِ اسلام کے لیے بہارِ جاوداں کا مژدہ سناتی ہے۔ اور دلوں میں ایمان کی
حرارت دوڑ جاتی ہے۔ جذبات تازہ اور عزایم جواں ہو جاتے ہیں۔ افکار کی دنیا
میں روشنی پھیل جاتی ہے اور ذہن و دماغ منور ہو اٹھتے ہیں:
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں |