پنجاب کے وزیر اعلی میاں شہباز شریف بہت اچھا کام نہیں
کررہے تو اتنے برے بھی نہیں جارہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے صوبے
میں امن وامان قائم رکھا ہوا ہے اور بہت عرصہ سے دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب
میں کوئی بڑی دہشت گردی بھی نہیں ہوئی میٹرو بس کی کامیابی کے بعد اب لاہور
میں اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ بھی شروع ہوچکا ہے جسکا فائدہ بھی یقینا
عوام کو پہنچے گا ان سفری سہولیات سے صرف وہی انسان واقف ہوگا جو پبلک
ٹرانسپورٹ پر سفر کرتا رہا ہے ہو یا اب بھی کررہا ہے اسے بخوبی اندازہ ہے
کہ پہلے ویگنوں والے کس طرح انسان مرغے بن کر اپنی منزل تک پہنچا کرتے تھے
مگر بدقسمتی سے میاں برادران کی میڈیا ٹیم انکے مخالفوں کے خلاف جتنی اچھی
مہم چلاتے ہیں اگر اس کے مقابلے میں وہ میاں برادران کے عوامی فلاحی کاموں
کے حق میں بھی اتنی محنت کرتے تو آج میاں برادران قوم کے ہیرو ہوتے مگر
ایسا نہیں ہوسکا اس میں جتنا قصور ان افسران کا ہے جو انہیں ناکام بنارہے
ہیں اتنا ہی قصور خود میاں شہباز شریف کا ہے کہ انہوں نے چن چن کرایسے خشک
اور بداخلاق افسران کو اہم سیٹوں پر تعینات کررکھا ہے جو صرف میاں برادران
کی خوش آمد پر سبھی وقت صرف کرتے ہیں واہ واہ اور یس سر کے علاوہ انکی زبان
سے کوئی تیسرا لفظ نہیں نکلتا ویزر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے نیک نیتی
سے اپنے پروگرام شرع کیے مگر انکے ارد گرد موجود افراد ہی ان کے اچھے کاموں
پر پانی بہا رہے ہیں میرٹ اور ایمانداری سے ہٹ کر جن افراد کو وزیر اعلی نے
عہدے بانٹ رکھے ہیں وہی پنجاب حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بھی بن رہے ہیں
مجھے میاں برادران کی جلاوطنی کے وہ دن بھی یاد ہے جب پرویز مشرف کے دور
میں اخبارات اور نیوز ایجنسیاں میاں برادران کی خبریں لگانے وار بھجوانے سے
کتراتی تھی اس دور میں جب بھی میرا ٹیلی فون پر میاں شہباز شریف سے رابطہ
ہوتا تو خبروں کے حوالہ سے انکے الفاظ آج بھی مجھے یاد ہیں کہ ہماری
خبراخبارات میں نہیں لگ رہی صرف میں اپنی نیوز ایجنسی کے زریعے میاں شہباز
شریف کے بیانات اخبارات کو بھجواتا تھا اس وقت چوری کھانے والے مجنوں غائب
ہوچکے تھے مگر جیسے ہی مسلم لیگ ن کی حکومت دوبارہ قائم ہوئی تو انہی افراد
نے مختلف بلوں سے سر نکالنا شروع کردیے اور پھر آہستہ آہستہ میاں برادران
کے قریب ہوگئے اور اب وہی افراد پھر اہم عہدوں پر براجمان ہیں جن کا کام
صرف لوٹ مار اور پیسہ بنانا ہے شہباز شریف حکومت نے اپنے کچھ اچھے کاموں کی
طرح ایک اور اچھا کام یہ کیا کہ پنجاب ٹرانسپرنسی اینڈ رائٹ تو انفارمیشن
ایکٹ 2013کے تحت عام آدمی کو بھی معلومات تک رسائی کا موقعہ دیدیا مگر کچھ
افسران اس ایکٹ کی بھی دھجیاں اڑانے میں مصروف ہیں اس ایکٹ کے تحت ہر ایسے
فرد کو اسکی متعلقہ معلومات 14دن کے اندر اندر فراہم کردی جائینگی جو اسے
مطلوب ہیں مگر ایک ایسا محکمہ جو براہ راست وزیر اعلی پنجاب کی ماتحتی میں
کام کررہا ہے وہیں پر اس قانون کو پامال کیا جا رہا ہے اور یہ کسی کے
مشاہدے کی نہیں بلکہ میں اپنے تجربے کی بات لکھ رہا ہوں کہ مجھے میرے زرائع
نے بتایاکہ محکمہ اطلاعات پنجاب میں مختلف الیکٹرونکس آلات کی مد میں
تقریبا 20کروڑ روپے کی خریداری کی گئی ہے اس خریداری کے نتیجہ میں ٹینڈر سے
لیکر خریداری اور اب بل تک کرپشن کی عجیب وغریب داستانیں سننے کو مل رہی
ہیں اور جن کے لیے یہ آلات خریدے گئے ہیں ایک تو انہیں ابھی تک نہیں دیے
گئے اور دوسری بات یہ کہ وہ انتہائی ناقص اور غیر معیاری بھی ہیں جن میں سے
بہت سے اب تک خراب بھی ہوچکے ہیں میں نے اسی خریداری کے متعلق معلومات کے
حصول کے لیے ایک درخواست ڈائری نمبر 3758لگوا کر 2جون 2015کو جمع کروادی
محکمہ ڈی جی پی آر کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اپنے محکمہ کے باس کی عزت کا
خیال رکھتے ہوئے فوری طور پر نہیں تو کم از کم14دن کے اندر ہی اس خریداری
کے متعلق معلومات مجھے فراہم کردیتے مگر آج ایک ماہ سے اوپر وقت ہوچکا ہے
اور اس معاملہ میں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی کیونکہ ڈی جی پی آرمیں
اس سے قبل بھی اربوں روپے کے گھپلے ہوچکے ہیں جن کو پکڑنے کی کوشش اس وقت
کے ڈائریکٹرجنرل انٹی کرپشن پنجاب جناب عابد جاوید نے کی تھی مگر یہاں پر
بیٹھے ہوئے کرپشن کنگ افسران نے اپنے خلاف چلنے والی انکوائریاں نہ صرف
رکوا دی بلکہ عابد جاوید کا انٹی کرپشن سے تبادلہ ہی کروادیا اس محکمہ کے
سیکریٹری اطلاعت جناب مومن علی آغا جوآدم بیزار شخصیت ہیں ایسا لگتا ہے کہ
انکی اپنے محکمہ پر کوئی گرفت نہیں ہے وہ صرف وقت گذاری کے لیے اس عہدے کے
مزے لے رہے ہیں وزیر اعلی پنجاب کو نہ صرف اپنی میڈیا ٹیم کے حوالہ سے نظر
ثانی کرنی چاہیے بلکہ انکے اپنے زیر سایہ چلنے والے محکموں پر عوامی اراکین
اسمبلی کو وزیر بنا کر اس میں بہتری کی گنجائش پیدا کرنی چاہیے ورنہ جیسا
کام چل رہا ہے اس سے تو نہ چلنا بہتر ہے تاکہ کرپشن اور نااہلیت کا خاتمہ
ممکن ہوسکے کیونکہ وزیر اعلی کو اچھا یا برا ثابت کرنا انکی ٹیم کا کام
ہوتا ہے جو اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی اور نہ ہی ان میں سے کسی افسر کے
اندر اتنی جرات ہے کہ وہ اپنا نقطہ نظر شہباز شریف کے سامنے واضح اندااز
میں پیش کرکے سکے کا دوسرا رخ بھی دکھا سکے ۔ |