"اور تمھیں کیا معلوم ، شب قدر کیا ہے؟" سورۃ القدر کا
ایک سوال۔۔ جس کا جواب یہ دیا گیا کہ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یہ تو
ایک جواب تھا۔ دوسرا جواب یہ تھا کہ اس رات میں قرآن پاک کو نازل کیا گیا۔
لیکن سوال پھر یہی ہے کہ شب قدر کیا ہے؟ ہزار مہینوں سے بہتر ہے تو کس
حوالے سے۔ اس میں ایسی کیا خاص بات ہے جو کسی اور رات میں یا ان ہزار
مہینوں میں نہیں۔ کیا صرف قرآن پاک کا نزول ہی اسے خاص بنا گیا ہے؟ یا پھر
اس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کی ایک فوج لے کر اﷲ کے حکم سے
دنیا میں مختلف احکامات لے کر اترتے ہیں یا پھر اس لیے کہ یہ رات صبح تک
سلامتی کی رات ہے؟ دیکھیں قارئین کرام، اﷲ پاک کا انداز بیان۔ ایک چھوڑ ایک
مختصر سی صورت میں بظاہر تو تین مختلف عوامل بتا ئے گئے ہیں جن کی بنا پر
شب قدر کو ہزار مہینوں پر افضلیت دی گئی۔ اگر قرآن کی نزول کی بات کی جائے
تو اس سورت سے یہ علم نہیں ہوتا کہ یہ رات ماہِ رمضان میں ہی پائی جاتی
ہے۔لیکن قرآن ہی کی ایک اور آیت (نمبر ۱۸۵ ، سورۃ البقرہ )کہ " رمضان ہی وہ
مہینہ ہے جس میں اس قرآن کو نازل کیاگیا۔۔۔" اس بات کی گواہی ہے کہ قرآن کا
نزول جس رات میں ہوا ، وہ بابرکت رات ماہِ رمضان میں ہی پائی جاتی ہے۔
اس کا شانِ نزول یہ ہے کہ رسول پاک ﷺ نے ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے ایک مردِ
مجاہدو عابد کا واقعہ سنایا ۔ کہ وہ وہ شخص ہزار ماہ دن کو جہاد کرتا اور
رات کو اﷲ کی عبادت میں مصروف رہتا۔ تو صحابہ کرام ؓ کو حسرت ہوئی کہ کاش
ان کی عمریں بھی طویل ہوتیں کہ وہ بھی اﷲ کی عبادت اس طرح خشوع و خضوع سے
کرتے۔ اور دن کو اسی طرح اﷲ کی راہ میں تلوار کے جوہر دکھاتے۔ لیکن کم عمری
کی وجہ سے وہ کہاں سابقہ امتوں کے ان افراد کے ہم پلہ ہو سکتے ہیں۔اس پر اﷲ
تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرما کر اس امت پر ایک عظیم احسان فرمایا۔ اور اس
میں فرما دیا کہ ایک رات تمام سال میں ایک ماہِ رمضان میں ایسی ہے جو اس
طرح کے ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ صحابہ کرام تو عاشق تھے اس طرح کی عبادتوں
کے ، جہاد کے۔انھوں نے جی جان سے لبیک کہا اور ہو ش میں رہ کر بے خود ہو
گئے۔
شب قدر ہے کیا؟ قدر سے تقدیر بھی مشتق ہے۔ تو کہہ سکتے ہیں کہ اس رات کو
مسلمان اپنی تقدیر بنا سکتے ہیں۔ اپنے گناہوں کو مٹا سکتے ہیں۔ اپنی نیکیوں
کو بڑھا سکتے ہیں۔ جنت میں اعلیٰ مقام حاصل کر سکتے ہیں، پل صراط سے بجلی
کی مانند گزرنے کے لیے حل نکال سکتے ہیں۔ جہنم سے نجات پا سکتے ہیں۔ اپنے
والدین کی ، اپنے اہل و عیال کی مغفرت کرا سکتے ہیں۔ یہ قبولیت کی رات ہے۔
اس میں کی گئی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ شرط صرف اتنی سی ہے کہ خلوصِ دل سے دعا
مانگی جائے، جس میں کوئی ریا نہ ہو، کوئی دغا نہ ہو۔ دعا مانگتے ہوئے سامنے
صرف خدا ہو، کوئی دوسرا نہ ہو۔ دل میں خیال یا ر کا ہو تو یار بھی صرف خدا
ہو۔ دنیا داری کو پیٹھ پیچھے چھوڑ کر جب دعا کی جائے گی، آنکھوں سے آنسو
بہتے ہوں گے، سسکیاں ، آہیں ہونٹوں سے نکلتی ہوں گی اور اٹھتے ہوئے ہاتھ
کانپتے ہوں گے تو ایسے میں کی گئی دعا عرش کو کیوں نہ ہلائے گی۔ جب عرش ہلے
گا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اﷲ پاک اس دعا کو رد کر دے۔ ناممکن۔۔۔
یہ رات ملے گی کیسے؟ بس دس راتیں ہی تو کالی کرنی ہیں۔ کوئی مشکل نہیں۔ ہم
کئی کئی راتیں گناہ کی خاطر جاگ جاتے ہیں، چاہے وہ صغیرہ ہوں یا کبائر۔تو
صرف دس راتیں کیا ہم اس شب قدر کی تلاش میں نہیں جاگ سکتے۔ یاد رہے کہ یہ
جاگنا صرف بستر پر کروٹیں بدلنے کا نام ہی نہیں ہے۔بلکہ ان راتوں میں قرآن
کی تلاوت کو دماغ میں بٹھانا ہے، دل کی نگاہ سے اس کو دیکھنا ہے اور زبان
سے اس کو پڑھنا ہے اور اس طرح پڑھنا ہے کہ اقرار باللسان و تصدیق باالقلب
والی بات بن جائے۔ عبادت کرنی ہے تو اس طرح کہ پیشانی سجدے کر کر کے محراب
کا نشان واضح کر دے۔ رکوع میں پڑے پڑے کمر میں خم آجائے۔ قیام میں ہوں تو
پاؤں میں ورم آجائے۔جو بیٹھے قعدہ میں تو آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گریں اور
دامن کو اس قدر تر کر دیں کہ جب نچوڑا جائے تو فرشتے وضو کریں۔ پھر جو دعا
کے لیے بارگاہِ ربِ کائنات میں ہاتھ اٹھیں تو ہونٹ ساکن ہوں اور دل سے دعا
نکل رہی ہو اور آنکھوں کے آنسوؤں کے رستے فضائے محیط کو چیرتی ہوئی عرشِ
بریں تک پہنچے اور وہاں سے صدا آئے۔۔۔ لبیک یا عبدی، لبیک۔۔۔ می حاضر ہوں ،
میرے بندے، میں حاضرہوں۔
کتنے سادہ لوگ ہیں جو بڑوں نے بتایا، اس کو آمنا و صدقنا کہہ دیا۔ کبھی خود
سے تحقیق نہیں کی۔ جب انھیں کہا گیا کہ بھائی شب قدر رمضان کی ۲۷ تاریخ کو
نہیں آتی بلکہ رمضان کے آخری عشرے کی کوئی سی بھی طاق رات ہو سکتی ہے۔ لیکن
جو ان کے دماغ میں بیٹھ گیا، سو بیٹھ گیا۔ رسول پاک ﷺ کے واضح احکامات کے
باوجود لوگوں کی اکثریت ۲۷ ویں رمضان کو جاگ کر اﷲ کی عبادت کرتی ہے۔ ویسے
تو ہر رات کو ہی اﷲ کی عبادت کرنی چاہیے کہ ہمیں اﷲ نے اپنی عبادت کے لیے
پیدا کیا ہے۔ اور عبادت کا مقصد معرفت الٰہی حاصل کرنا ہے۔ورنہ تو بقولِ
اقبال ۔۔ ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں۔۔
جیسا کہ حدیث قدسی میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ: میں ایک چھپا ہوا خزانہ
تھا۔ میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا تاکہ
میری پہچان ہو۔ انسان کی تخلیق کا اصل مقصد اور اس کی عبادات کا مغز اﷲ کی
پہچان ہے' جس نے اس مقصد سے رو گردانی کی بے شک وہ بھٹک گیا۔ نہ دین ہی اس
کا ہوا نہ دنیا۔ مرنے کے بعد قبر میں انسان سے پہلا سوال یہ پوچھا جائے
گا'''' بتا تیرا رب کون ہے؟جس نے اپنے ربّ کی پہچان ہی حاصل نہ کی ہو گی وہ
اس سوال کا کیا جواب دے پائے گا۔ - اور رب کی پہچان کا سب سے اولین طریقہ
اس کی عبادت کرنا ہے۔
رمضان کے روزوں کے بارے میں اﷲ پاک فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں
ہی اسکی جزا دوں گا۔۔ ایک دوسری جگہ اسطرح فرمایا گیا ہے کہ میں ہی اسکی
جزا ہوں۔ جب رمضان کے روزے کی یہ فضیلت ہے تو اس ماہِ مبارک میں بدنی عبادت
یعنی رکوع و سجود کی کیا جزا ہوگی۔ اور پھر جب رب خود فرماتا ہے کہ ایک رات
میں نے اسی بنا دی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے تو اس رات میں رب کی بارگاہ
میں رکوع و سجود میں پڑے رہنے کا ثواب بھی شاید ہزار درجے زیادہ ہو۔ جب
ہمیں یہ نہیں معلوم کہ شب قدر کون سی رات ہے تو کیا یہ زیادہ بہتر نہیں کہ
بجائے اک رات کے رمضان کے آخری عشرے کی ہر رات کو عبادت کی جائے نہ کہ صرف
ستائیسویں رات کو یا ہر طاق رات کو۔ جس طرح دنیا میں وقت کے فرق کی وجہ سے
تاریخ آگے پیچھے ہوتی ہے، اسی طرح آج سعودیہ میں اگر انیسواں روزہ ہے تو
پاکستان میں اٹھارواں ہو گا (یہ مثال دی ہے)۔ تو کیا ہی بہتر ہو کہ ہر رات
کو اسی طرح عبات کی جائے جس طرح عبادت کا حق ہے۔اس رات کا تعین یقینا اسی
لیے نہیں کیا گیا کہ بندہ پورے خشوع و خضوع سے ، تمام دنیا کو پسِ پشت ڈال
کر، پوری مستی کے عالم میں یعنی عالمِ جذب میں ڈوب کر کچھ اس طرح رب کی
عبادت کرے کہ اﷲ خود فرشتوں سے کہے دیکھو اسے کہتے ہیں عشق۔۔ پھر جب عشق کی
معراج نصیب ہو تو بندہ پکار اٹھے کہ واقعی شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ |