مخدومی و مرشدی جنت مکانی قبلہ
سید غلام حضور کے علمی وادبی ذخیرے سے ملنے والی کتاب' اظہار محمدی منظور
احمدی' کب اور کس سن میں شائع ہوئی' ٹھیک سے کہا نہیں جا سکتا۔ اس پر تاریخ
اور سن درج نہیں ہے۔ ہاں پبلیشر کا نام ..... فقیر فضل حسین تاجر کتب ابن
حاجی علاؤالدین مرحوم ساکن پتوکی نوآباد ضلع لاہور..... درج ہے۔ پتوکی
نوآباد ضلع لاہور سے یہ بات وضح ہوتی ہے کہ اس چوبیس صفحے کی اشاعت' اس وقت
ہوئی' جب پتوکی نیا نیا آباد ہوا تھا۔
اس میں مولوی احمد یار کی پنجابی مثنوی' مرزا صاحبان کا کچھ حصہ درج ہے۔
گویا یہ ان دنوں کی بات ہے' جب وہ زندہ تھے اور مثنوی مرزا صاحبان تحریر کر
رہے تھے۔ یہ کلام ص10 تک ہے۔ ص14-15 پر سترہ پنجابی اشعار پر مشتمل کافی
بھی ہے۔ گویا مولوی احمد یار پنجابی کافی بھی کہتے تھے۔ پنجابی میں ان کی
صرف مثنوی مرزا صاحبان پڑھنے کو ملتی ہے۔
کتاب کے بقیہ صفحات پر' مولوی غلام محمد کا اردو پنجابی اور فارسی کلام
شامل ہے۔ سرورق پر موجود معلومات کے مطابق' مولوی غلام محمد قسمانہ ساکن
صابا تحصیل دیپالپور تھانہ حجرہ ضلع منٹگمری حال ساہی وال کے تھے۔ ص11-12
پر ریختہ کے نام سے کلام درج ہے۔ یہ کل نو شعر ہیں۔ انہوں نے لفظ ریختہ
زبان کے لیے لکھا ہے یا اردو غزل کے لیے' واضح نہیں۔ پہلا پانچواں اور آخری
شعر غزل کے مزاج کے قریب ہے۔ غزل کے باقی اشعار' مروجہ عمومی مزاج سے لگا
نہیں رکھتے۔ ہاں غزل میں صوفیانہ طور' صوفی شعرا کے ہاں ضرور ملتا ہے۔
نہ ملتا گلرخن سے دل میرا مسرور کیوں ہوتا
نہ اس نرگس کوں دیکہتا رنجور کیوں ہوتا
نہ پڑتا پرہ تو حق کا اگر رخسار خوباں پر
تو ہر عاشق کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوتا
مقیم اس دام زلفمیں نہ بھنستا اگر دل تیرا
تو سر گردان تاریکی شبے رتجور کیوں ہوتا
ص13 پر ایک خمسہ ہے' جسے مولود شریف کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے مولود
شریف شیخ سعدی صاحب کے چار شعر دیئے گیے ہیں۔ اردو مولود شریف کے بعد'
مولود شریف مولوی جامی صاحب کے' نو شعر درج کیے گیے ہیں۔ آخر میں مولود
شریف کے عنوان سے' نو شعر درج کیے گیے۔ ص 19 پر موجود کلام کو کافی کا نام
دیا گیا ہے۔ اس کلام کو نہ پنجابی کہا جا سکتا اور ناہی اردو' تاہم بعض شعر
اردو کے قریب تر ہیں۔ دو ایک شعر باطور نمونہ ملاحظہ ہوں۔
کائی کہو سجن کی بات جن کے پریم لگائی چاٹ پہلا شعر
سلیمان نبی بلقیس نہ ہو ہک آہی مطلق ذات پانچواں شعر
بحر محیط نے جوش کیا تب نوروں ہویا خوش کیا چھٹا شعر
کامل پیر پناہ ہمارا موم کرے دل لوہا سارا چھبسواں شعر
دو غزلیں فارسی کی ہیں۔ اوپر عنوان بھی دیا گیا ہے
غزل مولوی غلام محمد از صابا
اے بنات تو مزین مسند پیغمبری وے خجل گشتہءرویت آفتاب خاوری
مطلع فارسی غزل ص 12
غزل از غلام محمد صاحب
جاں فدائے تو یا رسول الله دل گدائے تو یا رسول الله
مطلع فارسی غزل ص 23
پنجابی کلام کے لیے' لفظ کافی استعمال ہوا ہے۔ داخلی شہادت سے یہ بات واضح
ہوتی ہے' کہ لفظ ریختہ اردو غزل کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔ دلی وغیرہ میں
جو مشاعرے ہوا کرتے تھے' ان کے لیے دو اصطلاحات رواج رکھتی تھیں۔ فارسی
کلام کے لیے مشاعرے' جب کہ اردو کلام کے لیے' لفظ مراختے رواج رکھتا تھا.
لفظ اردو محض شناخت کے لیے لکھ رہا ہوں' یہ لفظ عمومی رواج نہ رکھتا تھا۔
اس صورت حال کے پیش نظر' غالب کے ہاں استعمال ہونے والا لفظ ریختہ' گڑبڑ کا
شکار ہو جاتا ہے۔ مولوی غلام محمد پہلے کے ہیں' عہد غالب کے ہیں یا بعد کے'
بات قطعی الگ تر ہے۔ مشاعروں میں زیادہ تر غزلیہ کلام سنایا جاتا تھا اور
آج صورت حال مختلف نہیں۔ گویا غزل کے لیے لفظ ریختہ' جب کہ مشاعرے کے لیے
لفظ مراختہ استعمال ہوتا تھا۔ لامحالہ زبان کے لیے کوئی دوسرا لفظ استعمال
ہوتا ہوگا۔ اس حساب سے غالب کے ہاں بھی غزل کے معنوں میں اسستعمال ہوا ہے۔
اگر یہ صاحب' غالب کے بعد کے ہیں' تو اس کا مطلب یہ ٹھہرے گا کہ لفظ اردو
باطور زبان استعمال ہوتا ہو گا لیکن عمومی مہاورہ نہ بن سکا تھا۔ اس کا
عمومی مہاورہ بننا بہت بعد کی بات ہے۔
لفظوں کو ملا کر لکھنے کا عام چلن تھا۔ اس کتاب میں بھی یہ چلن موجود ہے۔
مثلا
جب نیکی بدی تلے گی ہمسے کجہ نہیں غم ہم سے ص 13
تو ہر عاشق کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوتا آنکہون میں ص 12
دو چشمی حے کی جگہ حے مقصورہ کا رواج تھا۔ مثلا
نہوتا سر مولے کا اگر کجہ ذات انسانمیں
بہت سے لفظوں کا تلفظ اور مکتوبی صورت آج سے الگ تھی۔ مثلا
نہوتا بھیت اسمیں خورشید فدا کا
بھیت بھید ص 11
ولیوں کے کاندہے قدم غوث اعظم
کاندہے کندھے ص 24
تو سر گردان تاریکی شبے رتجور کیوں ہوتا
میں اضافت کی بجائے ے کا استعمال کیا گیا ہے۔
شاعر نے خوب صورت مرکبات سے بھی کلام کو جازب فکر بنانے کی سعی کی ہے۔ مثلا
حسن منظور
تو ہر عاشق کی آنکونمیں حسن منظور کیوں ہوتا ص 12
ستارہ محمدی
غالب سب سے آیا ستارہ محمدی ص13
مستعمل سب پہ ہے لیکن سب سے استعمال کیا گیا ہے۔
مرکب لفظ دیکھیے
خداگر
عمر گر عدالت خداگر نہ کرتے ص 24
کلام میں ریشمیت کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ مثلا
نہ پڑتا پرتوہ حق اگر رخسار خوباں پر
تو ہرعاشق کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوتا ص 12
کیا زبردست طور سے صنعت تضاد کا استعمال ہوا ہے۔
تو دین اورکفر میں جدائی نہ ہوتی ص 24
صنعت تضاد کی مختلف نوعیت کی دو ایک مثالیں اور ملاحظہ ہوں۔
نہ ملتا گلرخن سے دل میرا مسرور کیوں ہوتا
نہ اس نرگس کوں دیکہتا رنجور کیوں ہوتا ص 12
جہاں صنعت تضاد کا استعمال ہوا ہے' وہاں اردو زبان کو دو خوب صورت استعارے
بھی میسر آئے ہیں.اگر مختار ہو آدم آپن کے خیر وشر اوپر
تو دانہ کھا کے گندم کا جنت سے دور کیوں ہوتا ص 12
اشعار تلمیحات سے متعلق ہوتے ہی۔ تلمیحات کا استعمال اسی حوالہ سے ہوا ہے۔
اس ذیل میں دو ایک مثالیں ملاحظہ ہوں۔
اگر مختار ہو آدم آپن کے خیر وشر اوپر
تو دانہ کھا کے گندم کا جنت سے دور کیوں ہوتا ص 12
لکھی تہی لوح پر لعنت پڑھی تھی سب فرشتوں نے
اگر یوں جانتا شیطاں تو وہ مغرور کیوں ہوتا ص11
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دو چشمی حے کا استعمال ہی نہیں ہوتا تھا۔ دو ایک
مثالیں ملاحظہ ہوں۔
لکھی تہی لوح پر لعنت پڑھی تھی سب فرشتوں نے ص 11
بھیت سجن کی خبر لیاوے ص 19
تو ہم عاجزوں کی رھائی نہوتی ص 24
زبان کا مہاورہ بھی برا اور ناموس نہیں۔ مثلا
کیا دعوئے اناالحق کا ہویا سردار کیوں ہوتا ص11
کائی کہو سجن کی بات
جن کے پریم لگائی چاٹ ص19
گذر گیا سر توں پانی ص20
اس شعری مجموعے کے اردو کلام پر' پنجابی کے اثراات واضح طور پر محسوس ہوتے
ہیں۔ بعض جگہ لسانی اور کہیں لہجہ پنجابی ہو جاتا ہے۔ مثلا
نہ ہوتا بھیت اسمیں اگر خوشید ذرہ کا ص 11
تو ہر ذرہ انہاں خورشید سے پرنور کیوں ہوتا ص12
ہک لکھ کئی ہزار پیغمبر گذر گئے ص 13
اب لہجے سے متعلق ایک دو مثثالیں ملاحظ ہوں۔
جب نیکی بدی تلے گی ہمسے کجھ نہیں غم ص 13
علی کو جے مشکل کشا حق نہ کرتے ص 24
اردو پر ہی موقوف نہیں' پنجابی بھی اردو سے متاثر نظر آتی ہے۔ مصرعے کے
مصرعے اردو کے ہیں۔
کہیں میراں شاہ جیلانی ہے کہیں قطب فرید حقانی ہے
کہیں بہاؤالدین ملتانی ہے کہیں پیر پناہ لوہار ص 19
اس چوبیس صفحے کی مختصر سی کتاب سے' یہ بات واضح ہوتی ہے' کہ مولوی غلام
محمد آف صابا تین زبانوں کے شاعر تھے. مختلف اردو اصناف میں شعر کہتے تھے
اور اچھا کہتے تھے۔ ان کا کلام کیا ہوا اور کدھر گیا' کھوج کرنے کی ضرورت
ہے۔ |