عزیزہ آشا پربھات نے اپنا
مجموعہءکلام۔۔۔۔۔ مرموز۔۔۔۔۔۔ ان الفاظ کے ساتھ عطا کیا۔
صف اول کے فعال ادیب' نقاد اور دانشور محترم بھائی صاحب کو احترام کے ساتھ
آشا پربھات
8 اگست 1996
میں نے کچھ لکھا بھی تھا اور وہ کہیں شائع بھی ہوا تھا۔ باوجود کوشش کے' وہ
لکھا دستیاب نہیں ہو پا رہا۔ کلام آج انیس سال بعد' دوبارہ پڑھنے میں آیا
ہے' میں بڑی سنجیدگی اور دیانت داری سے' محسوس کر رہا ہوں' اس پر لکھا جانا
چاہیے۔
مرموز 1996 میں' پبلشرز اینڈ ایڈورٹائزرز جے 6 کرشن نگر دلی سے' شائع ہوا۔
ٹائیٹل بیک پر' آشا پربھات کی تصویر تعارف اور ان کے کلام پر اظہار خیال
بھی' کیا گیا ہے۔ انہوں نے' اپنے کسی خط میں' لکھنے والے کے متلعلق بتایا
ہو گا۔ اب اس خط کا ملنا' آسان نہیں۔ اس تحریر کے مطابق' آشا پربھات کی
ولادت رکسول' بہار میں ہوئی۔ ان کا ناول۔۔۔۔۔ دھند میں اگا پیڑ۔۔۔۔۔ ماہ
نامہ منشور کراچی میں شائع ہوا' جو بعد میں' کتابی شکل میں بھی شائع ہوا
تھا۔ انہوں نے' مہربانی فرماتے ہوئے' ایک نسخہ مجھ ناچیز فانی کو بھی'
عنایت کیا تھا۔ ان کا ایک مجموعہء شعر ۔۔۔۔۔۔ دریچے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زبان کے'
دیوناگری خط میں بھی شائع ہوا تھا۔ ان کا ایک ہائیکو پر مشتمل
مجموعہ۔۔۔۔۔گرداب۔۔۔۔۔۔ زیر اشاعت تھا۔
ان کی شاعری سے متعلق کہا گیا ہے۔
اسلوب اور ہیئت کے اعتبار سے ان کی نظمیں شعری ادب کے سرمائے میں ایک نئے
باب کا اضافہ کرتی ہیں۔
اس مجموعے میں' کل اکسٹھ شعر پارے شامل ہیں' جن میں سولہ غزلیں اور پانچ
اوپر چالیس نظمیں شامل ہیں۔ آشا بنیادی اور پیدائشی طور پر' دیوناگری رسم
الخط سے متعلق ہیں' لیکن اردو رسم الخط سے' ان کی محبت عشق کی سطع پر نظر
آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے۔
اردو میری محبوب ہے اور میری محبوب کی آنکھوں میںدھنک کے تمام رنگ لہراتے
ہیں۔
ان کا کہنا' کہنے کی حد تک نہیں' مرموز اس کی عملی صورت میں موجود ہے۔
واقعی اردو سے وہ عشق کرتی ہیں۔
اس کاوش فکر کا ابتدائیہ' جو آشا پربھات کا لکھا ہوا ہے' سچی بات ہے' دل کے
نہاں گوشوں میں بھی' ارتعاش پیدا کرتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
اس کاوش فکر کا ابتدائیہ جو آشا پربھات کا لکھا ہوا ہے سچی بات ہے دل کے
نہاں میں بھی ارتعاش پیدا کرتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
مجھے نہیں معلوم شاعری کیا ہے۔ شعری آہنگ کیا ہوتا ہے۔ شعری شعور کیا ہے
اور داخلی عوامل سے یہ کس طرح ترتیب پاتا ہے۔ میں بس اتنا جانتی ہوں کہ
دھند صرف پہاڑوں پر نہیں ہوتی آدمی کے اندر بھی پھیلتی ہے۔ سمندر لہراتا
ہے۔ دریا موجزن ہوتا ہے۔ طوفان اٹھتے ہیں' پھول کھلتے ہیں' خوشبو پھیلتی ہے
اور جب بھی میں ان کیفیتوں سے گزرتی ہوں تو لفظوں کا سہارا لیتی ہوں اور
محسوسات کے پراسرار دھندلکوں میں الفاظ کی قندیل جلاتی ہوں لیکن الفاظ دور
تک میرا ساتھ نہیں دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے نزدیک شاعری قندیل جلانے کا عمل ہے۔ مجھے نہیں معلوم میری قندیل کی
روشنی محسوسات کی کس سطع کو چھوتی ہے۔ لیکن کیا یہ کم ہے کہ میں نے قندیل
جلائی ہے اور جلائے رکھنے کا عزم رکھتی ہوں۔
یہ زبانی کلامی کی باتیں نہیں' مرموز کے مطالعے کے بعد' یہ تمام کیفیات
پڑھنے کو ملتی ہیں۔
لفظ بہ مثل قندیل روشن رہتے ہیں
دل کے نہاں خانوں میں
تم موجود ہو
آکاش میں شبد کی طرح
نظم آکاش میں شبد ص9
دھند آدمی کے اندر بھی پھیلتی ہے۔
اب کسی بھی آنکھ میں
پہچان کی خوشبو نہیں
چوباروں کے دیئے
کب کے بجھ چکے ہیں
بہت جان لیوا سناٹا
وہاں لیٹا رہتا ہے
نظم گاؤں کا المیہ ص 12
اس ضمن میں ایک اور مثال ملاحظہ ہو۔
ہر سو
دھند کا پہرہ ہے
رات خاموش ہے
مٹ ملی چاندنی
اتر آئی ہے میرے آنگن میں
نظم۔ میری اداس آنکھیں ص27
جذب و احسات کا اٹھتا طوفان اور ردعملی پکار ملاحظہ ہو
روک لو
ان وحشی درندوں کو
ان کی کنٹھاؤں کے
تیز ناخونوں کو توڑ ڈالو
یہ نہیں جانتے
بارود کی ڈھیر پر بیٹھ کر
خود ماچس جلانے کا انجام
یہ نہیں جانتے
جھلستے ہوئے انسانوں کے المیہ کو
جنگ ص70 نظم۔
موجزن دریا اور لہراتے سمندر کی کیفیت ملاحظہ ہو
تمہاری چھوی ابھرتی ہے
ایک روش ہالہ کی طرح
اور ایک شکتی بن کر
میری روح میں سما جاتی ہے
میں جی اٹھتی ہوں
امبربیل کی طرح
پلکیں جھپک اٹھتی ہیں
توانائی کا بےکراں سمندر
لہرا اٹھتا ہے میرے انگ انگ میں
نظم تنہائی ص 16
احساس کی کہانی ملاحظہ ہو
میرے اندر
کہیں چپ سی پڑی ہے
ایک ننھی چڑیا
وہ اب نہیں پھدکتی
نہیں چہکتی
نہ ہی بارش میں
اپنے پر بھگوتی ہے
نظم ننھی چڑیا ص24
لفظوں کی مسکان اور خوش بو ملاحظہ ہو۔
آبگینے سے زیادہ نازک لمحوں کے بیان کے لیے لفظوں کا انتخاب آشا کو خوب خوب
آتا ہے۔ ذرا یہ لائینیں ملاحظہ ہوں۔
تمہاری آواز کی نمی
ہمیشہ کی طرح
اس بار بھی گمراہ کر گئی
میں اس موڑ پر ہوں
جہاں سے واپس مڑ گئی تھی
نظم تمہاری آواز کی نمی ص37
آشا محاکات کی تشکیل میں کمال رکھتی ہیں۔ مثلا
حسب معمول
اس بار بھی تم
میرے چہرے کا
اپنے ہاتھوں سے
کٹورا سا بناؤ گے
میرے لب چومو گے
اور بھر دو گے میرے آنچل کو
عہد و پیماں کے جگنوؤں سے
نظم میرے لب سلے ہیں ص 32
آشا کے ہاں' تشبیہات کا بالکل نئے طور اور نئی زبان کے ساتھ استعمال ہوا
ہے۔ چند ایک مثالیں ملاحظہ ہوں
دل کے نہاں خانوں میں
تم موجود ہو
آکاش میں شبد کی طرح
نظم آکاش میں شبد 9
تمہارے سارے خیالات
نیم خوابیدہ ہنسی کی طرح
میرے ہونٹوں پر پھیل جائیں گے
تنہائی ص 15
شوخ لہریں
سرکشی کرتی ہیں کناروں سے
سانپ کے کینچل کی طرح
نظم تمہارے جانے کے بعد ص17
تمہاری نرم انگلیوں کا مخملی لمس
جیسے
بند شیشوں سے باہر گرتی
مسلسل برف باری کا سلسلہ
نظم ایک احساس ص78
اور سکھ
معصوم بچے سا
کونے میں دبک کر
سو گیا ہے
نظم ریت کی ندی 85
تلمیح کا استعمال اور استعمال کی زبان' ملاحظہ ہو۔
ریت کی ندی بہتی ہے۔۔۔۔۔
گرم ریت میں پھنس گیا ہے کہیں
سوہنی کا گھڑا
نظم ریت کی ندی ص85
اٹھو
ہاتھ بڑھاؤ
اور
صلیب پر ٹنگے نصیب کو اتار لو
صلیب پر ٹنگے نصیب ص69 نظم
مندر کی روشنی میں
مسجد کی روشنی میں
کیوں کہرا بڑھ رہا ہے
کیوں کہرا چھا رہا ہے
نظم سانپ کو پکڑ لو ص60
بہت دن ہوئے
جب یوکلپٹس کے پیڑوں کی طرح
دن اگتا تھا
نظم بہت دن ہوئے ص10
سماج کی عمومی چیزیں بھی' استعمال میں لاتی ہیں اور یہ ہی' اس کی نظم کے
لسانی حسن کا سبب بنتی ہیں۔
آٹا گوندھنے کے درمیان
نظم تمہاری یاد ص92
........
کھڑکیوں اور دروازوں کے مخملی پردے
........
ہانڈیوں میں دانے
اکیسویں صدی ص72-73 نظم
.......
گلی ڈنڈے اور
بچوں کے ہجوم
وقت پیرہن بدلتا ہے ص90-91 نظم
.......
چوپالوں میں بجھے ہوئے گھوروں کی راکھ
نظم گاؤں کا المیہ ص13
آشا نے زبان کو مختلف نوعیت و حیثیت کے مرکب فراہم کیے ہیں۔ یہ اردو کی
لسانی و فکری ثروت کا سبب بنے ہیں۔ مثلا
کرب گل ص54
نیم خوابیدہ ہنسی ص14
خرگوشی لمس ص20
مٹ ملی چاندنی ص27
من کا سناٹا ص58
لفظوں کا پل ص67
سکھ کا چل ص85
دہشت کے سائے ص46
تلوار کے قلم ص61
موت کی دستک ص47
کہرے کی دیوار ص47
جھینگر کی جھنکار ص78
ریت کی ندی ص85
خیالوں میں اڑان ص66
آشا کی زبان کا مہاورہ بھی فصیح وبلیغ ہے۔مثلا
وقت پیرہن بدلتا ہے
زخم بھر جاتےہیں ص41
آکاش نے
اپنا پریچے کھو دیا ہے
وقت موک بنا
ٹھگا سا دیکھتا رہ گیا ہے ص 88
جو جتنا ماہر ہے
اتنا بھوگتا ہے اسٹیج کا سکھ ص86
اور سپنے
نیم وا آنکھوں سے
چھلک پڑے ص82-83
کوئی احساس
کوئی درد تمہارےپیروں کی
بیڑی نہیں بن سکا ص35
میرے اندر چپ سی پڑی ص24
خیالوں میں اڈان بھرو گے ص66
میرا پچھتاوا مکھر ہو اٹھا ہے ص56
آشا کے ہاں' زبان اور زبان کا لب و لہجہ اور ذائقہ الگ پڑھنے کو ملتا ہے۔
غیر محسوس اور رونی میں' علامتوں اور استعاروں کا' استعمال متاثر کرتا ہے۔
مثلا
توانائی کا بےکراں سمندر ص16
درد چلتا ہے دبے پاؤں ص79
ماں کی چھاتیوں کا سمندر ص73
لفظوں کا پل ٹوٹ گیا ص67
کہر کی دیواروں کے بچ ص47
اس خاموشی کے شکنجہ میں
فقط جان بہ لب تھا میرا ایمان ص55
آشا کے ہاں' اس عہد کی سچی تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں' ساتھ میں' اس عہد
کے شخص کے لیے پیغام بھی ہے۔ باطور مثال یہ نظم ملاحظہ ہو.
صلیب پر ٹنگے نصیب
اٹھو
ہاتھ بڑھاؤ
اور
صلیب پر ٹنگے نصیب کو اتار لو
وہ بھی مضبوط ارادوں کی
راہ دیکھتا ہے
زندگی کو دان کی
پیٹی مت دو
کسی آدھے ادھورے
مندر کی بنیاد پر رکھی
دان کی پیٹی
جس میں
مجبوری یا ڈر سے
ڈال جاتا ہے کوئی
پانچ پیسے دس پیسے
غرض آشا پربھات کی شاعری' اپنے وجود میں' فکری اور لسانی اعتبار سے' قابل
توجہ توانائی رکھتی ہے اور اسے نظر انداز کرنا' مبنی برانصاف نہ ہو گا۔ غژل
چوں کہ نظم سے' قطعی الگ صنف سخن ہے' اسی لیے اسے' کسی دوسرے وقت کے لیے
اٹھا رکھا ہے۔ |