آج کے سجادہ نشین
اسلام مکمل خود سپردگی کا نام ہے، یہ ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے، خود سپردگی
کی کیفیت جس قدر فزوں تر ہوگی، اسی کے مطابق ایمان واسلام میں استحکام پیدا
ہو گا.
اسلامی شریعت کا اساسی اور امتیازی پہلو یہ ہے کہ یہاں توریث کا کوئی تصور
نہیں، یعنی کسی جنتی کا بیٹا جنتی ہی ہو یا کسی جہنمی کا بیٹا جہنمی ہی ہو،
یہ ضروری نہیں.
نوح علیہ السلام کی چہار دیواری سے کا فر بیٹے کے خروج اور فرعون امت ابو
جہل کے گھر سے سالار عسکر عکرمہ کی پیدائش کو کسی اساطیری زاویے سے دیکھنے
کے بجائے، اللہ کی کائنات کے عبرت انگیز اسباق کے طور پر از بر کیا جانا
چاہیے...
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی تصور دین کو لوگوں تک پہنچایا. یہی
وجہ ہے کہ یار غار ہونے کے باوجود صدیق اکبر زندگی بھر خوف الہی سے لرزاں
ترساں رہے، فاروق اعظم کی آنکھیں کبھی خشک نہیں ہوئیں،جامع القرآن قبروں پر
نظر پڑتے ہی بے سدھ ہو جاتے اور مولی علی راتوں میں' یتململ تململ السلیم'
کی تصویر نظر آتے.
بنت رسول اللہ ہوتے ہوئے فاطمہ ورع و تقوی میں اگلی خواتین کے لیے نمونہ
ثابت ہوئیں، سبط پیغمبر ہونے کے باوجود حسنین کریمین نے استقامت علی
الشریعہ کی تاریخ بنا ڈالیں...(رضوان اللہ علیہم اجمعین)
حضرات سادات صوفیہ نے اپنے اصحاب کے درمیان اسی عقیدے کو عام کیا اور عملا
بھی اسی کو برتتے رہے...
بعد کے زمانے میں جب خانقاہوں میں زوال آیا ... تو شیوخ اور پیر زادگان نے
مکافات عمل کو پس پشت ڈال دیا، قہار و جبار کے بطش شدید کی ہیبت ناک قرآنی
وعید ان کے اندر ایمانی ہیجان نہ پیدا کر سکی... پیر زادوں کے حواس میں غوث
ابن غوث اور قطب ابن قطب کی سوچ چور دروازے سے داخل ہوگئی...اس نسل پرستی
کی وجہ سے ہر بڑے پیر کا فرزند قطبیت کے درجے سے کم پر راضی نہیں ہوا...
کیونکہ ان کے خیال میں یہ گھر کی موروثی چیز تھی جسے گھر میں ہی رکھنا
ضروری تھا...
قدیم مشائخ کے بر عکس اب تزکیہ و تطہیر، عبادت و ریاضت، خوف و خشیت اور ورع
تقوی جیسے اوصاف پیر زادوں کے لیے لایعنی بن گئے... کیونکہ حلقوں نے ان کو
"مادر زادولی" بنا کے چھوڑا....
شفاعت کے نام پر بے عملی اور نسبت کے نام پر عیش پرستی کا بزنیس بہت کامیاب
ہوا...
کسی میں یہ جرات کہاں کہ ان کی بے عملی پر تنبیہ کر سکے... کیو نکہ حلقہ
بگوشوں کو مکتب عشق کا اول کلیہ یاد کرایاگیا تھا کہ 'باادب با نصیب بے ادب
بے نصیب' ...
عظیم المرتبت مشائخ کی مسندیں جب ان ہوس پرستوں کا نشیمن بنیں.... تو
خانقاہیں جہاں کی فضائیں ایمان، اسلام اور احسان کی خوشبووں سے معطر
تھیں... اب وہاں مشائخ کے ارمانوں کا خون تھا.... تصوف کی منہدم عمارت کا
ملبہ تھا.....اور اسلامی تعلیمات کا سر عام مذاق بنانے والے دنیا پرستوں کے
فلک شگاف قہقہے...
(نوٹ ): ان اصلی خانقاہوں اور استانوں سے معذرت کیساتھ جو اپنا کام حسن
طریقے سرانجام دے رہے ہیں ) |