لیلتہُ القدر۔ رحمتوں ، برکتوں اور دعاؤں کی قبولیت کی رات

 
قرآن کریم رمضام لمبارک میں نازل ہونا شروع ہوا ،اس کی مختلف آیات مختلف اوقات میں بتدریج نازل ہوئیں۔سورة البقرہ کی آیت 185ترجمہ ” رمضان کا مہینہ (روزوں کا مہینہ)ہے جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے“۔ جس طرح قرآن اور اسلام کے احکامات بتدریج عائد ہوئے اسی طرح روزے کی فرضیت بھی بتدریج عائد کی گئی۔رسول عربی آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابتدا میں مسلمانوں کو صرف ہر ماہ تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی، مگر یہ روزے فرض نہ تھے۔ یہ ابتدائی حکم تھا جو رمضان کے روزوں کے متعلق 2 ہجری میں جنگ بدر سے پہلے نازل ہوا تھا۔ اس میں اتنی رعایت رکھی گئی کہ جو لوگ روزے کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور پھر بھی روزہ نہ رکھیں ، وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کوکھانا کھلادیا کریں۔ ایک سال بعد ایک اور آیت نازل ہوئی جس میں رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا، اور یہ عام رعایت منسوخ کردی گئی۔ لیکن مریض اور مسافر اور حاملہ یا دُودھ پلانے والے عورت اور ایسے عمر رسیدہ لوگوں کے لیے، جن میں روزہ رکھنے کی استطاعت نہ ہو، اس رعایت کو بدستور باقی رہنے دیا گیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ بعد میں جب عذر باقی نہ رہے تو قضا کے اتنے روزے رکھ لیں جتنے رمضان میں اُ س سے چھوٹ گئے تھے۔

قرآن کریم کی سورة ’القدر‘ جو کہ مکی سورة ہے میں بہت واضح الفاظ میں قرآن کے شبِ قدر میں نازل ہونے کا ذکرہے ۔ ترجمہ :
” ہم نے اِس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل (کرنا شروع ) کیا ۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟۔ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہترہے۔ اس میں رُوح (الامین) اور فرشتے ہر کام کے( انتظام کے) لیے اپنے پروردگار کے حکم سے اُترتے ہیں۔یہ( رات) طلوعِ فجر تک (امان اور) سلامتی ہے“۔

قرآن کی ’سورةُ القدر‘ نزولِ قرآن، اس رات کی عظمت اور تعظیم و اہمیت کے لیے کافی ہے۔ سورة القدر کے علاوہ سورة بقر ہ میں بھی ارشاد ربانی ہے ”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا“، اسی طرح سورة دُخان کی آیت 3میں اسی رات کو مبارک رات کہتے ہوئے فرمایا ”ہم نے اسے (قرآن) ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے“۔ اﷲتبارک وتعالیٰ نے ایک سے زیادہ بار قرآن کے اس مبارک رات میں اتار نے اور اس رات کو مبارک رات کہا ہے۔ اس رات میں کلام مجید کے نزول کے دو مطلب مفسرین نے بیان کیے ہیں ایک یہ کہ لیلتہُ القدر میں پورا قرآن جبرائیل علیہ السلام کے حوالے کردیا گیا اوراﷲ تعالیٰ نے انہیں ہدایت کردی کہ وہ وقت، حالات ، ضرورت کے مطابق وقتاً فوقتاً 23سال کے دوران اس کی آیات و سورتیں محبوب سبحانی حضرت محمد ﷺ پر نازل کرتے رہیں۔ دوسرا مطلب مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ پر قرآن کے نزول کا آغاز اور ابتدا اس رات سے ہوئی۔ پھر23 برس تک اﷲ تعالیٰ وقت، حالات اور ضرورت کے مطابق قرآنی آیات و سورتیں اپنے محبوب پر نازل کرتا رہا۔ دونوں مطالب کی صورتوں میں لیلتہُ القدر میں قرآن کا نزول اس رات کو دیگر تمام راتوں سے معتبر ، محترم اور عقیدت کا حامل بنا تا ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے لیلتہُ القدر کی صورت میں امتِ رسول ﷺ پر ایک انعام و اعزاز عطا فرمایا ۔ اس متبرک رات میں نفلی عبادات اور سنتوں کی ادائیگی کا ثواب فرضی عبادات کے مثاوی عطا کیا جاتا ہے۔ اس رات میں عبادت کے بدلے اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے کو ایک ہزار مہینے کی عبادت سے بڑھ کر ثواب عطا فرماتا ہے۔

لیلتہُ القدر کے بارے میں قرآن کے بعد ارشادنبوی ﷺ کا مطالعہ اس رات کی فضیلت و عظیمت کے دروازے اور بھی کھول دیتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے فرمایا آنحضرت محمد ﷺ نے ’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں‘۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)

ایک اور حدیث جس کے راوی بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ ہیں فرمایا رسول ﷺ نے ”جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات جکڑ دئے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا اور جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ان کا کوئی دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا ، اور اﷲ کا منادی (فرشتہ) پکار تا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب قدم بڑھاکے آ، اور اے بدی اور بدکرداری کے شائق رک، آگے نہ آ، اور اﷲ کی طرف سے بہت سے (گناہ گار) بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے(یعنی ان کی مغفرت کا فیصلہ فرمادیا جاتا ہے) اور یہ سب رمضان کی ہر رات میں ہوتا رہتاہے“۔ (جامعہ ترمذی، سنن ابن ماجہ)

حضرت عبد اﷲبن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ خیر کی بخشش اور خلق اﷲ کی نفع رسانی میں اﷲ کے سب بندوں سے فائق تھے۔اور رمضان مبارک میں آپ ﷺ کی یہ کریمانہ صفت اور زیادہ ترقی کرجاتی تھی۔ رمضان کی ہر رات جبرائیل امین آپ ﷺ سے ملتے تھے اور رسول اﷲﷺ ان کو قرآن مجید سناتے تھے۔ تو جب روزانہ جبرائیل امین آپ ﷺ سے ملتے تو آپ کی اس کریمانی نفع رسائی اور خیر کی بخشش میں اﷲ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہواؤں سے بھی زیادہ تیز ی آجاتی اور زور پیدا ہوجاتا‘۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم)

’معارِف الحدیث‘ کے مصنف مولانا محمد منظور نعمانی نے آنحضرت محمد ﷺ کا ماہ شعبان کی آخری تاریخ کا خطبہ نقل کیا ہے اس میں آپ ﷺ نے فرمایا : اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والامہینہ سایہ فگن ہورہا ہے ، اس مبارک مہینہ کی ایک رات (شبِ قدر)ہزار مہینے سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اﷲ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں کھڑے ہونے(یعنی نماز تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے) جو شخص اس مہینے میں اﷲ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا۔ اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کاثواب دوسرے زمانے کے ستر(70 )فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے ، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غمخوای کا مہینہ ہے ، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اﷲ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے)افطار کرایا تو اس کے کئے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ صحابہ نے آپ سے عرض کیا ، یا رسول اﷲ ﷺ ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کاسامان میسر نہیں ہوتا ( تو کیا غرباءاس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، اﷲ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا افطار کرادے ۔ آپ ﷺ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اﷲ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر)سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تاآنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا“۔ اس خطبہ نبوی ﷺ کی تشریح یہ بیان کی گئی ہے کہ اس خطبہ میں سب بڑی اور پہلی عظمت و فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں ایک ایسی رات کی خوش خبری دی گئی ہے جو ہزار دنوں اور راتوں سے نہیں بلکہ ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے۔ ایک ہزار مہینوں میں تقریباً تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں ، اس لیلتہ القدر کے ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے اس کے قرب و رضا کے طالب بندے اس ایک رات میں قرب الٰہی کی اتنی مسافت طے کرسکتے ہیں جو دوسری ہزاروں راتوں میں طے نہیں ہوسکتی۔

لیلتہ القدر رمضام المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہے۔ یہ طاق راتیں رمضام المبارک کی 29,27,25,23,21راتیں ہیں۔ ان راتوں میں لیلتہ القدر کو تلاش کرنے اور پانے کے لیے کہا گیاہے۔ رمضام المبارک کو تین عشروں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلا عشرہ پہلے روزے سے دسویں (10)روزے تک ہے جو رحمت کا عشرہ کہلاتا ہے، دوسرا عشرہ گیارویں (11 )روزے سے بیسویں (20)روزہ تک،یہ گناہوں سے توبہ اور معافی کا عشرہ ہے جب کہ تیسرا عشرہ اکیسویں (21)روزہ سے شروع ہوکر اختتام رمضان تک ہے ، یہ عشرہ جہنم سے نجاد کا عشرہ ہے ۔لیلتہ القدر بھی اسی عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کی جاتی ہے۔ رمضان کے اس آخری عشرہ کو پہلے اور دوسرے عشرہ کے مقابلے میں فضیلت اور برتر ی حاصل ہے اس کی وجہ اس عشرہ میںلیلتہ القدر یعنی مقدس رات کا پایا جانا ہے۔ ان راتوں میں رسول اﷲ ﷺ زیادہ عبادت میں مشغول رہا کرتے اور آپﷺ نے ان طاق راتوں میں زیادہ خشو و خضوع کے ساتھ عبادت کرنے کی ہدایت کی۔اس رات میں خصوصیت کے ساتھ عبادت کرنے ،لیلتہ القدرکو تلاش کرنے کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے حوالے حسب ذیل احادیث کا ذکر ملتا ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت میں مجاہدہ کرتے اور وہ مشقت اٹھاتے جو دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔(صحیح مسلم )

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے ایک اور حدیث مروی ہے کہ جب رمضان کا عشرہ اخیر شروع ہوتا تو رسول اﷲﷺ کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے (یعنی پوری رات عبادت اور ذکر و دعامیں مشغول رہتے) اور اپنے گھر کے لوگوں (یعنی ازواج مطہرات اور دوسرے متعلقین) کو بھی جگادیتے (تاکہ وہ بھی ان راتوں میں برکتوں اور سعادتوں میں حصہ لیں)۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ شب قدر کو تلاش کرو رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں‘۔(صحیح بخاری)

لیلتہ القدر کی راتوں میں کیا پڑھا جائے، کس طرح عبادت کی جائے ۔ اس سلسلے میں مختلف کتب میں بے شمار دعائیں بہ آسانی مل جاتی ہیں ، قرآن مجید کی تلاوت کرنے، نفل نماز پڑھنے کی تفصلات پائی جاتی ہیں۔ بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جو کلام مجید نہیںپڑھ سکتے، وہ مختلف دعائیں نہ تو انہیں زبانی یاد ہیں اور نہ ہی وہ دیکھ کر پڑھ سکتے ہیں۔ تو پھروہ کس طرح لیلتہ القدر میں عبادت کریں؟ ان لوگوں کو پریشان ہونے، فکر کرنے، خوف کی ضرورت نہیں۔ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو مشکل میں ہرگز نہیں ڈالتا، وہ مہر بان ہے، رحیم ہے ، کریم ہے، غفور ہے، ہمارے دلوں کا حال بہتر جانتا ہے، ویسے بھی کہا گیا ہے کہ ہمارے اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ جو عربی نہیں پڑھ سکتے، انہیں دعائیں یاد نہیںناہی وہ عربی میں دعائیں پڑھ سکتے ہیں۔ ایسے افراد اپنی ہی زبان میں اردو آتی ہے تو اردو میں، سندھی آتی ہے تو سندھی میں، پنجابی آتی ہے تو پنجابی میں، پشتو یا بلوچی آتی ہے تو پشتویا بلوچی میں ہی دعا کریں۔ جو کچھ ان کے دل میں ہے ، اس بات کا خیال نہ کریں کہ اس کے لیے مخصوص الفاظ اور جملوں کی ہی ضرورت ہوتی ہے بس اپنے اﷲ سے مانگتے رہیں،کچھ نہیں پڑھ سکتے تو صرف اﷲ اﷲ کیے جائیں ، کسی پاک صاف جگہ، بہتر ہے مرد حضرات مسجد میں ، خواتین اپنے گھر کے کسی کونے میں جو پاک صاف ہو تنہائی میں بیٹھ جائیں ،عام دنوں میں جس طرح نماز پڑھتے رہے ہیں اسی طرح نماز پڑھیں، کلمہ طیبہ کا ورد کرتے رہیں، درود شریف کا ورد کرتے رہیں،آنکھیں بند کرکے، روشنی کو مدھم کرلیں، اﷲ کی طرف مکمل توجہ اوریہ خیال کہ آپ اپنے رب کے سامنے موجود ہیں وہ آپ کو دیکھ رہا ہے، کسی بھی دنیاوی بات کا خیال اپنے دل میں ہر گز نہ لائیں،عجز و انکساری کے ساتھ، عاجزی کے ساتھ، خشوع و خضوع کے ساتھ، فروتنی کے ساتھ، لجاجت کے ساتھ،اپنے پروردگار کی منت سماجت کرتے ہوئے، خوشامدانہ انداز میں، اپنے مالک کو خوش کرتے ہوئے بس یا اﷲہو،یا رحمٰنُ، یا رحیم، ُ یا قیومُ کا ورد کرتے رہیں۔ جولوگ کلام مجید پڑھ سکتے ہیں، دعائیں پڑھ سکتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ تلاوت کلام پاک
کریں، جو دعائیں آپ کو مل جائیں وہ پڑھیں، بے شمار دعائیں تو کلام مجید میں موجود ہیں وہ پڑھتے رہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ مجھے بتائیے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون سی رات شبِ قدر ہے تو میں اس رات اﷲ سے کیاعرض کروں اور کیا دعا مانگوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دعا پڑھا کرو۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّکَرِ یم تُحِبُّ العَفوَفَاعفُ عَنِی
ترجمہ ”اے میرے اﷲ! تو بہت معاف فرمانے والا اور بڑا کرم فرما ہے ، اور معاف کردینا تجھے پسند ہے۔ پس تو میری خطائیں معاف فرمادے“۔ (مسند احمد، جامعہ ترمذی، سنن ابن ماجہ)(۱۱جولائی2015)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1436951 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More