سہ ماہی ’اجراء ‘ کراچی: ایک مطالعہ
(Dr Abdul Karim, Muzzafarabad)
میرے سامنے ’اجرا‘ کا ۲۱ تا ۲۲
کتابی سلسلہ ہے۔’اجرا‘ کراچی سے شایع ہونے والا سہ ماہی ادبی رسالہ ہے جس
کے مدیر احسن سلیم ہیں جو ایک کہنہ مشق شاعر ، ادیب اور مدیر ہیں۔یہ شمارہ
رمضان شروع ہونے سے پہلے ملا لیکن رمضان میں پڑھنا بھی ایک امتحان ہے۔
بہرحال میں نے۵۷۶صفحات پر محیط اس شمارے کا ورق ورق اور سطر سطر مطالعہ
کرہی لیا۔مدیر کی یہ بات ’یوٹوپیا‘لگی کہ قوم کو اعتدال کی راہ پر ڈالنے کے
لیے پاکستان کی تمام قومی اور علاقائی زبانوں کے ادیبوں اور شاعروں کو ایک
صفحے پر آنا چاہیے۔ میرے نزدیک یہ اب دیوانے کا خواب ہے ۔تاہم اگر آپ کو شش
جاری رکھے ہوئے ہیں تو ہم دعا گو ہیں۔
محمد ناصر شمسی نے انگریزی الفاظ نہ جانے کیوں اتنی کثرت سے استعمال کردیے
ہیں حالانکہ اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ ان کا یہ تحریر کرنا کہ ہندوستان
میں صوفی ازم نے مختلف مذاہب اور مسالک میں ہم آہنگی ،احترام او ر رواداری
کا ماحول قائم رکھنے میں اپنا حصہ ڈالا اور مختلف النوع معاشروں میں یکجہتی
،یگانگت اور ٹھہراؤ اس کا باعث بنے رہے ۔ ایک حدتک درست ہے لیکن ان کے اس
تجزیے سے میں اتفاق نہیں کرتا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے اقلیت رہنے کی
وجہ مسلمانوں کی فتوحات پسندی ،اقتدار کی خواہش،علم ودانش سے دوری ،عیش
پرستی اور غیر نظریاتی اورغیر قوت بخش کرارہے ۔کیونکہ برعظم پاک وہند میں
مسلمان آج۶۰کروڑ کے آس پاس ہیں اور یہ اقلیت نہیں۔
یہ بھی تاریخی جھوٹ ہے کہ ہزا روں سال تک ہندوستان مسلم انڈیا رہا ۔یہ چند
سو سال بنتے ہیں اور ان میں بھی شمال اور مغرب کی تقسیم واضح رہی۔ اکبر کے
دور کو نظریاتی خلفشار کا دور کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کو اس کے دور میں امن
نظر آتا ہے تو اس کا اسلام سے کیا تعلق۔شمسی کا یہ تحریر کرنا درست ہے کہ
ایک زوال پذیر معاشرے میں زبان وقلم سے عام طور پر صحت مند خیالات نکلنا
بند ہوجاتے ہیں ۔تاہم ان کا یہ تحریر کرنا کہ ادب کے سارے زاویے ،ساری
سمتیں ،سارے راستے بالآخر انسانی فلاح اور انسانیت کے دکھ کے مداویٰ کی
جانب ہی جاتے ہیں:آدھا سچ ہے۔ آج ادب میں ہم پنجاب ،سرائیکی ،پشتون ،سندھی
،مہاجر ،کشمیری، ہزارے وال کی بنیاد پر حقوق مانگ رہے ہیں ۔دکھ کامداویٰ
صرف اپنی قوم کا چاہتے ہیں ۔
کہاں کی فلاح اور کہاں کی انسانیت۔ سب اپنی قوم ،اپنے علاقے ،اپنی زبان تک
محدود ہوچکے ہیں ۔ آپ نے اجتماعی شعو ر کی بات کی ،تو آج یہ قوم اس سے
ناآشنا ہے۔ وہ اپنے حقوق کے لیے شعور رکھتی ہے لیکن فرائض کا اسے شعو ر
نہیں یا وہ رکھنا ہی نہیں چاہتی ۔آپ کی یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں مسلکی
شناخت کے اظہاریے ہی اب سب کچھ ہیں ۔ہمارے نمازوں سے لے کر ہمارے ناموں تک
مسلکی تضاد واضح ہے اور اس کی بنیاد پرنفرتیں گہری ہوتی جارہی ہیں ۔یورپ
میں مذہبی جنگیں ختم ہوچکیں اور وہ متحد ہوچکا ،ہم ۱۴۰۰ سو سالوں سے اس بات
پر لڑ رہے ہیں کہ کون حق پر تھا۔یہ اور بات کہ ہم اکیسویں صدی میں سب مل کر
یزیدیوں کے ہاتھ ہی مضبوط کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ ہم بھی جانتے ہیں کہ یہ
دونوں مسالک ایک دوسرے کو نابود نہیں کرسکتے اس کے باوجود ان کی جنگ جاری
ہے ۔
نجم الدین احمد رونا روتے ہیں کہ آج معاشرے میں ادیب بے تو قیری اور بے
وقاری کی تارتار مسند پر بیٹھا ہے ۔جب کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں افلاطون نے
دانشور قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عنان حکومت انھیں سونپ دی جائے۔ لیکن اس
نے یہ یونان میں کہاتھا اور یونیوں کے لیے کہا تھا ،پاکستانیوں کے لیے نہیں
۔یہاں ادیبوں کے اندر کالی بھیڑیں موجود ہیں جو اپنے کسی بھائی بندکو راج
سنگھا سن پر بیٹھنے کب دیتے ہیں۔ ادیب کی زار زار حالت کا ذمہ دار بھی ادیب
ہی ہے ۔نئے آنے والے نوجوان ادباء اور شعرا ء کی ہمت افزائی اور حوصلہ
افزائی نہ کرنا یا مخصوصی چہروں کی کرنا،ٹیلنٹ کی بنیاد پر کسی کو آگے نہ
آنے دینا، معیاری چیز کی تعریف نہ کرنا اور غیر معیاری کومعیاری ثابت کر نے
کے لیے ایندھن فراہم کرنا،معیاری تحریر پر تعریف کے دو بول نہ بولنا اور نہ
لکھنا: یہ سب اس قلم قبیلے میں پایا جاتا ہے اور ادبی کمینے ہمارے اندر ہی
موجودہیں۔ ہم اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں اور ادیبوں کو پبلشروں کے استحصال
سے بچانے کے لیے کوئی قانونی کام نہیں آئے گا اور نہ ہی مرکزی کتب خانوں
کوپابند کرنے سے ادیبوں کی کتب براہ راست فروخت ہوسکیں گی۔ ہم سب اخلاقی
وادبی کوڑھ کا شکار ہیں ۔اور اس کا علاج ضروری ہے لیکن ہماری قوم کو اس کاا
حساس نہیں اس لیے علاج بھی ممکن نہیں ۔
نجم الدین احمد کافرمانا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اورعلاقائی
زبانیں ایک دوسرے سے بے انتہا ہم آہنگی رکھتی ہیں، ایک سہانا سپنا لگا۔ کون
سی زبانیں، وہ زبانیں جو اردو کو غاصب کہتی ہیں۔ کاش ان کو وریدوں اور
شریانیوں سے تشبیہ دی جاسکتی ہو۔یہاں ہر سطح پر اردو کش رویے ملتے ہیں ۔کاش
یہ لازم وملزوم ہوتیں۔ تاہم یہ شکایت تو اردو والوں سے بھی ہے کہ وہ
انگریزی ،ہندی ،عربی ،فارسی کے الفاظ تو تھوک کے حساب سے استعمال کرتے ہیں
اور نہیں کرتے تو مقامی زبانوں کے۔ نجم الدین کا یہ احساس درست ہے کہ
مقتدرہ اور اکادمی نے صرف نمائشی کام کیے ہیں اور نیم ادباء کی ایک ٹیم کو
تیار کیا ہے تاہم ان اداروں نے اصطلاحات کے حوالہ سے کچھ اچھے کام بھی کیے
ہیں ۔اس میں بھی شک نہیں کہ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے نئی نسل کو کتاب سے
دور کردیا ہے ۔تاہم اس میں قصوروار ہم لوگ بھی ہیں ۔
موبائل فون ،انٹر نیٹ ، سکائپ اور وائبر ہر جگہ نام نہاد ادباء وشعراء اپنی
پروجیکشن میں مصروف ہیں ۔لیکن نئی نسل کی رہنمائی کرنے کوکوئی تیار نہیں
۔ہم نے اردو کو صرف زبان کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے رکھ چھوڑ اہے ۔ادب کی
قرات کے مسائل رہیں گے کہ ہم تو آج تک ایک متفقہ اردو کے تختے والا موبائل
تو دے نہیں سکے ۔ہماری حکومت موبائل کمپنیوں اور موبائل بنانے والے اداروں
کو آج تک پابند نہیں کرسکی کہ ہرموبائل میں معیاری اردو تختہ اور معیاری
اردو پروگرامنگ ہونی چاہیے ورنہ سب پر پابندی عائد کردی جائے گی ۔ ادب
برائے تبدیلی کا خواب صرف طلبہ کو نئے ادباء کی تحقیقات اور عالمی معیاری
ادب کے تراجم سے پورا نہیں ہوگا ۔ رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اردو زبان
کوروزگار کی زبان بنانے کی ضرورت ہے۔
زبان اس وقت مرنا شروع ہوجاتی ہے جب مادر علمیاں اس کے وجود سے بانجھ
ہوجاتی ہیں اور ہماری جامعات کا یہی حال ہے ۔ کس کس کا رونا روئیں احسن
سلیم صاحب یہاں جامعات میں اردو کے شعبے کچھ افراد کونوازنے کے لیے بنائے
جاتے ہیں، تحقیق کے مراکز بنانے کے لیے نہیں ۔ ہاں نجم الدین صاحب کی اس
بات میں وزن ہے کہ نصابی ادب سے ہٹ کر ادب کے طلبہ کو بیس سے پچاس تک کتب
پڑھانے اور ان پر بحث ومباحثہ کروایا جائے لیکن یہاں تو اساتذہ کے تبادلے
سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں یکسو قسم کے اس طرح کے ادب دوست اساتذہ کہاں سے
آئیں گے۔ نمبروں کی دوڑ ہے ۔ ہر کوئی اردو میں زیادہ نمبرلینا چاہتا ہے صرف
اس لیے کہ ڈویثرن بہتر ہو اور انجینئرنگ ؍میڈیکل کی سیٹ کا راستہ ہموار ہوا
۔ارود اور اردو ادب سے کسی کودلچسپی ہے ۔
آپ ادب اور اردو کی بات کرتے کرتے شرمین عبید چنائے کوکیوں لے بیٹھے ۔سیونگ
فیس نامی دستاویزی فلم کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والی یہ محترمہ ساری دنیا
میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بنی ۔ آسکر ایوارڈ ایسے ہی لوگوں کو دیا
جاتا ہے اورنوبل انعام بھی جواس ملک کو ساری دنیا میں تماشا بنا دیں۔کیا اس
ملک کی اچھائیوں کو دنیا میں پیش کرنے والے مر گئے ہیں۔ انتظار حسین کو
آرڈر آف لٹریچر حاصل کرنے پر مبارکباد۔پاکستان میں اردو ادب کے تین بڑے نام
اب چراغ سحری ہیں ۔انتظار حسین ،مختار مسعود اور مشتاق یوسفی۔کاش
مختارمسعود ثانی کوئی سامنے آئے ۔
رفیع اﷲ میاں سے ایک سوال ہے کہ آج کی نظم کو استعارے اور علامتی نظام کی
ضرورت کیوں ہے۔ کھل کر اس میں بات کیوں نہیں کرتے ۔ قاری کو کنفیوز کیوں
کیا جاتا ہے ۔اس قوم کو اشاروں ،علامتوں اور استعاروں کی ضرورت نہیں ۔صاف
اور سیدھی بات سیدھے طریقے سے سمجھانے کی ہے ۔ ہم سرحدکے اس پار جاکر اتنے
متاثر کیوں ہوجاتے ہیں۔ کیا ہم کو کھوکھلے ہیں ۔ اس کا جواب نسیم کوثر
جانتی ہیں ۔انہوں نے ساڑھیوں اور بندی کی بات کی ہے جو ہمارا کلچر نہیں ۔یہ
جملہ پڑھ کر بہت تکلیف ہوئی، شاید تسلیم کو نہیں ہوئی یا انہوں نے اس جملے
کا گھاؤ محسو س نہیں کیا جوانہوں نے کہا۔ ’پل دو پل کاساتھ بھی چھوڑ جائے
تو زخم دے جاتا ہے ‘یہ تو پھر نصف صدی کاقصہ ہے ۔ اوراگر میں ان سب سے نہ
ملتی تو ضرور ایک تشنگی رہ جاتی‘ ۔
تراجم میں سب سے اچھا اور متاثر کن ترجمہ ڈاکٹر ندیم اقبال کا لگا ۔ انھوں
نے فن ترجمہ نگاری کا حق اداکیا اور یہ تحریر طبع زاد لگنے لگی ۔کچھ جملے
تو سنسر کیے جانے چاہیے جیسے ’پتلون کی زپ چیک کرو،گال پر بوسہ،پتلوں کی زپ
دوبارہ چیک اور پھر پھرتی سے کمرے سے نکلنا‘ ۔’جب شغل ماہوت کے دوران وہ
کراہتی اور مچلتی ہے، اشارے یہ کہتے ہیں کہ اسے مزاآرہا ہے ۔۔۔۔یہ مضمون
پڑھ کر معلوم ہوا کہ یہ صرف ہمارے ہاں ہی مشہور نہیں کہ شادی کے بعد
مردفربہ ہوجاتا ہے بلکہ یورپ میں بھی مشہور تھا۔
’میں نہیں پڑھاتی ـ‘اور’ سرحدیں اور فاصلے‘متاثرکن تحریریں ہیں اور کامیاب
ترجمے ۔لیکن ان میں سب سے زیادہ پر اثر’ کلرک کی پہلی تاریخ ‘ہے ۔ہمارے ہاں
کلرک تو ایسا ہی ہے اور اس کے مسائل بھی ایسے ہی ہیں ۔ڈاکٹر رشید امجد
کاافسانہ ’ڈائری کا اگلہ صفحہ‘پڑھ کر یاس کی کیفیت طار رہی ۔جانے کیوں یہ
بابے اس عمر میں خوار ہونے پر آئے ہوئے ہیں۔ ایک اور بابا ہے مستنصر حسین
تارڑ :اس کا بھی یہی حال ہے ۔کیاعورت اور جنس کے بغیر اچھا افسانہ نہیں
لکھا جاسکتا؟رشید امجد کی نظریں اس عمر میں بھی’ ابھرتے سینے سے ہوتی ہوئی
اس کے ناف تک اتر‘ جاتی ہیں ۔پورے جسم میں برقی لہریں دوڑ اٹھتی ہے اور’ وہ
اس کو اپنے ہمراہ بیڈروم میں لے آئی ۔مدتوں سے پیاسے بنجر کھیت کی مٹی کے
کھلے منہ لبالب بھر گئے‘ ۔ اس طرح کے بے مقصد ادب کو ادب برائے تبدیلی کے
لیے استعمال نہیں کیا جانے چاہیے ۔
حامد سعید اختر کا افسانہ’ شرط‘ رومانوی لیکن پراثر افسانہ ہے جو اپنے اندر
مقصد یت رکھتا ہے۔ انہوں پختہ فکری کا ثبوت دیااور محبوبہ کو بیوی پر ترجیح
نہیں دی ۔ اس طرح کے رویے ادب برائے تبدیلی کی اساس ہونے چاہیے ۔ ان کے بعض
جملے دل کو بہت بہا ئے جیسے ’یوں لگتا تھا کہ جیسے کسی نے سنگ مرمر کے تودے
سے ایک خوبصورت موتی تراشنے کے بعد تودے سے چھیلا ہو ازائد چورہ دوبارہ
انتہائی بے ترتیبی سے جابجا مورثی پر تھوپ دیا ہواوروہ تراشیدہ مورتی ہو نہ
غیر تراشیدہ تودہ‘ ۔’جسمانی جغرافیے کی خوبصورت خدوخال تو خدا کا عطا کردہ
عطیہ ہیں لیکن مستقبل کی تاریخ رقم کرنے میں اپنا حصہ صرف تخلیق کے عمل سے
ڈالا جاسکتا ہے‘ ۔
منزہ احتشام گوندل کا ’جنس گراں ‘ اس لحاظ سے اچھا افسانہ لگا کہ انہوں نے
مقامی زبان کے لفظ کٹے (چھوٹا بھینسا)، کٹیاں (بھینس کی بچی ) ،چہوٹے
(بھینسا)،چہوٹیاں (جوان بھینس ) استعمال کیے ۔محترمہ جنس گراں بہرحال عورت
کا جسم ہوتا ہے مرد کا نہیں ۔عورت اس دنیا کی جنس گراں ہے۔ارمان نجمی کے
تحقیقی مضمون’ شیکسپئر کے تین ڈراموں کا رد تشکیلی مطالعہ‘ کنفیوز سا لگا ۔
نجمی صاحب: ایک نسائی مشرقی کلامیہ کی نہیں،ایک مردانہ مشرقی کلامیہ کی اب
ضرورت ہے ۔ اب مردمظلوم ہے ،عورت کی مظلومیت کے قصے چھوڑ یے ۔ اپنے آ پ کو
بچایے۔ آپ کا یہ جملہ کیا ثابت کرتا ہے ’لیکن پدرانہ نظام اور نو آبادیاتی
حاکمیت میں افتراقی قوت کا مشترک ہے ‘۔ اور اس جملے سے آپ کیا ثابت کرنا
چاہتے ہیں ’اسلام مذہب تصوراتی سطح پر مردوں کی مطلق حاکمیت کے حق میں نہیں
ہے‘ ۔ آپ تحریر کرتے ہیں کہ’ تاریخ مردانہ قلمرو ہے‘ تو جناب اسے زنانہ بنا
کر دیکھ لیں ۔آپ کی تحقیق اس معاملے میں بھی ناقص ہے کہ ۱۵۴۰ء
تا۱۶۴۵ء(۱۰۵سال) میں ۱۰لاکھ جادو گرنیوں کو زندہ جلا دیا گیا ۔یعنی ایک سال
میں تقریباًدس ہزار ۔عجیب بات ہے کہ تاریخ (غیر متنازعہ ) خاموش ہے۔ اس کا
حوالہ بھی آپ کو مستند تاریخ سے لانا چاہیے ۔کیونکہ آپ یہ کیس مردوں کے
خلاف دائر کررہے ہیں
محمد افتخار شفیع کا تحقیقی مضمون ’اردر خاکہ نگاری میں مطالعہ ا نسان ‘
بھرپور اور متاثرکن ہے ۔ خاص طور پر ان کے یہ جملے کہ’ شاہداحمد دہلوی نے
میرا جی کے استمابالید کی کوئی نفیساتی توجیہہ پیش نہیں کی، جوش کی غلاظت
ان کی حقیقت نگاری سے چھپ نہیں سکی ۔ آغا حشر کی بھینگی آنکھیں اورمنٹوکی
متلون مزاجی کو بھی انہوں نے آئینہ دکھادیا ہے‘۔ تاہم خاکوں میں اتنی بھی
بے باکی اچھی نہیں کہ ’کشور کو ڈھلتی عمر کے آدمی زیا دہ پسند ہیں ۔ کہتی
ہے کہ یہ لوگ خطرناک نہیں ہوتے‘۔ منزہ احتشام گوندل کا مضمون’ ادب کے چند
ابنار مل کردار‘بہت کنفیوز لگا ۔وہ کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں ذرا یہ جملے
دیکھیں’ آج۲۱ویں صدی کے جدید ترین دور میں بھی مرد کو بہت سے رعایتیں حاصل
ہیں جن سے عورت محروم ہے ۔ عورت پر جتنی اخلاقی ،مذہبی ،قانونی ،سماجی
پابندیاں ہیں ،مردان سے مستثنٰی قرار پاتا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ شادی سے قبل
بھی ہر قسم کے جنسی تعلقات کو اپنے لیے رواں رکھتے ہوئے بھی مرد بیوی کے
نام پر ایک دو شیزہ کا طلب گارہوتا ہے اور یہ وہ معاشرتی رویہ ہے جس کے
پیچھے ہزاروں سالوں کی پرانی دانش کارفرما ہے‘ ۔ شاید اس لیے وہ چہوٹے اور
چہوٹیاں استعمال کرتی ہیں تو چہوٹیوں کو۲۱ویں صدی میں آزادی سے کس نے روکا
ہوا ہے ۔ذرا یہ جملہ ملاحظہ کریں ’وہ عورت اعلیٰ کردار کی مالک گردانی جاتی
ہے جو اپنی تمام ترجنسی، جذباتی اور نفسیاتی خواہشات کو دبا کر ایک ہی مرد
تک محدوو رکھتی ہے‘ ۔اس سے آگے کسی اور حوالے کی ضرورت نہیں۔تاہم اس سماج
میں ستارہ اورسارہ اب بہت ہیں ۔حامد سعید اختر کا مضمون ’اپنے گریبان چاک ‘
کے کچھ فکر انگیز پہلو‘ میں ان کا یہ جملہ ’نظریہ پاکستان پر جتنا زور
افواج پاکستان کے ادارے میں دیا جاتا ہے شاید ہی کسی اور جگہ دیا جاتا
ہو‘۔یہ ثابت کرگیا کہ فوجی فوجی ہوتا ہے خواہ ریٹائر ہی کیوں نہ ہوجائے
۔انہوں نے صرف فوج کے حق میں نظریہ پاکستان کی گواہی دی۔ خوش رہیں جناب اور
اردو ادب کی ایسی ہی خدمات جاری رکھیں ۔تاہم اس ملک میں فوج کے ادارے کے
علاوہ بھی بہت سے ادارے نظریہ پاکستان کے وفادار ہیں۔آپ کی صحت عمر اور
توانائیوں میں برکت کے لیے دعا گو ہوں ۔کراچی کے حالات پر دل خون کے آنسو
روتا ہے اور رمضان کے مہینہ میں جبکہ دوسرا عشرہ شروع ہے یہی دعا نکلتی ہے
کہ روشنیوں کے اس شہر کی روشنیوں کو خدائے لم یزل صدا روشن رکھے ۔ |
|