ہم خارجہ پالیسی کے معاملے میں کہاں کھڑے ہیں؟
(Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed, Karachi)
گذشتہ مہینوں میں ہمارے تعلقات ہندوستان سے
نہایت ہی کشیدگی کا شکار ان وجوہات کی بنا پر رہے ہیں۔ہندوستان پاکستان کے
اندرونی معاملات میں خاص طور پر بلوچستان میں دن رات مداخلت کررہا ہے
۔افغانستان کے راستے بلوچستان کی آگ کو بھڑکانے میں اس کی ایجنسی را دن رات
مصروفِ عمل ہے۔جس کے شواہد بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔ دوسرے پاکستان کی بعض
مقامی سیاسی جماعتوں کو ’’را ‘‘ہندوستان بلا بلا کر دہشت گردی کی تربیت دے
رہی ہے۔جس کا اعتراف ناصرف پاکستان کی مذکورہ سیاسی جماعت کے گرفتار ارکان
کھل کر کر رہے ہیں بلکے اس کا اعتراف تو برطانیہ کے معتبر میڈیا سروس پر
بھی سامنے آچکا ہے کہ را پاکستان کے سیاسی لوگوں کو پاکستان میں دہشت گردی
کی نا صر ف تر بیت دے رہی ہے بلکہ ان کی فنڈنگ بھی کرتی رہی ہے۔اسکے علاوہ
بنگلہدیش میں ہندوستان کے وزیر اعظم نرندر مودی نے خود یہ اعتراف کیا ہے کہ
1971 میں ہندوستان نے پاکستان کو دولخت کرنے کی غرض سے فوجی دہشت گردی کا
ارتکاب کیا تھا۔اس طرح پاکستان گذشتہ 45سالوں سے ہندوستان کی دہشت گردی کا
شکار چلا آرہا ہے۔مگر ہمارے خاجہ پالیسی میکر چُپ سادھے رہیں۔جب سر سے
اونچا پانی ہوا تو گھُٹن کے ساتھ ہندوستانی جارحیت پر آواز اٹھانا شروع کی
ہے۔
اب جب کہ پاکستان ہندوستان کی جارحیت کے ثبوتوں کے ساتھ اقوام متحدہ میں
ہندوستانی جاحیت اور دہشت گردی کے ثبوت لے جانے کے لئے پر تولنے لگا ہے تو
نے معاملے کو دبانے کی غرض سیہندوستان کے وزیر اعظم نرندر مودی نے مذاکرات
کی دعوت پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف کو روس میں شنگھائی کانفرنس کے
موقعے دے ڈالی ۔پاکستان چونکہ خطے میں امن کا خوہا ں ہے اس لئے پاکستان کی
سیاسی قیادت نے مودی کی درخواست کو شرف قبولیت عطا کر دیا۔ نرندر مودی کی
درخواست پر یہ ملاقات روس کے شہر اوفا (UFA)جمعہ دس جولائی2015 کو ہونا
قرار پائی۔مودی سے وزیر اعظم پاکستان سے پہلی ملاقات بھی نرندر کی کی دعوت
پر ہی ان کے حلف وفاداری کے موقعے پر 27 مئی 2014 کو دہلی میں ہوئی تھی۔اس
وقت بھی پاکستان نے ماضی کے تمام اختلافات کو بھلا کر علاقائی امن کی
خاطرہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ مگر ہندوستان کی ہٹ دھرمی
اور ضد کے نتیجے میں ہندو پاکستان کے مذاکرات کی بیل ہندوستای متعصبانہ
زہنیت نے منڈھے چڑ ھنے نہیں دی۔ اور ایک مرتبہ پھر ہندو پاکستان کے درمیان
تلخیابڑھنے لگیں۔ اور اس کے ساتھ ہندوستانی جارحیت کے ثبوت ایک کے بعد ایک
سامنے آنے لگے۔اور ساتھ ہی مودی کے بنگلہ دیش میں اعترافِ جرم نے جلتی پر
تیل کا کام دیا۔
ہندوستان اپنے دہشت گردی کے اعترافی بیان اور پاکستان کے دہشت گردی پر
ہندوستان کے خلاف شواہد نے جو اقوام متحدہ میں را کی کاروائیوں جو کراچی
اور بلوچستان میں وہ کرتی رہی ہے ، پاکستان پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ہندوستان نے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی غرض سے مذاکرات کی میز سجائی ہے مگر ہمیں
ان مذاکرات کے نتیجے میں کسی بریک تھرو کا بالکل یقین نہیں ہے۔اس ملاقت میں
مودیباڈی لینگوج ماضی والی ہی تھی ۔جب وزیر اعظم پاکستان نواز شریف ان سے
ملاقات کرنے پہنچے تو مودی تکبر میں ایپنی جگہ سے ہلے تک نہیں کہ مدعوکئے
جانے والے مہمان کا خیر مقد م کریں۔نواز شریف کو خود ہی قدم بڑھا کر مودی
سے شیک ہنڈ کرنا پڑا۔ شائد مودی چائے فروش کو کسی نے ابھی تک آدابِ سفارت
سکھائی ہی نہیں ہیں۔مودی کے چہرے پر اس وقت مسکراہٹ کا نام تک نہیں تھا۔یا
تو وہ کسی زہنی دباؤ میں تھے یا یہ ان کا جار حانہ تکبر تھا جو سر چڑھ کے
بول رہا تھا۔
اس ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اُس نے پاکستانیوں کے تو
گویا ہوش اُڑا دیئے۔ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ جانے والے
خارجہ امور کے کھلاڑیوں نے وزیر اعظم پاکستان کو بین الاقوامی اکھاڑے میں
بغیر داؤ پیچ سُجھائے اتار دیا تھا۔نواز مودی ملاقات کے بعد جو اعلامیہ
جاری ہوا۔ اُس میں ہندوستان کی فتح مندی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔بقول شیریں
مزاری کے ’’ مشترکہ اعلامیہ ہندوستان میں بیٹھ کر بنایا گیا تھا‘‘جس میں
ممبئی حملے اور ذکی الرحماں لکھوی کو تو خوب خوب واضح کیا گیا مگر کشمیر
ایشو کو حذف کر دیا گیا ۔پاکستان میں را کی مداخلت اور کراچی میں راکی
تربیت سے پھیلائی گئی دہشت گردی جس کے ثبوت بھی ہمارے پاس موجود ہیں کو
فراموش کر دیا گیا۔بلوچستان میں ہندوستان کی کھلی جارحیت جس کے ثبوت بھی
ہمارے پاس ہیں کا نام تک نہیں لیا گیا۔گویا بین االاقوامی سیاست و سفارت کے
میدان میں ہندوستان نے ہمیں چاروں خانے چت کر دیا ہے۔اس کے ذمہ دار پاکستان
کی خارجہ پالیسی کے موجودہ ماہرین ہیں ۔جن کے ہوتے ہوئے مودی نے اپنا الو
تو سیدھا کر لیا مگر پاکستان کو ان مذاکرات میں سوئے ناکامی اور رسوائی کے
کچھ نہ ملا۔ یہ ہماری بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان
مشترکہ اعلا میئے میں پاکستان کا ایک نکتہ بھی نہ ڈلوا سکے اور مذاکرات کی
میز پرسے خالی ہاتھ، ہاتھ جھاڑتے ہوئے واپس آگئے۔پاکستان کے عوام یہ پوچھنے
میں حق بجانب ہیں کہ ہمارے خارجہ امور کے ماہرین بتائیں کہ ہم کہاں کھڑے
ہیں؟؟؟
نواز مودی ملاقات کا اعلامیہ قوم کو ایسا پیغام دے رہا ہے کہ ہم خارجہپالسی
کے کے ناکام کھلاڑی ہیں ۔ مذاکرات کی میز پر ہمیں ہر اناڑی سے اناڑی شکست
دے سکتا ہے ۔ہم اپنے تحفظات کو کسی کے سامنے پیش کر ہی نہیں سکتے ہیں۔ہمیں
یہ بات مان لینی چاہئے کہ ہماری خارجہ پالیسی دنیا کی نا کام ترین خارجہ
پالیسی ہے۔
|
|