مجاہداول سردارعبدالقیوم طویل علالت کے بعد
91برس کی عمرمیں خالق حقیقی سے جاملے
آزادکشمیرکے سابق صدر ووزیراعظم اورتحریک آزادی کشمیرکے بانی بزرگ سیاستدان
سردارعبد القیوم خان طویل علالت کے بعد91برس کی عمرمیں خالق حقیقی سے
جاملے،مرحوم کی نمازجنازہ شکرپڑیاں گراو¿نڈ میں اداکی گئی جس میں
آزادکشمیراورپاکستان کے سیاسی رہنماو¿ں اور کور کمانڈر راولپنڈی سمیت
دیگرافراد نے شرکت کی،تدفین (آج)ہفتہ کودن گیارہ بجے آبائی علاقے غازی
آباددھیرکوٹ میں کی جائے گی،ادھرآزادکشمیرحکومت نے سردارقیوم کے انتقال
پرتین روزہ سوگ کااعلان کردیا۔
سردار محمد عبدالقیوم خان 4 اپریل 1924ء کوگاؤں جولی چیڑریاست جموں و کشمیر
کے ضلع پونچھ کے گاؤں غازی آباد موجودہ ضلع باغ میں پیدا ہوئے۔ ریاست کے
مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم رہے اور تقسیم ہند سے قبل یونیورسٹی آف
پنجاب سے ثانوی تعلیمی سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔میٹرک تک تعلیم کے بعد وہ برٹش
انڈین آرمی کی انجینئرنگ کور میں بھرتی ہوئے۔1942 سے 1946 تک افریقہ سے لے
کرمشرق وسطیٰ تک کے مختلف ممالک میں تعینات رہے اس دوران انھوں نے فلسطینی
آپریشن کے ابتدائی ایام بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ وطن واپسی کے بعد 1946ء
میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر تحریک آزاد ی کشمیر میں شامل ہوگئے۔قیام
پاکستان کے وقت مہاراجہ کشمیر کی طرف سے کشمیریوں کی خواہشات اور تقسیم ہند
کے پلان کے مطابق الحاق پاکستان سے انکار پر سردار محمد عبدالقیوم خان نے
23 اگست 1947 ء کو نیلہ بٹ کے مقام سے اپنے ساتھیوں سمیت جہاد آزاد ی کا
اعلان کیا جس کے نتیجے میں انتہائی مختصر عرصہ میں گلگت بلتستان سمیت آزاد
جموں وکشمیر کا 32000 ہزار مربع میل کا علاقہ آزاد ہوا جہاں آزاد حکومت
ریاست جموں کشمیر کا قیام عمل میں لایا گیا۔ تحریک آزاد ی کشمیرمیں نمایاں
اور کلیدی قائدانہ رول ادا کرنے کی وجہ سے قوم نے انھیں’’ مجاہد اول‘‘ کا
خطاب دیا۔1975 ء میں پاکستان کے دگرگوں سیاسی ماحول میں پاکستان نیشنل
الائنس (پی این اے ) کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا اور اس کے سیکرٹری
جنرل منتخب کئے گئے اس دوران انھیں گرفتار کر کے 6 ماہ تک پلندری جیل میں
رکھا گیا۔ ان نازک حالات میں ملک کو بحران سے نکالنے اور قائدانہ اور
مفاہمانہ کردار کے لئے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی نظریں اْن پر پڑیں۔
انھیں پلندری جیل سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے سیالہ ریسٹ ہاؤس میں مقید پی
این اے کے راہنماؤں کے پاس پہنچایا گیا جن کی کوششوں سے پی این اے اور
حکومت کے درمیان ایک معاہد ہ طے پایا ان کا یہ مصالحانہ رول قومی اور عالمی
سطح پر سراہا گیا۔سردار محمد عبدالقیوم خان پہلی دفعہ 1955 ء میں محض31 سال
کی عمر میں قائد ملت چوہدری غلام عباس ، غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان،
میر واعظ کشمیر سید محمد یوسف شاہ، راجہ حیدر خان، سردار فتح محمد کریلوی
اور کے ایچ خورشید کی موجودگی میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر
منتخب ہوئے اس کے بعد مختلف ادوار میں 14 مرتبہ آل جموں وکشمیر مسلم
کانفرنس کے صدر منتخب ہوتے رہے۔کم عمری میں مسلم کانفرنس کے صدر بننے کا یہ
اعزاز آپ کے سوا ریاست جموں وکشمیر کی کسی اور سیاسی شخصیت کوحاصل
نہیں۔2000 ء میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا تاحیات سپریم ہیڈ مقرر
کیا گیا۔سردار محمد عبدالقیوم خان 1951ء میں کشمیر میں استصواب رائے کے لئے
قائم ہونے والی کمیٹی میں آزاد جموں وکشمیر کی طرف سے ممبر بنے۔ 1952 میں
وہ پہلی مرتبہ آزاد کشمیر حکومت کے وزیر بنے اْس وقت ان کی عمر28 سال تھی۔
ان کو آزاد کشمیر کے سب سے کم عمر صدر کا اعزاز بھی حاصل ہے۔1962 میں لوکل
باڈیز کے نظام کے تحت آزاد جموں و کشمیرسٹیٹ کونسل کے پونچھ ضلع سے ممبر
منتخب ہوئے۔سردار محمد عبدالقیوم خان ایکٹ 70 کے تحت 1971 میں بالغ رائے حق
دہی کے تحت منعقد ہونے والے الیکشن میں غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان
اور کے ایچ خورشید کیساتھ مقابلے کے بعد بھاری اکثریت سے دوسری مرتبہ آزاد
ریاست جموں وکشمیر کے صدر(چیف ایگزیکٹیو) منتخب ہوئے۔ 1985 ء کے انتخابات
میں دھیر کوٹ کے حلقے سے پہلی مرتبہ ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئے بعد
میں استعفیٰ دے کر تیسری مرتبہ آزاد جموں وکشمیر کے صدر منتخب ہوئے۔وہ پانچ
سال اس عہدے پر فائز رہے۔1990 ء میں چوتھی مرتبہ آزاد ریاست جموں و کشمیر
کے صدر منتخب ہوئے تاہم 1991 ء میں نئے انتخابات کے بعد عہدہ صدارت سے
استعفیٰ دے کر آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں علماء مشائخ کی مخصوص
نشست پر الیکشن میں حصہ لیا اور ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئے اور پھر
وزیر اعظم آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر منتخب ہوئے۔ 1996 میں دھیر کوٹ سے
آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے تیسری بار ممبر منتخب ہوئے اور پھر آزاد
کشمیر قانون ساز اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن مقرر ہوئے۔ 2001 ء میں
چوتھی مرتبہ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ سردار محمد
عبدالقیو م خان کو قدرت نے یہ اعزاز بھی بخشا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی
میں اپنے بیٹے سردار عتیق احمد خان کو دو مرتبہ آزاد کشمیر کا وزیر اعظم
منتخب ہوتے دیکھا۔ آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ میں کسی اور سیاست دان کو یہ
اعزاز حاصل نہیں کہ وہ خود بھی متعدد مرتبہ آزاد کشمیر کا صدر اور ایک
مرتبہ وزیر اعظم رہ چکا ہو اور اْن کی زندگی میں اْن کا بیٹا بھی وزارت
عظمیٰ تک جا پہنچا ہو۔سردار محمد عبدالقیوم خان کو 1958 ء میں مسلم کانفرنس
کے صدر چوہدری غلام عباس کی طرف سے شروع کی گئی کشمیر چھوڑ دوکی تحریک کے
دوران سیز فائر لائن کراس کرتے ہوئے چوہدری غلام عباس کے ہمراہ گرفتار کیا
گیا اس دوران وہ چھ ماہ تک جیل میں قید رہے۔ 1959 ء میں مارشل لاء حکام کی
طرف سیان پر زبان بندی کی پابندیاں عائد کر دی گئیں لیکن وہ زیر زمین رہ کر
کام کرتے رہے۔ 1965 ء کی جنگ میں انھوں نے پاک فوج کی مدد کے لئے رضاکار
تیار کئے اور دیگر دفاعی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1968 ء میں
کشمیر کی آزادی کے لئے مسلح جہاد کا دوبارہ آغاز کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں
المجاہد فورس قائم کی۔سردار محمد عبدالقیوم خان نے 1971 ء میں سقوط ڈھاکہ
کے بعد قوم کو نظریاتی اور فکری انتشار سے بچانے اور شکست خوردہ قوم کو
دوبارہ اپنے نظریاتی استحکام کی طرف موڑنے کے لئے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘
کا نعرہ دیا۔ یہ نعرہ آج بھی سیز فائر لائن کے دونوں اطراف پوری قوت سے
گونج رہا ہے۔سردار محمد عبدالقیوم خان نے کبھی اقتدار کو اپنا مطمع نظر
نہیں رکھا اور وہ ہمیشہ اس سے پہلو تہی کرتے رہے۔1996 ء کے انتخابات میں
مسلم کانفرنس کو شکست ہو گئی جس کے نتیجے میں مسلم کانفرنس بھی ٓ’’س‘‘
اور’’ق‘‘ گروپ میں تقسیم ہو گئی جس کاان کو بہت دْکھ تھا اور وہ اس کے
دوبارہ اتحاد کے لئے کوشاں رہے چنانچہ 2001ء میں وہ سردار فتح محمد خان
کریلوی کی برسی میں شرکت کے لئے نکیال جا پہنچے۔ جہاں مسلم کانفرنس کے
دوبارہ اتحاد کی داغ بیل ڈالی گئی۔ جس کے نتیجے میں مسلم کانفرنس 2001ء کے
عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیت گئی۔ اس وقت سردار سکندر حیات سمیت
تمام ممبران اسمبلی کی تمام تر کوششوں کے باوجود مجاہد اول نے عہدہ صدارت
قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی جگہ ضلع پونچھ کے میجر جنرل محمد انور
کو صدر بنوا دیا۔۔ سردار محمد عبدالقیوم خان کے دل میں پاکستان کی محبت کوٹ
کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو، صدر جنرل ضیا ء الحق ،
جنرل پرویز مشرف کے علاوہ اور دیگر کئی سیاسی جماعتوں کی طرف سے پاکستان کی
سیاست میں عملاً حصہ لینے کی پیشکشوں کو انھوں نے کبھی قبول نہیں کیا۔ن کو
قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر اور متعدد مرتبہ اْن کو سینیٹر بننے کی
پیشکش بھی ہوئی لیکن وہ ہمیشہ اس سے اعراض ہی کرتے رہے۔ 1975میں پاکستان
میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سردار محمد
عبدالقیوم خان کو اقتدارسے محروم کر کے پابند سلاسل کر دیا۔رہائی کے بعد
سردار محمد عبدالقیوم خان کو پاکستان میں بھٹو حکومت کے خلاف پی این اے کے
نام سے قائم ہونے والے قومی اتحاد کی داغ بیل ڈالنے اور اْس کی سرگرمیوں
میں حصہ لینے کے الزام میں پھر گرفتار کر کے پلندر ی جیل میں مقید کر دیا
گیا۔جہاں وہ 18 ماہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ 1978ء میں
پاکستان میں مارشل لا ء کے بعد تحریک بحالی جمہوریت ایم آر ڈی کے قائم کرنے
اور اْس کی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا کچھ عرصہ تک وہ اس کے کنوینئر بھی
رہے۔ انھوں نے اپنے بڑ ے مخالف ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کی بھرپور
مخالفت کی اس کے لئے صدر ضیا ء الحق کو ایک خط بھی لکھا اور اس وجہ سے وہ
بڑے عرصے تک جنرل ضیا ء الحق کے زیر عتاب بھی رہے۔سردار محمد عبدالقیوم خان
کی اسلام سے وابستگی اور پاکستان سے محبت کا جذبہ دیکھ کر بعد میں صدر جنرل
محمد ضیاء الحق نے اْن کو اپنا پیر و مرشد قرار دے دیا اور کوٹلی کے جلسہ
عام میں اعلان کیا کہ وہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد مسلم کانفرنس میں شمولیت
کا اعلان کریں گے۔سردار عبدالقیوم 2002 ء میں پاکستان کی صدارتی کشمیر
کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔سردار محمد عبدالقیوم خان نے 1970 تا 1975 کے دور
حکومت میں تحریک آزادی کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور عالمی لیڈروں
کو مسئلہ کشمیر کی سنگینی کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے متعدد اقدامات
کئے۔ جن میں لاہور میں منعقدہ 1974 ء کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں عالمی
رہنماؤں سے ملاقاتیں اور مسئلہ کشمیر کا تعارف،برطانیہ کے ہاؤس آف کامن میں
کشمیر کمیٹی کا قیام جیسے اہم کارنامے شامل ہیں۔ سردار محمد عبدالقیوم خان
نے اپنے دور حکومت میں آزاد کشمیر میں تعمیر و ترقی اور اسلامی نظام کے
نفاذ کے لئے محکمہ ترقیات و منصوبہ بندی ، محکمہ امور دینیہ ، اکلاس ،اے کے
ایم آئی ڈی سی ،محکمہ قضاء ، محکمہ افتاء ،سپریم کورٹ اور جوڈیشنل بورڈ کا
قیام ، دینی مدارس کی باقاعدہ سرپرستی، صدر کی سطح پر ہفتہ وار درس قرآن کا
اہتمام کرانا، اپنے عہدہ صدارت کے دوران انھوں نے آزاد کشمیر میں مرزائیوں
کو اقلیت قرار دینے ، آزاد جموں وکشمیر کے آئین میں الحاق پاکستان کا’’
آرٹیکل‘‘ شامل کرانے ،جمعہ کی سرکاری چھٹی، خانہ بدوش قبیلے کے لئے موبائل
سکول اور موبائل ڈسپنسریوں، شہری دفاع کی تربیت،وفاقی اداروں میں آزاد
کشمیر کے لوگوں کے لئے آبادی کے تناسب سے کوٹہ کا مقرر کرانا، آزاد جموں و
کشمیر میں یونیورسٹی کا قیام، اردو کو قومی زبان اور شلوار قمیص کو قومی
لباس قرار دینے جیسے متعدد تاریخی اقدامات اٹھائے۔ انھوں نے بانی پاکستان
قائد اعظم محمد علی جناح ٓ کے اس قول کی بنیاد پر کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ
رگ ہے‘‘ آزاد جموں وکشمیر میں’’ کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے کی ترویج
کے لئے سکولوں ،کالجوں ، تعلیمی اداروں اور سرکاری خط و کتابت کی پیشانی پر
اس کو کنندہ کرنے کے احکامات صادر فرمائے۔سردار محمد عبدالقیو م خان 1979
میں رابطہ العالم اسلامی مکہ مکرمہ سعودی عربیہ میں ہونے والی ’’رابطہ
العالم اسلامی‘‘ کے تاسیسی ممبر مقرر ہوئے۔انھوں نے درجنوں کی تعداد میں
اردو اور انگریز ی میں کتب تصنیف کیں۔ |