آنسو
(Shahid Shakeel, Germany)
کہتے ہیں آنسو بہت قیمتی ہیں
انہیں بہانا نہیں چاہئے ،لیکن عام حالات میں کوئی انسان نہیں روتا ،آنسو
بہانے کے بہانے بن ہی جاتے ہیں کسی فلم کا کوئی جذباتی سین ،جاب نہ ملنے کا
رنج،لائف پارٹنر سے جھگڑا، اداسی ،غصہ اور سب سے بڑھ کر جب ہم اپنے کسی
عزیز کو ہمیشہ کیلئے کھو دیتے ہیں تو آنکھوں میں غیر ارادی طور پر آنسو
آجاتے ہیں ، زندگی کی کٹھن راہوں میں کسی مقام یا لمحات میں ہم جب اپنے آپ
کو لاچار اور بے بس محسوس کرتے ہیں ، کسی قسم کا بوجھ ڈالا جاتا ہے یا
مخالف افراد کا رویہ درست نہیں ہوتا ،جسمانی تکلیف میں مبتلا ہوں تو اکثر
رونا آہی جاتا ہے ،بنیادی طور پر انسان جتنا بہادر ہے اس سے کئی گنا کمزور
بھی ہے اسکی سب سے بڑی کمزوری شاید رشتے ہیں یا وہ افراد جلد آبدیدہ ہو
جاتے ہیں جو معمولی سی بات کو انتہائی گہرائی سے محسوس کرتے ہیں، علاوہ
ازیں جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ رو کیوں رہے ہیں تو جواب ملتا ہے یہ تو
خوشی کے آنسو ہیں یا پیاز کاٹتے وقت بھی آنسو نکلتے ہیں معمولی ذرہ آنکھ
میں داخل ہو تو آنسو نکل آتے ہیں ان عوامل میں انسان روتا نہیں آنسو بہاتا
ہے لیکن ہم روتے کیوں ہیں ؟یہ بات سائنسدانوں کیلئے بھی پُر اسرار ہے۔آنسو
صرف وقتی طور پر پیش آنے والے واقعات کی صورت میں ہی رواں ہوتے ہیں کیونکہ
ہر انسان اپنے اندر ایک ایسی حِس رکھتا اور محسوس کرتا ہے کہ یہ ہی وہ موقع
ہے جب میں روؤں، دنیا کا کوئی انسان جذبات سے عاری نہیں زندگی کے کسی نہ
کسی موڑ پر یا لمحات میں انہونی شے کو محسوس کرتے ہوئے دل پسیج جاتا ہے اور
جذبات کی رو میں بہنے کی صورت میں آنسو نکل آتے ہیں مثلاً اچانک اپنے عزیز
کی فوتگی کی خبر سن کر دل پر قابو نہیں پایا جاسکتا اور ارد گرد کی پرواہ
کئے بغیر انسان رو پڑتا ہے نہایت کٹھن مراحل سے گزرنے اور کامیابی کی صورت
میں بھی کسی کی پرواہ کئے بغیر آنکھوں میں خوشی کے آنسو آجاتے ہیں ،آنسو
بہانا انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ نیچرل عمل ہے اور غیر ارادی طور پر اس
پر عمل کرتا ہے لیکن پتھردل اور بے ضمیر انسان کبھی نہیں روتے۔ماہرین کی
تھیوری اور مطالعہ یہ کہتا ہے کہ آنسو بہانے کے دو ماڈلز ہیں محقیقین کے
ایک گروپ کا کہنا ہے آنسوؤں کا بہنا جسم کا حفاظتی رد عمل ہے مثلاً سٹریس
اور کشیدگی میں مبتلا افراد دل بردا شتہ ہو کر آنسو بہاتے ہیں دوسرے گروپ
کی تھیوری ہے کہ سماجی رویے اور کمیونی کیشن کے زیر اثر یا دباؤ میں آکر
آنسو بہتے ہیں ان دو متضاد مطالعوں کے علاوہ سائنسدان کوئی اور وجہ تلاش
نہیں کر پائے کہ انسان کی اور کیا رونے کی وجوہات ہو سکتی ہیں، ماہر نفسیات
کا کہنا ہے انسان کے اندر کسی قسم کا دباؤ جب زور پکڑتا ہے تو وہ خود بخود
رونا شروع کر تا ہے اور اسوقت تک روتا ہے جب تک دل کی بھڑاس یا جمع شدہ
غبار نہ نکل جائے ،غصہ یا غم جب تک آنسوؤں کی صورت میں زائل یا بہہ نہ جائے
وہ بدستور روتا رہتا ہے اور ایسی صورت میں غمزدہ انسان کو دلاسا دینا مزید
خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ دلاسہ دینے کی صورت میں وہ اپنے آپ کو مزید
لاچار اور بے بس سمجھنے لگتا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی افراد زار و
قطار رونے کے بعد بھی اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس نہیں کرتے بلکہ مزید
ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ایک مطالعے سے ماہرین نے ثابت کیا ہے کہ
خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ آنسو بہاتی ہیں ریسرچ کے مطابق خواتین
جسمانی تشدد یا نفسیاتی اثرات کے سبب طویل عرصہ تک کئی افعال کو ذہنی
پریشانی بنا کر نمایاں طور پر آنسو بہاتی ہیں،تحقیق کے مطابق خواتین سال
میں چونسٹھ مرتبہ اور مرد سال میں سترہ مرتبہ روتے ہیں اعداد شمار کے مطابق
دونوں جنسوں میں جذباتی اور اضطراری آنسو کلچرز ،پرورش اور معمولی بات کو
محسوس کرنے کے علاوہ حساس اور جذباتی عمل کا اہم کردار ہوتا ہے نہ کہ
انسانی جسم میں پائے جانے والے ہارمنونز کی وجہ سے آنسو رواں ہوتے ہیں،آنسو
واقعات کے پیش نظر غیر ارادی طور پر ہر انسان کی آنکھوں سے رواں ہوتے اور
اس عمل میں جنس کا کو ئی تعلق نہیں ہوتا البتہ بچوں کو ان عوامل میں شامل
نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کیوں روتے ہیں یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ایو ولیوشنری
فزیالوجی میگزین میں بتایا گیا کہ خواتین حمایت حاصل کرنے کیلئے آنسو
استعمال کرتی ہیں بدیگر الفاظ خواتین کا بہترین ہتھیار آنسو ہیں،دوہزار
گیارہ میں سائنس میگزین میں رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ خواتین کے
آنسوؤں میں ہپنا ٹزم سے مماثلت رکھتا جذباتی مواد شامل ہوتا ہے جو کسی بھی
انسان کو موم بنانے کیلئے کافی ہوتا ہے۔آنسو بہانے یا رونے کی کئی اقسام
ظاہر ہونے کے باوجود ماہرین جذباتی آنسوؤں کی تحقیق کرنے سے قاصر ہیں کہ
کیوں خاص مواقع پر ہی غیر ارادی طور پر رواں ہو جاتے ہیں لیکن عام طور پر
تین قسم کے آنسو انسان بہاتا ہے اضطراری آنسو، جذباتی آنسو،خوشی کے آنسو
اور ایک محاورہ یا مقولہ ہے کہ مگر مچھ کے آنسو ۔یہ آنسو بھی قابل دید ہوتے
ہیں اور آبدیدہ کرتے ہیں۔ |
|