|
دیبل سے محمد بن قاسم نے نیرون کی جانب پیش قدمی کی جو بدھ مت کا
علاقہ تھا۔بدھ مت کے لوگوں نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیئے اور یہ دلیل پیش
کی:’ہمارا مذہب امن کا درس دیتا ہے۔لڑائی اور خون خرابے کی اجازت نہیں
دیتا۔‘نیرون سے سہون کی جانب مارچ کیا جہاں کا حکمران راجہ داہر کا کزن
بجھرا تھا تھوڑی سی مزاحمت کے بعد اس نے ہتھیار ڈال دیئے۔سہون کو فتح کرنے
کے بعد قاسم اور داہر کی فوجیں قلعہ راوڑ میں نبرد آزما ہوئیں۔جس میں داہر
کی 60000فوج کو جس میں جنگی ہاتھی بھی تھے شکست ہوئی ۰۲جون ۲۱۷ کو راجہ
داہر مارا گیا۔راجہ داہر کی موت کے بعد اس کی بیوہ ’رانی بائی‘ نے قلعہ
راوڑ کے دفاع کی کوشش کی لیکن جب ناکامی ہوئی تو راجپوتوں نے اپنی عزت جوہر
کی رسم ادا کر کے بچائی۔جوہر راجپوتوں کی ایسی رسم تھی جس میں دشمن کے
ہاتھوں شکست پر ملکہ اور شہزادیوں کو جلا کر مار دیا جاتا تھا۔قلعہ راوڑ
فتح کرنے کے بعد قاسم نے برہمن آباد کا رخ کیا جہاں کا حکمران ’جے
سنگھ‘(داہر کا بیٹا) تھا۔گھمسان کا رن پڑا 10000-20000لوگ مارے گئے۔جب جے
سنگھ نے محسوس کیا کہ مزید مزاحمت کا کوئی فائدہ نہیں تو اس نے ہتھیار ڈال
دیئے۔قاسم نے رانی لودھی(داہر کی بیوہ) اور اسکی بیٹیوں ثریا دیوی اور پرمل
دیوی کوقید کر لیا۔پھر اروڑ کو فتح کر لینے کے بعد محمد بن قاسم پورے سندھ
پر قابض ہو گیا۔سندھ فتح کر لینے کے بعد قاسم نے ملتان فتح کیا اور وافر
مقدار میں سونا اور مال و بوٹی حاصل کی اور ملتا ن کو سونے کے شہر کا نام
دیا۔ملتان پر قابض ہونے کے بعد قاسم پورے ہندوستان پر قبضہ کرنے کی منصوبہ
بندی کر رہا تھا اس نے ابو حاکم کی کمان میں ۱۰۰۰۰ کا لشکر بشمول گھوڑے
کنوج کی طرف بھیجا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کنوج فتح کرتا اسے خبر ملی کہ
حجاج بن یوسف کا انتقال ہو چکا ہے اور ساتھ ہی حکم پہنچا کہ واپس آجاؤ۔واپس
پہنچنے پر گورنر ایراق خلیفہ سلیمان جو حجاج بن یوسف کا سخت دشمن تھا،اس نے
محمد بن قاسم کو گرفتار کر کے میسوپوٹامیا بھیج دیا جہاں 18July715ADکوبے
دردی کے ساتھ موت کی نیند سلا دیا گیامسلمانوں کا یہ عظیم ہیرو 20سال کی
عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
عربوں کی سندھ میں کامیابی کی درج زیل وجوہات تھیں؛سندھ کے لوگ حملہ آور کے
خلاف متحد نہیں تھے۔بدھ مت اور جین مت جو راجہ داہر سے ناخوش تھے نے عربوں
کا ساتھ دیاجو عربوں کی کامیابی کی اک بڑی وجہ بنا،عربوں کے پاس جدید
ہتھیار تھا اور وہ فتح کے جذبہ سے سرشار تھے،سندھ باقی ہندوستان سے علیحدہ
تھااسلئے کسی کو بھی اسکے دفاع میں دلچسپی نہیں تھی،محمد بن قا سم کی قابل
کمانداری،حافس قبیلے کی جاسوسی اور راجہ داہر نالائق حکمران تھا یہ سب
وجوہات عربوں کی سندھ میں کامیابی کا باعث بنی۔عربوں کی سندھ پر فتح کے
دیرپا سماجی،معاشی،مذہبی اور علمی اثرات مرتب ہوئے سندھ ’باب الاسلام‘
کہلایا۔
۹۷۹ سے ۰۳۰۱ تک محمود غزنوی نے حکومت کی محمود غزنوی ،ایک عظیم فاتح،979میں
پیدا ہوا اور998میں غزنی کا سلطان بنا۔غزنی کی اک چھوٹی سی ریاست اسے وراثت
میں ملی تھی بعد میں وہ پورے غزنی کا سلطان بنا۔محمود غزنوی جنوبی ایشیا کی
اک متنازع شخصیت ہیں کچھ مورخین کے مطابق وہ ڈاکو تھا،لالچی تھا جو صرف
پیسے کیلئے جیتا اور پیسے کیلئے مرتا تھاوہ صرف بڑے قصبوں اور امیر مندروں
پر حملہ کرتا تھا اس نے کبھی کسی جنگی بنیاد پر حملہ نہیں کیا اس کے مندروں
پرحملے کا مقصد دولت اور بطور بت شکن شہرت کا حصول تھا۔لیکن اس کے برعکس
بعض مورخین کے مطابق محمود غزنوی کے بتوں اور مندروں کو توڑنے کا مقصد
اسلام کی تبلیغ اور اسلام کی اشاعت و ترویج تھا۔اسے اپنی فوج میں اضافے
کیلئے بھی پیسوں کی ضرورت تھی۔میرے مطابق محمود غزنوی اک عظیم فاتح تھا جس
نے ہندوستان میں اسلام کی اشاعت و ترویج کی-
غزنوی نے ۱۰۰۱ میں مملکت ہندوشاہی کے جے پال کو شکست دی۶۰۰۱ میں محمود نے
ابل فتح داود جس کے آنند پال کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے کو شکست دے کر
ملتان فتح کیا۔۸۰۰۱ میں وائے ہند کی جنگ میں آنند پال جس کے پاس بہترین فوج
تھی اور عوام بھرپور ساتھ تھی ہندو عورتوں نے اپنے زیور بیچ کر مسلمانوں کے
خلاف جنگ کیلئے پیسے دیئے تھے میں غزنوی نے شکست دی اور بہت سا مال غنیمت
ہاتھ آیا۔
(جاری ہے) |