یوں تو سارا دین ہی ایک رحمت
خداوندی ہے مگر رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جس کی رحمت و بر کت کو ہر
ذی حس انسان محسوس بھی کر سکتا ہے ۔یہ بارہ مہینوں میں ایک واحد مہینہ ہے
جو مسلمانوں کی زندگیوں میں یکسر تبدیلی پیدا کر دیتا ہے ۔عالم اسلام کے
آزاد علاقوں میں تو اس کی رحمت جگہ جگہ محسوس ہی نہیں بلکہ سر کی آنکھوں سے
دیکھی جاسکتی ہے ،رہے وہ مسلمان جو غیر مسلم علاقوں میں رہتے ہیں وہ بھی اس
کی رحمت و برکت میں پورے طور پر شامل ہوتے ہیں مگر ایک سوسائٹی پرکامل
اثرات صرف اور صرف اسی وقت مرتب ہوتے ہو ئے نظر آتے ہیں جب اس کا جزجز اس
کے رحمت کو سمونے کے لیے بے تاب ہواور یہ چیز وہی نظر آتی ہے جہاں اسلام
کامل طور پر غالب اور نافذ ہو۔
دین غالب ہو یا بدقسمتی کے ساتھ نافذ نہ ہومگر اس کے باوجود مسلم آبادی
جہاں بھی ہوتی ہے وہاں رمضان اپنے اثرات چھوڑ ہی جاتا ہے اور پہلے ہی روز
شیطانی قوتوں کی طاقت میں یکسر کمی آتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ایک اہم سوال جو
رمضان المبار ک کے مہینے میں ہر مسلمان کے ذہن میں آجاتا ہے کہ آخر رمضان
المبارک کے مہینے میں ایسی کیافضیلت ہے کہ شیاطین تک کو قید کیا جاتا ہے
،رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور قہر و غضب کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے ؟اس
کا سیدھا جواب یہ ہے کہ اس میں ایک رات ایسی ہے جس کی اﷲ تعالیٰ خود ہی
عظمت بیان فرماتا ہے کہ میں نے اس رات کوکامل خیر بنا دیا ہے جیسا کہ ارشاد
الہٰی ہے:’’ہم نے اس سے (قرآن مقدس کو) شب قدر میں اُتارا ہے ، شب قدر ہزار
مہینوں سے بہتر ہے اس میں اپنے رب کے اذن سے فرشتے اور روح الامین (حضرت
جبرئیل)ہر امرِ خیر لیکر (زمین کی طرف )اترتے ہیں( اور وہ شب )سراپا سلامتی
ہے،وہ شب (اسی صفت و برکت کے ساتھ )طلوع فجر تک رہتی ہے(سورۃ القدر) گو شب
قدر کی اس فضیلت نے ہی رمضان المبارک کو ساری رونق بخشی ہے البتہ اس جواب
کے ساتھ ہی ساتھ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ شب قدر کی یہ فضیلت کیوں
ہے؟اﷲ تعالیٰ اس کی فضیلت کی وجہ بھی اسی صورت میں بیان فرماتا ہے کہ اس کی
وجہ یہ ہے کہ میں نے اس رات میں قرآن مقدس کو اتارا ہے !!!
رمضان کی فضیلت یہ ہے کہ ’’شھر رمضان انزل فیہ القرآن‘‘ماہ رمضان میں قرآن
اتارا گیا ہے اور شب قدر کی فضیلت یہ ہے کہ رمضان کی اسی رات میں قرآن مقدس
کو نازل کیا گیا ہے گو رمضان کی اصل فضیلت یہ ہے کہ اس میں قرآن اتارا گیا
اور شب قدر کی فضیلت یہ ہے کہ رمضان کی اسی رات میں قرآن نازل کیا گیا اس
طرح معلوم ہوا کہ یہ ساری فضیلت صرف قرآن کی وجہ سے ہے مگر جیسا کہ ہم سب
جانتے ہیں کہ شب قدر کے تعین کے سلسلے میں شدید اختلافات ہیں یہاں تک کہ
باہم مختلف پچاس اقوال اس سلسلے میں کتابوں میں ملتے ہیں اگر چہ رمضان کے
آخری عشرے میں شب قدر کے ہونے میں قدرے اتفاق پایا جاتا ہے۔اس کے بعد اس
بات کی باری آتی ہے کہ’’آخری عشرے‘‘میں وہ رات کون سی ہے جس میں قرآن نازل
کیا گیا ،یوں تو مسلمان معاشروں میں ستائیسویں شب کے حوالے سے اتنا اہتمام
ہوتا ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ شاید یہی رات شب قدر ہو ،جہاں سرکاری طور
پر اس روز چھٹی ہوتی ہے وہی اجتماعی شب خوانی سے بھی تاثر یہی ملتا ہے کہ
شاید یہی شب شبِ قدر ہے حالانکہ ابو داؤد میں روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن
انیسؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ !میرا مکان جنگل میں ہے
میں وہیں رہتا ہوں اور خدا کا شکر ہے کہ وہیں نماز پڑھتا ہوں ،لہذا آپ
ﷺمجھے اس رات کے بارے میں بتایئے جس میں میں اس مسجد میں آؤں (یعنی بتایئے
کہ شبِ قدر کون سی رات میں ہے تاکہ میں اس رات میں مسجد نبوی آکر عبادت
کروں)آپﷺ نے فرمایا تیئسویں شب میں آؤ۔اس کے بعد حضرت عبداﷲؓ کے صاجزادے سے
(جن کا نام صمرہ تھا )پوچھا گیا کہ آپ کے والد مکرم کا معمول کیا تھا تو
انھوں نے کہا( رمضان کے بائیسویں تاریخ کو) میرے والد عصر کی نماز پڑھ کر
مسجد نبوی میں داخل ہوتے اور صبح کی نماز تک کسی بھی کام سے(جو اعتکاف کے
منافی ہوتا)مسجد سے باہر نہ نکلتے چنانچہ جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو مسجد
کے دروازے پر اپنی سواری کا جانور موجود پاتے اس پر سوار ہوتے اور اپنے
جنگل چلے جاتے ۔
متذکرہ بالا حدیث سے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ شب قدر تیٔسویں شب میں ہی آتی
ہے حالا نکہ ترمذی شریف کی روایت ہے حضرت ابو بکرہؓ روایت کرتے ہیں کہ میں
نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ شب قدر کو( رمضان کی )باقی ماندہ
انتیسویں ،ستایئسویں،پچیسویں،تیئسویں یا آخری شب میں تلاش کرو۔اور ترمذی کی
اس روایت کو مزید تقویت بخاری کی ایک اورروایت سے ملتی ہے ام المومنین حضرت
عائشہ ؓروایت کرتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا شب قدر کو رمضان کے آخری
عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔یہی وجہ ہے کہ محدثین نے ابوداؤد کی
تیئسویں شب کی روایت کی یہ تاویل کی ہے کہ شاید حضورﷺ کو اس سال معلوم رہا
ہو کہ شب قدر تیئسویں شب میں ہی ہے لہذا آپ نے اس صحابی کو صحیح صورتحال سے
باخبر کر دیا ۔اس ساری بحث کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات ہماری سمجھ میں آجائے
کہ شب قدر کی تاریخ میں راویات باہم مختلف اور متعارض ہیں لہذا جمہور امت
کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس’’ خیرعظیم ‘‘کو پانے کے لیے رمضان کے آخری
عشرے کی طاق راتوں میں شب خوانی کے ذریعے تلاش کیا جائے البتہ اس سلسلے میں
ایک چونکا دینے والی اور میرے موضوع سے براہ راست مناسبت رکھنے والی ایک
اہم روایت بھی ہمیں ملتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے شب قدر کی اصل
تاریخ بھی بتا دی مگر!حضور ﷺ اُمت کو وہ تاریخ نہیں بتا پایئے !!!کیوں؟
یہ ایک انتہائی اہم اور سنجیدہ سوال ہے کہ اگر حضور ﷺ کو تاریخ بتا دی گئی
تو آپ ﷺنے اُمت کو کیوں نہیں بتائی ؟حالانکہ آپ ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں
صاف صاف فرما دیا کہ ’’ اگر اس نبی(ﷺ) نے ہم سے منسوب کو ئی بات گھڑ کر
لائی ہوتی تو ہم اس کا دائیں ہاتھ پکڑ کر اس کی شہہ رگ کاٹ ڈالتے اور پھر
تم میں سے کوئی اس سے ہم سے نہیں بچا پاتا(الحاقۃ، آیت 43تا47)گو حضور ﷺ نے
ایسی کوئی بھی بات اُمت سے مخفی نہیں رکھی جو اﷲ تعالیٰ نے انھیں اُمت کو
بتانے کاحکم دیدیا ۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اﷲ تعالیٰ نے باخبر کرنے
کے بعداُمت کو بتانے سے رو کدیا ؟نہیں یقیناََ نہیں ،تو پھر باخبر ہو کر
بھی کیوں یہ بات ہم سے مخفی رہی تاکہ یہ امت اس خیر عظیم سے یکسوئی کے ساتھ
مکمل اور کامل طور پر استفادہ کرتی حالانکہ بخاری شریف کے الفاظ ہیں’’ خرجت
لاخبرکم بلیلۃ القدر‘‘ میں اپنے گھر سے اس ارادے سے نکلا کہ آپ کو شب قدر
کی اصلی تاریخ بتادوں۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ آپﷺ کو
اﷲ تعالیٰ نے تاریخ بتا بھی دی آپ ﷺ اپنے گھر سے اس سے اُمت کو باخبر کرنے
کی نیت سے نکلے بھی مگر باخبر نہیں کر پائے تو آیئے پہلے اس پوری حدیث کو
پڑھتے ہیں جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’میں تم کو بتانے کے لیے گھر سے نکلا
مگر میں بتا نہ سکا‘‘ ۔حضرت عبادہ ا بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن )نبی ر
حمت ﷺ باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شب قدر کے بارے میں بتائیں کہ ’’مسلمانوں
میں سے دو شخص جھگڑنے لگے ‘‘تو آپﷺ نے فرمایا میں باہر آرہاتھا کہ تمھیں شب
قدر کے بارے میں بتادوں مگر فلاں اور فلاں جھگڑنے لگے چنانچہ شب قدر کی
تعین اُٹھالی گئی اور شاید تمھارے لیے یہی بہتر ہو لہذا تم شب قدر کو
انتیسویں ،ستائیسویں اورپچیسویں شب میں تلاش کرو(بخاری)۔اس کا مطلب یہ ہوا
کہ تاریخ بتا دی گئی مگر ہمارے دو بھائیوں کے آپس میں جھگڑنے کے نتیجے میں
اُمت خیر کثیر سے محروم ہوگئی ۔
اس حدیث سے کئی باتیں سمجھ میں آتی ہیں نمبر ایک اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر
بہت شفیق ہے وہ انھیں مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حضور
اکرم ﷺ کو شبِ قدر کی اصل تاریخ بتا دی ،نمبر دو حضور ﷺکو اپنی اُمت کے
ساتھ بے پناہ محبت ہے ادھر تاریخ معلوم ہوئی ادھر بلا توقف صحابہؓ کو باخبر
کرنے کے لیے مسجد نبوی کی جانب تشریف لے گئے ،نمبر تین دو صحابہ ؓ کا آپس
میں کسی بات پر جھگڑنے کے نتیجے میں اُمت ایک خیر کثیر سے محروم رہ گئی
،نمبر چار اﷲ تعالیٰ ہی خیر و شر کا مالک ہے جب چاہے خیر عطا کر ے اور جب
چاہے شر میں مبتلا کر دے ،نمبر چھے خیر کثیر سے محرومی کے بعد اگر اس کی
تلافی کرنی ہو تو مشقت اُٹھانی ہو گی ۔یہ سبھی باتیں سمجھ لینے کے بعد میرے
موضوع سے براہ راست تعلق رکھنے والی بات جو ہم سب کے لیے غور طلب ہے یہ ہے
کہ اُمت کا آپس میں جھگڑنا ایک بدترین نحوست ہے جس کے نتیجے میں بسااوقات
پوری ایک اُمت ہی اﷲ تعالیٰ کی جانب سے آنی والی بھلائی سے ہی محروم ہو
جاتی ہے ۔اس حدیث مبارک میں سب مسلمانوں کے لیے ایک اہم نصیحت اور انتہائی
اہم سبق ہے کہ اگر ہم ایک دوسرے سے لڑیں گے تو ہم کتنی بڑی برائی کو اپنی
طرف مدعو کرکے کتنے بڑے خیر سے محروم ہو سکتے ہیں ۔
اس حدیث میں جہاں سارے مسلمانوں کے لیے ایک سبق ہے وہی ان لوگوں کے لیے
بالخصوص عبرت بھی ہے جو اُمت مسلمہ میں غلبہ دین یا اقامت دین کے عظیم
فریضے کے لیے اٹھ کھڑے ہو ئے ہیں کہ کہیں ہمارے ایک دوسرے کو برداشت نہ
کرتے ہو ئے آپس میں لڑنے جھگڑنے کے نتیجے میں صدیوں سے پسے جارہے مسلمان ہی
اس کے ذمہ دار تو نہیں ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی نصرت نازل ہونے میں ہمارے برے
اعمال اور گناہ ہی رکاوٹ بن جاتے ہوں اور ہم کو اس کی خبر بھی نہ رہتی ہو
۔قرآن کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے امامت
عالم چھینے جانے کے جو اسباب بیان کئے ہیں ان میں ایک جرم یہ بھی ہے کہ وہ
ناحق ایک دوسرے کی گردنیں مارتے تھے تو اﷲ تعالیٰ نے انھیں ’’سیادت عالمی
‘‘سے محروم کر کے’’ خلافت عالمی‘‘ کا تاج بنی اسماعیل کے سر پر رکھ دیا اور
ہم بھی حدیث رسول ﷺ کے عین مطابق ’’شبربشرضراعاََ بضراعِِ‘‘بنی اسرائیل کے
نقش پا پر چلتے ہوئے مشکل سے حضرت عثمانؓ کے دور مبارک تک ہی صبر کر پائے
اور ہم نے بھی آپسی جنگ و جدال کا ایسا محاذ کھولا کہ آج تک رُکنے کا نام
نہیں لیتا ہے آخر ’’عالمی قیادت و سیادت ‘‘کے لیے مطلوبہ شرائط پورے کئے
بغیر اﷲ تعالیٰ کی نصرت کیسے آئے گی ؟؟؟
|