نور اعلیٰ نور - قسط ۔۴

’’امی ! دو تین دن تو ہو گئے ہیں…… ان کا کوئی جواب نہیں آیا‘‘۔
’’رشتے والی آنٹی کو فون کر کے پوچھ لیں نا……‘‘۔ذولفقار نے کہا۔ گھر کے تمام افراد لڑکے والوں کے فون کا انتظار کر رہے تھے کہ کچھ جواب دیں۔ سب کو امید تو یہی تھی کہ جواب مثبت ہی آئے گا اور بات بن جائے گی۔
یہ سب ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے چینل ادھر ادھر کر رہے تھے۔افغانستان کی جنگ ختم نہیں ہوئی تھی اور امریکہ عراق پر پابندیاں لگا چکا تھا۔
’’ویسے یہ امریکہ کو بھی چین نہیں ہے…… اب عراق کے پیچھے پڑ گیا……‘‘۔ امریکہ کا دعوی تھا کہ عراق کے پاس ویپن آف ماس ڈسٹرکشن ہیں۔ جن کی وجہ سے امن پسند دنیا کو عراق سے خطرہ لاحق ہے۔
’’ہاں میں بھی سوچ تو رہی تھی…… چلو کرتی ہوں فون……‘‘۔اسکی امی نے ٹی وی پر چلتی خبروں پر کوئی تبصرہ نہ کیا بلکہ ذولفقار کی بات مانی کہ رشتے والی خالہ کو فون کر کے کچھ پوچھ گچھ کریں۔

’’ہیلو باجی! کیسی ہیں آپ؟‘‘۔
’’میں ٹھیک ہوں، آپ سنائیں؟‘‘۔ دوسری طرف سے جواب آیا۔
’’اﷲ کا شکر ہے۔ ‘‘ ذولفقار کی امی انتظار کرنے لگیں کہ رشتہ والی خالہ از خود اس دن کی ملاقات کے بارے میں کچھ بات کریں گی۔ مگر انہیں تو جیسے کچھ یاد ہی نہیں تھا۔
’’وہ……وہ کچھ جواب نہیں آیا لڑکے والوں کی طرف سے……!!!‘‘ ذولفقار کی امی نے خود ہی پوچھ لیا۔
’’ہاں! ……ہاں! ……وہ میں پتا کرتی ہوں…… ہیں!!!‘‘۔ ان کا انداز گفتگو کچھ ایسا تھا جیسے انہوں نے کوئی رشتہ ان کے ہاں بھیجا ہی نہ ہو۔
’’ اس دن کے بعد سے بات نہیں ہوئی میری بھی…… ذرا مصروف تھی میں پچھلے دنوں…… ہیں!!!‘‘
’’ہاں ذرا معلوم کر کے بتائیے گا نا…… ہمیں تو پسند آئے وہ……‘‘۔ امی نے کہا۔
’’آپ فکر نہ کرے میں خود چند ایک روز میں آپ کو فون کر دوں گی…… ہیں!!!‘‘۔وہ ہر بات کے آخر میں ہیں ہیں کرتیں تھیں۔
’’چلیں ٹھیک ہے …… یاد سے بتا دیجئے گا‘‘۔ امی بولیں۔
’’انشاء اﷲ……ہیں!!!‘‘۔ دوسری طرف سے آواز آئی۔
’’اﷲ حافظ‘‘۔ امی نے بات ختم کی۔

’’امی ایک گاڑی لے لیں؟‘‘ ذولفقار اچانک امی سے بولا۔ سب چونک کر اس کیطرف متوجہ ہو گئے۔
’’نہیں بیٹا! اب ابو بھی نہیں رہے…… خیال سے پیسے خرچ کرو‘‘۔ امی نے انکار کیا۔
’’سستی سی تو مل جائے گی امی …… پانچ ، چھ لاکھ میں آرام سے مل جاتی ہے اچھی گاڑی……‘‘ اس نے امی کو قائل کرنا چاہا۔
’’صحیح بات ہے لے لیں گاڑی…… اتنی مشکل ہوتی ہے…… بسوں میں دھکے کھاتے……‘‘ سدرہ نے باتیں بنانا شروع کر دیں۔ اسے گھر کے کسی اصلاحی کام میں تو زرہ برابر دلچسپی نہ تھی مگر ایسے موضوعات پہ اس کی زبان خوب چلتی تھی۔
’’عائشہ کا رشتہ بھی آرام سے ہو جائے گا……‘‘۔ ’’صاف سی بات ہے…… آج کل عزت صرف اسی کی ہے جس کے پاس پیسہ ہے‘‘۔ سدرہ نے پھر کہا۔ مگر شاید یہ بات آج کے دور میں اس نے ٹھیک ہی کہی تھی۔
’’چلیں میں دیکھتا ہوں……‘‘۔ ’’لے ہی لیتے ہیں ‘‘۔ ذولفقار کا دل بہت چاہ رہا تھا کہ ایک گاڑی لے کر آرام سے گھومے پھرے ، دوستوں کے سامنے شو مارے……
۔۔۔۔۔۔۔

رات کے ایک بج رہے تھے۔مین روڑ کے دونوں اطراف لائٹیں جل رہی تھیں۔ شازونادر ہی کوئی گاڑی آتی اور ویران روڑ پرشور مچاتی آگے نکل جاتی۔ ذولفقار کا چھوٹا بھائی وحید تنہا اس روڑ کی ایک طرف چلتا جا رہا تھا۔ اس کا دماغ ہر سوچ سے خالی تھا۔ وہ رات کے اس پہر بغیر کسی مقصد کے بس چلتا جا رہا تھا۔ کافی دور تک چلتے چلتے جب اسے تھوڑی تھکن محسوس ہوئی تو وہ ایک چھوٹے سے پارک کے دروازے کے آگے بینچ پر بیٹھ گیا۔ پارک بند پڑا تھا۔ اندر گھنے گھنے اونچے درخت ہوا سے ادھر ادھر جھول رہے تھے۔

وحید وہیں بالکل خاموشی سے بیٹھا رہا۔
’’میں کیا کروں……‘‘۔
’’میں کیا کروں……‘‘۔ وہ بے مقصد ایسی باتیں منہ سے نکال رہا تھا۔
’’کچھ کرنے کو ہی نہیں ہے……‘‘۔
وہ آسمان کو دیکھنے لگا، جس پر چاند چمک رہا تھااور تھوڑے بہت بادل بھی بکھرے ہوئے تھے۔
’’اچھا لگ رہا ہے چاند…… اور بادل‘ ‘۔
کافی دیر وہ وہیں بیٹھا رہا پھر اکتا کر اٹھا اور پھر آگے بڑھنے لگا۔
’’کہاں جاؤ؟‘‘
’’کوئی جگہ ہی نہیں ہے کہ چلا جاؤ……‘‘۔ وہ اپنے اآپ سے باتیں کرنے لگا۔
اچانک اسے سامنے سے ایک پولیس وین آتی نظر آئی ۔ وہ فورا فٹ پاتھ پر لگے پودوں کے ساتھ جڑ کر کھڑا ہو گیا تا کہ کوئی اسے دیکھ نہ سکے۔ پولیس وین تیزی سے اس کے پاس سے گزر گئی۔

’’کوئی ہے ہی نہیں میرے ساتھ…… میں بالکل اکیلا ہوں‘‘۔ و ہ پھر یونہی تنہا روڈ پر آگے چلنے لگا۔ اس کے لہجے میں انتہا کی مایوسی تھی۔
’’سب سو رہے ہیں …… اور میں یہاں باہر پھر رہا ہوں……ہونہہ! ‘‘۔ وہ خود پر ہی طنزاََ مسکرایا۔

یہ کوئی سیاہ رات ہے ؟ یا ہے میرا سایہ
رات بھی اکیلی ہے نہ میرے پاس کوئی آیا

کیسی کالی رات ہے اور مجھ میں بھی اندھیرا
ایسی پرسرار جیسے میں نے کوئی راز چھپایا

کون سننے والا ہے اس تنہا دل کی باتیں
جیسے آدھی رات کو اک پرندہ چہچہایا

’’ہائے……!‘‘۔ اس نے یک دم ایک نظم اپنی حالت پر کہہ ڈالی اور ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
صبح چار بجے کے قریب وہ واپس لوٹ آیا۔ گھر کے دروازے کی دو چابیاں اس نے بنا رکھیں تھیں۔ اس نے آہستہ سے دروازہ کھولااور اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی ذولفقار نے خرید لی تھی۔ بینک اکاؤنٹ اسکے ہاتھ میں تھا۔ اس کاجب جی چاہتا پیسے نکال لیتا۔ کبھی امی پوچھتی تو حساب کتاب اوپر نیچے کر کے امی کو ٹھگا لیتا۔

اس نے موبائیل پر حسن کا نمبر ملایا۔
’’ہیلو……‘‘۔ حسن نے فون اٹھایا۔
’’ہیلو…… کیا حال ہے بھئی کہاں ہو اتنے دنوں سے ؟‘‘۔
’’ہی ہی ہی ……بس یار فائنل ائیر پروجکٹ پر کام چل رہا ہے……اسی میں بی زی تھا۔‘‘ حسن نے بنایا۔
’’میرا بھی پروجکٹ چل رہا ہے…… مگر ساتھ ساتھ اور کام بھی ہو رہے ہیں‘‘۔
’’بھئی تمہارے تو سارے کام ہو ہی جاتے ہیں …… مجھ سے ایسے نہیں ہوتا‘‘۔ حسن نے جواب دیا۔
’’خیر میں نے گاڑی لے لی ہے۔ چلو کسی دن کہیں گھومنے پھرنے چلتے ہیں۔‘‘
’’اچھا!!!‘‘۔ حسن نے جوشیلے انداز میں کہا۔
’’واہ بھئی! کون سی گاڑی لی ہے؟‘‘
’’وٹز لی ہے‘‘۔
’’بڑے پیسے آ گئے ہیں!!! ……ہی ہی ہی…… ‘‘
’’ہا ہا ہا ……‘‘ ذولفقار بھی ہنسا
’’تو بتاؤ؟؟؟‘‘ اس نے پھر گھومنے کے پروگرام کے بارے میں پوچھا۔
’’ایسا کرنا کچھ دن بعد آ جانا…… صبح صبح نکل جائیں گے……‘‘۔ حسن نے کہنا شروع کیا۔
’’پھر اچھی طرح گھومیں گے…… کہیں لونگ ڈراؤ پر جائیں گے…… بلوچستان کی طرف یا ہاکس بے وغیرہ‘‘
’’او کے۔ ٹھیک ہے‘‘۔ ذولفقار نے خوشی سے کہا۔
’’او کے ۔ ڈن‘‘۔
’’او کے ، اﷲ حافظ‘‘۔ اس نے کال کاٹ دی۔
۔۔۔۔۔۔۔

’’امی میں کمبائن اسٹڈی کے لیئے جارہی ہوں۔‘‘ ذولفقار کی بہن سدرہ پوری طرح تیار تھی۔ یعنی بیگ میں چند کتابیں او ر ایک سوٹ اور تمام میک اپ کا سامان بھرا تھا۔
’’کس کے جارہی ہو……‘‘ رات ہو چکی تھی۔ اسکی امی نہیں چاہتی تھیں کہ وہ اس وقت باہر نکلے۔
’’گھر میں ہی پڑھ لو ……اس طرح تو رات بھر باہر ہوگی ۔‘‘ امی نے سدرہ کو سمجھانا چاہا ۔
’’ہونھ ……عائشہ!!!‘‘سدرہ زور سے چیخی ۔
’’کیا ہوا ؟؟‘‘عائشہ اندر کمرے سے باہر نکلی۔
’’بھئی ان کو بتادو کہ میں پڑھنے جارہی ہوں دوستوں کے گھر ……فضول باتیں نہ کریں ……‘‘سدرہ ہمیشہ کی طرح اپنے گھٹیا پنے پر اتر ّآئی۔
’’کیا ہوا ؟؟ …… اس طرح کیوں بات کر رہی ہو؟؟‘‘ عائشہ نے کہا ۔
’’میں نے کہا ہی کیا ہے اس کو ……‘‘امی کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا کہ ناجانے اب بیٹی اور کیا کیا سنائے گی۔
’’تو کس طرح بات کروں ……اب میں پڑھنے جارہی ہوں تو وہ بھی نہیں جانے دے رہیں ……پتا نہیں کس طرح اس منحوس گھر میں رہتی ہوں میں ……‘‘سدرہ دروازے کی طرف بڑھی ۔
’’ہٹ جائیں سامنے سے ……‘‘ سدرہ نے اپنی امی کو جھڑکا اور گھر سے نکل گئی ۔

گھر سے کچھ آگے بڑھ کر اس نے اپنا مہنگا سا موبائیل نکالاجسے جانے اس نے کیسے حاصل کیا تھا۔ ایسا موبائیل خریدنے کی تو اوقات نہ تھی اس کی۔ اس نے اپنی ایک دوست کو کال ملا ئی ۔
’’ہاں نکل گئی ……‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی ۔
’’ہاں یار نکل ہی گئی……ہی ہی ہی ……‘‘
تو پہلے میرے گھر آؤ گی نا ؟‘‘ اس کی دوست نے پو چھا ۔
’’ ہاں ……کیونکہ میں تیار نہیں ہوں بالکل ……‘‘۔
’’چل ٹھیک ہے آجا ……‘‘

اس رات سدرہ اپنی دوست کے گھر تیار ہو ئی اور اس کے ساتھ اس کے کالج کے کنسرٹ میں پہنچ گئی ۔
ساری رات کنسرٹ چلتا رہا ……لڑکے لڑکیاں جھوم جھوم کر ناچ رہے تھے ،کسی نائٹ کلب کا سا منظر تھا ۔

’’یار بوریت ہو رہی ہے…… اب کہیں باہر گھومتے ہیں ۔‘‘ رات کے تین بجے سدرہ نے اپنی دوستوں سے کہا۔
’’یار اچھا گانا گا رہا ہے ……‘‘ ایک لڑکی بولی جو لہک لہک کر کسی غیر معروف گلوکار کو اسٹیج پر ناچتا گاتا دیکھ کر محظوظ ہو رہی تھی۔
’’نیا بندہ ہے مگر ہے اچھا……‘‘ دوسری نے کہا ۔
’’نام کیا ہے اسکا ؟‘‘
’’چلو بھئی باہر چلو ……پھر آجائیں گے……‘‘سدرہ نے اصرار کیا ۔
وہ سب کالج کے گیٹ کے باہر کھڑی ہو گئیں ۔
’’آپ کو لفٹ دے دیں ہم؟‘‘ لڑکوں کی ایک ٹولی نے ان سے پوچھا ۔
’’چلو یار ‘‘ نہ جان نہ پہچان ، وہ سب فوراََ ہی ان کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ اس کے بعد وہ کنسرٹ واپس نہ آئیں بلکہ ساری رات ان لڑکوں کے ساتھ کراچی بھر میں گھومتی رہیں۔ کبھی آئس کریم کھارہی ہیں کبھی پھول خرید رہی ہیں اور نہ جانے کیسی کیسی واہیات اور بیہودہ حرکتیں…… ساری رات ایسے ہی گزر گئی۔

ان لڑکیوں کو تو یہ لت لگ گئی تھی ۔کہیں بھی جانا ہوتا تو روڈ کے کنارے کھڑی ہو جاتیں اور کوئی نہ کوئی آوارہ انہیں لفٹ دینے کو تیار ہوتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔

ذولفقار کی امی بڑی بے چینی سے رشتے والوں کے جواب کا انتظار کر رہی تھیں۔ آئے دن گھر میں اسی بات کازکر بار بار چھیڑتیں۔
’’ پتہ نہیں وہ رشتے والی فون کیوں نہیں کر رہی…… پیسے لے جاتیں ہیں یہ اور کام زرا نہیں ہوتا ان سے……‘‘ عائشہ اپنے امی کی باتیں سننے لگی۔
’’بھئی اگر یہ رشتہ نہیں بھی آرہا تو کوئی اور بھجوا دے…… اتنے پیسے لے چکی ہے‘‘۔ وہ بار بار اپنا غصہ اور بے صبری رشتے والی خالہ پر اتار رہی تھیں۔ پھر آخر کار وہ موبائیل پر ان کل نمبر ملانے لگیں۔
’’امی! ظاہر ہے اگر انہوں نے جواب نہیں دیا تو اس کا یہی مطلب ہے نا کہ نہیں ہو رہا رشتہ…… اسے تو اورپیسے مل جائے گے رشتہ فائنل ہوجانے کے بعد…… وہ کیوں سستی کریں گی!!!‘‘۔ عائشہ نے اپنی امی کو سمجھانا چاہا جو اب کان سے موبائیل لگائے اپنی کال اٹھائے جانے کا انتظار کر رہی تھیں۔

’’ہم م م …… ہیلو!‘‘۔ رشتے والی خالہ نے کال اٹھا لی۔
’’ہیلو! کہاں ہیں بھئی آپ …… غائب ہی ہو گئی ہیں‘‘۔ امی کی آواز سے بیزاری چھلک رہی تھی۔
’’مجھے کہاں ہونا ہے…… وہیں ہوں جہاں تھی‘‘۔ رشتہ والی خالہ تو پروفقشنل تھیں۔ ان سے کون جھڑپ کر سکتا تھا۔
’’اچھا!!! تو مجھے تو کچھ بتا دیں کہ کیا ہوا …… پیسے آپ نے اتنے لے لئے ہیں اور پھر بات ہی نہیں کرتیں‘‘۔ ذولقار کی امی نے بھی اپنا لہجہ زرا نہ بدلا۔
’’پیسے میں آپ کو واپس لا دیتی ہوں…… فکر نہ کریں…… اور جو رشتے کا آپ کہہ رہی ہیں اسے تو بھول جائیں‘‘۔
’’آپ لوگوں کا رشتہ نہیں کرا سکتی میں……‘‘۔ ذولفقار کی امی کو کچھ چپ سی لگ گئی۔
’’ ان لوگوں کو آپ کی چھوٹی بیٹی کے بارے میں کچھ غلط معلومات ملی ہے…… انہوں نے مجھے موبائیل پہ دکھائیں ہیں اس کی ویڈیوز…… سدرہ نام ہے نا اس کا…… آپ کو دیکھنی ہوں تو آ جائیے گا…… دکھا دوں گی آپ کو بھی، تا کو غصہ ٹھنڈا ہو جائے آپ کا……‘‘
’’ہیں!!!‘‘۔ ذولفقار کی امی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ انہیں معلوم تھا کہ سدرہ سے کچھ بعید نہیں۔ واقعی ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ غصہ شرمندگی میں ڈھل گیا۔ انہوں نے گھبرا کر فون کاٹ دیا اور صوفے پر نڈھال ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’بیپ! بیپ! ‘‘
حسن کے گھر کے سامنے ہارن کی آواز آئی ۔
’’ہاں رُک آرہا ہو ں ……‘‘حسن نے گھر کے اندر سے ہی آواز دی اور پھر اندر بھاگ گیا۔
’’سالے اتنی دیر لگا دی ……‘‘ حسن گھر سے نکلا توذولفقارنے اسے دیکھتے ہی سنائیں ۔
’’او بھائی……پکنک پر ہی جارہے ہیں نا……کوئی اسکول تھوڑی جارہے ہیں ……کہ اسمبلی میں پہنچنا ہو……‘‘
حسن نے اپنا سامان پچھلی سیٹ پر ہی پھینک دیا اور آگے آبیٹھا ۔
’’اوہو ……اچھی گاڑی ہے بھئی……‘‘ حسن پھر اترا اور گاڑی کے گرد چکر لگا لگا کر دیکھنے لگا ۔ ذولفقار گاڑی میں بیٹھا خوش ہو رہا تھا ۔
ویری گڈ……چلو اب کبھی میری گاڑی خراب ہوگی تو بیک اپ تو ہوگا ……ہاہاہا ……۔‘‘ حسن نے کہا ۔
’’چلو بیٹھ جاؤ اب……پہلے ہی دس بج چکے ہیں ۔‘‘
گاڑی چلنے لگی ۔ وہ دونوں گھومتے پھرتے ہاکس بے پہنچے ۔ ہمیشہ کی طرح سا حل سہانا لگ رہا تھا ، بڑی بڑی لہریں اور صاف ستھرا پانی۔ انہوں نے وہیں دری بچھا دی اور سامان نکال کر چائے پینے لگے ۔تھوڑا بہت گھوم گھام کر وہ واپس پلٹے اور واپسی میں ایک شاپنگ سینٹر میں لڑکیوں کو دیکھ دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کیں پھر واپس گھر کی طرف روانہ ہوئے۔
’’ارے یہ کدھر جارہے ہو ……‘‘ اچانک ذولفقار نے گاڑی کو فٹ پاتھ کی طرف سرکایا۔
’’یار یہ لڑکیاں روز یہاں کھڑی ہوتی ہیں …… آج کسی کو بٹھاہی لیتے ہیں ……۔‘‘ اس نے حسن سے کہا۔
’’ابے پاگل ہے کیا!……سیدھا چل‘‘ حسن نے سختی سے منع کیا ۔
’’ایک تو تم فورا ٹھس ہو جاتے ہو…… او بھائی بڑے کب ہو گے!!!‘‘ ذولفقار چڑ گیا۔
’’ اس میں بڑے ہونے کی کیا بات ہے؟……تم سے بہت بڑا ہوں میں……‘‘ حسن نے بحث شروع کردی ۔
’’تمہیں پتہ ہے کیسی عورتیں ہوتی ہیں یہ ؟؟ بھائی جرائم پیشہ ہوتی ہیں یہ……اتنے قصے سنتے ہیں ……لوگ بٹھا لیتے ہیں پتہ نہیں کس چکر میں ……اور وہ پستول رکھ دیتی ہیں ……اور کبھی کبھی تو یہ کھدڑے ہوتے ہیں ……ہاہاہاہا‘‘ حسن ہنس پڑا، ذولفقار بھی ہنسنے لگا۔’’یہ جنہوں نے پردہ کیا ہوا ہے‘‘۔ حسن نے اشارہ کیا۔ اسی روڈ کے کنارے کچھ عورتیں منہ پر نقاب کئے بھی کسی گاہک کے انتظار میں کھڑی تھیں۔ ان عورتوں کو حسن ہیجڑا کہہ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔

ہر رات کی طرح آج بھی وحید اکیلا سڑکوں پر گھوم رہا تھا۔
’’میرا کوئی نہیں ہے……‘‘۔
’’نہ کوئی دوست ہے نہ کوئی اور……‘‘۔
’’کسی کو میرا کچھ پتا نہیں ہے……کسی کو میری کوئی پرواہ نہیں ہے‘‘۔
ساری دنیا سوتی ہے
مجھے نیند کیوں نہیں آتی!
وحید نے پارک کے سامنے اندھیرے میں بینچ پر بیٹھے بیٹھے شعر کہنے شروع کر دئیے۔

جب آپ اکیلے خوش ہیں تو
اس دل سے یاد کیوں نہیں جاتی!

اچانک وحید کو اپنے بائیں جانب سے ایک شخص آتا دکھائی دیا۔ وہ ایک چھبیس ستائیس سال کا نہایت حسین اور خوبرو نوجوان تھا۔ بالکل جیسے کوئی ایکٹر یا ماڈل ہوتا ہے۔ وہ سیدھا وحید کی طرف آیا اور بینچ کے دوسرے کنارے پر بیٹھ گیا۔ وحید ہکا بکا رہ گیا کہ اچانک یہ کون اس ہی کے بینچ پر آ بیٹھا ہے جبکہ دوسرے بیچ پر کوئی نہیں بیٹھا۔
’’لیں گے آپ؟‘‘۔ اس نے سگریٹ جلائی اور وحید کی طرف ایک سگریٹ کر کے پوچھا۔
’’نہیں تھینک یو!‘‘۔ وحید نے سیدھا سا جواب دے دیا۔
پارک کے دروازے کے بائیں جانب بھی ایک بینچ تھا ، مگر وہ اسے چھوڑ کر یہیں آ بیٹھا تھا۔وحید کچھ سمبھل کر بیٹھ گیا۔ وہ لڑکا چپ چاپ وہیں بیٹھا سگریٹ پیتا اور کبھی کبھی اپنے سلکی بالوں میں ہاتھ پھیرتا۔ رات کے اس پہر وہاں اور کوئی آدم زادنہ تھا۔
’’پہلے میں بھی اسی طرح مارا مارا پھرا کرتا تھا…… ہونہہ……‘‘۔ وہ مسکرایا۔
’’ابھی بھی مارے مارے ہی پھر رہے ہیں……‘‘ ۔ وحید کے منہ سے فوراََ جواب نکلا۔
’’ہا ہا ہا…… تم تو بڑے تیز ہو بھئی……‘‘۔ وہ ہنسنے لگا۔
وحید سمجھ گیا کہ وہ کافی دنوں سے اسے یہاں رات بھر پھرتا ہوا دیکھ رہا ہے۔
’’ہائے ! کیا زندگی ہے……‘‘ وہ خود سے بولا۔
’’کسی کو کسی کی فکر نہیں…… کوئی اپنا نہیں……‘‘ اس نے کہا اور خاموش ہو گیا۔
مگر یہ تو وہی باتیں تھیں جنہوں نے وحید کے ذہن میں ہر دم طوفان پرپا رکھا ہوا تھا۔ جو وحید بھی سوچا کرتا تھا۔ وحید نے ایک نظر اسے دیکھا پھر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

اچانک وہ لڑکا پارک کے چھوٹے سے دروازے کی طرف بڑھا، ایک قدم دروازے کی گرل پر رکھا اور اندر کود گیا۔ وحید نے چونک کر اسے ایسا کرتے دیکھا۔
’’تم بھی آ جاؤ…… بڑا اچھا پارک ہے……‘‘۔ اس نے وحید سے کہا۔
وحید نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور بینچ سے اٹھ کر آگے کو بڑھا۔ وہ لڑکا پارک کے اندر گھنے درختوں کے اندھیرے میں کہیں کھو چکا تھا۔

وحید کے دل میں ابھی بھی وہی شخص تھا ۔ اور اس کی باتیں…… جو ویسی ہی تھیں جیسی وحید خود کیا کرتا تھا۔ وحید تھوڑا آگے بڑھا۔مگر اسے تجسس تھا کہ زرا دیکھے توسہی وہ شخص کہاں گیا۔وہ واپس پارک کی جانب پلٹا۔ اسے وہاں کچھ نظر نہ آیا۔ وہ پارک کے دروازے کے آگے پیچھے ٹہلنے لگا۔ ’’جاؤ نہ جاؤ……‘‘ وہ سوچ رہا تھا کہ پارک میں جائے یا نہ جائے۔ پھر اچانک اس نے بھی پارک کا گیٹ پھلانگا اور اندر چلا گیا۔دور ایک گھنے درخت کے نیچے اسے سگریٹ کے جلنے کی چھوٹی سی لال روشنی نظر آئی اور وہاں سے اٹھتا سگریٹ کا دھواں……اس لڑکے نے سر گھما کر وحید کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

سلمان سے اب وحید کا ملنا جلنا روز کا ہو گیا تھا۔ گو کہ ان دونوں کی عمروں میں کوئی سات آٹھ سال کا فرق تھا مگر وہ دونوں ایک ہی سی باتیں کرتے ۔ خوش ہوتے کہ وہ دونوں کتنے ایک جیسے ہیں، ان کی پسند ، ان کے خیالات، ہر چیز……
’’میرے ابو تو دبئی میں رہتے ہیں……‘‘ سلمان نے وحید سے کہا۔
’’یار! میرے ابو کا تو انتقال ہو چکا ہے…… اب سب کچھ بدل گیا ہے‘‘۔ وحید نے جواب دیا۔
یہ دونوں پارک کے گھنے درخت کے نیچے اندھیرے میں بیٹھے سگریٹ پی رہے تھے۔
’’یہ کیا ڈال رہے ہو؟؟؟‘‘۔ سلمان سگریٹ میں کچھ بھر رہا تھا۔
’’چرس ہے؟؟؟‘‘۔ وحید نے خود ہی جواب دیا۔
’’سب پتا ہے بچے کو……‘‘۔ سلمان نے چونک کر وحید کو دیکھا اور بولا۔
’’اب اتنا تو پتا ہی ہے……‘‘۔ وحید نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’لوگوں نے تو ایسے ہی ہوا بنایا ہوا ہے اسے……اٹس سو مچ فن یار!!!‘‘۔ سلمان نے سگریٹ بھری اور پینے لگا۔

’’ذیادہ بننے کی ضرورت نہیں…… مجھے نہیں پتا تھا کہ تم چرس بھی پیتے ہو‘‘۔ وحید نے منہ بنایا۔
’’اچھا بھئی چھوڑ دوں گا‘‘۔سلمان نے ایک کش لگاتے ہوئے کہا۔
’’لاؤ !مجھے بھی دو……‘‘ وحید ہنسا۔
’’دماغ ٹھیک ہے……!!! ‘‘
’’ آج کہہ دیا ہے…… آئندہ نہیں کہنا‘‘۔ سلمان نے کسی بڑے بھائی کی طرح اسے جھڑک کر کہااور وحید کسی گرل فرینڈ کی طرح ناراض ہو کر بیٹھ گیا۔
’’ اچھا اب منہ نہ بناؤ…… ہاہاہا……‘‘ سلمان ہنسا اور وحید کو منانے لگا۔

وہ دونوں وہاں سے اٹھے۔صبح کے چار بج رہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح سلمان نے پہلے وحید کو گھر چھوڑا پھر واپس آ کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر واپس گیا۔

ان دونوں کی عمر میں کافی فرق تھا۔سلمان ستائیس سال کا اور وحید تو بس ابھی کالج میں تھا ، کوئی انیس سال کاہو گا…… کالج تو وحید جاتا نہ تھا، صبح سویرے اٹھ کر سب سے پہلے سلمان کو میسج کرتا،پھر فون کرتا، پھر شام کو اور رات کو گھومنے کے پلان بناتا…… بس یہی کام تھا اس کا…… اسے اپنی تنہائی کا ساتھی مل گیاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔

سلمان نے گھر آ کر اپنا موبائیل چیک کیا۔ اس پر پینتیس مس کالز اور دس میسجر تھے۔
’’کہاں مر گئے تھے تم……؟؟؟‘‘۔ وحید نے پھر سلمان کو کال ملائی اور غصے میں بپھر کر پوچھا۔
’’یار ! کیا ہو گیا ہے……؟؟؟…… میں پاسپورٹ بنوانے گیا ہوا تھا…… اور موبائیل گھر پر بھول گیا تھا۔‘‘ سلمان نے وضاحت کی۔
’’گیٹ لوسٹ!!!‘‘۔ وحید نے کہا اور فون کاٹ دیا۔ اسیشدید غصہ آ رہا تھا۔
سلمان اور وہ ایک دوسرے کے پل پل کی خبر رکھتے تھے۔ اور وحید کو تو جیسے سلمان کا نشہ ساہو گیا تھا۔ اسے یوں لگتا جیسے اس کا خیال رکھنا اسے میسج کرنا، بات کرنا ،سلمان کی ذمہ داری ہو……
’’سوری یار! تم تیار رہو ،میں ابھی تمہاری طرف آ رہا ہوں۔‘‘
وحید نے اپنے موبائیل پر سلمان کا میسج پڑھا ۔

سلمان کو بھی وحید کی حالت کا اندازہ تھا۔ وہ بھی ایک ایسے ہی دور سے گزر چکا تھا۔ جب اسے بھی ہر پل تنہائی کا احساس رہتا تھا۔ اور وہ بھی ہر رات کسی اپنے کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا۔

ایک گھنٹے کے اندر اندر سلمان وحید کو لینے پہنچ گیا۔ دونوں نے ایک ریسٹورنٹ رمیں لنچ کیا اور پھرشام کو سی ویو پر گھومنے چلے گئے۔
’’یہ لو‘‘۔سی ویو پر ہی سلمان نے ایک موالی قسم کے آدمی کو کچھ پیسے دئیے او ر دوسرے ہاتھ سے ایک پڑیا سی لے لی۔
’’اچھا ! تو یہ ہے وہ اسمگلر……‘‘۔ وحید نے سلمان کو چھیڑا۔
’’ہاہاہا…… پتہ چل گیا تمہیں آج……‘‘۔ سلمان نے ہنستے ہوئے کہا۔

سلمان کے پاس اچھے خاصے پیسے ہوتے تھے۔وحید کے سیر سپاٹوں کا سارا خرچا سلمان اٹھاتا۔ ان دونوں کو اپنا ساتھی مل گیا تھا۔وہ ایک منٹ کے لئے بھی ایک دوسرے سے دور نہیں ہونا چاہتے تھے۔

ایک روز سلمان وحید کو اپنے گھر لے آیا۔دونوں نے ایک فلم لگائی اور دیکھنے لگے۔ سلمان کے گھر اس کے اور اس کی والدہ کے علاوہ اور کوئی نے تھا۔صرف ایک دو نوکر اور تھے جو اپنا کام کر کے چلے جاتے تھے۔

یہ دونوں قالین پر لیٹے فلم دیکھ رہے تھے۔ وحید کی آنکھیں بھر آئیں، فلم میں ایک جزباتی سین چل رہا تھا، اس نے سلمان کا ہاتھ پکڑا اور اپنے قریب کر کے کہا۔
’’تم ہی میرے سب کچھ ہو……تم ہی میرے بھائی ہو……میرے باپ ہو……‘‘۔
’’تم ہی میرے دوست ہو …… مجھے تمہارے علاوہ کوئی اچھا نہیں لگتا……‘‘۔
سلمان لیٹے لیٹے وحید کی طرف مڑا اور اسے اپنے گلے لگا لیا۔
یہ وہ پہلا لمحہ تھا جب ان دونوں کے بیچ وہ جزبات ابھرے جو صرف ایک مرد اور عورت کے بیچ ہی ہونے چائیے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔

’’امی وحید بھائی آئے ہیں‘‘۔ ذولفقار کی چچی کو ان کے چھوٹے بچے نے بتایا۔
’’اچھا‘‘۔ چچی نے چونک کر بچے کو دیکھا اور وہ دن یادکرنے لگیں جب رمضانوں میں ذولفقار کی امی نے انہیں ذلیل کیا تھا۔ چچی تو ویسے ہی اپنی بیٹی کا رشتہ وہاں نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مگر اپنے شوہر کے اصرار پر ذولفقار کے گھر آنا جانا رکھتی تھیں۔ مگر اس دن کی ذلت ان سے سہی نہ گئی اور انہوں نے ٹھان لیا تھا کہ وہ ضرور اپنی اس ذلت کا بدلہ لیں گی۔ ذولفقار کے چچا کے دل سے بھی اب وہ لوگ اتر گئے تھے۔ انہیں بھی اس دن کی کہانی سن کر بہت افسوس ہوا۔

’’کیسے ہو بیٹا!‘‘۔ چچا نے وحید سے پوچھا۔
’’میں ٹھیک ہوں چچا جان …… آپ کیسے ہیں؟‘‘۔ وحید نے جواب دیا اور چچا سے ان کا احوال پوچھا۔
’’الحمد اﷲ‘‘۔ یہ لوگ صوفے پر بیٹھے باتیں کرنے لگے۔
’’آپ لوگ تو اب آتے جاتے ہی نہیں؟؟؟ٖ‘‘۔ چچا جان نے شکوہ کیا، جس کا وحید کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
’’کتنی شکل ملتی ہے تمہاری اپنے ابو سے…… بہت یاد آتا ہے مجھے اپنا بھائی……‘‘۔ چچا جان اپنے بھائی کو یاد کرنے لگے ۔ ان کی آنکھوں میں نمی آ گئی اور وہ خاموش سے ہو گئے۔
’’جی……! بس…… !ابو تو چلے گئے‘‘۔ وحید بھی دکھی سا ہو گیا۔
’’چیزیں بہت بدل گئیں ہیں……‘‘۔ وحید نے مایوس کن انداز میں کہا۔
’’کیوں بیٹا! کیا ہوا؟‘‘۔ چچا نے پوچھا۔
’’بس ویسے ہی کہہ رہا ہوں…… سب اپنے اپنے لگے ہوئے ہیں‘‘۔ وہ غمگین سا ہوگیا اور اپنا چہرہ دائیں سے بائیں جانب ہلانے لگا۔
’’نہیں بیٹا ! ہمت کرو…… گھر والوں کا خیال رکھو‘‘۔ چچا نے نصیحتیں کی اور باقی گھر والوں کی خیر خبر لی۔ تھوڑی دیر میں کھانا لگ گیا۔ سب نے مل کر کھانا کھایا اور پھر ٹی وی دیکھنے لگے۔ چچا اپنے کمرے میں کوئی کتاب پڑھنے چلے گئے ۔

کچھ دیر تو وحید ٹی وی دیکھتا رہا پھر…… پھر چپ چاپ اٹھ کر چچا کے کمرے کی طرف جانے لگا۔
’’ چچا جان!‘‘ وحید نے چچا کے کمرے میں آتے ہوئے کہا۔
’’جی بیٹا بولو!…… بیٹھو‘‘۔ وہ شفقت سے بولے۔ وحید ان کے نزدیک رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گیا اورکچھ کہنے کے بجائے سر نیچے کر لیا۔
’’کیا ہوا بیٹا!‘‘۔ چچا وحید کے منہ سے کچھ سننے کے منتظر تھے۔
’’چچا!‘‘ وحید کا منہ رونے جیسا بن گیا۔ ’’مجھے تھوڑے سے پیسے چائیے……‘‘۔ وہ شرمندہ سا ہو گیا۔
’’ہاں بیٹا لے لو پیسے…… اپنے ہی بچے ہو‘‘۔ ’’اس میں اتنا شرمانے کی کیا بات ہے‘‘۔ چچی کمرے میں داخل ہو رہی تھیں۔ انہوں نے وحید کی بات سنتے ہی کہا۔
’’ہاں بیٹا ! کتنے پیسے چائیے؟‘‘ چچا نے حیرت سے اپنی اہلیہ کو ایک نظر دیکھا ۔
’’بس…… پانچ ہزار تک دے دیں……‘‘۔ وحید کو اطمینان ہو گیا کہ کام بن رہا ہے۔
’’میں لاتی ہوں بیٹا!‘‘ ۔ چچی فورا اٹھی اور اندر سے پانچ ہزار لے آئیں۔ پانچ ہزار کی رقم کے عوض ان کی بے عزتی کا بدلہ، کوئی مہنگا سودا نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔

کئی دن ایسے ہی گزر گئے…… وحید اور سلمان دونوں بہت ہی برے راستے پر چل پڑے تھے۔ اگر مرد اور عورت کے درمیان ایسا کوئی تعلق ہوتا تو معاشرے کو کسی نہ کسی طرح بھنک پڑ ہی جاتی۔ مگر دو مرد اگر مل رہے ہیں تو کسی کو کیا …… چاہے وہ ایک ساتھ کہیں بیٹھے ہیں …… چاہے وہ اکیلے ایک ہی کمرے میں سو بھی جائیں تو کسی کو کیوں کوئی شک ہو گا!!! لہذا یہ دونوں بلا کسی خوف کے اپنے جسمانی تعلق کو محبت کا نام دے کر گناہوں کی دلدل میں دھنسے جا رہے تھے۔

’’سوری جان! آج معاف کر دے۔ امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، انہیں ہسپتال لے کر جا رہا ہوں‘‘۔ سلمان نے وحید سے فون پر کہا کہ آج وہ اس سے نہیں مل پائے گا کیونکہ اسے اپنی والدہ کے ساتھ ہسپتال جانا ہے۔
’’ہم م م …… امی کا بہانہ بنایا ہے…… اس لئے چھوڑ رہا ہوں……‘‘۔ وحید ہنسنے لگا۔

دوسرے دن سلمان کا فون بند جا رہا تھا۔ وحید کا پارہ پھر چڑہنے لگا۔ سارا دن وہ اسے کال ملانے کی کوشش کرتا رہا اور اندر ہی اندر گھٹتا رہا۔ تنگ آ کر وہ دوپہر کوہی ، کڑکتی دھوپ میں سلمان کے گھر جا پہنچا۔ بیل بجائی تو اس کی امی اس کے گھر کے ٹیرس پر آئیں اور سلام کیا۔
’’و علیکم السلام آنٹی!‘‘
’’طبیعت کیسی ہے آپ کی!!!‘‘۔ وحید نے پوچھاکیونکہ سلمان نے بتایا تھا کہ وہ بیمار ہیں۔
’’اﷲ کا شکر ہے بیٹا! تم سناؤ؟‘‘۔ اس کی امی کہیں سے بیمار نہیں لگ رہی تھی۔
’’میں ٹھیک ہوں آنٹی!‘‘۔
’’کل ائر پورٹ کیوں نہیں آئے تم؟؟؟‘‘۔ اس کی امی نے فوراََ دوسری بات پوچھی۔
’’ائر پورٹ!!! کیوں کیا ہوا؟؟؟‘‘
’’ارے! کل سلمان دبئی چلا گیا نا……‘‘۔
’’آپ کو بتایا نہیں!!!‘‘۔ وحید کے دل نے جیسے دھڑکنا چھوڑ دیا ہو۔
’’اچھا!‘‘۔ مشکل سے اس کے منہ سے نکلا۔ اس پر تو جیسے کوئی قیامت ٹوٹ گئی۔
’’آپ کو بتایا نہیں کیا!!!‘‘۔ اس کی امی نے حیرانی سے پھر پوچھا۔ وحید نے اپنے آ پ کو کچھ سنبھالا۔ اور ایک بناوٹی سی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر لانے کی کوشش کی۔
’’وہ……وہ ہماری تھوڑی سی لڑائی ہو گئی تھی‘‘۔
’’چلیں میں اس سے کونٹیکٹ کر لوں گا……‘‘۔ وحید نے پوری طرح بات بھی نہ ختم کی اور جلدی سے آنٹی کی نظروں سے دور ہوا۔ تھوڑا آگے چلا اور رک گیا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
’’وہ چلا گیا!!!‘‘۔ وہ گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔ جیسے اس کا سب کچھ اجڑ گیا ہو۔ وہ ایک گھر کے آگے بنی ہوئی کیاری پر بیٹھ گیا۔
’’وہ چلا گیاوحید…… وہ بھی چلا گیا‘‘۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ اٹھا اور اس نے آہستہ آہستہ پھرچلنا شروع کر دیا۔
’’یہ کیا ہو گیا……‘‘
’’یہ کیا ہو گیا…… ‘‘۔ ’’ہائے……‘‘
’’میں پھر تنہا رہ گیا……‘‘۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔
اس کے ہاتھ پاؤ ٹھنڈے ہو گئے۔ اس کے سر پر زور پڑنے لگا۔
’’اس نے بھی مجھے دھوکہ دے دیا…… اس نے بھی میری ذندگی سے کھیلا……‘‘۔ وہ گھٹ گھٹ کر رونے لگا۔

دوپہر سے رات ہو گئے ۔ وحید سلمان کی جدائی کا ماتم کرتا رہا۔ کبھی اسی بینچ پر بیٹھ جاتا جہاں وہ پہلی بار ملے تھے…… کبھی اس پارک میں گھومتا اور ان درختوں کو دیکھتا رہتا جن کے نیچے وہ بیٹھا کرتے تھے…… کبھی اس کینٹین کے سامنے کھڑا ہو جاتاجہاں سے وہ کولڈ ڈرنک خریدا کرتے تھے…… اور کبھی سمندر کے کنارے جہاں وہ ٹھنڈی ہوا کا مزہ لیا کرتے تھے…… سلمان کے ساتھ گزارا ایک ایک لمحہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا……
وہ اسے یاد کر کر کے روتا رہا…… اُس کے یوں بیچ راہ پر چھوڑ جانے پر سسکتا رہا…… اپنے آپ کو تکلیف دیتا رہا……

’’یہ لو‘‘۔ وہیں سمندر کے کنارے سی ویو پر وحید نے اسی موالی سے آدمی کو بہت سارے پیسے دئیے اور بدلے میں بہت سی چرس کی پڑیائیں خرید لیں۔
Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78737 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More