شب قدر کے فضائل
(Abdul Rehman Jalalpuri, Lahore)
اﷲ تعالیٰ نے کم وبیش ایک لاکھ
چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام پر نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کو
فضیلت وبرتری عطا فرمائی۔ لاتعداد ملائکہ میں سے جبریل امین کو ان کا سردار
بنا کر فضیلت کا مرتبہ عطا فرمایا۔ سال کے بارہ(12) مہینوں میں ماہ رمضان
کی نسبت اپنی جانب فرما کر اس کی فضیلت بتا دی۔ ہفتے کے سات دنوں میں جمعہ
کو ’’سید الایام ‘‘ بنا دیا اور باقی دنوں پر بلند مقام عطا فرمایا۔ اسی
طرح اﷲ تعالیٰ نے تمام راتوں میں سے شب قدر کو وہ فضیلت اور برتری عطا
فرمائی جو کسی اور رات کے حصہ میں نہ آئی۔ اس رات کی بزرگی کا اعلان قرآن
مجید کی سورۃ القدر میں کچھ یوں بیان کیا گیا۔
’’اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شب قدر کیا ہے۔ شب قدر(فضیلت و برکت اور اجر
وثواب میں ) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘
اس سورہ مبارکہ کے نزول کے حوالے سے دوروایات ملتی ہیں
۱: امام مالک علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے جب پہلی امتوں
کے لوگوں کی عمروں پر توجہ فرمائی تو آپ کو اپنی امت کے لوگوں کی عمریں کم
معلوم ہوئیں۔ آپ نے یہ خیال فرمایا کہ جب گزشتہ لوگوں کے مقابلے میں ان کی
عمریں کم ہیں تو ان کی نیکیاں بھی کم رہیں گی اس پر اﷲ تعالیٰ نے آپ کو شب
قدر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے (موطا امام مالک۔ ص:260)
۲: حضرت مجاہد رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک
نیک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار ماہ تک راہ خدا میں جہاد کے لیے
ہتھیار اٹھائے رکھے۔ صحابہ کرام کو اس پر تعجب ہوا تو اﷲ تعالیٰ نے یہ سورۃ
نازل فرمائی اور ایک رات شب قدر کی عبادت کو اس مجاہد کی ہزار مہینوں کی
عبادت سے بہتر قرار دیا ۔ (سنن الکبر بیہقی، ج4، ص306)
یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے یعنی (آج کل موسم گرما میں)تقریباً 6گھنٹے
کی رات میں اگر عبادت کرو تو وہ 83سال چاہ ماہ سے بہتر ہے اس رات کا اتنا
مقام کیوں ؟ کیا وجہ ہے کہ اس رات کی تھوڑی سے عبادت کا اجر اتنا بڑھا کر
دیا جاتا ہے؟ جوابا اگر سورۃ القدر کو مکمل پڑھا جائے تو یقینا جواب عیاں
ہوجاتا ہے ’’بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے۔اور آپ کیا سمجھے
ہیں (کہ) شب قدر کیا ہے۔ شب قدر(فضیلت و برکت اور اجر وثواب میں ) ہزار
مہینوں سے بہتر ہے۔اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے
حکم سے (خیروبرکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ(رات) طلوع فجر تک
(سراسر ) سلامتی ہے۔‘‘
اﷲ تعالیٰ نے شب قدر کی بڑی وجۂ فضیلت یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ نزول قرآن
کی رات ہے۔ قرآن مجید تو تیئس (23) برس کی مدت میں تھوڑا تھوڑا نازل ہوتا
رہا نیز اس کا نزول ربیع الاول میں شروع ہوا اور ذوالحج میں مکمل ہوا ۔ اس
حوالہ سے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ’’شب قدر میں
قرآن کریم لوح محفوظ سے یکبارگی آسمان دنیا سے بیت العزت میں نازل ہوا جب
کہ اس کے نزول کا اندازہ اور لوح محفوظ کے نگہبانوں کو اس کا نسخہ نقل کرکے
آسمان دنیا پر پہنچانے کا حکم اسی سال شب برأت(۱۵ شعبان ) میں ہوا۔ گویا
قرآن حکیم کا نزول حقیقی ماہ رمضان میں شب قدر کو ہوا اور نزول تقدیری اس
سے پہلے شب برأت میں ہوا اور سینۂ مصطفی ﷺ پر نزول قرآن کا آغاز ربیع الاول
میں پیر کے دن ہوا اور تقریباً تیئس(23) سال میں مکمل ہوا (تفسیر عزیزی)اس
رات کی ایک فضیلت یہ بھی ذکر کی گئی کہ اس رات اﷲ کے فرشتے خیر وبرکت لے کر
زمین پر نازل ہوتے ہیں۔اور بندگانِ خدا سے مصافحہ کرتے ہیں۔ امام رازی علیہ
الرحمہ فرماتے ہیں کہ فرشتوں کے زمین پر اترنے کے حوالے سے تفسیر کبیر میں
فرماتے ہیں کہ
جب اﷲ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں تو
فرشتوں نے کہا تھا کہ یہ مخلوق زمین پر فساد پھیلائے گی اور خونریزی کرے گی
اﷲ تعالیٰ نے انسان کی عزت وعظمت واضح کرنے کے لیے فرشتوں کو نازل فرماتا
ہے کہ جاؤ اور دیکھو جن کے متعلق تم یہ کہا تھا وہ کیا کررہے ہیں۔ دیکھ
لومیرے بندے اس رات میں بستر وآرام کو چھوڑ کر میری خاطر عبادات میں مشغول
ہیں اور مجھے راضی کرنے کے لیے آنسو بہاتے دعائیں مانگ رہے ہیں حالانکہ شب
بیداری ان کے لیے فرض یا واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ بھی نہیں صرف میرے محبوب
رسولﷺ کی ترغیب دینے پر یہ اپنی نیند وآرام قربان کرکے ساری رات کے قیام پر
مستعد ہیں پھر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور مومن کی عظمت کو سلام کرتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ عزوجل اور اس کے نبی غیب دان نے اس رات کو لوگوں پہ عیاں نہ
فرمایا کہ یہ کون سی رات ہے بلکہ یہ راز پنہاں رکھا۔ شب قدر کے بارے میں
آئمہ دین کے مختلف اقول پائے جاتے ہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہ کا ایک قول یہ
ہے کہ شب قدر تمام سال میں کسی بھی رات ہوسکتی ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ
رمضان کی 27ویں شب ہے۔ شوافع کا قول ہے کہ یہ 21ویں شب ہے۔ امام احمد بن
حنبل رحمہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک یہ رات رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں
ہوتی ہے ۔ حدیث نبوی ﷺ میں بھی شب قدر کے حوالے سے رہنمائی ملتی ہے کہ یہ
کون سی رات ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی
ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق
راتوں میں تلاش کرو (مشکوۃ ، ج۱،ص450)حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت
ہے ’’لیلۃ القدر‘‘ میں کل نو حروف ہیں اور یہ سورۃ القدر میں تین (3) مرتبہ
آیا ہے 9کو 3سے ضرب دیں تو 27آتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ لیلۃ القدر 27ویں
شب ہی ہے (تفسیر کبیر)
شب قدر کو پنہاں اس لیے رکھا گیا کہ لوگ فقط اسی رات کی عبادت پر اکتفا
کرلیتے اور دیگر راتوں میں عبادت کا اہتمام نہ کرتے۔ اب لوگ کم از کم آخری
عشرے کی پانچ راتوں میں عبادت کی سعادت حاصل کرلیتے ہیں(۲) اگر شب قدر کو
ظاہر کردینے کی صورت میں اگر کسی سے یہ شب چھوٹ جاتی تو اسے بہت زیادہ حزن
وملال ہوتا اور دیگر راتوں میں دلجمعی سے عبادت نہ کرتا۔ نبی کریم ﷺ نے اس
رات کی نشانیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے فرمایا: میں نے خواب میں شب قدر
دیکھی مگر پھر مجھے بھلادیا گیا۔ یہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق
راتوں میں ہے یہ رات پاک اور باوقار ہے، نہ زیادہ گرم ہوتی ہے اورنہ ہی
ٹھنڈی، اس میں شیطان نہیں نکلتا ، یہاں تک کہ صبح صادق نہ ہوجائے۔ (مسند
احمد)، اس رات کے بعد والی صبح جب سورج نکلتا ہے تو اس میں زیادہ گرمی نہیں
ہوتی(مسلم) ۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو ایمان اور احتساب کے ساتھ شب قدر میں
قیام کرے اس کے پچھلے گناہ بخشش دیئے جاتے ہیں۔ (متفق علیہ) ، رسول اﷲﷺ نے
فرمایا کہ ماہ رمضان میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو اس
رات سے محروم رہا وہ ساری بھلائی سے محروم رہا، اور جو اس کی بھلائی سے
محروم رہا وہ بالکل ہی محروم اور کم نصیب ہے (مشکوۃ) علماء احادیث مبارکہ
کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ جو بندہ عشاء کی نماز باجماعت ادا کرے اور صبح
فجر کی نماز باجماعت ادا کرے اسے شب قدر کا حصہ مل جاتا ہے۔ ام المومنین
حضرت عائشہ فرماتی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھاکہ یارسول اﷲﷺ! اگر مجھ
کو شب قدر معلوم ہوجائے تو میں کیاکروں؟ آپ نے فرمایا کہ یہ دعا پڑھو:
اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی (ترجمہ) اے اﷲ، آپ بہت زیادہ معاف کرنے
والے ہیں، معافی کو پسند کرتے ہیں لہٰذا میرے گناہ بھی معاف فرما
دیجئے(ترمذی) |
|