زاویے
(Prof Niamat Ali Murtazai, )
زاویہ بنیادی طور پر ریاضی کی
اصطلاح ہے۔ اور ہر پڑھا لکھاشخص اس سے،کم از کم، واقفیت کی حد تک شناسائی
ضروررکھتا ہے۔ بہت سوں کو ریاضی کی خشک آب وہوا راس ہی نہیں آتی۔ بعض کی تو
دور ہی سے طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے۔ لیکن زاویے کو جب ادبی اصطلاح کے طور پر
زیرِ بحث لایا جائے تو اس میں ناصرف دلچسپی سرایت کر جاتی ہے بلکہ اس کی
فلسفیانہ حیثیت ازخودایک واضح حقیقت کی طرح ذہنوں میں اتر آتی ہے۔زاویے کو
ادبی طور پر ’ نقطہ نظر‘ کہا جا سکتا ہے۔ یا اسے کسی چیز کی طرف انسان کی
’سوچ‘ اور ’سوچ کا انداز ‘کہا جائے گا۔ لفظ ’زاویہ‘ کو چاہے کتنے ہی ادبی
اور فلسفیانہ معانی دے دیئے جائیں، اس کی ریاضیاتی حیثیت پھر بھی اپنا
احساس کرواتی رہے گی۔
دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے متعلق انسانوں کے نقطہ نظر میں تفاوت نہ
ہو۔ دنیا کی سب سے بڑی معروضی حقیقت یعنی ’موت‘ سے متعلق بھی انسانوں کی
رائے میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ کسی کے لئے موت انسانی زندگی کا
خاتمہ ہے اور کسی کے لئے یہ ایک اور زندگی کا آغاز ہے۔ کسی کے لئے موت
جدائی ہے اور کسی کے لئے وصال ۔کسی کے لئے رسوائی اور کسی کے لئے ماندگی کا
وقفہ ۔کسی کی موت اسے سپردِ خاک کروادیتی ہے اور کسی کی موت اسے نذرِ آتش
کرنے کا عقیدہ دیتی ہے۔ کسی کو موت سے ڈر لگتا ہے تو کوئی موت کی تمنا کرتا
ہے۔ کسی سے موت ڈرتی ہے تو کوئی موت کے خوف میں نیند سے بھی محروم ہو جاتا
ہے۔ کسی کو موت مار دیتی ہے اور کسی کی حفاظت کرتی ہے۔ کسی کی نظر میں موت
زندگی کا حسن ہے اور کسی کی نظر میں موت زندگی کی مکروہ آفت ہے۔ الغرض موت
پر کوئی حتمی رائے کا وجود عالم انسانیت کو نہیں مل سکا ۔اگر موت سے متعلق
نقطہ نظر میں یکسانیت نہیں ہے،تو زندگی کے باقی انواع و اقسام کے موضوعات
پر نقطہ نظر میں یکسوئی کا آنا محال ہے۔اور یہی بات زاویے کی بنیاد بنتی
ہے۔
دولت، جس پر تمام انسانوں کی ظاہری زندگی کا دارومدار ہے، مختلف لوگوں کی
نظر میں مختلف حیثیت رکھتی ہے۔کسی کے لئے یہ مقصدِ حیات ہے، اور کسی کے لئے
سراپا فساد ہے۔ کوئی اس کے پیچھے اپنا ایمان بیچتا ہے اور کوئی اس سے پناہ
مانگتا ہے۔کسی کے لئے یہ جنت کے رستے ہموار کرتی ہے تو کسی کو جہنم کی
گہرائیوں میں پھینک دیتی ہے۔کسی کو دنیا کی توقیر سے ہم کنار کرتی ہے تو
کسی کی بنی بنائی عزت تاراج کرتی ہے۔کسی کی یہ محبوب ہے تو کسی کی جانی
دشمن۔یعنی اس چیز کی اصلیت حتمی نہیں: یہ وہی کچھ ہے جو دیکھنے والے کا
نقطہ نظر یا زاویہ ہے۔
خوبصورتی جیسی پسندیدہ اور دل پذیر چیز بھی اختلافِ رائے سے بچ نہیں پائی۔
یہ کسی کی جان وایمان ہے۔ لیکن کسی کے لئے ایک لعنت ۔کسی کی لئے یہ ظاہری
وصف ہے اور کسی کے لئے باطنی صفت ۔کسی کو گورا رنگ پسند ہے تو کوئی کالے
رنگ پر ہی زندگی وار دیتاہے۔کسی نے ظاہری خوبصورتی کے لئے پاپڑ بیلے تو
کوئی اسے ایک نظر دیکھنا نہیں چاہتا۔
ہر سطح کے انسانوں کا اپنا زاویہء نگاہ ہوتا ہے۔ اس زاویے سے اگر کسی چیز
کو دیکھا جائے تو اس کے شیڈ مختلف نظر آتے ہیں۔ایک کھلاڑی کی نظر اور ایک
فلسفی کی فکر علیحدہ انداز میں دنیا کو دیکھتی ہے۔ زاویوں کی اتنی بڑی
تفاوت میں انسان کے لئے زاویوں کا انتخاب کرنا محال ہو جاتا ہے۔
کسی بھی چیز کو دیکھنے کا بہترین زاویہ وہ ہے جس کو مقدس ہستیوں نے اپنایا۔
اگرچہ یہ بھی ایک زاویہ ہے۔ مقدس کتابوں اور ہستیوں نے زندگی اور دنیا کو
جس زاویے سے دیکھا ہے اس زاویے سے دیکھنا ہی زیادہ مناسب ہے۔ ورنہ گمراہی
اپنا دامن وسیع وعریض حدود تک پھیلائے رکھتی ہے۔اور زاویہ بدل جانے سے
زندگی اور دنیا کی حیثیت بھی بدل جاتی ہے۔ انسان کی سوچ اور فہم مطلق نہیں
ہیں اس لئے اس کے بھٹک جانے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
جس زاویے پر کوئی خط یا شعاع نکل جائے ، وہ لا محدود دوری تک اسی زاویے پر
چلی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہمیں زندگی کا جو زاویہ مل جائے، وہ ہماری
زندگی کے راستوں اور منزلوں کا تعین کر جاتا ہے۔اس لئے اس کو نہایت احتیاط
سے متعین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
زندگی کو اگر 360 ڈگری کا زاویہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔اس زاویے میں
آغاز اور اختتام ایک نقطے پر آ جاتے ہیں۔انسان عدم سے وجود میں آتا ہے اور
پھر ملکِ عدم کا راہی بن کے اس جہان کو خیر باد کہہ جاتا ہے۔زندگی کا
دورانیہ مکمل ہو جاتا ہے اور انسان دنیا کی سٹیج سے اتر جاتا ہے۔180ڈگری کے
زاویے کو دشمنی یا مخالفت کا زاویہ کہا جا سکتا ہے۔ اس میں زاویے کی دونوں
شعاعیں ایک دوسرے سے بالکل الٹ سمت میں چلی جاتی ہیں۔اسے مخالفت برائے
مخالفت کا زاویہ یا نظریہ بھی کہا جا سکتا ہے۔کیوں کہ اس زاویے کا وجود ہی
مخالفت کا مرہونِ منت ہے۔90 ڈگری کے زاویے کو قائمہ زاویہ کہا جاتا ہے۔ اسے
انگلش میں right angle کہتے ہیں۔ یہ عمودی خط یا شعاع سے وجود میں آتا ہے۔
اسے جوانی کا زاویہ کہا جا سکتا ہے جب انسان اپنے آپ کو عقلِ تمام کا قائم
مقام سمجھے ہوتا ہے۔ اپنی کسی بات کا غلط ہونا برداشت نہیں کر سکتا۔ اس میں
انتہا درجے کا غرور پایا جاتا ہے۔یا اس زاویے کو صراطِ مستقیم بھی کہا جا
سکتا ہے کیوں کہ یہ اکثر سیدھا اوپر کو جاتا ہے۔ اس کا عام طور پر رکھ
آسمان کی طرف ہوتا ہے، یعنی اس کی لو خدا سے لگی ہوتی ہے اور یہ سیدھے
راستے پر ہوتا ہے۔یہ دنیا کی رغبت سے آزاد ہو کر صرف اور صرف خدا کی طرف
رجوع رکھتا ہے۔حادہ زاویہ90ڈگری سے کم ہوتا ہے۔ا سے عاجزی اور انکساری کا
زاویہ بھی کہا جا سکتا ہے۔اس میں ایک خط اپنے ساتھی خط کے قریب قریب رہتا
ہے۔ زمین کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔ لیکن یہ آہستہ آہستہ قائمہ زاویہ کی شکل
اختیار کرتا ہے او لئے اسے نوجوانی کا زاویہ بھہ کہا جا سکتا ہے جو بعد میں
مکمل جوان ہو کر قائمہ بن جاتا ہے۔منفرجہ زاویہ90ڈگری سے زیادہ اور 180ڈگری
سے کم ہوتا ہے۔ اس میں بھی عاجزی اور انکساری ہوتی ہے۔ اسے بڑھاپے کا زاویہ
کہا جا سکتا ہے کیوں کہ یہ آہستہ آہستہ زمیں بوس ہو جاتا ہے۔اس طرح ریاضی
کے یہ زاویے انسانی زندگی اور اس کے نشیب وفراز کی عکاسی کرتے ہیں۔
انسانی جسم اور روح ’پرکار‘ کی دو ٹانگیں ہیں ، عمل کی پنسل انسان کے نقوشِ
زندگی ابھارتی ہے۔ اور وہ مختلف زاویوں سے گزرتا ہوا دنیا کا میلہ دیکھ
جاتا اور اپنا دکھا جاتا ہے۔کسی کو زندگی کا دائرہ مکمل کرنے کی مہلت ملتی
ہے اور کوئی کچھ ڈگری کے زاویوں سے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے۔
جن لوگوں کی زندگی کے زاویے مل جاتے ہیں ان میں دوستی اور محبت کے جذبات
پروان چڑھتے ہیں اور جہاں یہ زاویائی اتفاق نہ ہو وہاں لاتعلقی اور دشمنی
جنم لیتی ہیں۔ وہاں تعصب اور حسد کی عفونت ذہنوں کو اذیت میں مبتلا کر دیتی
ہے۔اپنے زاویے کی حفاظت کے لئے انسان کو سب کچھ کرنا پڑتا ہے حتیٰ کہ جان
تک بھی دینی پڑ سکتی ہے۔
زاویے کی اہمیت ’ٹی وی ‘یا’ ایل سی ڈی‘ کی سکرین سے بخوبی واضح ہو جاتی ہے۔
ایک زاویے پر ہمیں جیتے جاگتے، چلتے پھرتے انسان نظر آتے ہیں اور دوسرے
زاویے پر ان کے نیگٹو یا بھوت نظر آتے ہیں۔وہی رنگین سکرین بد رنگ ہو جاتی
ہے ۔
یہی حال دنیا اور آخرت کو دیکھنے کا ہے۔ قرآنِ پاک نے دنیا کو آخرت کی نظر
سے دیکھنے کی تلقین کی ہے اور بار بار دنیا کی بے ثباتی اور حقیر پن کو
نمایاں کیا ہے۔ دنیا سے لاتعلق تو نہیں ہوا جا سکتا لیکن دنیا کی رغبت سے
دل کا دامن بچایا جا سکتا ہے اور ایسا ہی کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اگر
دنیا کو آخرت کے زاویے سے دیکھیں تو دنیا کی حیثیت مچھر کے پر سے بھی کم ہو
جاتی ہے۔ لیکن ہم دنیا کو دنیا کے زاویے سے دیکھتے ہیں اس لئے اس کی اہمیت
ہمارے لئے بڑی حد تک آخرت سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے اور ہم دنیا کے لئے آخرت
کو قربان کر دیتے ہیں اور خود بھی اسی ظالم، بوڑھی حسینہ پر نثار ہو جاتے
ہیں۔ اگر آخرت کو دنیا کے زاویے سے دیکھیں تو آخرت کی اہمیت کم محسوس ہوتی
ہے اور اس کی خواہش اور خوف دونوں ماند پڑ جاتے ہیں۔اعلیٰ ہستیاں دنیا کو
آخرت کے زاویے سے دیکھتی ہیں اور اس طرح وہ دنیا کے چنگل سے بچ جاتی ہیں
اور عظیم زندگی بسر کرتی ہیں۔
جدید اور قدیم نظریات میں بھی اسی زاویے کا فرق ہے۔ قدیم میں آخرت پر نظر
تھی اور دنیا کو آخرت کے زاویے سے دیکھنے کا رواج زیادہ تھا۔ زندگی پر سکون
اور مطمئن تھی۔ آج ہم دنیا کو دنیا کے زاویے سے دیکھتے ہیں اور ہماری
خواہشات کی انتہا نہیں رہی۔ ہماری پریشانیوں کو سر چھپانے کی جگہ نہیں مل
رہی۔ لیکن تھوڑا سا زاویہ بدلنے سے یہی طوفانِ نفسانفسی اخوت و محبت میں
ڈھل جاتا ہے ۔ زاویے کی تبدیلی محبت جیسی مقدس چیز کو نفرت جیسی مکروہ چیز
میں بدل سکتی ہے۔ اسی طرح دوستی جیسی نایاب دولت، زاویے کی تبدیلی سے ،
دشمنی کے زہر کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔زاویے کی تبدیلی مذاہب تبدیل
کرواسکتی ہے۔کبھی زاویے کی تبدیلی سے راستے اور منزلیں بدلتی ہیں ، اور
کبھی راستوں اور منزلوں کے بدلنے سے زاویے بدلتے ہیں۔
دنیا کے تمام فلسفے دراصل سوچ کے مختلف زاویے ہیں ۔انہی زاویوں پر ہمارے
رویوں کا دارو مدار ہے۔رویوں پر عمل اور عمل پر زندگی کا مدار ہے۔لہٰذا
انسان کے لئے اپنے زاویہ ء سوچ، سوچ سمجھ کر اپنانا ضروری ہے۔ ورنہ یہ
زاویے ہمیں وہاں لے جاتے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔
زندگی کو زاویوں کی کرشمہ سازی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ زندگی ہر سٹیج پر
زاویہ بدلتی ہے اور انسان کو نئے زاویوں کے حوالے کر تی چلی جاتی ہے۔ اور
آخر کار انسان تین سو ساٹھ ڈگری کے زاویے پر گھومتا ہوا جدھر سے آتا ہے
ادھر ہی سدہار جاتا ہے۔اسی طرح سے اگر قسمت کو بھی زاویوں کی تبدیلی کا نام
دیا جائے تو درست ہو گا۔قسمت جب زاویہ بدلتی ہے تو حالات میں تبدیلی رونما
ہو جاتی ہے۔
یہی زاویے کی تبدیلی موسموں کی تبدیلیوں کی شکل میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ سورج
زاویہ بدل کر زمیں کو دیکھتا ہے تو زمیں کا موسم بدل جاتا ہے۔ صبح سے شام
کا سفر بھی تو انہی زاویوں کی تبدیلی کا مرہونِ منت ہے۔ سورج کا زاویہ
بدلتا چلا جاتا ہے اور دن کی کیفیت صبح سے شام میں بدل جاتی ہے۔رات بھی تو
زاویوں کی تبدیلی کا مظہر ہے۔ ستاروں اور سیاروں کی پوزیشن بدلتی ہے تو رات
ڈھلتی چلی جاتی ہے۔
انسانی جسم بھی زاویوں کی زد سے نہیں بچ پاتا۔ ساری زندگی اس کے زاویے
بدلتے رہتے ہیں۔اور آکر وہ قائمہ زاویہ بناتا ہوا، منفرجہ زاویے سے گذرتا
ہوا، تین سو ساٹھ کا زاویہ بنانے کی کوشش کرتا نظرآتا ہے۔
مظاہرے فطرت بھی انہی زاویوں کی صنائی ہیں۔ ایک شجر کے تنے کا زمیں سے
زاویہ اور پھر اس کی شاخوں کے تنے کے ساتھ زاویے ایک درخت کے حلیے کا تعین
کرتے ہیں۔شاخ پر آنے والے پتے اور پھول بھی زاویوں کا خیال رکھتے ہیں۔پھول
کی پتیاں اپنی ساخت اور ترتیب میں زاویوں کی تبدیلی سے نت نئے انداز اختیار
کرتی چلی جاتی ہیں کہ انسان انہیں دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں۔
ایک دوسرے سے آنکھ ملانے کا بھی ایک زاویہ ہوتا ہے۔ جب معاملات درست ہوں تو
آنکھوں کے زاویے کچھ اور ہوتے ہیں اور جب معاملات دگرگوں ہوں تو آنکھ ملانے
کے زاویے کچھ اور ہوتے ہیں۔ آنکھ ملانے کا زاویہ انسان کی تمام تر نفسیات
ظاہر کر جاتا ہے۔محبت بھری آنکھوں کے زاویے اور ہوتے ہیں اور نفرت بھری
آنکھوں کے زاویے اور۔ حتیٰ کہ ہاتھ ملانے کے زاویے بھی انسانی شخصیت اور
انسانی تعلقات کا اظہار کر جاتے ہیں۔ چلنے کے زاویے بھی انسانی ذہن کی
غمازی کرتے ہیں۔
یہ بات ایک سائنسی حقیقت کی طرح ہے کہ کسی شخص کی تحریر یا ہاتھ کی لکھائی
کے زاویے اس کے ذہن کو کسی ماہر نفسیات کی گرفت سے نہیں بچا سکتے۔ ہماری تو
عبادت بھی زاویوں میں ڈھل جاتی ہے کہ قیام ایسے ہو، رکوع ایسے ہو، تشہد
ایسے ہو وغیرہ سب میں زاویوں کا عمل دخل بالکل واضح ہے۔الغرض انسانی
معاملات اور احساسات زاویوں سے قریبی رشتہ رکھتے ہیں۔ سائنس کی تو بات ہی
کیا کرنی ہے، ساری فزکس زاویوں کی بحث بن جاتی ہے۔ تمام فلکیات زاویوں کا
سہارا لئے ہوئے ہے۔ حتی ٰ کہ بیالوجی کو بھی زاویوں کی مدد لینی پڑتی ہے۔
اس طرح بیٹھا جائے، اس طرح ورزش کی جائے، اس طرح چلا جائے۔سرجری بھی تو
زاویوں کے سہارے کے بغیر ممکن نہیں۔ انسانی اور حیوانی ڈھانچوں کا مطالعہ
کیا زاویوں کا سہارا لئے بغیر ممکن ہو سکتا ہے، ہرگز نہیں۔انجیئرنگ کے
کمالات بھی تو زاویوں کے احسان مند ہیں۔
کھیلوں کی باتیں بھی تو زاویوں کے بغیر اپنا مدعا بیان نہیں کر سکتیں۔ہر
کھیل کی کوچنگ اور پریکٹس اور میچیز میں زاویوں کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔اس
کے بغیر ٹیمیں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتیں۔رقص جسم کے اعضا کو
خاص زاویوں پر رکھنے کا عمل ہے۔ ان خاص زاویوں سے جسم کی کشش میں اضافہ
ہوتا ہے۔جیسے ایک کارپینٹر سیدھی سادی لکڑی کو زاویوں میں بدل کر دلکش
فرنیچر کی شکل دے دیتا ہے، ایسے ہی ایک رقاص اپنے جسم کی گیلی کو جسم کی
شاعری یعنی رقص میں ڈھالتا ہے۔
ڈرائنگ، خطاطی، معماری،ظروف سازی وغیرہ بھی زاویوں کا خاص خیال رکھ کر ہی
کی جا سکتی ہیں۔یہاں تک کہ انسان کی زبان ، دانتوں، تالو، اور جبڑوں وغیرہ
کے ساتھ جو زاویے بناتی ہوئی حرکت کرتی ہے ان کا انسانی گفت وکلام میں بہت
عمل دخل ہے۔ بس ذرا سا زاویہ بدلتا ہے اور لفظ کیا سے کیا بن جاتا ہے۔ اور
اس کے معانی میں جو فرق پڑتا ہے اسے کسی بھی طور ختم نہیں کیا جا سکتا۔خوب
صورتی اور بد صورتی بھی انہی زاویوں کی پیداورا ہے۔ ایک انداز کے زاویے
خوبصورتی کو جنم دیتے ہیں اور دوسرے انداز کے زاویے بد شکلی پیدا کر دیتے
ہیں۔
فنون ہی بات نہیں فوج جیسی سنجیدہ فیلڈ بھی زاویوں کی محتاجی کرتی ہے۔ پریڈ
میں جسم کے اعضا کو خاص خاص زاویوں پر رکھا جاتا ہے اور ایسا نہ کرنے والے
فوجی کا جو حشر کیا جاتا ہے وہ فوج کے لوگ ہی بہتر جانتے ہیں۔توپ یا جہاز
سے گولہ یا میزائل داغتے وقت زاویے کا اگر خیال نہ رکھا جائے تو کبھی
مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔
اسی طرح بات کے بھی زاویے ہوتے ہیں اگر ان زاویوں سے ہٹ کر بات کی جائے تو
بات بے معنی و لا یعنی ہوجاتی ہے۔ایسی بات کرنے والا اپنی عزت بنانے کی
بجائے عزت گنوا بیٹھتا ہے۔
اس بحث سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں رہتا کہ تمام کائنات زاویوں کے ساتھ
بہت قریبی واسطہ رکھتی ہے۔ زاویوں کی کمی بیشی انسانی ، حیوانی، نباتاتی
اور پھر کائناتی زندگی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ |
|