آج سے تیس (30) چالیس (40) سال پہلے ماں،
باپ اور اُستا د دونوں کا روّیہ بچوں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی سخت ہوتا
تھا۔بچے کو سکول بھیج کر ماں باپ نے سمجھنا کہ فرض پورا ہو گیا۔ استادوں بے
تاج بادشاہ ہوتا جس سے کوئی پوچھ گچھ ممکن نہ تھی اس کا رویہ بھی کافی تلخ
ہوتا۔ استاد کی مار پیٹ کے ڈر سے بچوں نے سکول سے بھاگ کر سارا دن کسی باغ
یا تفریح گاہ میں گزارنااور چھٹی کے وقت مزے سے گھر پہنچ جانا۔ جب اس نے
کئی دن سکول نہ جانا تو استاد نے اس کے کسی ساتھی طالب علم کو اس کے گھرجا
کر اس کے احوال کا پوچھ کر آنے کا کہنا اور یوں گھر والوں کو بچے کے بارے
میں خبر ہو جاتی کہ وہ سکول سے روز بھاگ جاتا ہے۔ اب گھر والوں کی باری
شروع ہوتی۔ بچہ سکول کی بجائے کسی اور جگہ سے چکر لگا کر گھر پہنچتا تو
والد اور والدہ پوچھ گچھ کرتے ۔ معقول جواب نہ پا کر وہ دونوں بچے کی
دھلائی شروع کر دیتے۔اب بچہ سکول جاتا تو استاد مارتا، گھر آتا تو ماں باپ۔
اس مسلسل مارپیٹ کے ڈر سے کسی دن بچہ گھر سے پوری طرح بھاگ جاتا۔ کہیں سے
مانگ کر روٹی کھاتا ۔ کسی مزار یا مسجد میں آرام سے رات کو سوتا عموماًوہیں
سے روٹی بھی مل جاتی۔ ماں باپ پریشانی میں ڈھونڈنے نکلتے ۔ پورا محلہ ان کا
مدد گار اور غمگسار ہوتا۔شہر کونسا آج کی طرح وسیع تھا۔ ڈھونڈھتے ڈھونڈتے
کچھ لوگ اس تک جا پہنچتے اوربہلا پھسلا کر اسے گھر واپس لے کر آتے۔ گھر لا
کر اسے سمجھاتے بجھاتے کہ بیٹا گھر سے بھاگنا کوئی اچھی حرکت نہیں۔کچھ بیٹا
سمجھ جاتا کچھ ماں باپ سمجھ جاتے کہ بے جا سختی بچے میں مزید بگاڑ کا باعث
ہے۔ اس طرح کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر دونوں کچھ کچھ بدل جاتے۔ اس سارے
عمل کے نتیجے میں کچھ بچے بالکل سُدھر جاتے مگر کچھ پھر بھی اپنی روّش نہ
بدلتے۔ اُن کے گھر سے بھاگنے کا عمل ایک معمول بن جاتا۔ ماں باپ کی اس
پریشانی میں پورا محلہ ہمیشہ ان کا شریک ہوتا۔ سارا محلہ بچے کو تلاش کرتا۔
آج کی طرح شہر لامحدود نہ تھا۔ مخصوص علاقے تھے، گنی چنی جگہیں یا مسجدیں
تھیں جو بھاگنے والے جائے پناہ ہو سکتی تھیں، ہر دفعہ کوئی نہ کوئی محلے
داراپنے عزیزوں اور دوستوں کی مدد سے بچے کو ڈھونڈ لاتا اور جب محسوس ہوتا
کہ بچے کا بھاگنے کا عمل لاعلاج ہو رہا ہے تو ایسے بچے کا مستقل علاج کیا
جاتا اور علاج ہوتا ’’مڈھی ڈالنا‘‘۔ پورے محلے کے پرزور اصرار پر اس روز
بھاگنے والے لڑکے کو مڈھی ڈال دی جاتی اور یوں ماں باپ سکون سے دن گزارتے۔
قصاب گوشت کاٹنے کے لئے لکڑی کا ایک گول ٹکڑا استعمال کرتا ہے جو تقریباً
ایک ڈیڑھ فٹ اونچا ہوتا ہے اور جس کا قطر بھی تقریباً ڈیڑھ فٹ ہوتا ہے۔
لکڑی کے اس گول ٹکڑے کو ’’مڈھی‘‘ کہتے ہیں۔ بھاگنے والے لڑکے کے والدین ایک
’’مڈھی‘‘ خرید کر لاتے۔ لوہار اس کے عین درمیان میں چھید کر کے ایک پانچ چھ
فٹ لمبی زنجیر کا ایک سرا لکڑی کے اندرفِٹ کر دیتا اور دوسرا سرا بھاگنے
والے لڑکے کی ٹانگ کے ساتھ تالے کی مدد سے ہتھکڑی کی طرح لپیٹ دیا جاتا۔
لکڑی کے ایک بڑے سے ٹکڑے کے ساتھ مسلسل دن رات بندھے ہونے کے سبب اس گھر سے
بھاگنے والے لڑکے کی نقل و حرکت بالکل محدود ہو جاتی۔ ماں باپ اگر اسے کوئی
چیز لینے محلے میں بھیجتے تو اس نے ایک کندھے پر اس لکڑی کے ٹکڑے کو اٹھایا
ہوتا جو زنجیر کے ساتھ اس کے پاؤں سے بندھا ہوتا۔ وہ محلے میں جہاں سے
گزرتا لوگ اس پر آوازیں کستے اور اُسے شرمندہ کرتے۔ اس طرح بھاگنے والے کی
زندگی اک مسلسل عذاب بن جاتی۔ گھر میں اکیلا بیٹھ کر وہ ویسے تنگ آجاتا اور
باہر لوگ ذلیل کرتے۔ وہ ماں باپ کی منتیں کرتا کہ آئندہ بھاگنے کی حماقت
نہیں کرے گا۔ اسے کسی طرح اس عذاب سے نجات دلائی جائے۔ کبھی کھی وہ گھبرا
کر محلے سے باہر نکل جاتا۔ دوسرے محلے کے لوگ ایک لکڑی اٹھائے لڑکے کو اپنے
محلے میں پا کر فوراً پکڑ لیتے۔ اس سے اس کے گھر کا پتہ پوچھتے اور مارتے
پیٹتے اسے اس کے گھر پہنچاتے۔
وقت بدل گیا ہے۔صور آ گیا ہے۔قدریں بدل گئی ہیں۔سکولوں میں مار نہیں پیار
کا تصور پروان چڑھ رہا ہے۔ والدین کا رویہ بھی بچوں کے ساتھ پہلے سا نہیں
رہا۔ نوجوان لڑکے بھی اب گھر سے بھاگنا بند ہو گئے ہیں۔ اس لئے ’’مڈھی پاؤ‘‘
کی روایت بھی ختم ہو گئی ہے۔ بلکہ موجودہ نسل کو لاہور کی اس پرانی روایت
کا شاید پتہ بھی نہیں۔ لیکن گھر سے بھاگنے کی روایت ابھی زندہ ہے اور افسوس
کی بات کہ یہ اب لڑکوں کی بجائے سیاست دانوں میں منتقل ہو چکی ہے۔ پاکستان
ان سیاستدانوں کا گھر ہے۔ اسی گھر میں پلے بڑھے اور سیاستدان بنے۔ہمارے
زیادہ تر سیاستدانوں کی صورت یہ ہے کہ اسی گھر نے ٹوٹی ہوئی جوتیوں کے ساتھ
آنے والے معمولی لوگوں کو سیاست کے نام پر بڑی بڑی گاڑیوں میں بٹھایا،
انہیں عزت دی۔انہیں مقام دیا۔ انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا۔ مگر اب یہ گھر
اُنہیں پسند نہیں آتا۔ اگر اُن کی لوٹ مار کا کاروبار جاری و ساری ہو تو یہ
کچھ عرصے کے لئے گھر آتے ہیں، کچھ نہ کچھ سمیٹ لیتے ہیں اور پھر باہر بھاگ
جاتے ہیں۔یہ جاری و ساری عمل کسی ایک سیاستدان تک محدود نہیں بلکہ تقریباً
سبھی بڑے بڑے سیاستدان یہی کام کر رہے ہیں۔مہذب معاشروں میں لوگ اپنے ملک
اور اپنی دھرتی کو ماں کی طرح سمجھتے اور ماں کی طرح پیار کرتے ہیں ۔مگر یہ
بے حس اور بے غیرت لوگ اقتدار کے نشے اور دولت کے لالچ میں اپنے سگے ماں
باپ کی پرواہ نہیں کرتے، اپنی دھرتی سے کیا پیار کریں گے۔ معاشرہ بھی شاید
ان کے ساتھ ایڈجسٹ کر چکا ہے۔ لوگوں میں شاید شعور نہیں یا اگر شعور ہے بھی
تو وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں شرمندہ یا شرمسار کرنا لاحاصل ہے۔ ان سیاسی اور
لالچی لوگوں کو کون سی کسی دوسرے کی پرواہ ہوتی ہے۔ غیر ممالک کے لوگ بھی
انہیں خوشی سے قبول کر لیتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ لوٹ مار سے حاصل شدہ اپنا
سرمایہ بھی وہاں لے کر جاتے ہیں اور غیر ملکی حکومتوں کو فقط سرمایہ کاری
سے غرض ہوتی ہے۔ انہیں پاکستان کے عوام سے ہمدردی کیونکر ہوگی؟ سوچتا ہوں
کاش پاکستانی عوام کے بس میں ہوتا تو ایک ایک ’’مڈھی‘‘ ان تمام سیاستدانوں
کو بھی ڈال دی جاتی تا کہ یہ گھر چھوڑ کر کسی غیر ملک میں نہ جا سکیں اور
اگر جائیں تو وہاں کے لوگ ان کے کاندھوں پر ’’مڈھی‘‘ دیکھ کر انہیں ذلیل
کرتے ہوئے واپس ان کے گھر پاکستان پہنچا دیتے۔ بہر حال ابھی تو یہ خیال ہے
مگر خیال کو حقیقت بنتے کبھی دیر نہیں لگتی۔ ویسے شنید ہے کہ اس ملک کی
اسٹیبلشمنٹ حرکت میں آچکی ہے۔ ’’مڈھی پاؤ‘‘ کا عمل شروع ہو چکا ہے اوروقت
کے ساتھ ساتھ اس میں بہت تیزی آ رہی ہے ۔ جلد ہی بہت سے سیاستدان ’’مڈھیاں‘‘
اٹھائے زنجیروں سے بندھے نظر آئیں گے۔بھارت، چین اور دنیا کے بہت سے ممالک
نے یہی راستہ اپنا کر کرپٹ اور نااہل سیاستدانوں سے نجات پائی ہے اورپا رہے
ہیں۔ ہمارے لئے بھی یہی نجات کا راستہ ہے۔ |