عید کی مبارکبادیوں کے بینرکا سلسلہ:سنّت ہے یا بدعت؟
(Ata Ur Rehman Noori, India)
عید پرلاکھوں روپیہ جھوٹی شہرت
اور واہ واہی کی نذر:ایک لمحۂ فکریہ
یوم عیدپربے جا سیر وتفریح،فلم بینی،فضول خرچی اور سستی شہرت سے اجتناب
کریں اور غریبوں کا خیال کریں
عنقریب ماہِ صیام کا مقدس مہینہ ہمارے درمیان سے روپوش ہوا۔جس میں فرضیت ِروزہ
کامقصد قرآن کریم نے حصولِ تقویٰ کوقراردیا۔ایک مہینے کے روحانی اور جسمانی
امتحان سے گزرنے کے بعد بطور مسرت وشادمانی کے اﷲ عزوجل ہر سال
ہمیں’’عید‘‘جیسا عظیم تحفہ عطافرماتاہے۔اﷲ کے پیارے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب عید الفطر کی رات آتی ہے توملائکہ خوشی
مناتے ہیں اور اﷲ عزوجل اپنے نور کی خاص تجلی فرماتا ہے، فرشتوں سے فرماتا
ہے اے گروہِ ملائکہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے اپنا کام پورا کر لیا؟
فرشتے عرض کرتے ہیں اس کو پورا اجر دیا جائے۔ اﷲ عزوجل فرماتا ہے میں تمہیں
گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اس کو بخش دیا۔(ماہِ رمضان کیسے گزاریں) غرضیکہ ربِ
کائنات کی بے شمار رحمتوں کانزول ہوتاہے۔مسلمانان عالم بھی ایک دوسرے سے
سلام،مصافحہ اورمعانقہ کے ذریعے اپنی خوشیوں کودوبالاکرتے ہیں۔ہرچھوٹااپنے
بڑے سے عیدی کاطلبگار ہوتاہے ۔شیرخورمہ اور سیوئیوں کی بھینی بھینی خوشبو
مشام جاں کومعطرکرتی ہے۔بلاتفریق ہر کسی کو مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔عید کے
دن بلاامتیاز دوست ہویادشمن ہر کسی سے انتہائی عاجزی وخلوص کے ساتھ
ملاجاتاہے۔چہارجانب خوشیوں کابازار گرم ہوتاہے۔
چند سالوں سے مبارکبادیوں کا نیاسلسلہ دن بہ دن شہر میں پروان
چڑھتاجارہاہے۔جی ہاں!آئیے اپنی یادداشت کوتھوڑاساپیچھے لے چلیں۔لوگ عیدکی
تیاریوں میں مصروف ہیں،ہرایک کو ’’ہلالِ شوال‘‘کاانتظارہے کہ کب چاند
نظرآئے اور عیداپنے جلومیں رونقیں لے کرحاضرہو۔ایسے میں پورے شہر میں کچھ
لوگ ہمیں چوک چوراہوں اور شہرکی اہم شاہراؤں پر بینرنصب کرتے ہوئے نظرآئے
ہونگے۔ان بینروں کے ذریعے کسی پیغام کو پہنچانامقصد نہیں تھابلکہ امت مسلمہ
کو عید الفطرکی مبارکبادپیش کرناتھا۔ان بینروں پر جن جن لوگوں نے عید کی
مبارکباد پیش کیں تھیں ان میں مذہبی،سیاسی،سماجی اور تھوڑابہت اثرورسوخ
رکھنے والے نام نہادافراد کے نام سرفہرست ہیں۔ہمیں ان افراد سے نا کوئی
ذاتی رنجش ہے اور نہ ہی کسی قسم کابغض وعناد۔بلکہ ایک اہم نکتے کی جانب
توجہ کومبذول کرانا ہمارامقصد ہے۔ ایک چھوٹے سے چھوٹے بینر کی قیمت
تقریباً1200؍روپئے ہوتی ہے۔جبکہ شہر بھر میں مختلف قسم کے بینرآویزاں
تھے،تقریباً 2000؍سے 10,000؍کی لاگت سے بنے بینر شہر مالیگاؤں اور قرب
وجوار میں ایک اندازے کے مطابق 500؍بینرس نصب تھے۔اگر ہم اوسطاً ایک بینر
کی قیمت 2500؍روپئے بھی لیں تو 500؍بینرس کی مجموعی قیمت 1250000؍ہوتی
ہے۔کیاان بینرہولڈرس کی نگاہ میں عیدکامقصد صرف مبارکبادپیش کرناتھا؟کہیں
ایساتو نہیں کہ جھوٹی شان وشوکت اورنام ونمود کی خاطر اتناپیسہ برباد
کیاجارہاہے؟یاحصولِ شہرت اور واہ واہی اس کامقصد ہے؟یا پھر ایک دوسرے سے
آگے نکلنے کی ہوَس اس فضول خرچی کامنبع․․․․؟کیااہلیان شہر کوان بینروں کے
ذریعے مبارکباد پیش نہیں کی جائے گی تو عید نہیں ہوگی؟یا عید کارنگ
پھیکاہوگا؟یاآپ کی اس شہرت حاصل کرنے والی مبارکبادی کے بغیرعید نا مکمل
ہوگی؟ان بینروں پر ان لوگوں کی بھی بڑی بڑی تصویریں موجود تھیں جو
جائزومستحسن امرپر ناجائز اور بدعت کا فتویٰ لگانے میں ذرہ برابربھی رب کا
خوف محسوس نہیں کرتے۔ذرابتائیں آپ کایہ عمل سنّت ہے یا بدعت؟گویا کہ بینروں
کا استعمال شخصیت کی تعمیر و توسیع،ذہن سازی اور بلند مقام ومرتبہ کے اظہار
کے لیے ہوتا ہے جب کہ پیغمبر اسلامﷺ نے فرمایا:’’اپنی جانوں کواچھا نہ
بتاؤ،خدا خوب جانتا ہے کہ تم میں نیکو کار کون ہے۔‘‘(احکامِ شریعت،حصہ
اول،ص؍۷۳،سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ)
ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کاش !!یہ روپیہ قوم کے ان افراد تک پہنچ جاتا
جنھوں نے عید کادن بھی پرانے اور بوسیدہ لباس میں گزارا۔کاش!ان لوگوں تک
اگر یہ رقم پہنچائی جاتی جن کے بچے عید کے دن بھوک سے بلبلاتے ہوئے بریانی
کی فرمائش کررہے تھے اورماں سوکھی روٹی کاٹکڑایہ کہہ کرکھلارہی تھی
بیٹا!صبر کریہ دن بھی گزرجائینگے۔کاش !ان بیواؤں تک پیسوں کی رسائی ہوجاتی
جن کاکوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔کاش!ان یتیم بچوں تک ان روپیوں
کوپہنچادیاجاتاجن کے دل سے باربار یہی ہوک اُٹھ رہی تھی ’’کاش!ماں تم زندہ
ہوتی تو بے سروسامانی کاعالم نہ ہوتا‘‘۔کاش! ان روپیوں کوکسی
مذہبی،طبی،فلاحی اور سماجی کام ہی میں صرف کردیاجاتا۔مگرافسوس صد افسوس!
جھوٹی شان وشوکت اور دکھاوے کی خاطر خطیر رقم بے مقصد اور فضول کاموں میں
صرف کی گئی۔یہ تو بینر کے اخراجات پر ایک سرسری جائزہ پیش کیاگیاہے ،اخبارات
میں شائع ہونے والے مبارکبادی کے اشتہارات کے اخراجات بھی اس میں شامل
کرلئے جائیں تو یہ یہ رقم بیس لاکھ سے تجاوزکرجاتی ہے۔یاد رہے اﷲ پاک نے
قرآن کریم میں فرمایا:بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی
ہیں۔(القرآن)
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اﷲ علیہ کی مجلس میں کسی نے دریافت
کیاکہ فضول خرچی کسے کہتے ہیں؟آپ نے فرمایا جو چیز بھی خدا کے لئے اور اچھی
نیت سے نہ دی جائے وہ اسراف ہے۔ ایک معمولی سا سکہ بھی اگر اچھی نیت سے نہ
دیا جائے تو وہ اسراف ہے اور رضائے مولیٰ کی خاطر ساری دنیا بھی دے دی جائے
تو وہ اسراف نہیں۔فرمان رسالت ہیں:کھاؤ جو چاہو اور پہنو جو چاہوجبکہ دو
چیزیں تم سے دور رہیں، فضول خرچی اور شیخی۔(بخاری شریف)سیدنا صدیق اکبر رضی
اﷲ عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ میں ایسے گھر والوں کو پسندنہیں کرتا جو کئی
دنوں کا رزق ایک ہی دن میں خرچ کر ڈالیں یعنی فضول خرچی کرے۔حضرت خواجہ
عثمان ہارونی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ بدن پر کپڑا پہننے میں فضول خرچی نہ
کرو کیونکہ پیغمبر دوعالم ﷺنے مردے کے بدن پر کفن کی زیادتی سے منع
فرمایاہے۔قارئین کرام!صرف بینر ہی نہیں بلکہ لاکھوں روپیہ بے جا سیر وتفریح
میں،کروڑوں روپیہ فلم بینی کی نذر اور دیگر خرافات میں خرچ سے احترازکرنا
ازحدضروری ہے۔ہماری گزارش ہیکہ شہر سے کچھ ایسے نوجوان کھڑے ہوں جو اس بدعت
کا خاتمہ کریں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکافریضہ انجام دیں۔قارئین
کرام!ہمیں چا ہئے کہ ہم اپنی زندگی میں میانہ روی اختیار کریں تاکہ اسراف
کی وعیدوں سے محفوظ رہیں اور قرب خداوندی کی دولت نصیب ہو۔خود کے چاہنے سے
کوئی ذلت کاشکارہوسکتاہے اور نہ ہی عزت حاصل کی جاسکتی ہے۔عزت وذلت رب کی
جانب سے ہے،وہ جسے چاہے ذلیل کرے اور وہ جسے چاہے عزت دے۔اﷲ پاک ہمیں فضول
خرچی اور نام ونمودسے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین |
|