نور اعلیٰ نور - قسط۔ ۷

حسن اور ذولفقار بار بار ایک دوسرے کو فون کر رہے تھے۔ ایک دوسرے کو ٹائم اور جگہ بتاتے…… بس اسٹاپ……بس کا نمبر وغیر ہ وغیرہ۔
’’یار! اب میں بس میں بیٹھا ہوں۔ تم آ جاؤ‘‘۔ ذولفقار نے چڑ کر حسن کا فون کاٹا۔
’’بیٹا! کیا ہوا ہے؟؟؟ اب کی بار مجھ سے بات کرا دینا…… میں سمجھا دوں گا‘‘۔ ایک بزرگ جو چلے پر ساتھ تھے کہنے لگے کہ اگر رستہ سمجھنے میں کوئی مشکل ہو رہی ہے تو وہ مدد کر دیں گے۔

چند منٹ بعد حسن ایک خوبصورت سی صاف شفاف سفید رنگ کی شلوار قمیص پہنے ہوئے بس میں داخل ہوا۔ اس نے بڑا پیارا سا پرفیوم لگایا ہوا تھا…… چہرہ ایسا نورانی ہو رہا تھا جیسے نہا کر نکلنے کے بعد چہرہ تر و تازہ ہو جاتا ہے…… اس کے بس میں چڑھتے ہی ساری بس خوشبو سے مہک اٹھی۔ ذولفقار اسے دیکھتے ہی مسکرایا۔ اسے آس بندھ گئی کہ اب سارا سفر اچھا گزر جائے گا۔

’’کدھر بھاگ رہے ہو بھئی!!!‘‘
’’میں تو تمہیں پکڑنے آیا ہوں…… ہی ہی ہی ……‘‘۔ حسن نے آتے ہی اسے چھیڑا۔
’’السلام و علیکم‘‘۔ ذولفقار نے سلام کیا۔
’’و علیکم السلام‘‘۔ حسن نے سلام کا جواب دیا اور ذولفقار کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پھر دوبارہ اٹھا اور اپنا کچھ سامان سمیٹ کے اوپرسیٹ کے اوپر بنی سامان رکھنے کی جگہ پر رکھنے لگا۔
’’اب بیٹھ جاؤ……‘‘۔ ذولفقار بولا۔ حسن بڑا خوش تھا۔ وہ تو بالکل ایسی تیاری سے آیا تھا جیسے پاکستان ٹوور پر نکلا ہو۔وہ سیٹ پر بیٹھ گیا اور ایکسائٹمنٹ سے ذولفقار کو دیکھنے لگا۔ ذولفقارنے اپنا چہرہ سنجیدہ کر لیا۔
’’کیا منہ بنا کر بیٹھے ہوئے ہو؟؟؟‘‘۔’’اچانک یہ سب کیا ہو گیا؟؟؟‘‘۔ حسن ذولفقار کے یوں یک دم تبلیغ والوں کے ساتھ چلے پہ جانے پر حیران تھا۔
’’کچھ نہیں بھئی…… بس ویسے ہی……‘‘۔ وہ اسے کیا بتاتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ زندگی کیا دن دکھا رہی ہے اسے……
’’اچھا!‘‘۔ حسن بھی خاموش ہو گیا کہ بعد میں اس کی کلاس لے گا۔

بس چلنے کے لئے تیار تھی۔ سارے مسافر جو باہر کھڑے تھے وہ بھی بس کے اندر آ گئے، بس کا دروازہ بند ہوا اوروہ ہارن مار مار کر آہستہ آہستہ چلنے لگی۔ تبلیغی جماعت کے گروپ کے ارکان نے حسن سے اپنا اپنا تعارف کروا یا اور حسن کو خوش آمدید کہا، دعائے سفر پڑھی پھر ایک ایک دوسرے سے گپ شپ میں لگ گئے۔

ذولفقار کو تھکن سی محسوس ہونے لگی۔ جیسے ہی اس نے آنکھیں بند کیں خیالات کی ایک فوج نے جیسے اس کے دماغ پر حملہ کر دیا۔ اس کے ذہن میں کوئی جنگ سی چلنے لگی۔اسے گزرے دن کی باتیں یاد آتیں …… وہ دل ہی دل میں اپنے آپ سے نا جانے کیا کیا باتیں کر رہا تھا۔
’’ایک جھٹکے سے زندگی کیسے بدل گئی……‘‘
’’کل تک میں گھر میں……زندگی میں…… شور شرابے میں ……کیسا مگن تھا ‘‘۔
’’گاڑی میں گھومتا پھرتا…… اچھے اچھے کپڑے پہنتا…… نت نئے فیشن کرتا…… فلمیں دیکھتا…… لڑکیوں کے ساتھ ٹائم پاس کرتا……دوستوں کے ساتھ گھومتا…… ہونھ……‘‘۔ اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
’’اور آج میں……آج میں اسی زندگی سے بھاگ گیا ہوں…… ہو نھ……‘‘ اس کے ہونٹوں پر خود ہی کے لئے ایک طنزیا مسکراہٹ آئی جسے حسن نے محسوس کیا۔ ایسا خاموش سفر اس سے پہلے کبھی انہوں نے ایک ساتھ نہیں کیا تھا۔ یہ دونوں تو جب بھی ایک ساتھ ہوتے تو بس ایک آفت ہوتے۔

’’چلو میں نیچے سے جوس لے کر آتا ہوں‘‘۔ بس ایک پیٹرول پمپ پر رکی تو حسن نے ذولفقار سے کہا۔ ذولفقار نے جواباََ مشکل سے بس اپنی آنکھیں ایک بار کھولیں اور پھر بند کر لیں۔ یہ حیدر آباد کے قریب ایک پمپ تھا۔ عشاء کا وقت ہو چکا تھا۔ سفر میں ہونے کے باعث انہیں مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں ایک ساتھ ہی پڑھنی تھیں۔

’’چلو ذولفقار ! نیچے آ جاؤ…… نماز اور کھانا بھی یہیں کھانا ہے‘‘۔ حسن نے بس کی کھڑکی سے ذولفقار کو دیکھتے ہوئے پکارا۔ ذولفقار نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو پوری بس میں تنہا پایا۔ سارے مسافر اتر چکے تھے۔ وہ اٹھ کر نیچے اترا۔ پہلے کھانا کھایا، پھر نماز پڑھی اور پھر وہیں مسجد میں ان کا بیان شروع ہو گیا۔ حسن بڑے غور سے بیان سننے لگا۔ ذولفقار بھی ان کی باتیں سنتا اور عجیب عجیب منہ بناتا۔اس کے دل پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ بلکہ کبھی کبھی تو اسے ان کی کوئی تبلیغی بات اتنی مضحکہ خیز لگتی کہ اس کی ہلکی سی ہنسی ہی نکل جاتی۔
’’ایک ہی بات بار بار کہتے رہتے ہیں……‘‘۔ذولفقار بڑبڑایا۔ اس نے بیان سے اپنی توجہ ہٹا لی اور دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر کے پھر اپنے خیالوں میں گم ہو گیا۔
’’یا اﷲ! یہ میں کیا کر رہا ہوں…… میں کہاں بھاگ رہا ہوں…… میں کہاں چھپ رہا ہوں……‘‘
’’اﷲ تعالی! مجھے سہارا دیجئے …… مجھے سنبھالئے…… مجھے بچا لیجئے……‘‘۔ ذولفقار کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
’’یا اﷲ! ‘‘ وہ دل کی گہرائیوں سے یا اﷲ یا اﷲ دہرانے لگا۔ اسے سکون مل رہا تھا۔
’’یا اﷲ ! یا اﷲ!‘‘۔
’’ اﷲ تعالی‘‘۔ اس نے ساتھ رکھے قرآن مجید کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔

’’ذولفقار بیٹا! آؤ…… تم بھی کچھ بیان کرو‘‘۔ اچانک ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس نے چونک کر اپنی آنکھیں کھول دیں۔ حسن نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھاکہ اب ذولفقار پھنسا……
’’جی …… میں…… نہیں…… آپ لوگ کریں……‘‘۔ اس نے نفی میں چند الفاظ کہے۔ وہ تھوڑا سنبھل کر بیٹھ گیا۔
سب اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ کچھ گھبرا سا گیا۔
’’قرآن مجید میں سے ہی کچھ پڑھ کر سنا دیں‘‘۔ ایک دوسرے بزرگ بولے۔ انہوں نے اس کے ہاتھوں میں قرآن مجید دیکھ لیا تھا۔ وہ کچھ شش و پنج میں مبتلا بسم اﷲ کہہ کر اٹھا کہ چلو صرف دیکھ دیکھ کر پڑھنا ہی تو ہے۔
’’ام م م …… ‘‘۔ اس نے قرآن مجیدبیچ میں کہیں سے کھولا اور اس کا ترجمہ پڑھنا شروع کر دیا۔’’……اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا (حضرت یونس ؑ)……‘‘
’’……اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا……‘‘۔
’’یاد کرو……جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا……‘‘۔’’ ……اور سمجھتا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے‘‘۔
’’آخرکار …… وہ تاریکیوں میں سے پکار اٹھا……(اے میرے رب!) تیرے سوا کوئی پالنے والا نہیں…… تو پاک ہے…… بے شک مجھ سے قصور سر زد ہو گیا……‘‘۔ ذولفقار کے دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں۔ اسے یہ الفاظ اپنے حالات پر چسپا ہوتے نظر آئے۔ آخر وہ کس سے بھاگ رہا ہے!!! کس سے بِگڑ کر چل دیا ہے!!!
’’تب ہم نے اس کی دعا قبول کر لی……اور اسے غم سے نجات دے دی…… ہم تو ایسے ہی مومنوں کو بچا لیاکرتے ہیں……‘‘
’’ہم تو ایسے ہی مومنوں کو بچا لیاکرتے ہیں……‘‘۔ اس نے دہرایا۔ اندر ہی اندر اس کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔ مشکل سے اس کے حلق سے آخری الفاظ نکلے۔ اسے ایسا لگا جیسے اسے اس کے سوالوں کا جواب دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔

ذولفقارکے گھرکاماحول ایسا تھا جیسے کوئی ماتم کدہ ہو ۔سپاٹ خاموشی……ویرانی ……کوئی چہل پہل نہیں ……اس کی امی تو ویسے ہی بیمار رہتی تھیں ، اب تو بالکل ہی نڈھال ہوگئی تھیں۔عائشہ بھی اداس اداس اور پریشان خیالوں میں کھوئی رہتی تھی۔سدرہ چوبیس گھنٹوں میں سے با مشکل دو تین گھنٹے ہی گھر میں گزارتی تھی اور وحید کا بھی کچھ پتا نا تھا کہ آیا وہ اسی گھر کا فرد ہے یا کوئی غیر……
اس دن کے واقع کے بعد کسی نے ذولفقار کی شکل نہ دیکھی تھی ۔امی اور عائشہ کے علاوہ تو کسی کو اس کی شکل دیکھنے میں کوئی دلچسپی تھی بھی نہیں ……
انہو ں نے کئی بار ذولفقار کو فون کرنے کی کوشش کی ……مگر ذولفقار ہمیشہ فون کاٹ دیتا ……اسے شرم سی آتی ان سے بات کرتے ہوئے……ایسے موقع پر وہ بس انہیں کوئی چھوٹا سا میسج کر دیتا۔

’’ہونھ…… کیا حال ہو گیا ہے اس گھر کا!!!‘‘۔ ذولفقار کی امی کے لہجے میں طنز تھا۔ دوپہر کا وقت تھا۔ عائشہ ان کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔
’’ہائے! کس طرح سب کچھ بدل گیا ہے……‘‘
’’ہم م م …… کیسا عجیب سا ہو گیا ہے پورا گھر…… کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے……‘‘۔ عائشہ کی آواز میں بھی انتہا درجے کی مایوسی تھی۔
’’ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کوئی اپنا نہیں بستا……جیسے کسی مسافر خانے میں رہ رہے ہیں ہم……‘‘۔ وہ بہت غمگین تھی۔
دونوں خاموش ہو گئے۔

’’پتا نہیں ذولفقار کہاں چلا گیا……‘‘۔ اس کی امی بیڈ پر لیٹے لیٹے چھت کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہیں تھیں۔ انہوں نے ایسے کہا جیسے برسوں سے انکا بیٹا کہیں گم ہو۔
’’آ جائے گا…… بے چارہ…… آئے گا بھی کیا کرنے؟؟؟……‘‘۔
’’ہونھ…… ایسے گھر میں کیا کرنے آئے گا……‘‘ عائشہ نے رک رک کر کہا۔
’’تمھارے ابو بھی مجھے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے……‘‘ امی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’وہ ہوتے تو ……شاید ایسا نہ ہوتا ……‘‘وہ پھر انہیں یاد کرنے لگیں۔
دونوں پھر خاموش ہو گئیں۔
پتا نہیں ……اگران کے ہوتے ہوئے بھی یہ سب ہوتا تو انہیں کتنی تکلیف ہوتی……‘‘ عائشہ بولی۔
’’آپ زیادہ فکر نہ کریں……میں ذولفقار کو فون کرتی ہوں۔‘‘
’’ہائے اﷲ!‘‘ امی نے ایک گہری سانس لی۔
عائشہ ذولفقار کو فون کرنے کی کوشش کرنے لگی، مگر دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔اس نے امی کا دل بہلانے کے لیئے اپنی ایک دوست کو فون کرکے گھر بلا لیا ۔تاکہ گھر میں کچھ چہل پہل ہو جائے۔
’’ذولفقار کا میسج آیا ہے کہ وہ نماز پڑھ رہا ہے۔‘‘عائشہ نے کچھ دیر بعد امی کو بتایا۔
۔۔۔۔۔۔۔

فجر سے تھوڑا پہلے کا وقت تھا۔حسن کے داداجان بستر سے اٹھے اور وضو کرنے لگے ۔وضو کرکے وہ اپنے باغیچے میں چلے گئے جہاں انہوں نے مختلف پتھر رکھ کر بیٹھنے کی اونچی جگہ بنا رکھی تھی ۔اس پر انکی جائے نماز بچھی رہتی تھی ۔ان کی پشت پر ایک گھنا درخت اور بڑے بڑے پودے لگے تھے ۔نظر اٹھا کر دیکھتے تو سامنے اونچے اونچے آسمان کو چھوتے پہاڑ نظر آتے ۔ سوات میں ان دنوں بہت ہی پیارا موسم تھا ۔

داداجان نے ایک پاکیزہ سفید رنگ کا لباس پہن رکھا تھا۔ وہیں ان کے مصلے کے پاس ان کی ضرورت کی چند اشیاء رکھی ہوتی تھیں مثلاََ پانی کی صراحی اور گلاس اور تسبیح۔ قرآن مجید کا ایک نسخہ بھی وہیں ایک چھوٹی سی طاق میں رکھا تھا اور چند ایک عطر کی شیشیاں وغیرہ بھی…… انہوں نے ایک عطر کی شیشی نکالی اور اپنے کپڑوں کو خوشبو سے معطر کیا ،اپنا شفاف سفید رومال اپنے سر پر رکھا اور اﷲ اکبر کہہ کر نماز پڑھنے لگے۔

یہی ان کا روز کا معمول تھا۔ فجر سے گھنٹہ بھر پہلے اٹھ کر یکسو ہو کر اﷲ کی عبادت میں وقت گزارنا، آہ و زاری کرنا، دعائیں مانگنا، مغفرت مانگنا…… فجر کے بعد ناشتہ کر کے وہ اپنے شاگردوں کو دین کی تعلیم دیا کرتے تھے، پھر کہیں سیر کو یا چہل قدمی کو نکل جاتے۔

آج بھی وہ اپنے معمولات سے فارغ ہو کرچہل قدمی کو نکل گئے۔ تقریبا آٹھ بجے ان کا موبائیل بجا۔
’’دادا جان! السلام و علیکم!…… میں حسن……‘‘۔
’’و علیکم السلام بیٹا! کیا حال ہے؟؟؟ کیسے ہو؟‘‘۔ انہوں نے جوشیلے انداز میں اونچی آواز سے پوچھا۔ ’’ابو ٹھیک ہیں؟؟؟‘‘
’’جی ٹھیک ہیں…… میں ٹھیک ہوں‘‘۔
’’کدھر ہو بیٹا! فون شون نہیں کرتے……‘‘۔ دادا جان نے شکوہ کیا۔
’’بس دادا جان ادھر ہی آ رہا ہوں……‘‘۔ حسن نے بتایا۔
’’میں اور ذولفقار آ رہے ہیں……ہم دونوں……‘‘۔ ’’انشاء اﷲ‘‘۔
’’اچھا!!!‘‘ ۔ دادا جان خوش ہو گئے۔ ’’ماشاء اﷲ‘‘۔ ’’ کب آ رہے ہو؟‘‘۔ انہوں نے تجسس سے پوچھا۔
’’سفر میں ہو کیا؟‘‘
’’جی ہم بس میں ہی ہیں ۔ ابھی پنجاب پہنچے ہیں……‘‘۔ حسن بولا۔
’’بیچ میں ہم رکیں گے…… پھر آئیں گے…… میں آپ کو دوبارہ فون کر کے بتاؤ گا……‘‘۔
’’کہاں رکو گے؟‘‘۔ دادا جان نے پوچھا۔
’’ہم شاید بکھر کے پاس کہیں رکیں……‘‘۔ حسن نے جواب دیا۔
’’ اچھا ! کیوں؟ کوئی کام ہے وہاں؟‘‘
’’نہیں…… ہم تبلیغی جماعت کے ساتھ نکلے ہوئے ہیں۔ اس لئے رک رک کر ہی آئیں گے……‘‘۔ حسن نے وضاحت کی۔
’’ اچھا ! تبلیغ پر نکلے ہوئے ہو۔ ماشاء اﷲ…… ماشاء اﷲ‘‘۔ دادا جی نے تعریف کرتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے بیٹا پھر بتاتے رہنا…… میں بھی فون کروں گا …… انشاء اﷲ‘‘
’’او کے ۔دادا جان…… اﷲ حافظ‘‘۔
’’ذولفقار بیٹے کو بھی سلام دینا…… اﷲ حافظ ! اﷲ حافظ!‘‘۔
کال کٹ گئی۔ ’’اﷲ حافظ‘‘۔ دادا جان ابھی بھی اﷲ حافظ کہہ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔

مسجد کی تمام لائٹیں آف تھیں۔ چھوٹے چھوٹے چند روشندانوں سے چاند کی روشنی چھن چھن کر مسجد کے فرش پر پڑ رہی تھی۔ سب لوگ وہیں مسجد کی چٹائیوں پر بستر لگائے سو رہے تھے۔ رات ٹھنڈی تھی۔ذولفقار سونے اور جاگنے کی کسی بیچ کی کیفیت میں تھا…… اس رات کو قرآنِ مجید کی پڑھی ہوئی آیتیں جیسے اس کے دماغ میں جم سی گئیں تھیں۔
’’ہم تو ایسے ہی مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں……‘‘۔ وہ نیند میں بڑبڑایا۔ اس کی آنکھ کھل گئی۔ پہلے تو اسے گپ اندھرے کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ کانوں میں پرانے پنکھے کے چلنے کی آواز آنے لگی جو مسجد کی چھت پر ٹنگا تھا۔ جلد ہی اس کی آنکھیں اندھیرے میں کچھ دیکھنے کے قابل ہوگئیں۔ وہ ٹکٹکی باندھے کبھی پنکھے کو گھومتا ہوا دیکھتا کبھی مسجد کی چھت کو گھورتا۔ کافی دیر اسی حالت میں گزر گئی۔ اس کی نیند ایسے اڑ گئی تھی جیسے وہ آدھی رات کو نہیں دن کو بارہ بجے جاگا ہو۔

اس نے اپنے دائیں طرف دیکھا تو حسن کو اطمینان سے سوتا پایا، بائیں طرف کچھ اور حضرات خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ اس نے اپنے اوپر سے چادر ہٹائی اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ پھر وہ کھڑا ہوا اور دبے پاؤ چلتا مسجد کی کھڑکی کے پاس آیاجو نیچے کو بنی ہوئی تھی۔ وہ بیٹھ گیا اور کھڑکی سے باہر جھانکا۔

باہر کھلا میدان تھا۔ جس میں کہیں کہیں جھاڑیاں لگیں تھیں۔ آسمان پر چاند چمک رہا تھا۔ آسمان ستاروں سے ایسے بھرا تھا جیسے کسی نے مُٹھی بھر افشاں لے کر پھینک دی ہو۔
’’سبحان اﷲ‘‘۔ وہ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایسا آسمان تو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ شاید شہر کی روشنی میں آسمان کے تارے ماند پڑ جاتے ہیں۔ ایک مسحورکن ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا۔ اس نے فورا ایک گہرا سانس لیا کہ اس تازگی کو پوری طرح اپنے اندر سمو لے۔

وہ وہیں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ ساتھ ہی قرآن مجید کے کچھ نسخے رکھے تھے۔ اس نے بسم اﷲ پڑھ کر ایک نسخہ اٹھایااور نشانی والی ڈوری کو پکڑکر قرآن مجید کھولا۔ عین قرآن مجید کے اوراق پر چاند کی روشنی پڑی۔ قرآن مجید دمک اٹھا۔

’’اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا…… یاد کرو …… جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا……‘‘۔ اس نے قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنی شروع کر دی۔

’’یونس (ع) سر توڑ کوشش کرتے رہے کہ ان کی قوم راہ راست پر آ جائے، مشرکانہ عقائد چھوڑ دے،نیکی کی طرف راغب ہو۔ مگر انہوں نے ان کی ایک نہ سنی اور اپنی ڈھیٹائی پر اڑے رہے۔ آخرکار وہ ان سے خفا ہو کر چلے گئے۔ جاتے جاتے انہیں کہہ گئے کہ اب ان پر عذاب الہی آکر رہے گاجبکہ اﷲ نے نہ تو انہیں ان کی بستی چھوڑ کر نکل جانے کا حکم دیا تھا، نہ ہی عذاب کا دب متعن کیا تھا اور نہ ہی دین کی تبلیغ چھوڑنے کا فرمان جاری کیا تھا۔ مگر وہ کافروں کی سرکشی پر اور صبر نہ کر سکے اور بیزار ہو کراپنی بستی چھوڑ دی…… سَو اﷲ نے انہیں ایسا جانا جیسے کوئی غلام اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ جاتا ہے۔

وہ ایک کشتی کی طرف بھاگ نکلے جو گنجائش سے ذیادہ بھری ہوئی تھی۔کشتی ہچکولے کھاتی اور آگے نہ بڑھتی……بلکہ قریب تھا کہ غرق ہی ہو جاتی۔ مسافر گھبرا گئے۔ کسی نے کہا ، شاید ہم میں سے کوئی غلام ہے جو اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ آیا ہے لہذا کشتی آگے نہیں بڑھتی۔ قرعہ اندازی کی گئی کہ جس کا نام قرعہ میں نکلا اسے سمندر میں پھینک دیا جائے گا۔ یونس ؑ بھی قرعہ اندازی میں شریک تھے۔ آخر کو قرعے میں ان ہی کا نام نکلا اور انہیں سمندر میں پھینک دیا گیا، جہاں ایک بڑی مچھلی انہیں نگل گئی۔

دوسری طرف جب ان کی قوم نے دیکھاکہ متعن وقت پر عذاب کے آثار نمودار ہو رہے ہیں تو وہ ڈر گئے اور اپنے نبی کو تلاش کرنے لگے۔ مگر وہ تو انہیں چھوڑ کر جا چکے تھے۔ وہ سب گھبرا گئے کہ اب کیا کریں…… عذاب الہی سر پر کھڑا ہے اور یونس (ع) کا کچھ پتا نہیں۔ آخر کو وہ اپنے بال بچوں، یہاں تک کہ مویشی جانوروں کو بھی ساتھ لئے باہر کھلے میدان میں نکل آئے اور اپنے پروردگار سے گڑگڑا گڑگڑا کر معافیاں مانگنے لگے۔ سو ان کے رب کو ان پر رحم آگیا……اور یونس ؑ کی قوم کے علاوہ کوئی اور قوم بھی تو ایسی نہیں جس پر کہ عذاب نافذ ہونے کے بعد ٹل گیا ہو۔ آخر کار انہیں مہلت دے دی گئی اور عذاب ٹال دیا گیا۔

یونس (ع) ایک عرصہ مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ وہ ملامت ذدہ تھے۔ اب اگر وہ اﷲ کی تسبیح و تقدیس نہ کرتے اور اپنے کئے کی معافی نہ مانگتے تو تا قیامت اسی مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔وہ غم سے بھرے ہوئے تھے اور اپنی غلطی پر پچھتا رہے تھے۔آخرکار وہ پکار اٹھے۔
’’(اے میرے رب!) تیرے سوا کوئی پالنے والا نہیں…… تو پاک ہے…… بے شک مجھ سے خطا ہو گئی‘‘۔ سو اﷲ نے ان کی دعا قبول کی اور غم سے انہیں نجات دے دی۔ وہ تو ایسے ہی مومنوں کو بچا لیا کرتا ہے۔‘‘

ذولفقار بار بار ان آیات اور تفسیر کر دہراتا اور گہری سوچ میں ڈوب جاتا۔ وہ اپنے حالات و واقعات کو اس واقعے پر چسپا کررہا تھا۔وہ بھی تو اﷲ کی نافرمانیاں کرتا رہا تھا اور پھر جب اﷲ نے اسے پکڑا تو اب وہ بھاگ کھڑا ہوا۔اسے کچھ عجیب سا احساس ہونے لگا۔ ایسا احساس جو پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔

دوسرے دن اس نے مسجد کے امام صاحب سے پوچھ کر وہ قرآن مجید اپنے ساتھ ہی رکھ لیا۔ ان کا سفر جاری تھا۔ وہ مختلف مقامات پر،چھوٹے چھوٹے گاؤوں میں رکتے اور تبلیغی کارکن اپنا کام کرتے جاتے۔ اس نے اپنے موبائیل فون پردو بجے کا الارم لگا لیا تھا۔ وہ روز رات کو اس ٹائم اٹھتا اور خاموشی سے تنہائی میں بیٹھ کرقرآن مجید کی تلاوت کرتا، اس کا ترجمہ اور تفسیر پڑھتا۔

ایک رات وہ اپنا موبائیل چارج کرنا بھول گیا۔ یہ ضلع بکھر میں بنی ایک کچی سی مسجد تھی ۔سب سو چکے تھے۔ موبائیل کی بیٹری پوری طرح ختم تھی۔ موبائیل آف ہو چکا تھا۔ ذولفقار گہری نیند سو رہا تھا۔ دو بجے اس کا الارم بجتا تھا اور وہ اٹھ کر تہجد پڑھا کرتا تھا۔مگر آج اس کا موبائیل نہیں بج سکتا تھا۔ آج وہ قرآن پاک نہیں پڑھ سکتا تھا۔ دو بجنے کو تھے۔ فرشتے افسوس کرنے لگے کہ آج وہ اﷲ کے اس بندے کے لئے نیکیاں نہیں لکھ سکتے۔آخر کار دو بج گئے …… موبائیل چیخ پڑا!!!!……
…… وہ زور زور سے بج رہا تھا۔ اپنی پوری آواز سے مسجد میں گونج رہا تھا۔ذولفقار نے اچھل کر موبائیل اپنی مٹھی میں دبایا اور جلدی سے الارم آف کا بٹن دبا دیا۔مگر موبائیل پر کوئی روشنی نہ جلی۔ وہ نیند میں ہی تھا، سمجھا شاید یہ اس کا وہم ہے اور دوبارہ سو گیا۔جوں ہی اس کی آنکھ لگی …… مو بائیل پھر بج پڑا۔ ذولفقار ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھااور موبائیل کا آف بٹن دبایا۔ مگر موبائیل تو ایسے بجھا ہوا تھا جیسے اس میں بیٹری ہی نہ ہو۔ ذولفقار کا ذہن الجھ سا گیا۔ ’’یہ موبائیل کیسے بند ہو گیا ہے……‘‘۔ اس نے دل میں کہا۔ پھر مشکل سے اندھیرے میں وقت دیکھا۔ اس کی کلائی کی گھڑی میں دو بج رہے تھے۔
’’یہ تو میرے جاگنے کا وقت ہے‘‘۔ اس نے سوچا۔ وہ تھوڑی دیر خاموش سا ہو گیاکہ یہ کیا بات ہے؟؟؟ اورپھر ہر رات کی طرح اپنے مشغلے میں لگ گیا۔

تم اﷲ کی طرف چل کر آؤ گے تو وہ دوڈ کر آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔
یہ ان کے سفر کا پانچواں دن تھا۔ وہ پنجاب کے کسی دیہات میں تھے۔ جہاں نہ بجلی تھی ، نہ گیس، بہت ہی پسماندہ گاؤ ں تھا۔ لوگوں کا رہن سہن بھی نہایت سادہ تھا۔کھانے پینے اور دوسری روز مرہ زندگی کا دار و مدار بس کھیت کھلیان اور مویشیوں پر ہی تھا۔

ان کی جماعت وہاں لوگوں سے ملی۔ انہوں نے انہیں خوش آمدید کہا اور جو کچھ ان سے بن پڑا ان کی خاطر مدارات کی۔ یہ وہاں کئی لوگوں سے ملے جو کچھ نہ جانتے تھے۔ یہاں تک کے لوگوں کو کلمہ تک نہیں آتا تھا۔ انہوں نے بہت محنت کر کے لوگوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کروایااور مہذب زندگی گزارنے کے لئے کچھ مشورے دئیے…… تاکہ وہ کچھ آگے بڑھ سکیں، ترقی کر سکیں، کوشش کر کے آج کی دنیا کے ساتھ نہیں تو کم سے کم اس کے نزدیک ہی چل سکیں۔

یہ جمعہ کا دن تھا۔ کڑکتی دھوپ تھی۔ انہوں نے ایک میدانی جگہ پر ایک مسجد بنانے کی اپنی سی کوشش کی۔ ارادہ یہ تھا، کہ آج یہیں آذان ہو گی، جمعے کا خطبہ دیا جائے گا ، نماز پڑھائی جائے گی۔

جمعے کی نماز سے فارغ ہو کر تمام افراد وہیں مسجد میں رُک گئے۔
’’آپ لوگ ہمارا ایک مسئلہ حل کر دیں جی!‘‘۔ سب جمعہ پڑھ چکے تھے اور وہیں مسجدمیں جمع تھے۔
’’آپ لوگ نیک لوگ ہیں جی……میرے اور میرے پڑوسی کے بیچ ایک معاملہ ہو گیا ہے……اور ہم دونوں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ لوگ اس معاملے میں ہماری مدد کریں‘‘۔ ایک شخص مجمعے میں سے بولا۔ یہاں کوئی چالیس پچاس کے قریب آدمی بیٹھے ہونگے۔
’’جی جی! بسم اﷲ……بو لیں!!!‘‘
’’کیا مسئلہ ہو گیا؟‘‘۔ ان کی جماعت کے امیر بولے۔
’’تین دن پہلے میرے کھیت میں اس کے جانور گھس آئے تھے جی……‘‘۔ اس نے دوسرے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’میرا کھیت بہت خراب ہو گیا ہے جی…… اب میں اس سے کہتا ہوں کہ میرا کچھ نقصان پورا کر دے…… مگر یہ نہیں مانتا……‘‘۔

’’ام م م …… صاحب……!‘‘۔ دوسرا بات کرتے ہوئے جھجھک رہا تھا۔
’’ام م م…… وہ مویشی غلطی سے گھس گئے تھے جی……ورنہ سب کو پتا ہے کہ ہم اس چیز کا بہت خیال رکھتے ہیں……‘‘
’’اب جانور کا تو کچھ پتا نہیں چلتا نا جی……‘‘۔ وہ اپنا مدعا بیان کرنے لگا۔
’’اب میں کیا بدلہ دوں اسے؟؟؟…… میرے پاس تو بس یہ چند مویشی ہی ہیں جن سے کچھ گزر بسر ہو جاتا ہے…… غریب ہیں جی……کسی طرح گھر کا چولھا جل جاتاہے……‘‘۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ وہ کچھ نہیں دے سکتا۔ ذولفقار اور حسن بھی بڑی دلچسپی سے سارا ماجرا دیکھ رہے تھے۔

’’اگر میں نے جان بوجھ کر چھوڑے ہوتے جانور تو اور بات تھی……‘‘۔
’’او! مگر میرا نقصان تو ہو گیا نا……!!!‘‘۔ پہلے شخص نے اپنے روائتی لہجے میں اس کی بات کاٹ کر کہا۔ بیچ میں کئی اور لوگ بھی بولنے لگے۔ شور سا ہو گیا۔
’’ایک منٹ! ایک منٹ! ایک ایک بندہ بات کرے……‘‘۔ امیر صاحب نے ٹوکا ۔ سب خاموش ہوگئے۔

’’جی اب آپ دیکھ لیں……‘‘۔ پہلا بولا۔ جس کا کھیت خراب ہوا تھا۔

’’اچھا!…… ہم م م……‘‘۔ امیر صاحب سوچ میں پڑ گئے۔
’’اس کا نقصان تو پورا ہونا چائیے‘‘۔ جماعت کے ایک دوسرے بزرگ بولے۔
’’پہلے آپ لوگ یہ بتائیں کہ ہمارا فیصلہ تسلیم کرنے پر راضی ہیں نا؟‘‘۔ امیر صاحب نے پوچھا۔
’’ہاں! ہاں! ……‘‘۔ ’’ بالکل……‘‘۔ دونوں نے سب کے سامنے اقرار کیا۔
’’آپ لوگوں کا فیصلے تو ٹھیک ہی ہو گا‘‘۔ ایک دوسرا شخص مجمع میں سے بولا۔

’’آپ لوگ کیا مشورہ دیتے ہیں؟؟؟‘‘۔ ’’صدیق صاحب؟؟؟‘‘۔ امیر جماعت نے باقی اراکین سے رائے طلب کی۔
’’دیکھ لیں!!! اس کے پاس تو ذیادہ کچھ پیسے وغیرہ نہیں ہونگے دینے کے لئے……‘‘
کچھ دیر سب آپس میں بحث و مشورے کرنے لگے۔ ایک دوسرے کو مختلف رائے دینے لگے۔ مگر ذولفقار بالکل خاموش تھا۔ اس کے ذہن میں تو کچھ اور ہی چل رہا تھا ۔ اس نے ایک دو دن پہلے ہی کچھ پڑھا تھا۔

آخر کار فیصلہ سنانے کا وقت آ گیا۔
’’ اس کے علاوہ تو ہمیں کوئی فیصلہ سمجھ نہیں آتا کہ آپ کے مویشیوں میں سے کچھ اس کے حوالے کر دئیے جائیں……تا کہ اس کا نقصان پورا ہو جائے۔‘‘ امیر صاحب فرمانے لگے۔ ’’ کھیت ذیادہ خراب ہو گیا ہے…… اس کا کافی نقصان ہو گیا……‘‘۔
’’انشاء اﷲ، اﷲ دونوں کے کاموں میں برکت دے گا‘‘۔ کھیت کا مالک خوش ہو گیا اور دوسرے کا منہ لٹک گیا۔
’’آئے ہائے…… بڑا نقصان ہو گیا یہ تو……‘‘۔ مویشیوں کا مالک اداس ہو کر بولا۔ وہ نا امید سا ہو گیا۔
’’فکر نہ کرو …… اﷲ اور دے گا‘‘۔
’’انشاء اﷲ …… برکت دے گا‘‘۔ لوگ اسے دلاسہ دینے لگے۔

’’چار بکریاں دے دیں جائیں؟‘‘۔ امیر صاحب نے ان دونوں سے پوچھا۔
’’میرے خیال سے چار سے نقصان پورا ہو جائے گا……ہیں؟‘‘۔

ذولفقار سب سے پیچھے بیٹھاقرآن مجید کے اوراق جلدی جلدی پلٹ رہا تھا۔وہ نا جانے قرآن مجید میں سے کیا تلاش کرنا چاہ رہا تھا……
’’چلیں! آپ چار بکریاں ان کے حوالے کر دیں‘‘۔ بکریوں کا مالک خاموش بیٹھا رہ گیا۔ آہستہ آہستہ لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے۔ ذولفقار اب تک وہیں بیٹھا قرآن مجید کے صفحات کو ٹٹول رہا تھا۔
’’کیا ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘۔ حسن نے بے چینی سے پوچھا۔ وہ کافی دیر سے ذولفقار کو دیکھ رہا تھا۔ ذولفقار خاموشی سے اپنا کام کرتا گیا۔
’’ہیں؟؟؟ ……بتاؤ نا یار! ……کیا ڈھونڈ رہے ہو؟؟؟‘‘۔
’’یار! کل ایک آیت پڑھی تھی……‘‘۔ ذولفقار بولا۔
’’کس بارے میں؟‘‘
’’یار ! ایسے ہی ایک فیصلے کے بارے میں جو ابھی ہوا ہے‘‘۔
’’اچھا!‘‘۔ حسن خاموش ہو گیا۔

’’ہاں! یہ رہی……‘‘۔ ذولفقار خوش ہو گیا۔
’’اور اسی نعمت سے ہم نے داؤد اور سلیمان کو سرفراز کیا۔ یاد کرو……وہ موقع جبکہ وہ ایک کھیت کے مقدمے کا فیصلہ کر رہے تھے…… جس میں رات کے وقت دوسرے لوگوں کی بکریاں پھیل گئیں تھیں، اور ہم ان کی عدالت خود دیکھ رہے تھے۔ اس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا، حا لانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا‘‘۔
( سورت انبیاء)
’’دیکھو! تفسیر میں لکھا ہے کہ بکریاں تب تک کھیت کے مالک کے پاس رہیں گی، جب تک کہ بکریوں کا مالک اس کا کھیت ٹھیک نہیں کر دیتا‘‘۔
’’…… بعد میں بکریاں دوبارہ اپنے اصل مالک کے پاس پہنچا دی جائیں گی‘‘۔ ذولفقار نے بڑی خود اعتمادی سے کہا۔
’’کھیت کا مالک تب تک بکریوں کے دودھ دہی سے فائدہ اٹھائے……‘‘۔

حسن سوچ میں پڑ گیا۔’’ہاں! …… صحیح کہہ رہے ہو…… یہی صحیح فیصلہ ہے……‘‘۔ حسن نے اتفاق کیا۔ وہ ذولفقار کی بات کا قائل ہو گیا۔
’’چلو چل کر امیر صاحب کو دکھاتے ہیں……‘‘۔ حسن بولا۔ ذولفقار تھوڑا جھجھک سا رہا تھاکہ امیر صاحب نے فیصلہ دے دیا ہے ، اب پتا نہیں انہیں کیسا لگے ان کی بات سن کر۔
’’چلو……! ایسے ہی بکریوں والے کا نقصان ہو جائے گا……‘‘۔ حسن نے اصرار کیا۔ وہ کھڑا ہو گیا تھا۔
’’اچھا!…… چلو! انہیں دکھا دیتے ہیں……‘‘۔ ذولفقار قرآن مجید ہاتھ میں لئے اٹھا اور یہ دونوں امیر صاحب کے قریب گئے۔
ان کے ارد گرد چند ہی لوگ بیٹھے تھے۔ وہ اپنے فیصلے کے بارے میں ہی بات چیت کر رہے تھے۔ وہ سب ان دونوں کو اپنے پاس آتا دیکھ کر مسکرائے اور انہیں بیٹھنے کی جگہ دی۔
’’یہ دیکھیں …… ہم نے یہ آیت پڑھی ہے……‘‘۔ حسن بولا۔
’’بسم اﷲ‘‘۔ امیر صاحب نے قرآن مجید اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔
’’یہ والی……‘‘۔حسن نے قرآن مجید کی اس آیت پر انگلی رکھی۔
’’تفسیر بھی پڑھئیے گا……‘‘۔ ذولفقار نے آہستہ سے کہا۔ اسے اچھا نہیں لگ رہا تھاامیر صاحب کو کچھ پڑھاتے ہوئے۔

امیر صاحب بہت گہرائی سے اس آیت کا مطالعہ کرنے لگے۔ شاید وہ بار بار اسے پڑھ رہے تھے۔پھر ہماری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا ، پھر باقی ساتھیوں کی طرف دیکھ کر بولے۔ ’’ہم رہ گئے بھئی…… ہاہاہا……‘‘
’’ہم تو رہ گئے……‘‘۔ وہ خوش ہو رہے تھے۔سب ہی مسکرانے لگے اور باقی لوگ انتظار کرنے لگے کہ نا جانے انہوں نے ایساکیا پڑھ لیا ہے۔امیر صاحب نے قرآن مجید کی آیت اپنے دوست کو دکھائی۔ سب باری باری اس کا مطالعہ کرنے لگے۔
’’امیر تو آپ لوگوں کو ہونا چائیے……ہی ہی ہی ……‘‘۔ انہوں نے مزاق میں کہا۔
’’نہیں ! یہ تو ذولفقار نے پڑھی تھی…… بڑی دیر سے پیچھے بیٹھایہ آیت ڈھونڈ رہا تھا‘‘۔ حسن بولا۔
’’میں نے ایک دو دن پہلے یہ آیت پڑھی تھی……‘‘۔ ذولفقار نے کہا۔
’’ہاں! مجھے یاد آ گیا ہے…… میں نے بھی یہ قصہ سن رکھا ہے……‘‘ امیر صاحب یادکرتے ہوئے بولے۔’’مگر ذہن میں نہیں تھا‘‘۔
’’آپ نے قرآن مجید میں نہیں پڑھا تھا یہ؟؟؟‘‘ ۔ ذولفقار نے سوال اٹھایا۔
’’ام م م …… نہیں……عربی میں تو پڑھا ہو گا……مگر ترجمہ نہیں پڑھا کبھی……‘‘۔ انہوں نے زرا شرمندہ ہو کر جواب دیا۔
’’اچھا! مگر حضور ﷺ تو قرآن مجید سنا کر ہی لوگوں میں تبلیغ کیا کرتے تھے۔‘‘
’’ام م م ……‘‘۔امیر صاحب ذولفقار کی یہ بات سن کر سوچ میں پڑ گئے۔

عصر کے وقت تمام لوگ پھر مسجد میں اکھٹے ہوئے۔نماز کے بعد امیر صاحب نے سب کو مسجد میں ہی روک لیا۔
’’ہم سے فیصلہ دینے میں کچھ غلطی کر دی ہے‘‘۔
’’یہ…… ذولفقار میاں نے ہمیں صحیح فیصلہ سمجھا دیا ہے‘‘۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے ذولفقار کی طرف اشارہ کیا۔
’’بیٹا آپ بتا دیں!‘‘۔ ذولفقار گھبرا سا گیا۔
’’نہیں…… آپ ہی بتا دیں……‘‘۔ اس نے جھجھک کر کہا۔
’’بتا دو بیٹا……‘‘۔ امیر صاحب ویسے بھی چاہتے تھے کہ ذولفقار ان سے گھلے ملے۔ لہذا مختلف بہانوں سے اسے آگے کرنے کی کوشش کرتے۔
وہ کھڑا ہو گیا۔’’بکریوں کے مالک کی بکریاں تب تک کھیت کے مالک کے پاس رہیں گی۔ جب تک وہ اس کا کھیت پھر سے صحیح نہیں کردیتا‘‘۔
’’جتنی جلدی وہ کھیت صحیح کر دے گا۔اتنی ہی جلدی بکریاں واپس اس کے اصل مالک کو دے دی جائیں گی‘‘۔
’’تب تک کھیت کا مالک بکریوں سے فائدہ اٹھائے‘‘۔ ’’……یعنی بکریوں کے دودھ سے……‘‘۔ ذولفقار نے اونچی آواز میں فیصلہ سنا دیا۔
’’ماشاء اﷲ‘‘۔ ’’سبحان اﷲ‘‘ کی آوازوں سے مسجد گونج اٹھی۔
حسن نے ذولفقار کے بیٹھتے ہی فخرسے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
۔۔۔۔۔۔

رجا روز کی طرح اپنے گھر سے نکلا اور زلکا کے گھر کے سامنے چھپ کر بیٹھ گیا ۔ آج اس کے ذہن میں کچھ اور ہی تھا ۔
’’کیا کروں ؟ کس طرح یہ کام کروں؟‘‘۔ وہ کوئی خاص ہی منصوبہ ذہن میں لے کر آیا تھا۔
وہ اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا اور نت نئی تدبیریں سوچ رہا تھا ۔ زلکا نے اب اس سے بات بھی کرنی چھوڑ دی تھی۔
دو دن ہوگئے تھے اس حالت کو اورآج بھی وہ ایسے ہی نامراد لوٹنے والا تھا۔اچانک اس کی نظر زلکا کے آنگن میں لٹکی ایک چیز پر ٹک گئی۔
’’ہاں……شاید اس طرح بات بن جائے……‘‘
اس کے د ل میں امید کی ایک کرن جاگی۔
وہ خوش ہوگیا۔وہ جانتا تھا اس کام میں بہت خطرہ ہے۔اسکی جان بھی جاسکتی تھی۔ زاھب کو تو اس پرپہلے سے ہی شک تھا۔ اگر وہ پکڑا جاتا تو زاہب اسے قتل کر دیتا۔بہرحال اس نے ہمت کی……آنگن میں کوئی نہ تھا،دبے پیروں وہ وہاں گیا اور زلکا کا دوپٹہ اٹھا لایا۔
وہ جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گیا اور دوپٹہ کھول کر جلدی جلدی اس میں سے کچھ تلاش کرنے لگا، بڑی آسانی سے اسے دوپٹے سے چپکے چندبال مل گئے۔

’’یہ لو……کافی ہیں نا اتنے ……‘‘رجا نے سامری کو زلکا کے بال پکڑاتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے‘‘۔سامری نے بالوں کو غور سے دیکھا اور لے کر رکھ لئے ۔ پھر دوبارہ اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔
’’یہ لو۔‘‘رجا نے سامری کے ہاتھ میں سونے کی بالیاں پکڑائیں۔
سامری کی بانچھیں کھل گئیں۔
’’اب تم جاؤ……اور دیکھو میرے سحر کی طاقت……جب وہ عورت کسی قابل نہیں رہے گی تو زاھب خود ہی اسے چھوڑدے گا‘‘۔
رجا وہاں سے اٹھا اور خوشی خوشی اپنے کام پرچلا گیا۔

مازا سامری اپنی کال کوٹھری میں بیٹھا منتر پڑھ رہا تھا ۔ وہی بھیانک منظر……پانچ کونوں کے ستا رے کے کونے بھڑک رہے تھے۔اس کی پیشانی سے پسینہ ٹپک رہا تھا ۔
آدھی رات گزر گئی تھی ۔وہ اپنے عمل سے تھکا نہ تھا ۔اس نے اپنے ساتھ رکھی ایک پٹاری کھولی اور اس میں پڑی ایک چھپکلی نکال لی ۔اس نے کس کر چھپکلی کو گردن سے پکڑ رکھا تھا جو سامری کی گرفت سے چھوٹنے کے لئے مچل رہی تھی ۔
اب سامری نے زلکا کا ایک بال پکڑا اور بڑے احتیاط سے اس چھپکلی کی گردن پر کس کر باندھ دیا اور اسے چاٹا ۔وہ منہ سے اپنے منتر جاری رکھے ہوئے تھا ۔ اسی طرح ایک بال چھپکلی کے پیٹ اور تیسرا بال اس کی دم پر باندھا پھر اپنے تیز دھار ناخنوں سے اس کے پیٹ پر ہلکا سا چیرا لگاکر اسے ایک کیل سے لٹکا دیا۔
’’میں نے اس رینگتے حیوان پر جادوڈالا ہے‘‘مازا اپنی خالی کوٹھری میں پکارا۔
’’اے شیطانی طاقتوں……!‘‘وہ چلایا۔
۔۔۔۔۔۔۔

اس رات رجا کو اطمینان کی نیند آئی۔اس کی بیوی اور بیٹی ا ب تک سونے کی بالیاں ڈھونڈنے میں لگی تھیں ۔ وہ حیران تھی کہ رجا کو کوئی فکر ہی نہیں۔
رجا کو پورا یقین تھا کہ اب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا،سارے بابل کو ہی عاملوں کے سحر پر توریت کی آیتوں سے زیادہ یقین تھا۔
وہ روز کی طرح زلکا کہ گھر کے چکر کاٹتا اور اپنے سحر کا اثر دیکھنے کو بیقرار رہتا۔ ہفتہ بھر گزر چکا تھامگر اسے زلکا اور زاھب کے معمولات میں کوئی فرق نظر نہ آیا۔

’’میں تنگ آگیا ہو ں تجھ سے……‘‘ اچانک کوئی برتن اڑتا ہوا کمرے سے باہر آنگن میں آگرا۔
ہر وقت نصیحتیں کرتی رہتی ہے مجھے……مر کیوں نہیں جاتی بڑھیا‘‘ زاہب اپنی ماں سے جھگڑ رہا تھا۔
میں نے تجھ سے کہا ہی کیا ہے ……ما سوائے اس کے کہ خداوند کا حکم مان لو ……وہ ہمیں اس اسیری کی زندگی سے نجات دے دے گا……‘‘ ایک کانپتی ہوئی آواز آئی۔

’’چپ کر جا …… ورنہ تجھ پر ساحروں سے سحر کر وادوں گا‘‘
زاھب کی ماں رونے لگی۔
’’ان ذلیل ساحروں کے علاوہ بھی تم لوگوں کو کچھ سوجھتا ہے؟ ‘‘
وہ ایسے آہیں بھر بھرکر رونے لگیں جیسے بس ابھی ان کا دم ہی نکل جائے گا۔
’’اے رب العالمین!اس بستی پر اپنا قہر آنے سے قبل مجھے اپنے پاس بلا لینا ۔ مجھے گناہگاروں کے ساتھ موت نہ دینا……‘‘۔
اس کی دعا قبول ہوئی۔

دوسرے ہی دن زاھب کی ماں بری طرح بیمار ہو گئیں۔رجاہمیشہ کی طرح اس گھرپر نظریں لگائے بیٹھا تھا۔ زاھب کی ماں اکیلی بیمار باہر آنگن میں درخت کے نیچے لیٹی سسکیاں لے رہی تھی ۔زاھب کی ماں نے وہی چادر اوڑ ھ رکھی تھی جس سے رجا نے بال نکالے تھے۔

اسی شام زاھب کی ماں فوت ہوگئی۔
۔۔۔۔۔

’’شاید مجھ سے غلطی ہو گئی ……‘‘ رجا جلدی جلدی بولا ۔
’’ جو بال میں نے تمہیں دیئے تھے ،وہ زاھب کی ماں کے تھے……زلکا کے نہیں……‘‘
سامری مازا نے چونک کر اسے دیکھا ۔
’’آج شام وہ مر گئی‘‘۔ رجا نے بتایا۔
’’دیکھا!!! میرے سحر کا اثر ……‘‘۔ ’’ جان بھی لے سکتا ہے‘‘۔
’’ہاہاہاہا……‘‘ مازا نے قہقہہ مارا۔
وہ زاھب کی ماں کی موت کو اپنے جادو کی طاقت سمجھنے لگا اور اس واقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رجا کے سامنے بھڑکیاں مارنے لگا۔
’’مگر میرا کام ……‘‘رجا نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ وہ یقین کر چکا تھا کہ مازا ایک طاقتور ساحر ہے اور کسی کی بھی جان لے سکتا ہے۔
’’آخر تم خود زاھب کو کیوں نہیں مار ڈالتے……‘‘ مازا نے جان بوجھ کر کہا تاکہ رجا اس کی منت سماجت کرے۔
’’کیا کہہ رہے ہو……میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں۔ جانتے نہیں توریت میں کیا لکھا ہے ……جان کے بدلے جان، ا ٓنکھ کے بدلے آنکھ ، دانت کے بدلے دانت ……‘‘۔
’’ہونھ……توریت کی آج کل کون مانتا ہے……‘‘۔ سامری رجا کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
’’نہیں نہیں ……میں غریب ٓادمی ہوں، مجھ پر حد نافذ ہو کر رہے گی……ورنہ میں تو بہت پہلے ہی کچھ کر چکا ہوتا‘‘۔ یعنی امراء پر حد نافذ نہیں ہوتی تھی۔
’’……تم اپنا علم کیوں نہیں مجھے سکھا دیتے……‘‘ اچانک رجا کے ذہن میں ایک راستہ آیا اور اس نے فٹ سے سامری سے کہہ دیا۔ ویسے بھی سامری کے علم کیطاقت کا یقین جیسے اسے آج ہوا تھا پہلے کبھی نہیں تھا۔
سامری نے حیرت سے اسے دیکھا ۔اسے یقین ہی نہیں آیا کہ کوئی عام مفلس یہودی اس سے اتنی بڑی بات اتنی آسانی سے کر سکتا ہے۔ اسے یقین ہی نہ آیا کہ کوئی شخص کسی کہ عشق میں اس بری طرح گرفتار بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ اس کے ایمان کا سودا تھا۔ توریت میں جادوگر کی سزا صاف صاف موت لکھی تھی۔
’’کیا تم واقعی زلکا کے لیئے اپنا سب کچھ کھونے کے لیئے تیارہو؟‘‘۔ سامری کے لہجے میں دھیما پن آ گیا ، کیونکہ اب وہ ایک ایسے شخص سے بات کر رہا تھا جوچند لمحوں میں اپناپوراکا پور ا ایمان بیچنے کو تھا۔

’’زلکا کے لیئے نہیں ……اپنا بدلہ لینے کے لیئے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔

بڑی بڑی دیگوں میں کھانا تیار ہو رہا تھا۔ اتنی بڑی کہ اپنی جگہ سے ہلتی نہ تھیں۔ بلندوبالا عمارتوں جتنیں بڑیں۔ اور ان میں گھوٹا لگا رہے تھے طاقتور جنات…… اور ان میں سے کچھ بڑے بڑے حوض اور لگن بنا رہے تھے۔

محل کے باہر نت نئی عمارتیں تیار کی جا رہی تھی۔ انہیں خوبصورت و دلنشیں تصویروں سے سجایا جا رہا تھا۔ کہیں ہیرے موتی جڑے جاتے تو کہیں سونا، چاندی، تانبہ…… یہ سارے کام ایک اﷲ والے بادشاہ کے مطیع کرتے ۔ جو اپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے۔ ان میں سے اگر جو کوئی حکم سے سرتابی کرتا ، سو سزا کے طور پہ بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھتا۔

محل میں، شیشے کے چکنے فرش پر ، بادشاہ کا دربار لگا تھا۔ جنوں اور انسانوں، پرندوں اور وحشی جانوروں کے لشکر با ضابطہ دربار میں حاضر تھے۔ بادشاہ اپنا سرخ عباء زیب تن کئے اپنے عظیم الشان تخت پر جا برا جا۔

کیا بات ہے کہ ہمیں رہبر دکھائی نہیں دیتا!!!‘‘۔ بادشاہ اپنے ایک خاص درباری کے بارے میں پوچھنے لگا۔ وہ سلطنت میں بھیس بدل کر لوگوں کے حالات کی خبریں لایا کرتا۔ تاکہ کہیں سر زمین میں ظلم و ذیارتی نہ ہو۔ مگر اس کی یوں دربار میں بلا جواز غیر حاضری بے ادبی تھی۔

’’آپ کی سلطنت میں ظلم ڈھا دیا گیا میرے مالک……‘‘۔ رہبر چیختا ہوا آن پہنچا جیسے اسے ڈر تھا کہ کہیں بادشاہ اس کے غیر حاضری پر کوئی فیصلہ نہ صادر کر دے۔
’’وضاحت کی جائے۔‘‘ بادشاہ نے حکم دیا۔
’’حالیہ کے نواح میں ایک سود خور نے اپنے قرض دار کو برباد کر دیا ……‘‘
’’اسے اس کے گھر سے نکال پھینکا……‘‘۔ ’’ اس کے بیوی بچوں کو اپنا غلام بنا لیا……‘‘۔ رہبر نے آناََ فاناََ سب کہہ ڈالا ۔
’’کیا اس نے یہ سب اس لئے کیا کہ وہ سود پر سود لیتا ہے……؟؟؟‘‘۔
’’میرے جیتے جی توراۃکا مذاق اڑایا جا رہا ہے……‘‘۔ بادشاہ غصے سے کھڑا ہو گیا۔خداوند کے احکامات کو زمین میں نافذ کرنا ہی تو اس کا اولین فرض تھا۔
’’اسی وقت ہم وہاں جائیں گے…… اس سے بیشتر کہ وہ اس کے اہل و اعیال کی آبرو پر ہاتھ ڈالے۔‘‘

جنوں میں سے ایک قوی ہیکل نے عرض کیا ، ’’میں انہیں آپ کے پاس حاضر کر دوں گا قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں…… ‘‘ ’’ میں اس کی طاقت رکھتا ہوں اور انصاف پسند ہوں۔‘‘

’’میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے انہیں بلائے دیتا ہو۔‘‘ یہ ایک خاص آدمی تھا۔اس کے پاس کتاب کا ایک علم تھا اس علم کی بدولت وہ وہ کچھ کر سکتا تھا جو دوسروں کے لئے نا ممکن تھا۔
لحظہ بھر میں بے بس اور مجرم دربار میں حاضر تھے۔ اس شخص نے اپنا دعوی سچ کر دکھایا ۔
یہ دیکھ کر بادشاہ کے منہ سے بے اختیار نکلا، ’’یہ سب میرے رب کا فضل ہے…… تاکہ مجھے آزمائے…… کہ میں شکر کرتا ہوں کہ کافر نعمت بن جاتا ہوں‘‘۔
’’ اور جو کوئی شکر کرتا ہے تو اس کا شکر اس کے اپنے ہی لئے مفید ہے۔ ورنہ کوئی ناشکری کرے ، تو میرا رب بے نیاز او ر اپنی ذات میں آپ بزرگ ہے۔‘‘ ۔ یہ وہی الفاظ تھے جو نبیء خدا سلیمان ؑ نے اپنے پروردگار کے احسانوں کے شکر میں ادا کئے۔

جو افراد اپنے اہل و عیال کے ساتھ دربار میں پلک جھپکتے حاضر کئے گئے تھے، وہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کہ کہاں آ گئے ہیں۔
یہ دو اہل کتاب تھے، رجاہت اور زاہی۔
’’کیا معاملہ ہے تمھارا؟‘‘ سلیمان نے زاہی سے پوچھا جو بے تاب سا دربار میں کھڑا تھا۔
’’میری مدد کیجئے فومانرواء بر حق…… میری مدد کیجئے!‘‘
’’اس شخص نے مجھے برباد کر دیا ہے۔‘‘ اس نے رجاہت کی طرف اشارہ کیا۔ وہ گہرے گہرے سانس لینے لگا۔
’’میں نے اس سے تھوڑا سا قرض لیا…… اور اب یہ کہتا ہے کہ اس کا تیس گنا مجھے ادا کرنا ہو گا۔‘‘ اچانک وہ رونے لگا۔
’’اپنے مال اور بیٹوں کے گھمنڈ میں اس نے مجھے رسوا کر دیا……‘‘۔ ’’ میرے قرض کے بدلے میرے بیوی بچوں کو اٹھا لے گیا……‘‘۔
’’اے پروردگار آخر تو کب میری مدد کو آئے گا۔’’ وہ گھٹنوں کے بل گر کر گڑگڑانے لگا اور خدا سے مدد طلب کرنے لگا۔
’’میرے پاس کچھ نہ بچا……میرے پاس کچھ نہ بچا……‘‘ وہ چیخ چیخ کر آہ و زاری کر رہا تھا۔

’’آپ کہاں تھے فرمانروا ……! آپ کہاں تھے جب ہم پر یہ ظلم ٹوٹا……‘‘ اس کی بیوی بھی نوحہ کرنے لگی۔
’’میں اپنے آپ کو ہلاک کر دوں گی……‘‘ وہ اپنا منہ نوچنے لگی۔ ’’ بھرے بازار میں اس کے لڑکے مجھے اٹھا لے گئے……مجھے بے آبرہ کیا……‘ ‘ اس سود خور نے اپنے بیٹوں کے زریعے اس کی بیوی کو اٹھوا لیا تھا کہ اسے اپنی لونڈی بنا کر رکھے گا۔
’’ہم پکارتے رہے…… ہم برباد ہو گئے……‘‘۔
’’کیا خدا کی مدد کے آنے کا کوئی وقت بھی ہے؟؟؟؟‘‘ وہ چنگھاڑی۔

بادشاہ کے دربار کا رنگ بدل گیا۔ سب کے چہرے کرُب کی کیفیت سے لال ہو گئے۔کوئی ایسی آہ و زاری دیکھ کر کانپ رہا تھا تو کوئی گہرے گہرے سانس لیتا پروردگار سے معافی مانگ رہا تھا۔ ایسا ظلم عظیم دیکھ کر تو بادشاہ کا دل بھی دھڑکنے لگا۔ اُن کا چہرہ غم غصے سے پُر تھا۔ اُن کے ہاتھ کانپنے لگے۔ سارا دربار ایک ماتم کدہ بن چکا تھا۔

ظالم رجاہت کی حالت بگڑ گئی۔ اسے یقین ہو چلا تھا کہ اب کوئی راہ فرار نہیں۔
’’جھوٹ ہے یہ…… میں نے ایسا کچھ نہیں کیا……‘‘ ۔ اس نے بے سود چند فقرے کہے۔

’’تیرا دل پتھر کا بنا ہے!!!‘‘
’’ابھی ہم دیکھ لیتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے……‘‘
’’میں تجھے سخت سزا دوں گا ……یا تجھے سنگسار کرا دوں گا…… یا پھر تجھے معقول شواہد پیش کرنے ہوں گے۔‘‘۔ بادشاہ کی گرج سے پورا دربار گونج اٹھا۔

’’گواہ حاضر کئے جائیں۔‘‘

انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد بادشاہ نے اﷲ کا نام لے کر اپنا فیصلہ سنایا۔

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
تعریف اس خدا کی جس نے مجھے اس مقدمے کا صحیح فیصلہ سمجھا دیا۔
میرا فیصلہ اﷲ کی کتاب توراۃ سے ماخوز ہے۔
اس مجرم کے تمام قرض داروں کا قرض معاف ہے ، کیونکہ اس نے سود پر سود کھایا۔
اسے سنگسار کر دیا جائے ، کیو نکہ اس نے زاہی کے گھر کی عورتوں کو بے آبرو کیا۔
جو کوئی اﷲ کی حدود کو پامال کرے گا تو اﷲ اسے سزا دینے میں نہایت سخت ہے۔

رجاہت کے بیٹوں نے اس واقعے سے سبق نہ سیکھا۔ الٹا ہڈدھرم ہو گئے اور اپنے ظلم پر اڑے رہے۔ رجاہت اور زاہی کے گھرانوں میں نسل در نسل دشمنی شروع ہو گئی اور گزرتے زمانے کے ساتھ ساتھ یہ دشمنی اور ہی پروان چڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ بابل کی اسیری کے مشکل دن بھی ان دو نسلوں کو ایک دوسرے کے قریب نہ کر سکی۔ وقتاََ فوقتاََ یہ دونوں خاندان ایک دوسرے پر اتنقامی وار کرتے رہتے…… جو بھی اس جلتی آگ میں تیل ڈالتا اسے اس کے خاندان اور قبیلے میں بہاردی کے خطبات سے نوازا جاتا ……
رجا بھی رجاہت کے ہی خاندان کا ایک فرد تھا جو زاہی کی نسل سے اپنی جدی پشتی دشمنی میں اپنا حصہ بھی ڈالنا چاہتا تھا۔
بدلے کی آگ میں جھلستا رجا ایک بار پھر زاہب کو بے آبرو کر کے اپنے نفس کو تسکین پہچانا چاہتا ہے۔ زاھب کی عورت کو بھگا لے جانے سے بہتر اور کیا انتقامی چال چلی جا سکتی تھی!!!
۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
 
Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 85422 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More