وہ ایک خیراتی ہسپتال تھا۔ پورے
وارڈ میں بندے ہی بندے، کچھ مریض اور باقی سب تیمار دار۔ ہجوم کو دیکھ کر
مجھے اندازہ ہوا کہ ہر بیمار کے حصے کم از کم چھ، سات تیمار دار آتے تھے۔
میرا دوست نیم بے ہوشی کی حالت میں بستر پر لیٹا تھا۔ اس کے بیوی بچے اس کے
اردگرد بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر دُور دُور تک نظر نہیں آرہے تھے۔ ایک آدھ نرس
موجود تھی۔ جسے مریض کو دیکھنے کا کہنا بڑی جرأت کا کام تھا۔ کیونکہ آپ کی
بات وہ بہت کم سنتی اور کاٹنے کو زیادہ دوڑتی تھی۔نرس بھی کیا کرے ایک انار
سو بیمار والی صورتحال میں کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔میں نے اپنے دوست کے
گھر والوں کو کہا کہ اسے کسی اچھے ہسپتال کیوں نہیں لے کر گئے؟ وہ ایک
دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔ میں سمجھ گیا مجبوری تھی شاید ان کے پاس پیسے ہی
نہیں تھے۔ اچھے ہسپتال کے بے پناہ اخراجات کون ادا کرتا۔ میں اس کے بڑے
بیٹے کو ایک طرف لے گیا اور صورتحال کا پوچھا۔ وہ روہانسا ہو کر وہی بات
بتانے لگا جو مجھے پہلے سے پتہ تھا۔ واقعی ان کے پاس پیسے ہی نہیں تھے۔ جس
کے پاس پیسے تھے وہ بیمار تھا۔ بیماری کی حالت میں اس سے چیک سائن نہیں
کرایا جا سکتا تھا۔ بلکہ انہیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ ان کے والد نے چیک
بک کہاں چھپا کر رکھی ہے۔اپنے ایسے مجبور حالات میں وہ لوگ جہاں ممکن تھا
وہیں اسے لے آئے تھے۔
میں اپنے دوست کو اس افسوسناک حالت میں دیکھتے ہوئے Warren Buffet کو یاد
کر رہا تھا جو کہتا ہے ’’وہ لوگ جو پیسے ہونے کے باوجود خود پر خرچ نہیں کر
سکتے بد ترین نقصان میں ہیں۔ اس سرمایہ کاری کا کیا فائدہ جو آپ کی ذات کو
کچھ فائدہ نہ دے۔‘‘ میرا دوست اور میں میٹرک تک اکٹھے پڑھتے رہے ہیں۔ وہ
کروڑ پتی نہیں بلکہ میرے خیال میں ارب پتی ہوگا۔ شہر میں دس بارہ مکانات کے
علاوہ بہت سی زمین اور شہر کے مضافات میں کئی مربع زرعی رقبہ جو اَب شہر
میں آچکا ہے اس کی ملکیت ہے۔ پانچ چھ سال پہلے کسی کنسٹرکشن کمپنی نے اسے
زرعی رقبہ بیچنے کی پیشکش کی تھی اور 25 کروڑ کے قریب رقم دے رہی تھی۔ میں
نے مشورہ دیا کہ بیچ دو، مگر اس نے نہیں بیچی۔ اس کا خیال تھا چند سال بعد
بیچوں گا قیمت دُگنی ہوگئی ہوگی۔ مگر ابھی تک بیچنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔
وہاں سے ٹھیکے کی معقول رقم آتی ہے جو بنک بیلنس میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے
اور وہ بڑھتی رقم دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔
اُس کا رہن سہن بھی عجیب تھا۔ وہ لوگوں سے اپنی حویلی کا ذکر بڑے فخر سے
کرتا جہاں وہ رہائش پذیر تھا۔ وہ واقعی حویلی تھی۔ جس میں 20 سے زیادہ کمرے
تھے۔ مگر وہ اپنے بچوں سمیت فقط ایک کمرے میں رہتا تھا۔ بقیہ سارے کمرے اس
نے کرائے پر دئے ہوئے تھے جن کا کرایہ وصول کر کے وہ بہت خوش ہوتا۔ کرایہ
دیر سے دینے پر لوگوں کو پریشان کرنا اسے مسرت دیتا۔ میں نے اسے کہا کہ اس
ڈربے کی جگہ اپنی کسی زمین پر جو لاہور میں کئی جگہ موجود تھی، گھر بنا لے۔
ایک دن مجھے ایک جگہ لے کر گیا۔ پوش علاقہ تو نہیں تھا مگر بہرحال غنیمت
تھا۔ اس کی اندرون شہر کی حویلی جہاں وہ مقیم تھا سے بدرجہا بہتر علاقہ تھا۔
دس کنال جگہ تھی۔ مجھے بتانے لگا کہ یہاں بڑی جگہ پر مکان بنانا چاہتا ہوں۔
میں نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ کم از کم چار کنال پر مکان بنائے۔ اس
نے میرے ساتھ وعدہ کیا او رپھر مکان کی تعمیر شروع ہو گئی۔ تقریباً ایک سال
بعد نئے مکان میں منتقل ہوا تو میں اسے ملنے گیا۔ اس کے نئے مکان کا رقبہ
بمشکل دس مرلہ تھا اور بقیہ زمین اس نے بیچ کر پیسے سنبھال لئے تھے۔
کپڑے پہننے کے معاملے میں بھی اس کا لباس بہت سادہ تھا۔ میں نے ایک دن زور
دے کر کہا کہ تم ایک معزز اور مالدار آدمی ہو۔ عمدہ لباس پہنا کرو۔ چند دن
بعد ملاقات ہوئی تو ایک نیا عوامی سوٹ جس پر واسکٹ پہنی ہوئی تھی اور سر پر
ٹوپی رکھ کر معزز بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے اس کے لباس کو اس کے شان
شایان قرار نہ دیا تو ناراض ہو گیا کہ میں ہمیشہ تنقید کرتا ہوں۔ میں نے
بہت سمجھایا مگر پیسے خرچ ہوتے تھے اس لئے اس نے میری بات سمجھنے سے انکار
کر دیا۔ اس کا بڑا بیٹا ایک دفعہ میرے پاس آیا کہ میں نے ایف۔اے کر لیا ہے
میں پڑھنا چاہتا ہوں۔ مگر والد صاحب پڑھانے کو تیار نہیں۔ کہتے ہیں بہت پڑھ
لیا اب نوکری کرو۔ نوکری ملتی نہیں۔ کچھ عزیزوں نے مشورہ دیا ہے اور میری
بھی خواہش ہے کہ کوئی کاروبار کروں۔ مگر والد صاحب نہیں مانتے آپ بتائیں
کیا کروں؟ میں کیا بتاتا۔ اس سے پیسے نکلوانا ممکن نہیں تھا بے وجہ کی کوشش
بے سود تھی۔
وہ خیراتی ہسپتال میں بستر مرگ پر پڑا ہے اور میں نے اس کے گھر والوں سے
گفتگو کے بعد اندازہ لگایا ہے کہ بیوی بچوں سمیت سب کی خواہش ہے کہ جلد از
جلد وہ انہیں اور دنیا کو چھوڑ کر چلا جائے۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا ورنہ
اس کا گلہ دبا دیتے۔ اب انہیں انتظار تھا کہ وہ جہان فانی سے کوچ کرے۔ وہ
عدالت سے سرٹیفکیٹ لیں کہ وہ اس کے جائز وارث ہیں۔ بس اسی سرٹیفکیٹ کے لئے
وہ ہسپتال میں موجودتھے۔ جس کے نتیجے میں ان کی قسمت بدل جائے گی۔ وہ جو آج
چند روپوں کو ترس رہے ہیں لمحوں میں ہر ایک کروڑوں کا مالک ہو جائے گا۔میں
سوچ رہا تھا کہ ایسی دولت کس کام کی کہ جس کی وجہ سے اولاد بھی آپ کی دشمن،
بیوی بھی نالاں اور بیماری کی حالت میں آپ کی بیماری پر بھی خرچ نہیں ہو
سکتی۔
افسوس! افسوس! انسان کا اس سے بدتر انجام کیا ہو سکتا ہے۔ کاش ہم سمجھ سکیں
کہ سرمایہ کاری کے لئے سب سے پہلے اور سب سے بہتر آپ کی ذات ہے۔ زندگی بار
بار نہیں ملتی۔ ایک اچھی اور آسودہ زندگی گزارنا اورربالعزت نے جو دیا ہے
اسے اپنے اور ضرورت مندوں پر اچھی طرح استعمال کرنا ہی بہترین عمل ہے۔ |