یہ رمضان ہمیں کیا پیغام دے کر جارہا ہے
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
ماہ رمضان کا ایک مسئلہ جو ہم
ابتدا سے دیکھ رہے ہیں آج تک کسی کے سمجھ میں نہ آسکا ۔اس پر دینی حلقوں
میں بہت بحث و مباحثہ بھی ہوئے لیکن آبادی میں اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا
وہ مسئلہ یہ ہے کہ ماہ رمضان میں جس طرح مساجد نمازیوں سے بھری ہوئی نظر
آتی ہیں اور ایک پر نور ماحول محسوس ہوتا ہے کتنا اچھا لگتا ہے، لیکن پھر
کیا ہوتا ہے کہ عید کے بعد ہماری ان ہی مساجد میں نمازیوں کی تعداد گھٹ کر
اتنی ہی رہ جاتی ہے جتنی عید سے پہلے ہوتی تھی ۔ایک غزوہ سے واپسی پر نبی
اکرم ﷺ نے اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم ایک چھوٹے غزوے سے
یعنی چھوٹی جنگ سے بڑی جنگ کی طرف جارہے ہیں ۔مطلب یہی کہ میدان جنگ میں
جوش و خروش اور سامنے ملنے والی فتح دشمنوں کی گردنیں کٹنا دیکھنا اپنے
ساتھیوں کو شہید ہوتے دیکھنا یہ تما م چیزیں ایمان کو بہت اونچے درجے پر لے
جاتی ہیں ۔لیکن پھر جب عام زندگی میں وہ واپس آتے ہیں تو اس طرح کا جوش و
خروش جو دوران جنگ ہوتا ہے وہ ختم ہو جاتا ہے اس لیے اب عام زندگی کو
اسلامی ضابطوں کے اندرکس کر گزارنا یہ زیادہ مشکل کام ہے اسی لیے اس کو آپ
ﷺ نے بڑی جنگ قرار دیا ہے ۔جب رمضان شروع ہوتا ہے تو آغاز کے تین چار دنوں
تک ہمارا رمضانی جوش بلندیوں پر ہوتا ہے تراویح اور دیگر نمازوں میں تعداد
بہت زیادہ ہوتی ہے پھر دھیرے دھیرے یہ تعداد کم ہو نے لگتی ہے ،دسویں روزے
کو جو تعداد ہوتی ہے وہی کم وبیش آخر تک یعنی ختم قران تک رہتی ہے ،ستائیسویں
شب کو جب عموماَ ہماری اکثر مساجد میں ختم قران ہوتا ہے تو اس دن مساجد پھر
پہلے دن کی طرح پوری بھر جاتی ہیں اور پھر بعد میں یہ تعداد اچانک کم ہو
جاتی ہے اور عید کے بعد رمضان سے پہلے والی کیفیت واپس آجاتی ہے ۔
یہ تو ایک مستقل مسئلہ تھا جس پر ابتدائی تاثرات رکھ دیے میرے خیال سے یہ
بحث ہمیشہ چلتی رہے گی جب تک کہ ہمارے اہل علم حضرات اس پر کوئی متفقہ موقف
نہیں اختیار کرتے مثلاَیہی کہ ہم اپنی مساجد کو رمضان کی طرح کس طرح پورے
سال کے لیے پر رونق بناسکتے ہیں اس موضوع پر علمائے دین کے علاوہ ہر سوچنے
سمجھنے والے حضرات رائے دے سکتے ہیں بلکہ کچھ عملی تجاویز سامنے آجائیں تو
زیادہ بہتر ہے۔
اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ جب یہ رمضان شروع ہوا تو کچھ ایسی
چیزیں ہو گئیں جو عموماَ پچھلے رمضانوں در پیش نہیں آئیں تھیں یا اگر کچھ
تھیں بھی تو اتنی زیادہ نہیں مثلاَ گرمیوں میں رمضان پہلے بھی آئے لیکن اس
دفعہ جو گرمی پڑی جو سنٹی گریڈ میں تو کم تھی لیکن وہ محسوسات کے اعتبار سے
زیادہ تھی اسی طرح ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے جو انسانی المیے وقوع پذیر ہوئے وہ
پہلے کبھی نہیں ہوئے،اس طرح کی شدت کی گرمی جس میں بجلی کا بحران اس نے اے
سی جیسی تعیشات کو ایک طبی ضرورت بنا دیا ۔اسی طرح بجلی کا بحران تو ویسے
ہر سال ہوتا ہی تھا لیکن اس بار رمضان میں جو کارکردگی کے الیکٹرک کی سامنے
آئی اس نے عوام کو تگنی کا ناچ نچا دیا پھر ہیٹ اسٹروک کے نتیجے میں جوا
موات ہوئیں اس کی اصل وجہ بجلی کی مسلسل بندش بتائی گئی جس نے لوگوں کی
سانسوں کو بند کردیا پہلی چیز منفرد گرمی دوسری ہیٹ اسٹروک تیسرا بجلی
کاشدید بحران ،ان تین چیزوں کے بعد چوتھی چیز جو کراچی والوں نے بہت شدت سے
محسوس کیا وہ وفاقی حکومت کی سرد مہری پانچویں ایک اہم چیز جو رمضان کے
آخری دنوں میں اہل کراچی کو بھگتنا پڑا وہ ایک ہفتے میں پانچ بار کے
الیکٹرک کے فیڈرز کا اچانک فیل ہو جانا یہ تو آج 26رمضان تک کی صورتحال جب
یہ تحریر لکھی جارہی ہے آگے چاند رات تک کے ہوتا ہے اﷲ بہتر جانتا ہے کہ کہ
وہ ٹکنیکل فالٹ جو برسوں اور مہینوں میں وقوع پذیر ہوتے تھے ان کا مسلسل
ہونا جس سے 80فی صدی شہر کی بجلی غائب ہو جائے یہ فالٹ نہیں بلکہ کوئی سازش
ہے جو اہل کراچی کے خلاف کی گئی ہے آج 14جولائی کو جمعیت علامئے پاکستان
اور ملی یکجہتی کونسل کے صد ر صاحبزادہ ابو الخیر محمدزبیر کا بیان شائع
ہوا ہے کہ ۔۔کے الیکٹرک کا گھوسٹ عملہ عوام کو احتجاج پر اکسا رہا ہے
مصنوعی فالٹ پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن کی سمت کو
تبدیل کیا جائے ۔اسی طرح ایک اور مقامی اخبار نے اپنے رپورٹر کی تحقیقاتی
رپورٹ شائع کی ہے کہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ایک ایجنسی نے اجلاس کو
بتایا کہ ۔۔کے الیکٹرک میں کراچی کی ایک لسانی تنظیم نے اپنے جن کارکنان کو
بھرتی کرایا ہے ان کے ذریعے سے مسلسل یہ فالٹ جان بوجھ کر کیا گیا کہ جب
پوری کراچی میں بجلی طویل مدت تک نہیں آئے گی لوگ حکومت کے خلاف سڑکوں پر
نکلنے پر مجبور ہو جائیں گے تاکہ رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے
اپنا آپریشن روک کر اس امن امان کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے اپنی
توانائیاں صرف کریں اور جب ادھر سے توجہ ہٹ جائے تو عید سے قبل کے تین چار
دنوں میں عوام سے جبری فطرہ وصول کیا جاسکے اس خبر کی روشنی میں دیکھا جائے
تو اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اہل کراچی کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہے
سندھ حکومت کے کرتا دھرتا اپنے بچاؤ کی فکر میں ہیں وفاقی حکومت کو ویسے ہی
کراچی سے کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی اور جو کراچی کے اصل اسٹیک ہولڈر ہیں وہ
اپنی سیاسی جنگ میں اہل کراچی کو مصائب میں مبتلا کر کے انھیں حکومتی
اداروں سے لڑانا چاہتے ہیں-
ان تما م تفصیلات کے بعد یہ رمضان ہمیں یعنی اہل کراچی کو جو پیغام دے کر
رخصت ہو رہا ہے اس میں پہلا پیغام تو یہی ہے کہ امانت اہل امانت کے سپرد کی
جائے جیسا کہ خود قران مجید میں اس کا حکم دیا گیا ہے اگلے برس کے رمضان سے
پہلے بلدیاتی انتخاب تو لازمی اور یہ بھی ممکن ہے کے قومی انتخاب بھی ہو
جائے اس لیے ان دونوں یا کسی ایک انتخاب میں جوبھی پہلے ہو ہمیں اب اپنی
رائے بدلنا ہو گا پچھلے تیس سال سے ہم نے جن لوگوں کو اپنے سروں پر مسلط
کیا ہوا ہے انھوں نے کراچی والوں کے دکھوں میں اضافہ ہی کیا ہے اس لیے اس
رمضان کے پیغام کو سمجھنا ہو گا کہ ہم اب اس برس اپنے ووٹوں سے ایماندار
قیادت منتخب کرتے ہیں یا وہی چوروں بے ایمانوں اور بھتہ خوروں کو لاتے ہیں
اگر ہم ایماندار قیادت لائیں گے تو ہمارے دیگر مسائل بھی حل ہو جائیں گے اس
رمضان کا دوسرا پیغام یہ ہے کہ ایسی خبریں بھی آئی ہیں کہ اگلے برس کے
رمضان میں بھی ایسی ہی شدیدگرمی پڑے گی اس لیے ہمیں ابھی سے ذہنی طور پر اس
کے بچاؤ کا اہتمام کرنا ہوگا اسی طرح اس سال کے دوران اہل کراچی کے الیکٹرک
کے مسئلے کو اجتماعی جدوجہد کر کے حل کر لیں ورنہ اگلے سال یہ ادارہ کراچی
کے شہریوں کو زندہ درگور کر دے گا ۔ |
|