والدین اور بچوں کے بغیر بھی کیا عید ہوتی ہے؟

میں گھر میں داخل ہوتاہوں تو پوتا پوتی والہانہ محبت سے میری ٹانگوں کو چمٹ جاتے ہیں ۔کوئی مجھ سے ٹوفی مانگتا ہے تو کوئی چاکلیٹ ۔کسی کی فرمائش ہوتی ہے کہ میں اسے بازار لے جاؤں تو کوئی آم اور آئس کریم کھانے کی خواہش کرتا ہے ۔وہ جب مجھے پیار سے دادا جی کہہ کر پکارتے ہیں تو سارے دن کی تھکن دورہوجاتی ہے اور میں پہلے سے زیادہ خود کوتازہ دم محسوس کرتا ہوں ۔یہ وہ محبت ہے جو قسمت والوں کوہی ملتی ہے ۔درحقیقت یہ وہ محبت ہے جو انسانی رشتوں کی عکاس ہوتی ہے ۔گھر اینٹوں اور سیمنٹ سے نہیں بنتے ۔ایک دوسرے کے احترام اور محبت سے تعمیر ہوتے ہیں ۔کچھ اپنی تو کچھ دوسرے ساتھی کی بات ماننی پڑتی ہے۔

ماں کی کوکھ میں بچہ نو مہینے رہتا ہے وہ اس کے جسم کا حصہ بن جاتا ہے ۔ انسان سو سال کا بھی کیوں نہ ہوجائے ذرا سی تکلیف پہنچتی ہے تو زبان سے لفظ ماں کا ہی نکلتا ہے ۔ایک جانب بچے کی ماں سے محبت کی انتہاء تو دوسری جانب ماں اپنے بچے کی خاطر دنیا سے ٹکرا جاتی ہے ۔ ممتا کی انتہا دیکھنی ہو تو حضرت اسمعیل علیہ السلام کی والدہ حضرت حاجرہ علیہ السلام کو دیکھیں جو اپنے بچے کی پیاس بجھانے کے لیے صفااور مروہ کی دشوار گزار پہاڑیوں کے درمیان اس شدت سے بھاگیں کہ اﷲ تعالی کوان کی یہ بھاگ دوڑ پسند آئی ۔ صفا اورمروہ کے درمیان دوڑنے کو حج بیت اﷲ کا اہم رکن بنا دیا ہے ۔آج بھی جب حاجی حضرات صفا مروہ کے درمیان بھاگتے ہیں تو ان یہ فعل حضرت حاجرہ علیہ السلام کی ممتاکو خراج ہی بنتا ہے ۔ اگر باپ کی محبت کو جانچنا ہو تو حضرت یعقوب علیہ السلام کودیکھیں وہ اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی محبت میں اس قدر روئے کہ آنکھوں کی بینائی جاتی رہی ۔پھر جب حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتہ مصر سے لے کر بھائی چلے تو حضرت یعقوب علیہ السلام فرماتے ہیں تم یہ نہ کہو کہ بوڑھا بہک گیا ہے مجھے میرے یوسف کی خوشبو آرہی ہے ۔حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتہ آپ کے چہرے پر لگایا گیا تو بینائی لوٹ آئی اور آپ کی آنکھیں بالکل صحیح ہوگئیں ۔میں سمجھتاہوں یہ باپ کی اپنے بیٹے سے والہانہ محبت کی انتہاء تھی ۔اگر بیٹے کی فرماں برداری دیکھنی ہو تو حضرت اسمعیل علیہ السلام کودیکھیں جو والد کے حکم پر خود کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوگیا تھا۔

میں نے سیلاب کے دنوں میں کندھوں تک ڈوبے ہوئے باپ کو سر پر اپنے بچے کو اٹھاکر محفوظ مقام کی طرف جاتے ہوئے دیکھاہے ۔میں نے 2005ء میں جن دنوں زلزلے نے پورے پاکستان کو تلپٹ کر کے رکھ دیا تھا ان دنوں بھوک اور پیاس کی ماری ہوئی ماں کو اپنے دونوں بچے بغل میں اٹھائے پتھروں پر ننگے پاؤں اس ہیلی کاپٹر کی جانب بھاگتے دیکھاجو خوراک کے پیکٹ گرا رہا تھا ۔یہ بھی ممتا کی انتہاء تھی ۔ لیکن عید سے چند دن پہلے اخبار میں یہ خبر پڑھ کے میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے کہ گارڈین کورٹس میں انا کی بھینٹ چڑھے معصوم بچوں کے والدین صلح کے منتظر دکھائی دیئے ۔ خبر میں بتایاگیا ہے کہ عدالتی احاطہ کھلونوں ٗ چاکلیٹ اورمختلف تحائف سے بھرا ہوتا ہے جو علیحدگی اختیار کرنے والے ماں اور باپ الگ الگ اپنے اپنے بچوں کے لیے لے کر آتے ہیں لیکن والدین کی محبت سے محروم بچے ان کھلونوں کو توڑ کر اپنے غصے کااظہار کرتے ہیں ۔ قدرت نے ماں اور باپ دونوں کو بچے کے لیے سائبان بنا یا ہے نہ باپ ٗ ماں کی محبت دے سکتاہے اور نہ ہی ماں ٗباپ کا پیار دے سکتی ہے ۔ ماں ہو یا باپ دونوں اپنے اپنے کردار کوخوبی سے نبھاتے ہوئے بچے کی پرورش کا فریضہ انجام دیتے ہیں لیکن وہ بچے زندگی بھر محرومیوں اورمایوسیوں کا شکار ہوجاتے ہیں جن کے والدین جذبات کی رو میں بہہ کر علیحدگی اختیار کرلیتے ہیں ۔اس لیے کہاجاسکتاہے کہ ماں اور باپ کے جذباتی اورغلط فیصلوں کی بھینٹ ان کے بچے چڑھتے ہیں۔ علیحدگی کے بعد جہاں بچے کی نشوو نما اور تربیت مکمل نہیں ہوتی وہاں ایسے بچوں کے ماں اور باپ بھی زندگی بھر بے سکون رہتے ہیں ان کی ؒزندگی میں بھی کبھی قرار نہیں آتا ۔ عید کی خوشیوں پیسوں ٗ کھلونوں کے انبار سے نہیں منائی جاتیں بلکہ ماں باپ اور بچوں کے ساتھ عید ہوتی ہے۔ایک جانب یہ معاشرتی المیہ تو دوسری جانب معاشرے میں ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جو کسی نہ کسی بہانے اپنے والدین کو اولڈ پیپلز ہوم میں داخل کروا کر عید کی خوشیاں تلاش کرنے نکلتے ہیں۔ ایسے بدقسمت لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن انہیں بھی بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنا ہے پھر اولاد بھی بے حسی کامظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بھی کسی اولڈ ہوم میں داخل کروا ئے گی ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک نوجوان کی والدہ اولڈ پیپلز ہوم میں زندگی کی آخری سانس لے رہی تھی بیماری حد سے زیادہ بڑھی تو انتظامیہ کے آگاہ کرنے بیٹا ماں کے پاس پہنچا اور مگرمچھ کے آنسو بہانے لگا ۔ ماں نے کہا بیٹا اب مجھے تمہارے آنسووں کی ضرورت نہیں ہے اب میں اپنے رب کے پاس جارہی ہوں جہاں میرے ساتھ دنیا سے بہتر سلوک ہوگا ۔ کیا تم میری ایک بات مان سکتے ہو ۔ بیٹے نے کہا کیوں نہیں ۔ آپ حکم کریں ۔ ماں نے کہا بیٹا اس اولڈ ہوم کے پنکھے خراب ہیں یوپی ایس بھی نہیں چلتا۔ بار بار بجلی بند ہو جاتی ہے تو سب کا دم گھٹنے لگتا ہے اگر تم حسب توفیق یہاں پنکھا لگوا دو تو مجھے سکون مل سکتا ہے ۔ یہ پنکھا میں اپنے لیے نہیں لگوا رہی بلکہ جب تمہاری اولاد تمہیں یہاں چھوڑ کر جائے گی تو یہ پنکھا تمہیں گرمی کی شدت سے بچائے گا ۔ مجھے اپنی فکر نہیں یہ بات میں تمہاری بہتری کے لیے کہہ رہی ہوں ۔میری زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ بہت کم رہ گیاہے ۔یہ کہتے ہوئے ماں نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلی اور اس دنیا میں جا بسی جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا ۔اس لیے کہاجاسکتاہے کہ عید کی خوشیاں ماں باپ اور بیو ی بچوں کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہیں جو ان مقدس رشتوں کواپنی انا کی خاطر پامال کرتے ہیں پھر وہ زندگی بھر بھٹکتے پھرتے ہیں اور پچھتاوا ان کی زندگی کا مستقل حصہ بن جاتا ہے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 667144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.