کرپشن کا ناسور اور احتسابی عمل
(Faisal Azfar Alvi, Islamabad)
چند دن قبل مجھے ایک خبر پڑھنے
کے بعد شدید دھچکا لگا‘ خبر کا متن کچھ یوں تھا کہ سرکاری ذارائع کے مطابق
وطن عزیز پاکستان میں یومیہ 9 ارب روپے سے زائد کی رقم کرپشن کی نذر ہو
جاتی ہے اور ظاہر ہے یہ کرپشن کوئی باہر کے ممالک سے آکر نہیں کرتا بلکہ ہم
پاکستانی ہی اپنا ’’فریضہ منصبی‘‘ سمجھ کر ادا کرتے ہیں‘ قارئین کرام!
حالیہ دنوں میں قومی احتساب بیورو کی کارکردگی اور ملک بھر میں جاری کرپشن
کہانیوں جن میں 150 میگا کرپشن سکینڈلز بھی شامل ہیں ان میں اب تک کوئی
خاطر خواہ پیش رفت سامنے نہیں آئی‘ یہ بات خوش آئند ہے کہ نیب اپنی تمام تر
کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کیسز کو سلجھانے اور لوٹی ہوئی رقم کو
واپس سرکاری خزانے میں لانے کیلئے پر عزم دکھائی دے رہی ہے اور نیب کا
حالیہ کردار مثبت و قابل تعریف ہے جس کا سہرا چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری
اور نیب کی پوری ٹیم کے سر جاتا ہے‘قارئین! 150 میگا کرپشن سکینڈلز وہ
سکینڈلز ہیں جن میں بالواسطہ یا بلا واسطہ لازمی طور پر سیاسی شخصیات ملوث
ہیں جبکہ اربوں روپے کے غبن کے وہ خفیہ سکینڈلز جن سے قومی خزانے کو شدید
نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہیں کیوں سامنے نہیں لایا جاتا؟
کرپشن کی بہتی ہوئی گنگا میں ویسے تو پورے ملک کے سرکاری و نیم سرکاری
اداروں کے اہلکار‘ ملازمین و افسران ہاتھ دھو رہے ہیں لیکن میں آج صرف وطن
عزیز کے انتہائی اہم شہر اور دارلخلافہ اسلام آباداور اس کے ایک سرکاری
ادارے سی ڈی اے پر قلم کشائی کی جرأت کرنے کی کوشش کروں گا ، قارئین کرام
شہر اقتدار اسلام آباد انتظامی طور پر دو حصوں میں بٹا ہوا ہے جس کا شہری
حصہ وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) اور دیہی حصہ ضلعی انتظامیہ کے زیر
انتظام ہے‘ وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کا کام شہر میں تمام ترقیاتی
کاموں کو سر انجام دینا‘ شہر کی دیکھ بھال‘ صفائی ستھرائی‘ سڑکیں‘ سرکاری
بلڈنگز‘ گلیاں وغیرہ وغیرہ کی تعمیر و مرمت کرنا ہے‘ وفاقی ترقیاتی ادارہ (سی
ڈی اے) فنڈز کے لحاظ سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے بھی زیادہ خوش نصیب ہے‘
بلوچستان کا کل بجٹ صرف 44 ارب روپے اور سی ڈی اے کا سالانہ بجٹ 46 ارب
روپے ہے‘ یعنی ایک شہر جس کی آبادی بمشکل 20 لاکھ ہے اس کا ترقیاتی بجٹ ایک
ایسے صوبے جس کی آبادی تقریباََ90 لاکھ ہے اس کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے جس کا
مقصد وفاقی دارلحکومت کو عالمی سطح کا ترقی یافتہ اور مزید خوبصورت شہر
بنانا ہے‘ 46 ارب روپے سالانہ کے بھاری بھر کم ترقیاتی بجٹ کا ایک سال میں
کہاں استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے ایک عام ذی
شعور انسان بھی اس بات کا اندازہ با آسانی لگا سکتا ہے‘ اگر 46 ارب روپے کی
کثیر رقم ایمانداری کے ساتھ شہر کے ترقیاتی کاموں پر خرچ کی جائے تو شہر
صرف 5 سال میں جدید ترقی یافتہ شہروں کی صف میں شامل ہو جائے گا مگر کرپشن
کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے اس ادارے کے افسران کی بڑی تعداد عوام
الناس کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والے ٹیکس اور قومی خزانے کو
اجاڑنا اور اپنی تجوریوں کو بھرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں‘ قومی اسمبلی کی
قائمہ کمیٹی‘ قومی احتساب بیورو‘ ایف آئی آئے اوردیگر اداروں میں آج بھی اس
ادارے کے افسران کی ’’وارداتوں‘‘ کے تحقیقاتی کیسز چل رہے ہیں اور کئی کیسز
خفیہ اور پوشیدہ ہیں‘آپس کی ملی بھگت اور بندر بانٹ کے سبب عوامی پیسے کو
اجاڑنے والے یہ افسران نجانے کونسا جادو جگاتے ہیں کہ ماورائے قانون ہو
جاتے ہیں احتساب سے بچ نکلتے ہیں‘ میں یہاں پر ایک تازہ ترین مثال کا ذکر
کروں گا جس میں وفاقی ترقیاتی ادارے کے ایک (سابقہ) ڈپٹی ڈائریکٹر فیصل رضا
گاڈی کی کرپشن کہانیاں اس وقت زبان زد عام ہیں لیکن موصوف کی کرپشن کہانیوں
کے انعام کے صلے میں ’’چمک‘‘ سے متاثرہ اعلیٰ حکام نے موصوف کی انکوائریاں
کروانے کی بجائے اسے ترقی دے کر ڈائریکٹر بنا دیا‘ موصوف قومی خزانے کو
شدید نقصان پہنچانے اور اسی غبن شدہ رقم سے فیصل آباد اور جھنگ میں رائس مل‘
فلور مل اور کاٹن مل لگا چکے ہیں‘ مذکورہ ڈپٹی ڈائریکٹر وفاقی ترقیاتی
ادارے کے علاوہ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن‘ یوٹیلٹی سٹورز
کارپوریشن‘ پاک پی ڈبلیو ڈی میں بھی ڈیپوٹیشن پر رہ چکے ہیں اور ’’وارداتوں‘‘کے
ذریعے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچانے میں ملوث ہیں‘ اس کے علاوہ
اسلام آباد کے تین پوش سیکٹرز میں موصوف کے تین عدد بنگلے بھی ہیں اور
موصوف کی تمام اداروں میں کل مدت ملازمت لگ بھگ 12 سے 13 سال ہے اور ان
تمام قصے کہانیوں کی تحقیقات ریکارڈ قبضے میں لیکر کرنے سے دودھ کا دودھ
اور پانی کا پانی ہو جائے گا کہ مختصر عرصہ ملازمت میں اتنا سب کچھ کیسے
بنایا گیا؟ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ موصوف کو پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مرکزی
رہنما چوہدری پرویز الٰہی اور فیصل صالح حیات کی پشت پناہی حاصل ہے‘ قارئین
کرام! یہ صرف ایک ڈپٹی ڈائریکٹر (جو کہ اس وقت ڈائریکٹر کی سیٹ پر براجمان
ہیں) کا قصہ ہے جبکہ اسی طرح کے دیگر افسران سے سی ڈی اے بھرا پڑا ہے جس کی
وجہ سے ادارے کے ایماندار افسران میں شدید بے چینی اور اضطرابی کیفیت پائی
جاتی ہے‘ اس وقت نیب جو کہ احتسابی عمل کو شفاف بنانے میں مصروف ہے اور
کرپشن سے ملک کو پاک کرنے کا عزم کر چکا ہے اسے اس جانب بھی توجہ دینی
چاہئے۔
عام پاکستانی شہریوں کی اکثریت اس بات سے ناواقف ہوتی ہے کہ سرکاری اداروں
کا دائرہ کار کیا ہے اورانہیں کتنا فنڈ سالانہ مہیا کیا جاتا ہے اور اس کا
استعمال کہاں کہاں کیا جانا ہوتا ہے اسلئے یہ سرکاری و نیم سرکاری ادارے
اپنی موج مستیوں میں لگے رہتے ہیں اور آپس کی ملی بھگت کے ساتھ فنڈز کے بے
دریغ استعمال سے قومی خزانے کو شدید نقصان پہنچانے میں مصروف عمل رہتے
ہیں‘آج کا کالم لکھنے کا مقصد شہر اقتدار کے ان تمام باسیوں اور پاکستانیوں
کی توجہ ان سرکاری اداروں میں ہونے والی ’’وارداتوں‘‘ کی جانب مبذول کروانا
ہے‘ عوام الناس کی اکثریت اس بات سے ناواقف ہے کہ کرپشن کی کیا کیا قسم ہے
اور کرپشن کیسے کیسے کی جاتی ہے‘ اگر آپ اپنے ارد گرد کے سرکاری اداروں کے
کاموں پر نظر رکھیں تو آپ با آسانی ’’وارداتوں‘‘ کا مشاہد کر سکتے ہیں‘ یہ
’’وارداتیں‘‘ ٹینڈر کو پول پر دینے کی صورت میں بھی ہو سکتی ہیں جس میں
متعلقہ افسر اپنا کمیشن حاصل کرنے کیلئے سرکاری کام کا ٹھیکہ اپنے من پسند
ٹھیکیدارکو دے دیتا ہے جبکہ ٹھیکہ دینے کا لمبا اور قانونی طریقہ سراسر نظر
انداز کر دیاجاتا ہے‘ یہ وارداتیں ایسے چھوٹے موٹے کام جن میں ٹینڈرز کرنے
کی ضرورت نہیں ہوتی اس کی مد میں کیسے رقوم ہڑپ کی جاتی ہیں‘ تعمیرات میں
مطلوبہ معیار و مقدار سے کم گھٹیا میٹریل استعمال کیسے کیا جاتا ہے اور اسے
کون پاس کرتا ہے؟ احتسابی اداروں کے چند کرپٹ افسران کو منہ بند رکھنے اور
سب اچھا رپورٹ پیش کرنے کیلئے کیسے خوش کیا جاتا ہے ‘ اگر عام پاکستانی
شہری اپنے ارد گرد پر نظر رکھے اور ’’معلومات تک رسائی‘‘ کے قانون کی روح
کو سمجھتے ہوئے اپنا حق استعمال کرے اور پچھ گچھ کرے تو کرپشن میں خاصی حد
تک کمی لائی جا سکتی ہے‘ اگر آپ ایک جگہ کوئی غیر قانونی چیز یا کام دیکھ
رہے ہیں تو اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور متعلقہ افسران و حکام سے
پوچھ گچھ کرنا آپ کا حق بھی ہے اور فرض بھی‘ آپ کرپشن کے خلاف عملی جہادف
میں حصہ لیکر ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں سب سے اہم کردار
ادا کر سکتے ہیں‘ آپ سب مختلف سماجی‘ سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی مسائل کے حل
میں جو کردار ادا کر سکتے ہیں بخدا وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔
ملک بھر میں جاری احتسابی عمل کو کامیاب بنانے کیلئے یہ بے حد ضروری ہے کہ
ہم اپنا اپنا فرض مکمل طور پر ادا کریں‘ انفرادی و اجتماعی طور پر خود کو
ایسے کاموں سے روکیں جس میں مفاد ذاتی اور نقصان معاشرتی نظر آ رہا ہو‘
ایسے عناصر کو بے نقاب کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں جو ملک و قوم کو
دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں‘ سب لوگ کرپٹ نہیں اسلئے ایسے افسران‘ ججز‘ ادارے
وغیرہ بھی موجود ہیں جو کرپشن کی اس لعنت سے پاک ہیں آپ کم از کم اپنے
علاقے‘ گلی یا محلے کے مسائل ان کے سامنے لا سکتے ہیں‘ اگر ایک جگہ شنوائی
نہیں ہوتی تو کوشش جاری رکھی جا سکتی ہے کیونکہ مایوس ہوکر ہم اپنا اور
اپنے اس وطن عزیز کا نقصان خود کریں گے‘ ملک بھر میں ہونے والے ترقیاتی
کاموں میں عوام الناس کا پیسہ استعمال کیا جاتا ہے اور یہ آپ کو مکمل حق
حاصل ہے کہ آپ اپنے ٹیکسوں پر چلنے والے اداروں اور اپنے پیسوں کے استعمال
کے بارے میں معلومات حاصل کر سکیں اگر ہم سب انفرادی طور پر اس احتسابی عمل
کو اپنا لیں اور قومی احتساب بیورو کے اس نعرے ’’کرپشن سے انکار‘‘ کو اپنا
نعرہ بنا لیں تو بہت کم وقت میں کرپشن جیسی لعنت سے چھٹکارا پایا جا سکتا
ہے۔
|
|