ابھی بیس ہی دن گزرے تھے کہ حسن
کو اس کی کمپنی کی طرف سے فون آ گیا۔انہوں نے دوسرے ہی دن اسے آفس جوائن
کرنے کا کہا مگر حسن نے دو دن کا وقت مانگا کہ ابھی وہ کراچی سے باہر ہے۔
’’یار کمپنی سے فون آیا تھا……کہہ رہے تھے کہ کل جوائن کرلیں ۔‘‘
حسن نے فون بند کرتے ہی ذولفقار سے کہا ۔ یہ دونوں ظہر کی نماز سے فارغ ہو
کر مسجد کے باہر ہی ایک کونے میں بیٹھے قدرت کے دلکش مناظر سے لطف اندوز ہو
رہے تھے ۔
’’اچھا !‘‘ ذولفقار نے حیرانی اور افسوس کے ملے جلے انداز میں کہا۔
’’ہاں یار !……‘‘حسن نے بھی منہ بنایا ۔’’میں نے کہہ دیا ہے کہ دو دن بعد
آسکتا ہوں……کیونکہ کراچی سے باہر ہوں ……‘‘
’’ام م م م……‘‘ذولفقار کے منہ سے نکلا ۔
’’اب جماعت والوں کوبھی بتانا ہوگا……‘‘حسن نے سوچ کر کہا ۔
’’ہاں ، امیر صاحب سے بات کرتے ہیں ۔‘‘ ذولفقار بولا ، اس کا دل بیٹھ سا
گیا تھا ۔ وہ دوبارہ اسی زندگی میں واپس نہیں جانا چاہتا تھا ۔ایک لمحے میں
ساری باتیں اسے یاد آنے لگیں۔
’’ناجانے گھر کی کیا حالت ہوگی ……‘‘۔اس نے دل ہی دل میں سوچا ۔
’’کس منہ سے جاؤں گا میں پھر اس گھر ……جہاں میر ے چھوٹے بھائی نے مجھے ذلیل
کیا…… مجھے گالیاں دیں ……مجھ پر ہاتھ اٹھائے ……اور میری بہن ……‘‘
’’تم بھی جاؤگے نا واپس ؟؟‘‘حسن نے کنفرم کرنے کے لیئے پوچھا ۔
’’ہاں……تمھارے بغیر اب بہت عجیب لگے گا ……۔‘‘اس کی اداس سی شکل ہوگئی تھی۔
’’ہی ہی ہی……ارے یار چٍل کر !……کیا دیوداس بن گیاہے ؟‘‘ حسن نے ماحول تھوڑا
ہلکا پھلکا کرنے کی کوشش کی۔
اتنے میں اندر سے امیر جماعت اور دوسرے تبلیغی ارکین مسجد سے نکلتے نظر آئے
۔انہوں نے اسی وقت اٹھ کر انہیں اپنی واپسی کے بارے میں آگاہ کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حسن اور ذولفقار کراچی پہنچ گئے ۔انہوں نے الگ الگ ٹیکسی لی اور اپنے اپنے
گھروں کو روانہ ہوئے ۔
’’کیا کرنے جارہا ہوں میں یہاں ……‘‘ ذولفقار ٹیکسی میں بیٹھا سوچ رہا تھا
کہ وہ کیوں اپنے گھر واپس جا رہا ہے۔
’’ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی سزا شروع ہونے والی ہے ……جیسے میں کسی قید خانے
میں جا رہا ہوں……کیسے سامنا کروں گا میں سب کا ……پتا نہیں گھر کا ماحول
کیسا ہو گا……‘‘
’’اھر سے سیدھے ہاتھ پر ……؟‘‘ ٹیکسی والے نے پوچھا اور ذولفقار کے خیالات
کی زنجیر توڑ دی ۔
’’ام م م ……‘‘۔اس نے گردونواح کا جائزہ لیا ۔ وہ تو ایسا سوچ میں گم تھا کہ
اسے پتا ہی نہ چلا کب اس کا علاقہ آگیا ہے۔
’’ہاں……نہیں ……الٹے ہاتھ پر یہاں ……‘‘۔اس نے ٹیکسی والے کو بتایا ۔
اس نے گھر کو ایک نظر سامنے دیکھا تو ایسے محسوس ہوا جیسے بہت عرصے بعد
اپنے گھر کو دیکھ رہا ہو……اپنا گھر بھی کیا جیسے کسی اجنبی کا گھر ہو ……
اس نے دھڑکتے دل کیساتھ گھنٹی بجا ئی کہ نا جانے اندر سے کون نکل آئے۔
اگر وحید یا سدرہ ہوئے تو وہ کیاکرے گا ……کیسے ان کا سامنا کرے گا……ذولفقارکی
حالت بہت عجیب ہورہی تھی ۔شاید وہ اپنی زندگی کے بدترین دن گزار رہا تھا۔
’’کون ہے؟‘‘ اندر سے عائشہ کی آواز آئی ۔
’’میں ہوں عائشہ !……دروازہ کھولو……‘‘۔ اس کا دل بہت اداس تھا جیسے وہ ذلت
بھرا دن کل ہی کا ہو……اس نے اپنے آپ کو نارمل کرنے کی کوشش کی ۔عائشہ نے
جھٹ سے دروازہ کھول دیا اور مسکراتے ہوئے جوشیلے انداز میں بولی ،’’ السلام
و علیکم ……آگئے واپس !!!۔‘‘
’’وعلیکم اسلام!‘‘ذولفقار کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ تھی مگر نظریں جھکی
ہوئی تھیں۔
’’ہیں!ذولفقار آیا ہے……۔‘‘اسکی امی تیز تیز چلتی ہوئی باہر آئیں ۔انہوں نے
ذولفقار کو دیکھتے ہی اسے گلے لگا لیا اور رونے لگیں ۔
’’کہاں بھاگ گئے تھے ……پاگل……‘‘
’’ان کمینے لوگوں کی وجہ سے ……خود کیوں بھاگ گئے تھے ؟؟؟‘‘ ان کے آنسو نکل
آئے۔
’’ہی ہی ہی ……‘‘ ذولفقار نے ہنسنے کی ناکام کوشش کی۔وہ سب گھر کے اندر چلے
گئے ۔رات کا وقت تھا۔وحید کا پالا ہواکالا کتا لگاتار ذولفقار کو دیکھ کر
بھونک رہا تھا ۔جیسے اس نے اس گھر کے فرد کو نہیں بلکہ کسی اجنبی کو دیکھا
ہو۔ وہ تھا بھی ایسا ہی ……ہر ایک کو دیکھ کر ہی بھونکتا تھا۔
ذولفقار عائشہ اور امی کے ساتھ زیادہ دیرنہیں بیٹھا بلکہ جلد ہی اپنے کمرے
میں گھس گیا ۔گھر میں سدرہ اور وحید کے کوئی آثار نہیں نظر آرہے تھے۔
یہ تبلیغی سفر سے واپسی کے بعد اسکی گھر میں پہلی رات تھی ۔وہ گہری نیند سو
رہا تھا۔اسکی روح اسکے جسم سے نکل گئی ۔فدائیل اور سو مائیل ہمیشہ کی طرح
اس کے دائیں اور بائیں جانب بیٹھے تسبیح کرنے میں مصروف تھے۔رات کے دو بجے
اسکا الارم بجا۔ ذولفقار نے چونک کر آنکھیں کھولی اور الارم آف کردیا۔کل کے
سفر کی وجہ سے وہ بہت تھکا ہوا تھا ۔لہذاوہ پھر سو گیا ۔
ڈھائی بج گئے۔ لائٹ گئی ہوئی تھی۔ ذولفقار کے گھر بالکل خاموشی چھائی تھی۔
باہر گلی میں بھی مکمل سناٹا تھا۔ سب سو چکے تھے ۔ لائٹ نہ ہونے کے باعث
سارا گھر گھپ اندھیرے میں ڈوبا بہت خوفناک لگ رہا تھا…… وہیں گھر کے برآمدے
میں ایک انجان بیٹھا تھا ۔ اس کے پاؤں کسی گدھے کے سے تھے اور باقی جسم کسی
بڑے بکرے جیسا اور منہ کسی خونخوار کتے سے مشا بہ جس کے کہیں سے سینگ نکل
آئے ہوں…… ذولفقار کے گھر کا کالاکتا اس پرذرا نہیں بھونک رہا تھا…… وہ تو
اس کے سامنے ایسے دم دبا کر بیٹھا تھاجیسے کوئی شاگرد اپنے استاد کے سامنے
ادب سے بیٹھتا ہے……
اچانک اس نے اپنے دونوں کُھر ہوا میں اونچے اٹھا لئے اور گدھے کی سی آواز
نکالی…… کتا پہلے تو ڈر کر اپنا منہ اپنے پنجوں میں چھپانے لگا پھر اگلے ہی
لمحے اس نے بھی اپنے پاؤ ں اٹھا لئے…… اسے اس کالے کتے کے علاوہ کوئی نہیں
دیکھ سکتا تھا…… اور نہ ہی اس کی آواز سن سکتا تھا……
’’ م م م ……کالے کتے پرپھٹکار ہوئی…… اور ہمیں بھی دھتکارا گیا……‘‘
’’ م م م ……تو اور میں ایک سے ہی ہیں…… ‘‘
’’تو بھی ہڈی کھاتا ہے…… میں بھی ہڈی کھاتا ہوں……‘‘
’’تو میرا ساتھی…… میں تیرا……‘‘
’’یہ لے……‘‘ ۔ اس نے کالے سیاہ کتے کے آگے ایک ہڈی ڈالی۔ وہ دم ہلاتا ہوا
اس ہڈی کے پیچھے بھاگا اور اسے اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔
’’یاد رکھ! کسی کو یہاں پھٹکنے نہ دینا…… کسی کو بھی…… جو بھی میرے کام میں
رکاوٹ ڈالے……‘‘
وہ اٹھا اور ذولفقار کے کمرے کی طرف بڑھا جس کی کھڑکی برآمدے میں کھلتی تھی۔
اس نے اپنے دونوں کُھرکھڑکی پر رکھ دئیے اور اندر کمرے میں لیٹے ذولفقار کو
گھورنے لگا۔ اس کے پیچھے پیچھے کالے کتے نے بھی کھڑکی سے اندر ذولفقار کے
چہرے کو سوتا ہوا گھورنا شروع کر دیا۔
ذولفقار کی آنکھ کھل گئی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے کالے کتے کی دو منحوس
آنکھیں تھیں۔ جو کسی شیطان کی طرح اسے گھور رہی تھیں۔ پیلی، چمکتی ، ڈراؤنی
آنکھیں جن میں نفرت اور دشمنی بھری تھی۔ ذولفقار نے ایک جھٹکا کھایا۔ جیسے
اسے دل کا دورہ ہی پڑ جائے گا۔ اس کے جسم نے ایک کپکپی لی۔ اسی دم وہ دونوں
شیطان دور کو ہو گئے۔ ذولفقار کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ وہ گہری گہری
سانسیں لے رہا تھا اور کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن ذولفقار نے اپناسامان اکھٹا کر لیا ۔اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ
گھر کے اوپر والے کمرے میں شفٹ ہوجائے گا۔ دو ماہ بعد رمضان آرہا تھا ۔وہ
گھر کی چھت والے کمرے میں شفٹ ہو گیا۔
’’ہیلو !۔ہاں بھئی خیریت سے پہنچ گئے تھے گھر؟‘‘ حسن نے پوچھا۔
اسی دن حسن کا فون بھی آگیا وہ اسکی خیر خیریت معلوم کرنا چاہتا تھا ۔
تبلیغی سفر سے واپسی کے بعد یہ یہ ان دونوں کی آپس میں پہلی بار بات ہو رہی
تھی۔
’’ہاں!…… الحمدﷲ پہنچ گیا تھا ……۔‘‘
’’تم سناؤ ؟‘‘ ذولفقار ساتھ ساتھ اپنا کمرہ سیٹ کرتا جا رہا تھا۔
’’بس شکر ہے اﷲ کا ……آفس میں ہوں……پہلا دن ہے آج……‘‘
حسن نے آفس جوائن کر لیا تھا۔یہ اسکا پہلا دن تھا …… اوردوسری طرف ذولفقار
تھا جو دو پیپرز میں فیل ہو گیاتھا اور ابھی تک کسی ایک بھی جگہ جاب کے لئے
اپلائے نہیں کیا تھا۔
’’اچھا !کیسا لگ رہا ہے آفس؟ کیسا ماحول ہے ؟‘‘ ۔ ذولفقار کے دل میں خیال
آیا کہ وہ پیچھے رہ گیا ہے۔اسے دل ہی دل میں اپنی غیر ذمہ داری پر افسوس
ہونے لگا ۔
’’ہاں یار !الحمدﷲ !اچھا ہے سب کچھ ……لوگ بھی اچھے لگ رہے ہیں ‘‘۔حسن نے
جواب دیا ۔
’’ابھی کیا کر رہے ہو؟؟؟ ‘‘ ذولفقا ر کو شوق ہوا کے آفس کے ماحول کے بارے
میں کچھ پتا چلے۔
’’ابھی تو بس ……کچھ خاص نہیں……ایسے ہی……وہ سہیل بھی میرے ساتھ ہی ہے
نا……‘‘حسن نے اپنے کلاس فیلو کے بارے میں بتایا۔’’ میرا کلاس فیلو ہے‘‘۔
’’اچھا چلو یہ تو اچھا ہے تمہارا دل لگا رہے گا……پرانا بندہ ہے نا
۔‘‘ذولفقار بولا۔
’’ہاں ……تم بھی اب اپلائے کرو ……آجائے گی کہیں نہ کہیں سے آفر۔‘‘
’’ہاں یار انشاء ﷲ کروں گا……دو پیپرز بھی رہ گئے ہیں……‘‘ذولفقار نے اپنی
کمزوری بتاتے ہوئے کہا ۔
’’نہیں نہیں……کسی کو کچھ بتانے کی ضرور ت نہیں ……پیپرز تم دے دینا ……پہلے
اپلا ئے تو کرو ……‘‘حسن نے اسے حوصلہ دیاکہ پیپرز میں فیل ہونا کوئی بہت
بڑی خرابی نہیں ۔وہ جاب ڈھونڈے اور ساتھ ساتھ پیپرز بھی دے دے ۔
’’بس انٹرویو کی تیاری ااچھے سے کرنا۔ ‘‘اس نے پھر سمجھایا۔
’’چلو……اوکے ……دعا کرنا تم!‘‘ ذولفقار نے بات ختم کی۔
’اوکے……اﷲ حافظ ……پھر کال کرنا……‘‘حسن نے کہا اور کال کاٹی۔
ذولفقار بیڈ پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا ۔کس طرح اس نے اپنا وقت برباد کیا
ہے۔کس طرح غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔گھر کے معاشی حالات بھی اب پہلے
جیسے نہیں۔
’’اوہو!……‘‘اس کے منہ سے نکلا۔
’’ہرطرف سے مشکل میں پھنس گیا ہوں میں……‘‘ اس کی حالت رونے والی ہو رہی
تھی۔
’’یا اﷲ !بہتر کرنا ‘‘ اس نے دعا کی اور پھرکمرہ سیٹ کرنے میں لگ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
ذولفقار اپنے سامنے کتا بیں پھیلائے بیٹھا تھا ۔مگر اسکا دل نہیں لگ رہا
تھا ۔ اب اسے اپنی ذمہ داری کا احساس ہو رہا تھا ۔مگر شاید اب یہ اس کے
لیئے مشکل تھا ۔شاید دل لگا کر پڑھنے کی عادت ہی اس میں نہیں رہی تھی۔ اس
نے کتاب پڑھ کر کچھ سمجھنے کی کوشش کی مگر نا کام رہا ۔
مایوسی نے پھر غلبہ کر لیا۔ وہ تھک ہار کر اٹھا اور بیڈ پر لیٹ کر ٹی وی آن
کیا جو اس کے کمرے ہی میں رکھا تھا۔کیبل پر کوئی ا نگلش فلم آرہی تھی ۔
کوئی دلچسپ فلم تھی …… وہ فلم دیکھنے لگا۔
’’کیا کر رہا ہوں میں؟؟؟‘‘۔ وہ خود سے کہنے لگا۔ اس کی نظریں تو ٹی وی پر
تھیں مگر ذہن کہیں اور……
’’پیپرز میں فیل ہو چکا ہوں …… جاب کوئی نہیں ہے…… اور مزے سے بیٹھا فلم
دیکھ رہا ہوں‘‘۔ فلم دیکھتے دیکھتے اسے ایسے خیالات آ نے لگے۔ وہ کچھ دیر
گہری سوچ میں گم ہو گیا۔
’’چچ!‘‘۔اس نے موبائیل فون اٹھایا اور حسن کا نمبر ڈائل کیا۔
’’ہیلو!‘‘۔ دوسری طرف سے حسن کی آواز آئی۔
’’ہیلو حسن! کیا حال ہے؟‘‘۔ ذولفقار کی آواز میں مایوسی تھی۔
’’ہاں میں ٹھیک ہوں۔ تم سناؤ؟ کیسا چل رہا ہے؟‘‘ حسن نے جواب دیا۔
’’بس خیریت ہے یار!…… کیا کر رہے ہو آجکل؟‘‘۔ ذولفقار جانتا تھا کہ حسن آج
کل آفس جا رہا ہے مگر پھر بھی اس نے یوں ہی پوچھ لیا۔
’’بس یار آفس جاتا ہوں…… چھ بجے تک گھر آ جاتا ہوں…… پھر کچھ خاص نہیں……‘‘
’’تمہاری تیاری کیسی چل رہی ہے؟؟؟ کوئی انٹرویو وغیرہ ہوا؟‘‘۔ حسن نے کام
کی بات پوچھی۔
’’بس یار ! بہت ہی بیکار تیاری چل رہی ہے‘‘۔ ذولفقار نے نے صاف صاف کہہ دیا
کہ وہ ہمت ہار چکا ہے۔ ’’کچھ سمجھ نہیں آرہا؟؟؟‘‘
’’اچھا!…… کیا ہو گیا؟؟؟‘‘۔ حسن فکر مندی سے بولا۔
’’یہ انڈسٹریل آٹومیشن ہے نا…… پتا نہیں کیا بکواس ہے!!!‘‘۔ ’’مجھے تو ایک
لفظ بھی سمجھ نہیں آ رہا‘‘۔ ذولفقار نے بیزاری سے چڑ کر کہا۔
’’تو یہاں آ جاؤ نا میں دیکھ لیتا ہوں‘‘۔حسن سمجھ گیا کہ اسے اس کی مدد کی
ضرورت ہے۔
’’ام م م …… چلو ٹھیک ہے۔ میں آجاؤ گا……‘‘۔ ذولفقار نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
مگر وہ اندر سے خوش ہو گیا۔
’’ہاں اور کیا ! مل کر کر لیں گے‘‘۔حسن نے پھر اسے حوصلہ دیا۔
ذولفقار اس کی بات سن کر خوش ہو گیا تھا۔ اسے تسلی سی ہو گئی۔ واقعی حسن اس
کا نہایت مخلص دوست تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
شام کو ذولفقار حسن کے گھر پہنچ گیا۔ حسن نے اسے بہت اچھی طرح کورس سمجھانا
شروع کر دیا۔
’’ساتھ ساتھ جاب پہ بھی اپلائے کر رہے ہو نا؟‘‘۔ حسن نے پوچھا۔ وہ دراصل
اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ نوکری کی تلاش جاری رکھے۔
’’یار! بہت ذیادہ تو نہیں…… مگر تھوڑا بہت……‘‘۔ ذولفقار کے لہجے میں نا
امیدی تھی۔
’’یار ذرا فوکس کرو!…… کیا کر رہے ہو؟‘‘ حسن نے اسے سمجھایا۔ عشاء کی آذان
ہو گئی۔
‘’چلو نماز پڑھنے چلتے ہیں۔ نمازیں چل رہیں ہیں یا چھوڑ دیں؟‘‘۔ حسن نے
ذولفقار کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
’’ہاہاہا…… ہاں پہلے کی طرح تو نہیں ……مگر پڑھتا رہتا ہوں‘‘۔ اس نے ہنستے
ہوئے جواب دیا۔
’’مگر اس وقت بہت اچھا تھا یار! جب سے واپس آیا ہوں پھر سے ویسا ہی ہوتا جا
رہا ہوں‘‘۔ ذولفقار نے اپنے بارے میں کہا۔ وہ اپنے تبلیغ کے سفر کو یاد کر
رہا تھا۔
’’ماحول سے بہت اثرپڑتا ہے……‘‘۔ وہ سنجیدگی سے پھر بولا۔
’’ہا ں کہہ تو ٹھیک رہے ہو……‘‘۔
’’وہاں تو صاحب جی مولانا بنے ہوئے تھے…… فل ٹائم……‘‘۔ حسن نے ہنستے ہوئے
اسے چھیڑا۔
’’واقعی! وہاں کتنا اچھا ٹائم گزرا تھا نا……‘‘۔ ذولفقار اس سفر کر یاد کرنے
لگا۔ پانچ وقت نمازیں پڑھنا…… قرآن مجید پڑھنا…… اور جب وہ رات کر اٹھ کر
عبادت کرتا تھا تو کتنا اچھا محسوس کرتا تھا۔
حسن کے ساتھ مل کر پڑھائی کرنے سے اسے کچھ امید ہوئی۔حسن کے مشوروں پر عمل
کرتے ہوئے اس نے کئی ایک جگہوں پر اپلائے بھی کیا ، مگر کہیں سے کوئی خاطر
خواہ جواب نہ آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
ذولفقار، اس کی امی اور عائشہ، تینوں سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔
’’تم کچھ کرونا ……اب تو پڑھائی بھی ختم ہو گئی ہے……کیا فائدہ؟؟……‘‘۔اس کی
امی بے زار ہو چکی تھیں۔
’’حسن کی جاب ہو گئی ہے نا……اسی سے کہو، اسی کمپنی میں تمہیں لگا دے……‘‘۔
ان لوگوں کا بینک بیلنس بالکل ختم ہو چکا تھا۔بس ایک دو ماہ کا خرچہ ہی
ہوگا۔یہ تینوں پریشان تھے کہ اب کیا کریں۔ذولفقار کی امی اور عائشہ کو تو
امید تھی کہ اب ذولفقار انجنیئربن چکا ہے اب تو آرام سے وقت گزر جائے
گا۔مگر انہیں کیا معلوم کہ وہ دو پیپرز میں فیل ہے ۔اور کہیں سے کوئی نوکری
کی امید نہیں پاتا۔
’’کر تو رہا ہوں اپلائے ……اب نہیں جواب آرہاتو کیا کروں؟؟؟‘‘ ذولفقار نے
بھی چڑ کر جواب دیا۔
’’ذولفقار! ساتھ ساتھ تم بھی کچھ ٹیوشن وغیرہ ہی پڑھالو ……کچھ تو پیسے آتے
رہیں گے ‘‘ ۔ عائشہ محلے کے چند بچوں کو ٹیوشن پڑھارہی تھی ۔ اس نے یہی
مشورہ ذولفقار کو بھی دیا ۔
’’اوہ !……ٹیوشن ……‘‘ ۔ ذولفقار نے ایسے کہا جیسے یہ کوئی بہت ہی فضول کام
ہو۔اس نے کبھی سوچا بھی نا تھا کہ کبھی اسے پیسوں کے لئے تھوڑی تھوڑی فیسوں
پر لوگوں کو ٹیوشن بھی پڑھانی پڑے گی۔ مگر حالات کا تقاضہ یہی تھا۔
’’اچھا!…… ٹھیک ہے۔ تم کچھ بچوں کو بتا دو…… کوئی پڑھنا چاہے توآ جائے……‘‘۔
ذولفقار نے کچھ سوچ کر کہا۔ اس نے اپنے آپ کو سمجھا لیا تھا کہ بہتر یہی ہے
کہ وہ ٹیوشن پڑھانا شروع کردے۔
مگر یہ حل تو محض عارضی تھا۔ اب وہ تقریبا چوبیس سال کا ہو چکا تھا۔ اور اب
اسے کوئی پکا کام کرنا تھاورنہ آنے والے دنوں میں ان کی معاشی حالت بہت
خراب ہو نے والی تھی۔
ذولفقار وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں سونے چلا گیاجہاں خوفناک خواب اس کے
منتظر تھے۔عجیب عجیب بھیانک منظر، جیسے کوئی اس پر سوتے میں خون انڈیل رہا
ہو، جیسے اس کے ہاتھ میں تلوار ہو اور وہ اپنے ہی گھر والوں سے لڑ رہا ہو۔
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ اس کے ماتھے پر پسینہ تھا۔ ایسے خواب اسے آتے
ہی رہتے تھے مگر اب ان کی تعداد میں بہت اضافہ ہو چکا تھا۔ ہر دوسرے تیسرے
دن کوئی نہ کوئی ڈراؤنا خواب…… وہ بیزار ہو گیا تھا۔ اس نے فیصلے کیا کہ کل
صبح حسن کے دادا جی سے ان خوابوں کا تذکرہ کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔
سوات کی دلفریب وادی میں دادا جی کا پیارا سا گھر، پیارا موسم ، سادہ فطرتی
ماحول، کوئی جھنجھٹ نہیں، مسئلہ نہیں، سکون ہی سکون…… کتنی خوبصورت زندگی
گزار رہے تھے دادا جان …… وہ صبح سویرے فجر کی نماز سے فارغ ہو کر حسب
معمول اپنے شاگردوں کو درس دے رہے تھے۔ ایک درس وہ عصر کے بعد بھی علاقے کے
لوگوں کو دیا کرتے تھے۔
’’شیاطین ہمہ وقت ہمارے آس پاس ہوتے ہیں…… تم لوگ سوچو…… ابلیس …… ابلیس کا
اصل نام ازازیل تھا …… ‘‘
دادا جی نے پھر بات شروع کی۔ ’’تم لوگ سوچوکہ وہ کتنا معتبر تھا…… وہ اتنی
عبادت کرتا تھا کہ فرشتوں میں گھلا ملا رہتا تھا…… اسی لئے آدم کے آگے سجدے
کا جو حکم فرشتوں کو دیا گیا تھا وہ اس پر بھی لاگو ہوا…… ورنہ وہ تو ایک
جن تھا……‘‘
’’بہرحال جسے اتنے مرتبے ملے ہوئے تھے …… وہ کبھی چین سے بیٹھ سکتا ہے
……!!!……کہ آدم کی وجہ سے اسے جنت سے نکال دیا گیاہو…… اور وہ اس سے بدلہ نہ
لے!!!‘‘
’’وہ اور اسکے ساتھی جنہوں نے ازازیل کا ساتھ دیا ہمیشہ نیکوکاروں کے دشمن
رہیں گے…… اور ان کی گھات میں بیٹھیں گے …… اور ان کے آگے سے آئیں گے اور
پیجھے سے…… اور دائیں سے اور بائیں سے …… اور انہیں گمراہ کرنے میں کوئی
کسر نہیں اٹھا رکھیں گے…… ‘‘۔ ’’یہ سب قرآن مجیدمیں لکھا ہے……‘‘۔
’’……اور ایک اور بات بھی سن لو……!!! ایسے شیطان صفت صرف انسانوں اور جنوں
میں سے ہی نہیں …… بلکہ ایسے حیوانات بھی ہیں جن میں شیطانیت غالب ہے……
مثلا کتا…… گدھا……چیل……‘‘ ۔
’’گدھا تو شیطان کو دیکھ کر آواز نکالتا ہے اور اس کی خصلت تو سب کو معلوم
ہی ہے…… اور چھپکلی ……اور گرگٹ…… گرگٹ ابراھیم (ع) کی آگ پر پھونک مارتا
تھا اس واسطے کہ اسے اور بھڑکائے…… اﷲ کی پناہ……معاذ اﷲ‘‘
’’…… ایسے جانور شیطانی وسوسوں کو جلد قبول کر لیتے ہیں…… اور دوسرے اچھے
ہیں ،مثلا مرغا فرشتے کو دیکھ کر آذان دیتا ہے……‘‘
یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
ایک پیاری سی رنگ ٹون میں دادا جی کا موبائیل بجنے لگا انہوں نے علامہ
اقبال کی ایک نظم سیٹ کروا رکھی تھی۔
’’السلام و علیکم!‘‘ دادا جی نے پرجوش انداز میں کہا۔
’’السلام و علیکم دادا جان …… کیسے ہیں آپ؟؟؟‘‘ ذولفقار نے بھی جوش و خروش
سے بات شروع کی۔
’’وعلیکم السلام …… وعلیکم السلام…… ذولفقار بیٹا!!! کیا حال ہے……؟؟؟‘‘
جیسے عام طور پر بزرگ حضرات اونچی آواز میں فون پر بات کرتے ہیں، دادا جی
بھی ایسے ہی کرنے لگے۔
’’میں بالکل ٹھیک ہوں…… آپ کیسے ہیں دادا جان؟‘‘۔ ذولفقار ان سے بات کر کے
خوش ہو رہا تھا۔
’’الحمد اﷲ…… گھر والے ٹھیک ہیں……؟‘‘
’’جی بالکل ٹھیک ہیں…… آپ کی صحت تو ٹھیک ہے نا‘‘۔ ذولفقار نے بھی دادا جان
سے جواباََ پوچھا۔
’’الحمد اﷲ بیٹا، سب خیریت ہے……‘‘
’’داداجی آپ سے ایک بات کرنی تھی……‘‘ ذولفقا رنے آواز میں تھوڑی سنجیدگی
پیدا کی۔
’’ہاں بیٹا بولو! کیا ہوا؟‘‘
’’دادا جان میں نے آپ کو وہاں بھی بتایا تھا کہ مجھے عجیب عجیب خواب آتے
ہیں…… آج کل میں بہت تنگ ہو گیا ہوں…… آپ نے اس وقت بھی مجھ سے کھل کر بات
نہیں کی تھی……‘‘ ذولفقار سوات میں دادا جان سے اپنے ڈراؤنے خوابوں کا تذکرہ
کر چکا تھا۔
’’ بیٹاآیت الکرسی وغیرہ پڑھ کر سوتے ہو نا؟‘‘ دادا جان نے اسے یہی سورتیں
وغیرہ پڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔
’’جی وہ تو روز پڑھتا ہوں میں…… لیکن پتا نہیں …… اب کیا بتاؤ…… کوئی اثر
ہی نہیں ہو رہا……‘‘
’’…… بلکہ اب تو بہت ڈر لگتا ہے…… روز ہی کوئی عجیب و غریب خواب آتا ہے……‘‘
’’اچھا!‘‘ دادا جان نے ایسے انداز میں کہا جیسے انہوں نے کوئی ناممکن بات
ذولفقار کے منہ سے سنی ہو کہ آیت کرسی اور بے اثر!!!
’’جی……‘‘ دادا جی چپ سے ہو گئے تو ذولفقار نے کہا تا کہ وہ کوئی اور بات
کہیں۔
’’چلو بیٹا میں تمہیں تھوڑی دیر میں فون کرتا ہوں……‘‘’’ہیں؟؟؟‘‘ دادا جان
نے اجازت چاہی۔
’’اچھا …… چلیں ٹھیک ہے…… آج ہی فون کریں گے نا……‘‘ ذولفقار نے اداس سی
آواز میں کہا۔
’’جی بیٹا آج ہی کر لوں گا……‘‘ دادا جان نے اسے مطمئن کیا۔
فون بند ہونے پر دادا جان بہت خاموش سے ہو گئے اور کسی گہری سوچ میں ڈوب
گئے۔ وہ وہیں اپنی نشست میں درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ سامنے بیٹھے اپنے
شاگردوں کو تو انہوں نے بالکل نظر انداز کر دیا۔ ’’کیا معاملہ ہے یہ……‘‘ وہ
خود سے کہنے لگے۔
’’آج کل گھر گھر میں اتنی بے برکتی ہو گئی ہے کہ کیا بھی کیا جائے……‘‘ وہ
اپنے آ پ سے بات کر رہے تھے۔ مگر ان کے شاگرد غور غو رسے ان کے منہ سے
نکلنے والا ہر لفظ سن رہے تھے۔
’’کیا مسئلہ ہو گیاحضرت؟؟؟‘‘ انکے ایک شاگرد بولے۔
’’ام م م……‘‘ دادا جان نے انہیں ذولفقار کا مسئلہ بیان کیا۔
’’کوئی شیطان جن ہے جو اس کے پیچھے پڑا ہے……‘‘ دادا جان نے کہا۔
’’مگر فرشتے اس کی حفاظت کیوں نہیں کر رہے……؟؟؟‘‘ وہی شاگرد پھر داداجان سے
بولے۔
’’پتا نہیں کیوں……!!! جب کہ نیک بچہ ہے……‘‘۔ ’’ فرشتے تو ہم سب کی حفاظت
کرتے ہیں…… وہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہوتے ہیں‘‘ دادا جان نے یقین سے کیا۔
’’ان کا کوئی ایسا عمل ہے جو فرشتوں کو نا پسند ہے ……‘‘ دادا جی کی آواز
میں افسوس تھا۔ وہ شدت سے معلوم کر لینا چاہتے تھے کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ
اﷲ سے مدد طلب کرنے کے باوجود بھی ذولفقار پریشان ہے۔ وہ بہت لحیم اور نرم
دل تھے …… کسی کو مشکل میں دیکھ کر دکھی ہو جاتے تھے…… بے چین سے ہو جاتے
تھے۔
’’تو آپ ہمیں بھی بتائیں فرشتوں کو کیا نا پسند ہے؟؟؟‘‘
دادا جی افسردہ سے تھے۔ مگر ان کے کہنے پر وہ سوچنے لگے۔
’’فرشتوں کو کیا نا پسند ہے……‘‘ انہوں نے ہلکی سی آواز میں سوچتے ہوئے کہا۔
’’ ام م م…… اﷲ کی نا فرمانی…… ظلم و ستم…… لوگوں کا نا پاک رہنا……جانداروں
اور شیطانوں کی تصاویر ……اور کتا وغیرہ جیسے جانور……لوگوں کا بے لباس
رہنا……‘‘
’’ایک بار جبرئیل علیہ السلام نے رسول اﷲ ﷺ کے حجرے میں داخل ہونے سے انکار
کردیاتھا…… صرف اس واسطے کے وہاں ایک چھوٹا کتا چھپابیٹھا تھا‘‘۔
اچانک داداجان چونک کر رک گئے۔
’’ارے…… ارے…… ‘‘ ۔ ’’اے اﷲ تیرا شکر ہے……‘‘ ۔ دادا جان نے فورا موبائل پر
ذولفقار کا نمبر ملایااور اﷲ کا شکر ادا کیا۔ شاید انہیں ذولفقار کی مشکل
کا حل مل گیا تھا۔
’’بیٹا ……! بیٹا ……! تمہارے گھر میں وہ کتا ہے؟؟؟…… وہ کالا کتا؟؟؟‘‘ دادا
جان نے جھٹ پٹ بات کی۔
’’ام م م…… ام م م…… جی ، جی ، دادا جان وہ تو ابھی تک ہے……‘‘ ذولفقار کو
کچھ سمجھ نہیں آیا کہ دادا جان کو کتے کیوں یاد آ گیا۔
’’بیٹا! اسے فورا گھر سے نکال دو…… وہ شیطان کا ساتھی ہے…… ‘‘ دادا جی نے
کہا۔ ذولفقار حیران رہ گیا۔
مگر اس نے دوسرے ہی دن اس منحوس کالے کتے کو گھر سے نکال دیا۔
۔۔۔۔۔ |