سامری نے اپنی مٹھیاں رگڑیں۔ اب
جو گندم کے دانے اس کی ایک مٹھی میں تھے، دوسری مٹھی میں بھی بھر چکے تھے۔
رجا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس کا منہ حیرت سے کھلا تھا اور سامری
نہایت سنجیدہ اور مغرور انداز سے رجا کو دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے ایک نیلا
دھاگہ لیا اور اس کے تین ٹکڑے کر دئیے۔ پھر کچھ پڑھتے ہوئے ہتھیلی میں ان
ٹکڑوں کو ملا، کیا دیکھتا ہے کہ وہ پھر آپس میں جڑ کر ایک لمبا دھاگہ بن
گیا ہے۔ رجا کی حالت یہ کرشمے دیکھ کر غیر ہو رہی تھی۔ رجا سامری کے ٹھئیے
پر بنی کال کوٹری میں بیٹھا تھا۔ وہ اپنے اردگرد کا ڈراؤنا ماحول دیکھ کر
سہم سا گیا تھا۔ آج پہلا دن تھا کہ وہ سامری کے ہاں یہ شیطانی علم سیکھنے
آیا تھا…… اس کے دل کی دھڑکن تیز تیز چل رہی تھی۔
’’کیا مجھے بھی یہ سب آ جائے گا……؟‘‘ ، ’’ میں بھی یہ سب کر سکوں گا……؟‘‘۔
وہ ایسی باتیں سوچ رہا تھا۔
’’اب تم جاؤ‘‘۔ سامری نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا۔
رجا جیسے بجھ سا گیا۔ وہ تو سامری کے سحر میں پوری طرح گرفتار تھا۔ وہ ابھی
جانا نہیں چاہتا تھا بلکہ اور بھی کئی ہوشربا عملیات دیکھنے کا منتظر تھا۔
وہ وہیں چپک کر بیٹھا رہا۔
’’جاؤ…… کل آنا‘‘۔ سامری کا لہجہ سخت ہو گیا۔
کل آنے کی بات سن کر رجا کو کچھ تسلی ہوئی۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں سے
اٹھا اور اپنے گھر کو جانے لگا۔ ’’پتہ نہیں اور کیا کیا کر سکتا ہے یہ……‘‘
اس نے سوچا۔ وہ پوری طرح اس کے علم کی طاقت کا قائل ہو گیا تھا۔ اپنی
آنکھوں کے سامنے ایسی کرامات اس کے لئے ہوشربا تھیں۔ مگر وہ بہت خوش بھی
تھا۔ اس نے پکا ارادہ کر لیا کہ وہ سامری سے یہ علم حاصل کر کے ہی چھوڑے گا۔
وہ رات اس نے بڑی بے چینی سے گزاری۔ اس کا جی چاہتا کہ اپنی بیوی کو یہ
روداد سنائے۔ مگر پھر وہ اپنے آپ کو روک لیتاکہ جب وہ خود ایسا کر پائے گا
جیسا سامری نے کیا تب ہی بیوی کو بتائے گا۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ میں اپنے
گھر کی گندم کو بھی دگنا کر سکتا ہوں‘‘۔ اس نے سوچا۔ اس کی آنکھیں خوشی سے
چمک رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’جو تم نے کہا …… میں نے وہ کر دیا‘‘۔ سامری اپنی خوفناک کوٹھری میں دہکتے
ستارے کے بیچ بیٹھا تھا۔
’’ام م م …… ہمیں یہی حکم ملا ہے‘‘۔حکما کی آواز آئی۔
’’اب وہ بے چین ہو گا…… خود بھاگا بھاگاآئے گا تمہارے پاس یہ ٹونے
سیکھنے……‘‘۔
’’اس کے لئے آقا کا ایک خاص منصوبہ تیار ہے……‘‘۔ حکما نے دھیمے سے لہجے میں
کہا جیسے کچھ یاد کر رہا ہوں۔
دوسرے دن رجا اپنے وقت پر سامری کے ٹھیئے پر پہنچ گیا۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک……‘‘۔ رجا نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک……‘‘۔ کچھ رک کر اس نے پھر دستک دی۔ وہ حیران تھا کہ آج یہ
دروازہ بند کیوں ہے۔ سامری اب تک باہر کیوں نہیں نکلا۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک……‘‘۔ اس نے پھر کوشش کی۔
کافی دیر وہ وہیں باہر کھڑا انتظار کرتا رہا اور پھر دوبارہ دستک دی مگر بے
سود۔ تھک ہار کر وہ اپنا اترا ہوا چہرا لئے واپس ہوا۔
تین دن ایسے ہی گزر گئے۔ چوتھے روز اس کا سامری کی طرف جانے کا کوئی ارادہ
نہ تھا، مگر پھر بھی وہ ایک امید پر وہاں جا پہنچا۔ آج سامری کے ٹھیئے کا
دروازہ کھلا تھا۔ رجا کا چہرہ کھل اٹھا۔ اسے اپنے منصوبے پورے ہوتے نظر آ
رہے تھے۔ وہ فورا اندر جا گھسا۔ سامری نے اسے دیکھا پر کچھ نہ کہا۔ وہ ویسی
ہی کرخت سی صورت بنائے کچھ کٹوروں میں مسالحے ادھر ادھر کر رہا تھا۔
’’کہاں تھے تم؟‘‘ رجا ہمت کر کے زرا شکایتی انداز میں بولا اور بیٹھ گیا۔
سامری اپنی جگہ سے اٹھا ، دو کٹورے ہاتھ میں لئے اوررجا کے سوال کو نظر
انداز کرتے ہوئے اندر اپنی کوٹھری میں چلا گیا۔ رجا باہر بیٹھا کا بیٹھا رہ
گیا۔ سامری نے اپنی کوٹھری کا دروازہ بند کر دیا تھا۔ تقریبا آدھے گھنٹے
بعد سامری نے ذرا سا دروازہ کھولا اور رجا کو ایک انگلی سے اندر آنے کا
اشارہ کیا۔ رجا پل بھر میں اٹھا اور تیز تیز قدم چلتا کوٹھری میں جا گھسا۔
اندرگھٹی ہوئی ہوا کی بے تحاشہ گندی بو آ رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے
صدیوں سے یہ دروازہ نہیں کھلا ۔ کوٹھری میں مکمل اندھیرا تھا۔ سامری نے ایک
شمع روشن کی اور جو پہلی چیز رجا نے دیکھی وہ ایک چھپکلی تھی جو کیل سے
لٹکی ہوئی تھی۔کیڑے مکوڑے اسے تقریبا کھا چکے تھے۔اب رجا کو اندازہ ہوا کہ
یہ گندی بواس مردہ چھپکلی کی وجہ سے ہے۔رجا تھوڑا گھبرا سا گیا۔
’’بیٹھ جاؤ ‘‘ سامری نے جیسے حکم دیا۔
رجا جہاں کھڑا تھا وہیں سہم کر بیٹھ گیا ۔
اس روز سامری نے رجا کو چند منتر سکھا دئیے۔ وہ خوشی خوشی وہاں سے نکلا اور
اپنے گھر لوٹ آیا۔گھر پہنچتے ہی اس نے اپنی بیوی کو آواز دی۔
’’جلدی سے جا اور مٹھی بھر چاول لے آ۔‘‘
’’کیوں چاول کا کیا کرنا ہے۔‘‘ اس کی بیوی نے پوچھا ۔
’’تو لے کرتو آ……‘‘۔’’اندر کمرے میں ……‘‘۔’’جلدی ۔‘‘ اس نے رک رک کر کہا۔
رجا کی بیوی اس کے سامنے آکردوزانوں بیٹھ گئی ۔اس کی ایک مٹھی میں چاول
تھے۔
’’جیسا میں کہوں ویسا کرنا۔‘‘
رجا کی بیوی بھی تجسس میں تھی کہ نہ جانے کیا ہونے والا ہے ۔ بابل کے
عاملوں کے قصے تو اس نے سن ہی رکھے تھے ۔ وہ بھانپ گئی کہ کوئی انہونی بات
ہونے والی ہے۔
رجا نے اپنی بیوی کی آنکھوں میں گھورنا شروع کیا اور سامری کے بتائے ہوئے
منتر پڑھنے لگا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی بیوی کے ہاتھوں کی مٹھی
بنائی اور انہیں آپس میں رگڑنے لگا۔ تھوڑی دیر وہ ایسا ہی کرتا رہا اور
منتر پڑھتا رہا ، پھر بولا۔
’’اپنے ہاتھ کھول!‘‘۔ اس کی بیوی کا ایک ہاتھ جوں کا توں خالی تھا اور
دوسرا چاولوں سے بھرا۔
’’کیا ہوا!‘‘۔ اس کی بیوی نا امیدی سے بولی۔
رجا نے جھرجھرا کر پھر ایک بار کوشش کی۔ وہ دوبارہ ذیادہ توجہ سے منتر
بڑبڑاتا رہا۔
’’اپنے ہاتھ کھول اب!‘‘۔ رجا کو ایک ہاتھ پھر خالی نظر آیا۔
’’ارے……!!! یہ کیا…… !!! ‘‘۔ اس کی بیوی حیرانی سے چیخی۔
’’یہ چاول دوسری مٹھی میں کیسے بھر گئے‘‘۔وہ ڈر سی گئی۔ مگر رجا کو اب بھی
اس کی ایک مٹھی خالی ہی نظر آ رہی تھی۔
’’یہ کیسے کیا تم نے؟‘‘ رجا پریشان سا ہو گیا۔ اسے کچھ سوجھ نہیں آ رہا تھا
کہ کیا جواب دے۔ اس کا دہن کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
’’کس نے سکھایا تمہیں یہ؟‘‘ اس کی بیوی تجسس سے پوچھنے لگی۔ مگر رجا کو چپ
لگی ہوئی تھی ۔ وہ سوچنے میں لگا تھا کہ اگر اس کی بیوی کو چاول دونوں
مٹھیوں میں نظر آ رہے ہیں تو اسے کیوں نہیں!!!
’’کچھ بتاؤ تو سہی……‘‘
’’ہاں آج کل میں یہ علم سیکھ رہا ہوں‘‘۔ رجا نے بن کر کہا۔
’’ابھی تو اور بھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔‘‘وہ بناوٹی انداز میں اترایا۔ مگر اس
کا ذہن الجھ سا گیا تھا۔
اگلے روز رجا نے سامری کو ساری کتھا جا سنائی۔
’’ہاہاہا……‘‘۔ وہ ہنسنے لگا۔
’’تم نے سحر چاولوں پر تھوڑی ہی کیا تھا……‘‘۔
’’سحر تو تم نے اپنی بیوی کی آنکھوں پر ڈالا تھا۔‘‘ وہ پھر ہنسنے لگا۔
’’مادہ نہ تو بنایا جا سکتا ہے اور نہ فنا ہوتا ہے۔ وہ تو بس اپنی حئیت
تبدیل کر سکتا ہے۔‘‘ اس نے رجا کو بڑے احتمام سے سکھاتے ہوئے کہا۔
رجا ٹکٹکی باندھے سامری کو دیکھنے لگا جیسے اس انتظار میں ہو کہ ابھی
اورکچھ کہے گا۔
’’تو پھر……‘‘۔ رجا نے بس اتنا کہا اور سامری کو منتظر نظروں سے دیکھنے لگا۔
’’ابھی تو شروعات ہے ……ہاہا ہا……‘‘
’’میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا …… یہ بچوں کا کھیل نہیں ہے‘‘۔
’’اپنے آپ کو تیار کر لو…… ہر گھناؤنی چیز سے سابقہ پڑے گا‘‘۔ سامری نے بات
ختم کی۔
’’اور ہاں! تمہیں تین دن بعد رات کے دوسرے پہر اس کوٹھری میں آنا ہے…… میرا
انتظار نہ کرنا‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’ان لوگوں نے کتاب اﷲ کوچھوڑ کر جادو ٹونوں کو سینے سے لگا لیا ہے۔ تم
دونوں جاؤ اور انہیں رنگے ہاتھوں پکڑو۔
تا کہ کوئی عذر باقی نہ رہے۔ تم لوگوں پر وہ چیز نازل کی جاتی ہے ……جس کے
یہ خریدار ہیں‘‘۔
ہاروت اور ماروت کو آسمان پر حکم سنایا گیا۔ دونوں نے پر پھیلائے اور تیرتے
چکر کھاتے زمیں کی طرف اترے۔
بابل کے ایک چنے کے کھیت میں سے دو چالیس پینتالیس برس کے آدمی اٹھے۔ وہ
ایسے نمودار ہوئے جیسے کھیت سے ہی اؑگے ہوں…… ہاتھ میں ایک ڈنڈا پکڑے جس پر
ان کی گٹھری بندھی ہوئی تھی۔ سفید رنگ کا جھولا سا پہنے وہ بازارِ بابل کی
طرف چل پڑے۔
’’ارے! کون ہو تم لوگ؟…… کھیت نہ خراب کرنا‘‘۔ کسی نے آواز لگائی اور جلدی
جلدی ان کی طرف بڑھا۔
’’کون ہو تم لوگ؟‘‘ ۔ ’’اس کھیت میں کیوں گھس آئے ہو؟‘‘ وہ قریب پہنچ کر
بولا۔
’’دیکھ نہیں رہے پہلے ہی کھیت کا برا حال ہے……‘‘۔
’’ہم مسافر ہیں‘‘۔ ایک بولا۔
’’معاف کرنا…… ہم دور پار سے آئیں ہیں……تمہارا کھیت خراب ہو گیا‘‘۔ دوسرا
بولااور چنے کے کھیت کی ایک ٹہنی پکڑی جو کہ سوکھی ہوئی تھی۔ اس نے جو ٹہنی
چھوڑی تو وہ ہری بھری ہو گئی۔
’’ارے !!! یہ کیا ہوا؟‘‘۔ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ’’ہاہ!‘‘۔ اس کی
آنکھیں پھٹ گئیں۔ وہ کچھ دیر تک ٹکٹکی باندھے اس ہری بھری ٹہنی کو دیکھتا
رہا جو کچھ دیر پہلے تک سوکھی تھی۔
’’کیا تم لوگ ساحر ہو؟‘‘۔ اس نے حیرانی سے پوچھا ۔ وہ خوش ہو گیا۔
’’تمھارا کھیت جلد ہی ہرا ہو جائے گا‘‘۔ انہوں نے خوشخبری سنائی اور چلتے
بنے۔ کسان کا چہرہ دمکنے لگا ۔ اسے فوراََ یقین ہوگیا کہ اب اس کا کھیت
ٹھیک ہو جائے گا۔
’’سنو……!!! اپنا نام تو بتاتے جاؤ……‘‘۔ اس نے انہیں جاتے دیکھا تو پکارا۔
’’تم لوگ کہاں جا رہے ہو……؟ وہ دوڑتا ہوا ان کے پیچھے گیا۔
’’میرے ہاں ہی ٹھہر جاؤ ‘‘۔ کسان نے جلدی جلدی کہا۔
’’تم لوگ میرے ہاں ٹھہر جاؤ‘‘۔ ’’ تمہارے وجود کی برکت سے جلد ہی میرا کھیت
ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔ وہ آگے بڑھ کر ان کے سامنے آ گیا اور ان کی تعریف کرنے
لگا۔
’’مجھے یقین ہے‘‘۔
’’نہیں نہیں …… ہم چلتے ہیں‘‘۔
’’تمہارا شکریہ‘‘۔ وہ بولے۔
’’ارے نہیں…… مجھ پر احسان کرو …… میرے ہاں ٹھہر جاؤ……‘‘
’’تم لوگوں کو مجھ سے کوئی شکایت نہ ہو گی۔‘‘ کسان بولا وہ اپنے خراب کھیت
کو ہرا بھرا ہوتا دیکھ رہا تھا……
وہ دونوں خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر سوچا ۔ پھر بولے۔ ’’ اچھا ٹھیک ہے ۔ مگر ہم
یقیناََ تمہارے احسان کا بدلہ چکا دیں گے‘‘۔
’’میرا نام ہاروت ہے‘‘
’’اور میرا ماروت‘‘۔ وہ دونوں کسان کے پیچھے چل پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔
بہار کا موسم تھا۔ مسحور کن فضا تھی۔ ہر طرف آسمان کو چھوتے پہاڑ نظر آ رہے
تھے جو سبزہ اور پھول پودوں سے بھرے ہوئے تھے۔ چند ایک پہاڑ تو اتنے اونچے
تھے کہ چوٹیاں بادلوں کو چیر کر اوپر نکل گئیں تھیں۔اونچے اونچے چیڑ کے
درختوں سے وادیاں بھری ہوئی تھیں۔ آس پاس لوگوں کے گھر پہاڑیوں پر ہی بنے
تھے۔ اونچے نیچے راستے……اور دائیں بائیں موڑ کھاتی خطرناک سڑکیں……کہیں کوئی
شہد بنانے کے لئے ڈبے رکھے بیٹھا تھا…… کہیں کوئی بھٹے کھا رہا تھا…… بڑا
پیارا موسم تھا۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ وہ سب یہ حسین مناظر دیکھتے سوات
پہنچ گئے۔
حسن اور ذولفقار نے پوری تبلیغی جماعت کو وہیں دادا جان کے محلے کی مسجد
میں رہنے پر راضی کر لیا۔
شام کا وقت تھا۔ داداجان بس کے انتظار میں سڑک کے کنارے کھڑے تھے۔
’’ہاں! و ہ د ادا جان ہی ہیں……‘‘۔حسن نے ڈرائیور کی کرسی کے پاس سے انہیں
سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے دیکھااور چہک کر سب کو بتایا۔
سب خوش ہو گئے کہ ان کے سفر کی آخری حد آ گئی اب یہاں سے سب پھر واپس کراچی
ہی جائیں گے۔ حسن اچھل کر بس سے نیچے اترا، وہ دادا جی کے قریب رک گئی۔
’’السلام و علیکم!‘‘۔ ’’السلام و علیکم!‘‘۔ حسن اور دادا جی ایک دوسرے کے
گلے لگے۔ داداجان نے حسن کو پیار کیا، حسن نے بھی ان کے ہاتھ چومے۔
’’ارے ذولفقار میاں! کیسے ہو…… ماشاء اﷲ، ماشاء اﷲ‘‘۔ ذولفقار کو گاڑی سے
اترتا دیکھتے ہی دادا جان اس کی طرف بڑھے اور بڑے جوش و خروش سے اس سے ملے۔
باقی مسافر بھی یکے بعد دیگر دادا جان سے ملتے رہے اور ایک دوسرے کو دعا
سلام دیتے رہے۔
داداجان کا گھر سڑک کے کنارے پر ہی واقع تھا۔ وہ سب کو اپنے ساتھ لے گئے ،
چائے پلائی اور ساتھ میں وہاں کے لذیذ کلچے کھانے کو دئیے۔حسن اور ذولفقار
نے اپنا اپنا سامان دادا جان کے ہاں ہی رکھ دیااور باقی لوگ تھوڑا آرام کر
کے مسجد کی طرف روانہ ہوئے۔بڑی چہل پہل ہو گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد حسن کے
تایا بھی آ گئے۔ وہ وہاں کے ایک اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ وہ بھی سب سے بڑی
گرم جوشی سے ملے۔حسن اور ذولفقار وہیں سوگئے تا کہ سفر کی تھکن مٹا سکیں۔
مغرب کی نماز پڑھنے سب مسجد کی طرف چلے۔ نماز سے فارغ ہو کر جماعت کے امیر
صاحب نے بیان کیا۔حسن بار بار ذولفقار کو بہکا رہا تھا کہ کہیں گھومنے
پھرنے چلیں۔ وہ ذولفقار کو اپنی حسین آبائی سر زمین دکھانا چاہتا تھا۔
بیان ختم ہوتے ہی یہ دونوں مسجد سے باہر نکل آئے اور اپنے گھر کے قریب ہی
ایک پہاڑ سے گرتی چھوٹی سی آبشار کی سیر کو جانے لگے۔
’’بیٹا ! کہاں جا رہے ہو؟‘‘۔ دادا جان نے پوچھا۔ وہ گھر کی طرف جا رہے تھے
اور یہ دونوں دوسری طرف۔
’’ہم آبشار کے پاس جا رہے ہیں دادا جان!‘‘۔ حسن بولا۔
’’آبشار کے پاسٖ!…… نہیں بیٹا…… ابھی تو مغرب ہو چکی ہے…… دیکھو …… پہاڑوں
پر کیسا اندھیرا چھا رہا ہے……‘‘
’’ابھی ٹھیک وقت نہیں ہے۔ ایسے ہی بلائیں شلائیں نکل آتی ہیں اس ٹائم……‘‘
’’تم لوگ کل چلے جانا…… صبح کے ٹائم……‘‘۔ داداجی نے آبشار کے پاس جانے سے
منع کر دیا۔ وہ ٹھیک بھی کہہ رہے تھے ۔ کیونکہ آبشار نسبتاََ سنسان جگہ پر
تھی۔ جہاں اس وقت کوئی آتا جاتا نہیں تھا۔
’’اچھا!’’۔ حسن مایوس سی شکل بنا کر بولا۔
’’ہاں بیٹا! کل چلے جانا…… اچھے ٹائم پر نکلنا……‘‘ دادا جان پھر بولے۔
’’چلیں ٹھیک ہے…… ہم دریا کے پاس سے ہو آتے ہیں پھر……‘‘۔ حسن کو چین نہیں
تھا۔ ایک چھوٹا دریا بھی ان کے گھر کے قریب ہی بہتا تھا۔
’’کل چلے جانا بیٹا ! …… ابھی کھانا نہیں کھانا!!!‘‘۔ دادا جان پھر منع
کرنے لگے۔
’’دادا جان! دریا تو قریب ہی ہے نا…… تھوڑا فریش ہو کر واپس آ جائیں گے۔‘‘۔
حسن نے اصرار کیا تو داداجان خاموش ہو کر گھر کی طرف چلے۔
اندھیرا ہونے کو ہی تھا۔ وہ دونوں دریا کی طرف جانے لگے۔
’’ویسے دادا جان صحیح کہہ رہے تھے…… اس آبشار کے بارے میں عجیب عجیب باتیں
مشہور ہیں‘‘۔ ذولفقار نے چونک کر حسن کی طرف دیکھا۔
’’کہتے ہیں وہاں جنات کثرت سے رہتے ہیں…… اور اگر کوئی اس طرح بے وقت وہاں
چلا جائے تو اسے تنگ کرتے ہیں……‘‘۔ حسن نے آبشار کے بارے میں باتیں بتانا
شروع کر دیں۔
’’ایک بار ایک لڑکی وہاں اکیلے مغرب کے ٹائم گئی تھی …… پھر واپس نہیں
آئی…… بہت عرصے بعد کسی طرح پتا چلایاتو پتا چلا کہ وہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر
ہے‘‘۔
’’پھر وہ وہیں سے ملی…… ‘‘۔ ’’پاگل ہو گئی تھی‘‘۔ حسن نے ایک سنا سنایا قصہ
ذولفقار کے کان میں پھونک دیا۔
’’اچھا!‘‘۔ ذولفقار بولا۔
’’ہاں!…… یہی مشہور ہے‘‘۔ حسن بولا۔
’’کتنے عرصے پہلے کی بات ہے یہ؟؟؟‘‘ ذولفقار نے پوچھا۔ شاید اسے یقین نہیں
آ رہا تھا۔
’’ام م م …… پتا نہیں…… شاید بہت عرصہ ہو گیا ہے‘‘۔حسن نے جواب دیا ۔ یہ
دونوں آگے بڑھتے رہے۔
اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ بڑی مشکل سے پھونک پھونک کر قدم رکھتے، یہ دونوں
دریاکے کنارے تک پہنچے۔ یہاں سانپ، بچھو اور دوسرے حشرات الارض کثرت سے
پائے جاتے تھے۔
’’شکر ہے پہنچ گئے‘‘۔ حسن ہنستے ہوئے بولا۔ دونوں دریا کے کنارے ایک بڑے سے
پتھروں کے ڈھیر پر بیٹھ گئے۔
’’ہاں شکر ہے! …… ویسے کتنا اچھا موسم ہے نا……کتنا اچھا نیچرل سا ماحول
ہے‘‘۔ذولفقار حسن کے آبائی علاقے کی تعریف کرنے لگا۔ دونوں کے چہروں پر
مسکراہٹ تھی۔ وہ وہیں دریا کے کنارے پر بیٹھ گئے۔ دونوں ایک دوسرے سے ادھر
ادھر کی باتیں کرنے لگے…… پھر خاموش ہو گئے۔
’’اچھا! …… اب یہ بتاؤ کہ ہوا کیا ہے؟‘‘ حسن نہایت سنجیدہ ہو کر بولا۔ اور
جو تجسس اس کے دل میں تھا اسے ذولفقار کے سامنے انڈیل دیا۔
’’اس طرح تم اتنے بدل سے گئے ہو اچانک…… ایسے بھاگ آئے ہو کراچی سے…… آئی
مین ذولفقار! کچھ بتاؤ تو سہی……‘‘۔ ذولفقار اداس سی شکل بنائے بیٹھا تھا۔
’’ اچھے بھلے ابھی چند دن پہلے تک گھوم پھر رہے تھے…… بالکل جیسے ہمیشہ
ہوتے ہو……‘‘۔
’’تم اتنا چھپا کیوں رہے ہو؟؟؟‘‘۔ ’’ دیکھو ! میں تمہارا کتنا پرانا دوست
ہوں…… تم اس طرح خاموش ہو…… مجھے بہت برا لگ رہاہے…… ایسا لگ رہا ہے جیسے
تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے‘‘۔ ذولفقار ابھی بھی خاموشی سے چہرا جھکائے
بیٹھا تھا۔
’’بس یار!……‘‘۔ ذولفقار بولا۔ ’’ بہت بدل سا گیا ہے ہمارا گھر……‘‘۔
’’جب سے ابو گئے…… آہستہ آہستہ……‘‘۔
’’خیر میری ہی غلطی ہے…… میں کون سا بڑا نیک شریف لڑکا تھاجو میرے ساتھ کچھ
اچھا ہوتا……جیسے ہم تھے ہمارے ساتھ ویسا ہی ہوا……‘‘۔ وہ اپنے آپ کو ملامت
کر رہا تھا۔
’’ابے! ایسا بھی کیا ہوا ہے؟‘‘۔ حسن نے بے قراری سے پوچھا۔
’’بس گھر کا ماحول بہت خراب ہو گیا ہے یار!‘‘۔ ذولفقار نے بیٹھے بیٹھے اپنے
ماتھے پر اپنا ہاتھ ٹکا دیا۔
’’کوئی کسی کی نہیں سنتا……‘‘۔
’’ہم غلط راستے پر چل پڑے ہیں……‘‘۔
’’کیسا غلط راستہ؟؟؟‘‘۔ حسن نے پھر پوچھا۔وہ حیران تھا۔ و ہ اس کے گھر
والوں کو بہت پہلے سے جانتا تھا۔
’’چچ! اب چھوڑو تم…… بس دعا کرو……‘‘۔ ذولفقار نے بات ختم کرنا چاہی۔
’’میں ہار سا گیا ہوں…… میں بالکل…… میں بالکل ایک……‘‘۔ وہ اپنے بارے میں
کوئی برا لفظ کہنا چاہ رہا تھا۔
’’ارے بھئی! کچھ بھی نہیں ہوا ہے تمھیں…… تم جیسے پہلے تھے ویسے ہی ہو……‘‘۔
حسن نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں یار!‘‘۔
’’چھوڑو! مجھے پتا ہے…… میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا…… میرے ساتھ یہی ہونا
چائیے تھا‘‘۔ ذولفقار ایک دم نڈھال سا ہو گیا۔
’’مگر کیا ہوا؟؟؟‘‘۔ حسن نے پھر پو چھا۔
’’چلو! واپس چلتے ہیں‘‘۔ ذولفقار چلنے کے لئے کھڑا ہو گیا۔ اس کا دل ڈوب سا
گیا تھا۔ اس نے ایک گہری سانس لی۔
۔۔۔۔۔۔۔
رات کے دو بج رہے تھے۔دادا جان روز کی طرح تہجد پڑھنے باہر باغ میں نکلے
اور ایک جھٹکے سے رک گئے۔آج کوئی رات کے ا س پہر ان کی نماز کی جگہ پر کھڑا
تھا۔
’’کون ہو تم؟‘‘ انہوں نے ذرا آگے بڑھ کر دیکھا۔
ذولفقار صاف ستھرے کپڑے پہنے ،وضو کر کے ، جہاں دادا جان نماز پڑھتے تھے
وہیں باہر باغ میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ دادا جان ذولفقار کو پہچان گئے۔
وہ خاموشی سے وہیں پاس میں بیٹھ گئے ۔
’’سوری !داداجان ……مجھے نہیں پتا تھا آپ یہاں نماز پڑھتے ہیں ……‘‘۔ذولفقار
نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا ۔
’’نہیں ! نہیں ……بیٹا ! کوئی بات نہیں ……‘‘
’’ماشاء اﷲ!آپ کو اس عمر میں تہجد پڑھتے دیکھ کر بہت اچھا لگا ……‘‘۔ورنہ
……‘‘۔وہ کچھ کہتے کہتے رک گئے ۔
’’آپ روز اٹھتے ہیں……؟‘‘۔ ذولفقار نے پوچھا ۔
’’بس بیٹا کوشش کرتا ہوں ۔‘‘انہوں نے جواب دیا ۔
دونوں خاموش سے ہو گئے ۔ مگر ذولفقار کے ذہن میں نا جانے کیا کچھ چل رہا
تھا۔ رات کے اوقاتِ تنہائی سے ذیادہ موئثر اور کون سا وقت ہو سکتا تھا اپنے
آپ میں جھانکنے کا!!! اپنے آپ سے سوال کرنے کا!!!
’’ سمجھ نہیں آتا کیا کروں ؟ ‘‘۔ذولفقار نے خاموشی توڑی ۔ شاید اس نے اپنے
آپ سے کہا تھا مگر دادا جان نے سن لیا۔
’’کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘۔ دادا جان نے فوراََ سوال کے جواب میں سوال کیا ۔
’’نہیں ……بس!……کچھ نہیں……‘‘۔ ذولفقار شرمندہ سا ہو گیا۔ دونوں پھر خاموش ہو
گئے۔
’’مقصد کیا ہے زندگی کا؟‘‘۔ ذولفقار نے ایک مشکل سوال کردیا ۔ اسے آس بندھ
گئی کے جو سوالوں کے طوفان کئی دنوں سے اس کے ذہن میں آ رہے ہیں شاید آج ان
کے جوابات مل جائیں۔
داداجان مسکرانے لگے۔
’’قرآن پاک میں تو دو ہی مقصد لکھے ہیں ……ایک اﷲ کی عبادت کرنایعنی زندگی
کے ہر پہلو میں اس کی اطاعت…… اور دوسرا یہ کہ زندگی کے سرد و گرم سے ہمیں
آزمایا جائے!!!‘‘۔
’’اﷲ نے ہمیں شرف بخشا ……فرشتوں سے آدم کے آگے سجدہ کروایا ‘‘۔
’’ہمیں جنت میں رکھا ……‘‘
’’اب ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم واقعی اﷲ کے اس احسان کے قابل ہیں ……جو اس
نے ہم پر کیا ……‘‘
’’بس پھر دوبارہ مزے ……‘‘وہ ہنسنے لگے۔
’’پھر ہمیں اونچے اونچے مرتبے ملیں گے ……ہماری عزت ہوگی ……ناجانے پھر اﷲ کی
قدرت کے اورکیا کیاراز کھلتے ہیں ہم پر ……‘‘ وہ کسی اور ہی جہان میں گم ہو
گئے۔
’’مگر پھر ہمارے مزے ہوں گے ……انشاء اﷲ‘‘۔
ذولفقار ان کا یہ جواب سن کر خوش ہوگیا ۔
’’تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟……‘‘ذولفقار نے پھر ایک سوال پوچھا۔
’’بس آسان سا کام ہے……اﷲ کی عبادت کرتے رہو اور اچھی سی ،پاک صاف زندگی
گزارو جیسی اس نے کہا ہے‘‘۔
’’……اور ہاں ……اگر ایسا کروگے تو صرف آخرت میں ہی فائدہ نہیں پاؤگے……اﷲ
تمہیں اس دنیا میں بھی اچھی زندگی بسر کرائے گا ……تم خوش رہوگے……ٹھاٹھ سے
رہو گے……پرسکون رہو گے اور جو چاہو گے سَو پاؤ گے ……اس میں شک نہ کرنا
……‘‘۔’’اس میں کوئی شک نہیں ……‘‘۔
’’اچھا !‘‘۔ ذولفقار نے بہت حیرانی سے کہا ۔
’’اتنی آسانی سے ؟……کیسے؟……‘‘۔
داداجان مسکرائے’’ بس تم اﷲ کی عبادت کرو ……جن کاموں سے وہ خوش ہوتا ہے وہ
معلوم کرو……پھر وہ کام کرو ……پھر جو بھی تم چاہتے ہو اس سے کہہ دو ……وہ
تمہیں دے دے گا ……‘‘ ۔
’’مگر ہاں !جلدبازی نہ کرنا ……بے شک انسان بڑا جلد باز ہے‘‘۔داداجان نے بات
ختم کی۔ ذولفقار کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا ۔
’’اچھا ……!یہ کیسے پتہ چلے گا کہ اﷲ کن کاموں سے خوش ہوتا ہے‘‘۔
’’علم حاصل کرو ‘‘۔داداجان نے دوٹوک الفاظ میں جواب دیا ۔
’’علم حاصل کرو ۔‘‘ انہوں نے اپنی بات دہرائی ۔
’’تحقیق کرو ……وقت صرف کرو دین ودنیا کے مطالعے میں……‘‘
۔۔۔۔۔۔۔ |