اپنوں کے بناء عید ادھوری

عید عود,عاداً,یعودوعیاداً سے مشتق ہے عیدین عید کی تثنیہ ہے عید کے لفظی معنی ہے خوشی, رونق , فرحت,لوٹنا پلٹنا اور واپس آنا بھی عید کے مطالب میں سے ہے۔ ہر وہ دن جس دن کسی دوسرے شخص یا واقعہ کی یاد میں خوشی منائی جائے عید کہلاتا ہے۔ رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی ہماری عید کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہوجاتی ہے لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ عید کا اصل مقصد کیا ہے؟اور اس عید الفطر سے ہمیں کیوں نوازا گیاہے؟فطر کے لفظی معنی روزہ توڑنے یا ختم کرنے کے ھیں اور کیونکہ عید والے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اور روزہ رکھنا بھی کسی صورت جائز نہیں اس لئے اسے عیدالفطر کہا جاتا ہے۔ عید کا اصل مقصد صرف اچھے جوتے,کپڑے پہننا نہیں بلکہ ان لوگوں کو بھی عید کی خوشی سے آگاہ کرنا ہے جو اس خوشی سے کوسوں دور ہیں۔ ان روٹھے ہوؤں کو منانا ہے جو آپ کے آپ کے اپنے ہیں اور جن کے بغیر آپ ادھورے ھیں۔یہ وہی لوگ ہیں جن سے بچھڑنا آپ کے لئے کبھی سوہان روح ہوا کرتا تھا۔ اچھا ذرا ٹہرئیے ہم گزشتہ سال پر پہلے ایک نظر دوڑاتے ھیں کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ چلیں نظر دوڑائیں پچھلے برس آپ کے کتنے عزیز دوست اور رشتہ دار آپ سے بچھڑے۔ ؟؟ کیا قدرت کی ستم ظریفی کو واپس لوٹانا ہمارے بس میں ہے؟ نہیں بلکہ ہرگز نہیں۔ چلیں ایک اور سوال خود سے کیجئے آج جو لوگ آپ سے روٹھے ہوئے ہیں اگر ان میں سے ایک بھی آپ کی دنیا چھوڑ کر چلا جائے تو آپ کو دکھ نہیں ہوگا؟ جواب یقیناً اثبات میں آئیگا کہ دکھ ہوگا اور ضرور ہوگا انتہا کا ہوگا۔اپنوں سے دور ہونے کا درد ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ہمیں کانٹوں پر لٹکا کر کھینچ لیا جائے اور ہمارا ذرہ ذرہ الگ ہوجائے یا ایسے جیسے سولی چڑھنے والے کی موت سے ایک لمحہ قبل کی کیفیت ہو۔ درد ایسا کہ برداشت نہیں ہوتا اور انا پرست اتنے کے اندر سے ٹوٹتے چلے جارہے ہیں مگر منہ سے نہ بولینگے۔ سردمہری کے لبادے میں لپٹے دونوں ہی فریق صرف اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ چلیں ایک اور مثال لیتے ہیں رب تعالیٰ نے ہمیں روزے رکھنے کی ڈیوٹی دے دی ہم نے ذوق وشوق اور محنت سے یہ ڈیوٹی نبہائی۔ اتنی محنت کی کہ اسکے کہنے پر خود پر خود پر حلال کو حرام کرلیا بدلے میں اس نے ہمیں مزدوری عید کی صورت میں عطا فرمائی لیکن کیا ہم نے ایک بات سمجھنے کی کوشش کی کہ جس دلجمعی سے ہم نے محنت کی تھی ہونا تو یہ چاہیئے تھانہ کہ ہماری مزدوری بھی خالص ہوتی جس رب کے کہنے پر اتنی محنت کی اسی رب کے کہنے پر مزدوری کیوں نہ خالص ہوئی۔؟ اگر خالص ہے ہم جوتے کپڑے پہن کر مطمئن ہیں تو ذرا ایک لمحہ کو خود میں جھانکئیے اور دیکھئے آپ اندر سے بھی اتنے ہی مطمئن ہیں جتنا باہر سے نظر آتے ہیں۔ اور آپ کا جواب ہوگا نہیں کیونکہ خوشی اپنوں سے ہوتی ہے اپنوں کے بغیر صرف تہوار منایا جاتاہے۔ کبھی ان سے پوچھ کر دیکھئے جن کے اپنے آج ان کے پاس نہیں یا ان ماؤں سے پوچھیں جن کے لعل پردیس کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں جو عید کے دن باربار یہ کہہ کر آنکھیں پوچھتی نظر آتی ہیں کہ آنکھ میں کچھ چلا گیا ہے۔ ان بہنوں سے پوچھ کر دیکھئے جو اپنے بھائیوں سے دوری کی سزا کاٹ رہی ہیں دن بھر سب کے سامنے چہکتی خوشیاں مناتی بہنیں شب کو کس کرب سے گزرتی ہیں کون جانے۔۔۔۔۔؟ زندگی کے نشیب وفراز میں روٹھنا منانا زندگی کا دلفریب حصہ ہے اس حصے کی قدر کیجئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ہم نے عید کو محض رسم و رواج کا حصہ سمجھ لیا ہے۔ جہاں ہم کچھ لوگوں سے روٹھے ہیں اور ان کو دیکھنا تک نہیں چاہتے وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لئے ہمارے دل کدورت سے بھرے ہوئے ھیں۔ ہم عید کے دن ان سے گلے تو مل لیتے ھیں مگر دل صاف نہیں کرتے ہم ہنس ہنس کر باتیں تو کرتے ہیں مگر دل میں بدگمانی کے درخت اگائے ہوتے ہیں۔ یہ کیسی عید ہے۔؟ کہاں کی عید ہے۔۔؟ کیا یہی عید ہے۔؟ کیا ہمارے رب نے ہمیں ایسی عید منانے کاحکم دیا ہے۔۔؟ کیا خود سے منافقت کرکے خوشی منانا ہمیں خوش کر سکتا ہے۔؟ یہ وہ سوال ہیں جو ہم چاہنے کے باوجود خود سے کرنا نہیں چاہتے۔

ایک اور قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو جتنی مرضی مرتبہ منا لیا جائے کتنی ہی دلیلیں دے دی جائیں وہ ماننے کا نام تک نہیں لیتے غور کیجئے کہیں آپ بھی ان میں سے تو نہیں جو اپنی نام نہاد انا کا پرچار کرتے رہتے ہیں جن کے لئے اپنوں کا منانا صرف انکی اکڑ اور غرور کے بڑھنے کاسبب ہوتا ہے۔ اپنوں سے دور خوشیاں منانے والوں کا حال ایسا ہوتا ہے کہ
اس مہرباں کی نظر عنایت کا شکریہ
تحفہ دیا ہے ہم کو شب فراق عید کا

کبھی ایک لمحہ کو رک کر آپ نے یہ بھی سوچا آپ کی زندگی میں کتنے لوگ ایسے ہیں جن سے آپ ناراض ہوجائیں تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔جن کے لئے آپ کا ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جن سے آپ روٹھ جائیں تو وہ آپ سے زیادہ روٹھ جاتے ہیں۔ آج کچھ دیر کو اں نا محاسبہ کیجئے اور ان پیاروں کو سوچیں جن کے لئے آپ اہم ہیں ان کی قدر کیجئے۔ فضول اور لایعنی باتیں سوچنے کے بجائے زندگی اور خوشیوں کے مقصد کو سمجھئے۔

زندگی کا کیا بھروسہ کون سا پل ہمیں ہمارے چاہنے والوں سے دور کر جائے۔

چلیں آج ہم ایک نئے دن کی ابتدا کرتے ہیں۔ چلیں ایک روشن صبح کا آغاز کرتے ہیں جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں,جہاں سب ہمارے اور ہم سب کے ہوں جہاں ہونٹوں پر مسکراہٹ رقص کناں ہو۔ چلیں اپنے دلوں کی اندرونی فضا کی کثافت کو دھوتے ہیں۔ اپنی عید کا کی خوشی کو دوبالا کرتے ہیں اپنے احساسات و خیالات کو محبت و اپنائیت سے سرشار کرتے ہیں۔ اس بار ایک نئی عید مناتے ہیں نئے عہد اور سچی خوشیوں کے ساتھ۔

چلیں ہم عہد کرتے ہیں کہ آج سب روٹھوں کومنائینگے۔ یہ زندگی عارضی ہے تو اسے کیوں نفرتوں کی نذر کیا جائے؟ چلیں ہم عہد کرتے ہیں کہ اپنی اور اپنے پیاروں کی عید مسرتوں سے بھر دینگے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے اپنے ہماری ایک پکار کے منتظر ہیں تو پھر دیر کیسی آج سب کو معاف کرتے ہیں انہیں کہہ دیتے ہیں کہ ہم ان کے بنا ادھور ے ہیں۔
 
Saba Eishal
About the Author: Saba Eishal Read More Articles by Saba Eishal: 51 Articles with 42352 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.