عیدالفطر:اجتماعیت اوراحتساب کاپیغام

رمضان المبارک میں کی جانے والی عبادتوں اوروزوں کا انعام دینے کے لئے خداتعالیٰ نے عیدالفطرکادن مقررفرمایاہے ۔اس دن اﷲ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں ’’بتاؤجس مزدورنے اپناکام پوراکیاہو،اس کی اجرت کیاہے ؟،وہ عرض کرتے ہیں’’ پروردگار!اس کابدلہ یہ ہے کہ اسے پوری پوری اجرت دی جائے‘‘ ،خداوندتعالیٰ فرماتے ہیں’’میں نے اپنے ان بندوں کے روزے اورعبادتوں کے بدلہ میں ان کی مغفرت کردی۔پھرفرشتوں کوحکم ہوتاہے کہ وہ ہرگلی،کوچہ میں پھیل جائیں اورخداکی طرف سے خوشنودی اورعطاکااعلان کریں۔اسی لئے حدیث شریف میں عیدکی رات کانام ’’لیلہ الجائزۃ‘‘بیان کیاگیاہے یعنی انعام کی رات۔ گویااس رات میں انعام ربانی کی بارش ہوتی ہے اوراﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کوپورے ماہ کی عبادتوں کاانعام دیناچاہتے ہیں۔

عیدکاایک لغوی معنیٰ ’’لوٹنا‘‘ہے ۔جس کامطلب یہ ہے کہ بندہ جواپنے خداسے دورہوگیاتھا،صراط مستقیم سے بھٹک گیاتھااوراس نے سرکشی ،نافرمانی اورگناہ کی راہ اختیارکی ہوئی تھی ،اب پورے ماہ کی ٹریننگ کے بعدوہ،اپنے پروردگارکی طرف لوٹ آیاہے اورگناہوں سے تائب ہوکرخواہشات کانہیں،بلکہ صرف اورصرف خداکابندہ ہوکرزندگی گذارنے کاعہدکررہاہے۔یعنی یہ دن خداسے یہ عہدکرنے کاہے کہ ہم نے رمضان میں اپنے اندرجوتبدیلیاں کی ہیں عبادتوں اورریاضتوں کے ذریعہ۔اب ہم انہیں اپنی زندگی میں نافذکریں گے۔اسی لئے عیدسے پہلے کی شب کواپناجائزہ لینے اوراحتساب کرلینے کی تعلیم دی گئی ہے کہ ماہ مقدس کی ہم نے کتنی قدردانی کی اوراس کاہم نے کتناحق اداکیا۔ساتھ ہی اس رات میں اپنی کوتاہیوں پرندامت کااظہارکیاجائے۔

عیدکادوسرامعنیٰ ’’خوشی‘‘ ہے ۔ایک طالب علم اپنے ہوم ورک کوپوراکرچکاہوتاہے اورمزدوراپنے کام سے فارغ ہوجاتاہے تو اسے ایک قسم کی خوشی ملتی ہے ۔اسی طرح ایک مسلمان جب رمضان کی بھٹی میں اپنے کوتپاتاہے اورروزہ کے ذریعہ خواہشات نفسانیہ پرلگام لگانے کی مشق کرلیتاہے تواب اسے روحانی خوشی محسوس ہوتی ہے ۔اور اب اسے بس ان عبادتوں کے انعام کاانتظاررہتاہے۔ لہٰذاآج کادن،ہمارے لئے’’عید‘‘اور’’خوشی کادن‘‘اسی وقت ہوسکتاہے جب کہ رمضان کی ٹریننگ کے ذریعہ ہم نے اپنی زندگی میں تبدیلی کی ہو۔اور اپنااحتساب کرتے ہوئے صالح زندگی گذارنے کاہم نے عہدکیاہو۔چنانچہ کہاگیا’’عیداس کے لئے نہیں ہے جس نے اچھے کپڑے پہنے ،عمدہ کھانے کااہتمام کیا،بلکہ عیدتواس کے لئے ہے جس کے دل میں ماہ مبارک میں کی جانے والی عبادات اورممنوعات سے رکنے کی مشق کے ذریعہ خداکاڈرپیداہواہو‘‘۔

دوسرے مذاہب میں بھی سال کے کچھ ایام خوشی منانے کے لئے متعین ہیں ۔مذہب اسلام نے بھی اپنے ماننے والوں کے لئے اس کی رعایت کی اورعیدالفطراورعیدالاضحی کی شکل میں خوشی منانے کاموقعہ فراہم کیاہے۔لیکن اس نے اس کے لئے بھی حدوداوردائرے متعین کئے۔دوسری قوموں کے برخلاف مسلمانوں کواظہارخوشی کے لئے آزادنہیں چھوڑاگیا،بلکہ اس کایہ طریقہ متعین کیاگیاکہ خداکی بارگاہ میں سجدہ ریزہوکراس کی کبریائی بیان کی جائے ۔اور خوشی کے ان لمحات کو خداکی رضاء کے مطابق اس کی عبادتوں میں صرف کیاجائے۔چنانچہ فرمایا’’تاکہ تم اﷲ کی کبریائی بیان کرواس بات پرکہ تمہیں اﷲ نے اس کی ہدایت دی ۔لہٰذاعیدین میں چھ زائدتکبیروں کااہتمام اسی کی طرف اشارہ کرتاہے کہ ہم نے عبادتیں کیں،روزے رکھے ۔اس میں ہماراکمال نہیں۔بلکہ یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی توفیق کی وجہ سے ممکن ہوسکا۔بڑے ہم نہیں،بڑی اﷲ کی ذات ہے۔پھرفرمایا’’تاکہ تم شکریہ اداکرو‘‘اس توفیق پرجوتمہیں رمضان میں ملی۔منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمی کنی منت شناس ازوکہ بخدمت بداشنتت۔احسان مت جتلاؤ کہ تم نے بادشاہ کی خدمت کرلی ۔خوب خوب عبادتیں کیں ماہ رمضان میں۔بلکہ خداکااحسان مانوکہ اس نے عبادت کی توفیق دی اورہمیں اپنی رحمتوں سے محروم نہیں فرمایا۔لہٰذااس احساس کے ساتھ نمازعید اداکرنے جاناچاہئے’’نہ لائق منہ دکھانے کے ،نہ قابل سرجھکانے کے امیدمغفرت لے کے یارب!تیرے دربارمیں آئے اگربخشے زہے قسمت ،نہ بخشے توشکایت کیا سرتسلیم خم ہے جومزاج یارمیں آئے‘‘۔

اگرہم نے اس طرح خداکے دربارمیں حاضری دی،ساری بڑائی اورتکبرکونکال کرصرف’’اﷲ سب سے بڑاہے،اﷲ سب سے بڑاہے‘‘کایقین دل میں جمالیااور تکبیرتشریق کاوردکرتے ہوئے دربارعالی میں گئے توبڑی امیدہے اس ذات عالی سے کہ وہ ہمارے گناہوں سے چشم پوشی فرمالے اوراپنے نیک بندوں میں شامل کرکے ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کوقبول فرمالے۔

یہ عیدسعیدہمارے لئے بطورشکرانہ ہے جس میں رنگ ریلیوں میں پڑجانے کی بجائے ہمیں اپنااحتساب کرناچاہئے کہ ہم نے ماہ مبارک کی کتنی قدردانی کی اورپھراس عہدکوخداکے دربارمیں دوہرانے کانام ہے کہ رمضان میں جونقش ہماری زندگی میں چڑھااورجوتبدیلیاں ہوئیں اس کوآگے بھی ہم باقی رکھیں گے۔لہوولعب اورگناہوں سے انہیں آلودہ نہیں کریں گے۔اگرہم نے ان سب چیزوں پرتوجہ کی تویہ عیدہمارے لئے باعث خیروبرکت ہوگی اورہماری زندگی کے لئے انقلابی بھی۔ورنہ عمومایہ دیکھاجارہاہے کہ عیدکے دن کوخصوصاہمارانوجوان طبقہ ’’یوم آزادی‘‘کے طورپرمناتاہے ،وہ سمجھتاہے کہ آج رمضان کی پابندیوں سے آزادہونے کادن ہے ۔بس چاندنکل گیاعیدکا۔اورہم سب آزادہوگئے ۔یادرکھناچاہئے کہ شیطان آزادہواہے ،ہم نہیں آزادہوئے بلکہ ہمارے اوپرمزید ذمہ داریاں عائدہوئی ہیں۔مسلمان تنہائیوں میں بھی خداکابندہ ہے اوربازاروں میں بھی محمدرسول اﷲﷺکاغلام ۔دوسر ے مذاہب کے ماننے والوں کی طرح عیدین میں کسی طرح کی بھی رنگ ریلیوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔اسلام میں خوشی کے موقعہ پربھی ان چیزوں کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

رمضان المبارک کے مہینہ میں قرآن کریم کا نزو ل ہوااورجس میں وہ مقدس رات بھی آئی جس کے اندر یہ فیصلہ کیاگیاتھاکہ زمین کی خلافت اب بنی اسرائیل سے چھین کربنی اسماعیل کودی جائے گی۔ایک کومحروم اوردوسرے کوفیضیاب کیاجائے گااوروحی ربانی کارشتہ وادی سیناکی بجائے فاران کی چوٹی سے قائم کیاجائے گا۔لہٰذاعیدکادن اس سبق کی یاددلاتاہے کہ جس طرح بنی اسرائیل نے اپنی نافرمانیوں سے خداکی سرزمین کوآلودہ کیاجس کے نتیجہ میں ان کے سر سے ہزارسالہ عظمت کاتاج چھین لیاگیااسی طرح اب یہ دیکھناہے کہ ہم خدادی ہوئی سرزمین کی خلافت کاکتناحق اداکرپاتے ہیں کیونکہ خداکی سرزمین گندگی کے لئے نہیں ہے ۔اس نے اس کی خلافت کے لئے ’’عبادی الصٰلحون ‘‘کی شرط لگادی ہے۔لہٰذا اس خلافت کے استحقاق کے حوالہ سے عیدکادن ہمارے لئے ’’یوم احتساب‘‘ ہے۔

شکراداکرنے کابہترطریقہ تویہ ہے کہ تنہائیوں میں سربسجودہوجایاجائے ،خداسے اپنی عبادت کی قبولیت کی دعاء کی جائے۔لیکن اس کے برخلاف ہمیں حکم دیاگیاکہ آبادی سے باہرجاکرعیدگاہ میں نمازاداکرو،بھرے مجمع میں خداکی کبریائی اوراپنی پستی کااقرارکرو۔یہ اس لئے تاکہ امت مسلمہ کی اجتماعیت کاشاندارمظاہرہ ہوسکے۔ایک خداکے دربارمیں،خداکے بندے ایک اندازمیں،ایک امام کے پیچھے جمع ہوں اورعملاََبتائیں کہ خداکے حکم کے سامنے ہم سب ایک ہیں،یہاں شاہ وگدا،کالے گورے اورامیروغریب کاکوئی فرق نہیں ۔بندہ وصاحب ومحتاج وغنی ایک ہوئے تری سرکارمیں پہونچے توسبھی ایک ہوئے۔وہ بتائیں اپنے عمل سے کہ مسلک ومشرب اوررنگ ونسل کے تمام تراختلافات کوآج ہم نے بھلادیا۔ مسلمانوں کاایک خدااپنے اس آسمان کے نیچے اپنے محبوبﷺکی امت کوایک جسم میں دیکھناچاہتاہے۔وہ اعلان کرتاہے’’تم سب ایک ہی جماعت ہو،اورمیں تم سب کاخداہوں ‘‘۔اس طرح عیدین میں آبادی سے باہرجاکرکثیرتعدادمیں جمع ہوکرنمازاداکرنے کاحکم دیاگیاتاکہ بکھرے ہوئے امت کے شیرازہ کویکجاکرنے کاسبق ہمیں ملے ۔عیدالفطرکی نمازکی ادائیگی سے پہلے پہلے صدقہ فطراداکرنے کاحکم دے کرہمارے مزاج میں یہ روح پھونکنے کی کوشش کی گئی ہے اورتعلیم دی گئی ہے کہ ہماری خوشی اس وقت تک ادھوری ہے جب تک کہ وہ مسلمان جن کے پاس عیدکی تیاریوں کے لئے وسائل نہیں ہیں،وہ محروم نہ رہ پائیں۔اورہماری عیداورخوشی کی تکمیل اسی وقت ہوسکتی ہے جب کہ ہمارے پڑوس اورمحلہ کے غریب بھی خوشیوں میں ہمارے شریک ہوں۔ابھی ملک کے اورعالمی حالات جس طرح ناگفتہ بہ ہیں ،مسلمانوں کونیست ونابودکرنے کے لئے سبھی قومیں متحدہیں۔لیکن افسوس ہے کہ ہماری صفوں میں انتشارہے۔جب کہ ہماراخدا،ہماراکعبہ وقبلہ ،ہمارارسول ،ہماراقرآن ،سب ایک ،اصول دین میں سب متفق ہیں۔ضرورت ہے کہ عیدالفطرکے دن ہم یہ عہدکریں کہ ہماری صفوں میں جودراڑپیداہوگئی ہے ،اسے درست کرنے کی جس طرح بھی ممکن ہو،کوشش کریں گے۔ہماراکوئی بھی قدم اب ایسانہیں اٹھے گاجس سے ہماری صفوں میں انتشارپیداہو۔سبھی ملی تنظیموں اورجماعتوں سے خصوصی طورپر درخواست ہے کہ اس دن کویوم یکجہتی کے طورپربھی منائیں اورایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کراجتماعیت کے فروغ کی کوشش کریں،آپس کے گلے شکوے کودورکریں اورامت واحدہ بن کرپیش آمدہ چیلنجوں کامقابلہ کریں۔
Md Sharib Zia Rahmani
About the Author: Md Sharib Zia Rahmani Read More Articles by Md Sharib Zia Rahmani: 43 Articles with 37050 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.