عید الفطر ، اتحاد امت مسلمہ اور عالمی دہشتگردی
(S.M Irfan Tahir, Lahore)
شکوہ عید کا منکر نہیں ہو
ں میں لیکن
قبول حق ہیں فقط مرد حر کی تکبیریں
حکیم مری نواؤں کا راز کیا جا نے
ورائے عقل ہیں اہل جنوں کی تدبیریں
علم و ادب کے شہنشاہ اور لکھاریوں کے با دشا ہ حضرت واصف علی واصف ؒفرما تے
ہیں ،،ہم ہر حالت سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں ہم صرف انسانوں سے سمجھوتہ نہیں
کرتے ،،رمضان المبارک کا مقدس بابرکت اور رحمتوں بھرا مہینہ پو ری آب و تاب
کے ساتھ اپنی نورانی کرنیں بکھیرتا ہو ا الوداع کہہ گیا بلا شبہ رمضان
المبارک مسلم امہ کے لیے بڑی اہمیت اور حیثیت کا حامل ہے اس مہینہ کو خاص
طو ر پر امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کا محور و مرکز اور عملی نمونہ
بھی قرار دیا جا تا ہے جب فطرت بام عروج پر پہنچتے ہو ئے نیکیوں کی بہا ریں
لٹا تی اور چا رسو رحمتیں اور برکتیں سمیٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ہر جسم
اپنی زکوٰۃ دینے کے لیے محنت اور مشقت کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ شیاطین
زنجیروں میں جکڑ لیے جا تے ہیں اور خالق و مالک کی رضا و عنایات کی تجلیاں
کائنات پر برسنے لگتی ہیں جنت کے دروازے ہر خاص و عام مسلمان مومن کے لیے
کھول دیے جاتے ہیں ایک نیکی کو عام دنوں کی نسبت ستر ہزار نیکیوں میں تبدیل
کردیا جا تا ہے اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے دل فراخی اور گرمجوشی سے
سرشار دکھائی دیتے ہیں۔ ہر آنکھ یاد الہیٰ میں پر نم ہر دل محبت رسول میں
مگن اور ہر لب تسنیم و رضا کے لیے درود و سلام کے نذرانے پیش کرتا ہو
دکھائی دیتا ہے اس ایک ماہ کے اندر خالق کائنات نے پو رے برس کی نیکیاں اور
کمایا ں مختص کررکھی ہیں بد نصیب ہے وہ انسان جو اس کے رموز و اوقاف کو
سمجھتے اور اپنانے ہوئے خاطر خواہ استفادہ حا صل نہ کرسکے اسلامی کیلنڈر کے
۹ ویں مہینہ میں ایک مسلمان مومن اعمال صالح کے بعد ایسے ہو جاتا ہے کہ
جیسے نو ماہ کے طویل دورانیہ کے بعد ایک نومولود معصوم اور خطاؤں سے پاک
بچے کی پیدائش ہوتی ہے دنیا کا پہلا معرکہ حق و باطل غزوہ بد ر اسی ماہ میں
پیش آیا ، شہادت مولا علی ؓ پھر اعتکاف قرب الہٰی کا تسلسل جشن نزول قرآن ،
لیلتہ القدر ، انعام و اکرام کا بڑا دن عید الفطر اور سنت الہیٰ کا عملی
نمونہ مسلمان اپنے رب کی پیروی کرتے ہو ئے کھا نے پینے سے بالکل پاک ہوجاتا
ہے گویا کہ وہ اﷲ رب العزت کا مظہر دکھائی دینے لگتا ہے جھوٹ کینہ بغض حسد
چغلی حرام خوری اور تمام ناجائز باتوں اور برائیوں سے یہ لمحات مکمل طور پر
روکتے ہیں اور حقیقی اجر و ثواب کا مصداق وہ ٹھہرتا ہے جو اپنے آپ پر اس کے
اصول اور قواعدو ضوبط مکمل طور پر لاگو کر لیتا ہے لمحہ فکریہ پو ری امت
مسلمہ اور عالم اسلام کے لیے یہ ہے کہ جب خالق و مالک اتنے بھرپور مہینہ سے
ہمیں نوازتا اور ایک جہد مسلسل سے گزارتا ہو ا ایک عظیم مرتبہ اور انعام و
اکرام سے بہرہ مند فرماتا ہے تو پھر یہ آج کا ملا تقسیم اور تفریق کے عمل
میں کیوں گرفتا ردکھائی دیتا ہے ماہ و سال اتحاد امت مسلمہ اور اتفاق و
رواداری کا درس دینے والا نہ صرف ممبر و محراب کے تقدس کو پامال کرتا ہو ا
دکھائی دیتا ہے بلکہ پو ری امت مسلمہ کے ہر ذی شعور اور اہل علم فرد کو
الجھنوں ، وسوسوں ،اندیشوں مفروضوں ، افواہوں اور تذبذبوں کا شکار بنا دیتا
ہے ۔ ہر پڑھے لکھے عقل فہم و فراست اور علم و عرفان کا ادراک رکھنے والے
فرد کا یہی سوال ہے کہ جب دین کا ٹھیکیدار ایک اﷲ ایک قرآن اور ایک رسول کے
احکامات پر عمل پیرا ہو نے کا درس دیتا ہے اور ہمہ وقت اتحاد امت مسلمہ اور
اخوت و بھا ئی چا رے کی بات کرتا ہو ا دکھائی دیتا ہے تو عملی سطح پر امت
کو تقسیم در تقسیم صورتحال سے کیوں دوچار کردیتا ہے محض اپنے ذاتی مفادات
انا پرستی فرقہ واریت اور اضافی چندے کی خا طر کیو ں امت کی یکتائی کو پارہ
پا رہ بنا دیتا ہے ؟ بڑی خوش نصیبی کے ساتھ رمضان المبارک کا آغاز با قا
عدہ ایک ساتھ عرب امارات یو رپ اور برطانیہ میں ہوا لیکن اپنی ماضی کی
روایات اور غلطیوں سے بجا ئے عبرت حاصل کرنے کے ملا اور دین کے ٹھیکیدار آج
بھی اسی نہج پر قائم و دائم دکھائی دیتے ہیں عید کے تہوار کے نام پر نہ صرف
پو ری امت مسلمہ کے گلے میں بدنامی کا طوق لٹکایا جا تا ہے بلکہ انہیں بہت
سی مشکلا ت اور الجھنوں کا شکار بنا دیا جاتا ہے ایک جواں سال مسلم اس بات
کو سوچتا ہو ا دکھائی دیتا ہے کہ عید کس کے ساتھ منائی جا ئے اور پھر اس سے
ذرا مزید گہرائی میں جایا جا ئے تو یہاں تک بات پہنچ جاتی ہے کہ ایک اچھا
مسلمان اور دین اسلام کا پیرو کار کہا ں پایا جا تا ہے افریقہ کے جنگلوں
میں ، پاکستان میں بھارت میں برطانیہ میں سریا و شام میں ایران و عراق میں
امریکہ یا کینڈا میں یا کہ بنگلہ دیش اور دیگر 52 اسلامک ممالک میں عید
الفطر کی بجا ئے عیدین کے عمل نے ہر ایک کو پریشانی میں مبتلا ء کردیا ہے
۔نوجوان نسل کا دین کے ٹھیکیداروں ،نام نہا د عالموں اور موجودہ دور کے
زکوٰۃ و خیرات کے نام پر پیسہ اکھٹا کرنے والے مشائخ اور بزرگان دین سے یہ
سوال ہے کہ جب ہلال کے دن کا تعین ہی درست طور پر ایک ساتھ نہیں ہوپاتا ہے
یہی سلسلہ جب دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والوں کو مد نظر رکھتے ہو ئے
دیکھا جا ئے تو چند سوالات جنم لیتے ہو ئے دکھائی دیتے ہیں کہ رمضان
المبارک حقیقی طور پر آغاز پذیر کب ہوتا ہے ؟ پہلا دوسرا اور پھر تیسرا
عشرہ اپنے اعداد و شمار کے مطابق کیسے مکمل ہوتا ہے ؟ لیلتہ القدر پو ری
دنیا میں کس دن اور تا ریخ کو رونما ہو تی ہے ؟ نزول قرآن کا حقیقی دن
کونسا بنتا ہے ؟ کس دن کو غزوہ بدر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ؟ کس روز حضرت
مولا علی کی شہادت رونما ہوئی ؟ کس دن کو پو ری مسلم امہ کا بڑا دن عید
الفطر منایا جانا چا ہیے ؟ ان کے علا وہ محض رمضان سے منصوب اور نسبت رکھنے
والے بیشما ر دنوں کی ترتیب کیسے لگائی جا سکتی ہے جب ہر ملک کے دورانیے کا
کوئی نہ کوئی فرق ہے اور پھر بعض جگہوں پر تو رات اور دن میں کوئی خاص دوری
بھی نہیں ہے اسی طرح سے برطانیہ میں لیلتہ القدر اسی طرح ایران و عراق میں
اور پھر پاکستان اور بھا رت میں کب منائی جا نی چا ہیے ہے ؟ اگر اسلامی
جمہو ریہ پاکستان کا قیام بھی رمضان المبارک میں ہوا ہے تو موجودہ توا ریخ
کے مطابق کونسا دن بنتا ہے ؟ اور جو لو گ کسی دوسرے ملک میں منا ئے جا نے
والی عید اور خو شی کے روز روزہ رکھتے ہیں تو کیا وہ گناہگار کہلائیں گے یا
اس پر بھی کوئی سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے ؟ اس تقسیم در تقسیم کے عمل نے پو
ری دنیا میں اسلام کو بدنامی و ناکامی کے سوا کچھ نہیں بخشا ہے ۔ اسلام میں
موجود دین کے نام نہا د ٹھیکیداروں نے پہلے نام نہا د جہا د کے نام پر فساد
فی الارض کا ارتکا ب کیا اور پھر پو ری دنیا کو بد امنی ، تباہی و بربادی
میں جھونکنے کے لیے سرگرم دکھائی دینے لگے ہیں ۔ جو لو گ ایک عید کے دن پر
اپنی انا ، اپنی سیاست اور اپنے مفادات کی قربانی نہیں دے سکتے ہیں تو پھر
وہ اتحاد امت مسلمہ اور اس سے بڑھ کر دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری اور بین
المذاہب ہم آہنگی کا راگ کیوں الا پتے ہیں ؟ کوئی بھی شخص اس حقیقت سے
آنکھیں نہیں چرا سکتا ہے کہ دین کا بیڑا غرق کرنے اور اسے بدنام کرنے میں
جتنا نام نہاد علماء و مشائخ نے کام سرانجام دیا ہے اتنا کسی اور نے نہیں
دیا ہے ۔ ہما رے دین اسلام کو غیر مسلموں اور مخالفوں سے اتنا خطرہ لاحق
نہیں ہے جتنا کہ اس کے اندر موجود نام نہا د دین کے ٹھیکیداروں اور ملا ؤں
سے ہے ۔ ان کی انتہا پسندی اور فرقہ پرستی نے ہمیں بے پناہ مسائل مصائب اور
مشکلا ت کا شکار بنا دیا ہے مفتی عظام فطرت کے قوانین کو پس پشت ڈال کر
اپنے من گھڑت خیالات اور علم و عقل کے بلبوتے پر کسی دوسرے کی بات سننے یا
برداشت کرنے کے قائل ہی نہیں ہیں وہ دین کو اپنے گھر کی لونڈی اور با قی
عام مسلمانوں کو اپنا زر خرید غلام سمجھتے ہیں حالانکہ ان نام نہاد دین کے
ٹھیکیدارں کی وجہ سے ہی آج عام مسلمان کا جینا محال ہو گیا ہے اقوام عالم
میں اسلام اور مسلمان کو دہشت و وہشت کی نگاہ سے دیکھا جا نے لگا ہے کیونکہ
ہم ہر گز اس با ت کا انکا ر نہیں کر سکتے ہیں کہ دنیا میں انتہا پسند تنظیم
کا سربراہ ایمن الظواہری بھی ایک عالم دین ہو نے کا دعویدار ہے اسی طرح
افغانستان میں اسلامی ریاست کے قیام کا علمبردار ملا عمر ، پاکستان میں
تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ بھی مفتی ملا فضل اﷲ اور نائب امیر مفتی
خالد حقانی ہے ، اسی طرح سے برصغیر القا عدہ برانچ کا سربراہ مولانا عاصم
عمر بھی ایک عالم دین ہی ہے۔ اور مزید دیکھا جا ئے تو مولانا ابو بکر
البغدادی بھی ایک بہت بڑا دین کا ٹھیکیدا ر اور عالم دین کہلواتا ہے تمام
دہشتگردی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے میں جس طرح سے ان نام نہا د علماء و
مشائخ کا کردار ہے اسی طرح سے دین میں مختلف تنا ظر میں تقسیم پیدا کرنے
اور ابہا م جنم دینے میں بھی یہی دین کے ٹھیکیدار اور نام نہاد عالم دین
شامل ہیں جن کی بدولت با العموم ایشیاء اور با لخصوص برطانیہ و یو رپ میں
بسنے والا ایک عام مسلمان نوجوان شدید پریشانی اور مشکلا ت کا شکار ہے اور
ان کی آپسی تنوع اور فرقہ وارانہ جنگ کی بھینٹ چڑھتے ہو ئے اپنے حقیقی
اسلامی قوانین سے نہ صرف بغاوت کا اعلان کرنے پر مجبور ہے بلکہ دائرہ اسلام
سے فارغ ہوتا جا رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ جہا ں جہادیوں کے خلا ف ایک
منظم اور مربوط پالیسی ترتیب دی جا رہی ہے اسی طرح سے مختلف ادیان کے اندر
تفرقہ با زی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والے ان نام نہا د دین کے
ٹھیکداروں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جا ئے تا کہ انتہا پسندی ، بد امنی ، شر
انگیزی ، شدت پسندی ، منافقت ، نفرت ، تعصب اور تنوع کا جڑ سے خاتمہ کیا جا
سکے ۔
|
|