نور اعلیٰ نور - قسط۱۱


ذولفقار کے گھر میں سب بہت خوش تھے۔ اسے جاب جو مل گئی تھی ۔ اور ملی بھی جتنی مشکل سے تھی اسے اچھی طرح معلوم تھا۔ گھر میں آج کل اسی بارے میں باتیں ہوتی تھیں کہ جاب کیسی ہے…… لوگ کیسے ہیں وہاں…… ایچ او ڈی کیسے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

عائشہ اور ذولفقار چھت پر بیٹھے ٹھنڈی ہوا کا مزہ لے رہے تھے۔ شام کا وقت تھا۔ انکی امی بھی نیچے سے چائے کی پیالی ہاتھ میں لئے اوپر آ گئیں اور ان کے ساتھ ہی رکھی پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھ گئیں۔ ان کے چہرے پر ایک بڑی سی مسکراہٹ تھی۔ ’’کتنی اچھی ہوا چل رہی ہے نا……‘‘۔ وہ بیٹھتے ہی خوش ہو کر بولیں۔
’’ہم م م م م…… کراچی کی یہی تو بات ہے…… بالکل ایسا لگ رہا ہے جیسے ساحل سمندر پر بیٹھے ہیں‘‘۔ ذولفقار نے امی کی بات کی تائید کی کہ کراچی میں واقعی شام کی ٹھنڈی ہوائیں نہایت فرحت بخش ہوتی ہیں۔

’’شکر ہے تمہاری جاب بھی ہو گئی‘‘۔ امی بہت خوش تھیں۔
’’جی اﷲ کا شکر ہے‘‘۔ عائشہ بھی اطمینان سے بولی کہ اب گھر کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔
’ہاں اب تو خوش ہیں نا آپ…… اب تو میری جان چھوڑ دیں گی نا……‘‘۔ امی اور عائشہ فوراََ سنجیدہ ہو گئے۔ وہ تو بڑے اچھے موڈ میں تھے اور انہیں ذولفقار کے منہ سے ایسی کسی جلی کٹی بات سننے کی توقع نہ تھی۔
’’کیا مطلب جان چھوڑنے کا!!!‘‘۔ انکی پھر جھڑپ شروع ہونے والی تھی۔ جاب ملنے سے پہلے تو یہ تُو تُو میں میں کچھ سمجھ آتی تھی کہ گھر کے لوگ معاشی حوالے سے فکر مند رہتے تھے مگر جاب کے بعد یہ چیز سمجھ سے باہر تھی۔
’’ہر وقت کہتی رہتی تھیں نا کہ جاب کیوں نہیں ملتی……‘‘۔ ذولفقار بولا۔
’’ہاں تو ساری عمر خدمتیں کر کر کے…… اتنے پیسے لگالگا کے…… پِھر کیا تمھیں نچواؤں؟‘‘ اس کی امی کا غصہ منٹوں میں آسمان کو چھو گیا۔
’’تو کون سا احسان کیا ہے…… سب ہی اپنے بچوں کے ساتھ یہ سب کچھ کرتے ہیں‘‘۔ ذولفقار نے پھر بد تمیزی کی جبکہ وہ دل میں خوب سمجھ رہا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں کر رہا۔ مگر اس کا جیسے خود پر قابو ہی نہ تھا۔
’’کیسی باتیں شروع کر دیں ہیں آ پ لوگوں نے…… اچھے بھلے آرام سے بیٹھے تھے…… اب تو جاب ہو گئی ہے نا …… اﷲ کا شکر کریں‘‘۔ عائشہ نے سمجھانا چاہا۔ دونوں چپ ہو گئے۔ ذولفقار اٹھ کر وہیں چھت پر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہ خاموشی سے اندر کمرے میں رکھے ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔
’’کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ فضول باتیں کرنے کی…… پہلے ہی گھر کا ماحول کچھ اچھا نہیں ہے‘‘۔ وہ سوچنے لگا۔ مگر جو جادو اس پر کیا جا رہا تھا اس کا اثر تو ہونا ہی تھا۔

’’عائشہ ! لگتا ہے نیچے فون بج رہا ہے…… جاؤ جلدی سے اٹھا لو‘‘۔ ذولفقار کی امی کو چھت پر بیٹھے بیٹھے ہلکی سی فون کی رنگ سنائیدی۔
’’دیکھو کون ہے؟‘‘۔ وہ پھر بولیں۔ عائشہ فون کی رنگ سننے کی کوشش کرتے ہوئے اٹھی اور جلدی جلدی سیڑھیا ں اترتی نیچے چلی گئی۔

’’ذولفقار نیچے آؤ……‘‘۔ نیچے سے عائشہ کے پکارنے کی آواز آئی۔ ’’امی!…… ذولفقار کو نیچے بھیجیں جلدی……‘‘۔ عائشہ نے اور زور سے آواز دی۔ امی کا دل دھڑک سا گیا وہ تیز تیز قدم چلتی ذولفقار کے پاس کمرے میں پہنچیں ۔
’’ذولفقار نیچے جاؤ …… عائشہ کہہ رہی ہے کسی کا فون آ یا ہے‘‘۔
’’کس کا؟‘‘۔ ذولفقار اپنے خیالوں کے جھرمٹ سے نکلا اور فوراََ اٹھ کر کمرے سے باہر نکلا۔ اسکی امی بھی اس کے پیچھے پیچھے چھت سے نیچے آئیں۔
’’نیچے آؤ کسی این جی او سے فون ہے…… جلدی آؤ‘‘۔ عائشہ نے ذولفقار کو سیڑھیوں سے اترتا دیکھ کر کہا۔
’’آرہا ہوں …… کیا ہو گیا؟‘‘۔ ذولفقار سنجیدہ ہو گیا کہ نا جانے کس کا فون آ گیا ہے۔

’’وحید کسی این جی او میں ہے‘‘۔
’’کسی این جی او سے فون آیا ہے ، کہہ رہے ہیں کہ آپ کا بھائی ایڈمٹ ہے……‘‘۔ عائشہ نے جلدی جلدی بتانا شروع کر دیا۔
’’این جی او!!!‘‘۔ ذولفقار حیرانی سے بولااور فون کی طرف لپکا۔
’’ہائے اﷲ! کہاں ایڈمٹ ہو گیا!!!‘‘۔ان کی امی فکر مند ہو کرزور سے بولیں ۔ وہ گھبرا گئیں کہ ناجانے کیا ہو گیا ہے۔

’’ہیلو…… السلام و علیکم‘‘۔ ذولفقار نے فون کا ریسیور کان سے لگایا۔
’’و علیکم السلام! سر میں سی آر اے پی سے بات کر رہی ہوں…… ہمارے پاس مسٹر وحید ایڈمٹ ہوئے ہیں……‘‘ دوسری طرف سے کسی خاتون کی آواز آئی۔
’’کہاں سے؟؟؟‘‘۔ ذولفقار نے بات کاٹ کر پوچھا۔
’’سی آر اے پی سے بات کر رہی ہوں……ہم addictedلوگوں کی rehabilitationکرتے ہیں…… اٹس این این جی او…… ہمارے پاس مسٹر وحید ایڈمٹ ہوئے ہیں۔ آپ کل صبح گیارہ بجے سینٹر آ کر مل لیجئے۔‘‘
’’اچھا! اچھا!‘‘۔ ذولفقار کا ذہن الجھ سا گیا تھا۔ کچھ دیرتک تو اسے کچھ سمجھ نہیں آ یا۔ وہ ساری باتوں کے تانے بانے ملانے کی کوشش کرنے لگا۔ یہ تو ان سب کو خوب معلوم ہی تھا کہ وحید چرس کا عادی ہو چکا ہے۔ مگر اچانک وہ کسی ایسے سینٹر پہنچ جائے گا اس کا کسی کو گمان نہ تھا۔

’’وحید احمد کی بات کر رہی ہیں نا آپ؟‘‘۔ اس نے ایک بار پھر اپنا شک دور کرنے کے لئے پوچھا۔
’’جی ہاں مسٹر وحید احمد…… طارق روڈ اپنا ایڈریس بتا رہے ہیں‘‘۔انہوں نے بہت پروفیشنل انداز میں جواب دیا۔ ناجانے وہ ایسی کتنی کالز روز کرتی ہوں گی۔
’’اوکے؟؟‘‘۔ انہوں نے ذولفقار سے پوچھا۔
’’اوکے۔ آپ اپنا ایڈریس بتا دیں، ہم کل آ جائیں گے‘‘۔ ذولفقار نے ان کا پتہ نوٹ کیا اور بات ختم کی۔

دوسرے دن صبح یہ سب اس سینٹر پہنچ گئے۔ریسپشن پر معلومات لیں اور ایک ملازم کے ساتھ وحید سے ملنے اس کے کمرے میں پہنچے۔ ان کی والدہ لگاتار بات بات پر آنسو بہا رہیں تھیں۔

’’ادھر پہنچ گئے تم؟؟؟‘‘کمرے میں داخل ہوتے ہی ذولفقار کی امی وحید کے گلے لگ کر رونے لگیں۔
’’کتنا تمھیں سمجھاتے تھے…… کتنا کہتے تھے……‘‘۔ وحید چپ چاپ کسی بت کی مانند بستر پرٹیک لگائے بیٹھا تھا۔شاید اسے کچھ ادویات دی گیئں تھیں۔ جس کے باعث وہ نیند کی سی کیفیت میں تھا۔

’’کیسے ہو وحید؟‘‘۔ عائشہ بالکل رونے والی ہو رہی تھی۔ ذولفقار کے پاس بیٹھنے کو کوئی جگی نہ تھی۔ وہ وہیں وحید کے بستر کے پاس کھڑا تھا۔

’’کچھ بولو نا…… بول کیوں نہیں رہے!!!‘‘۔ امی وحید کا ہاتھ پکڑ کر اسے چومنے لگیں۔
’’وحید! کچھ بولو…… !!! کیسے ہو؟‘‘۔ ذولفقار کی آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی۔ شاید اس کی بھی آنکھوں سے آنسو جاری ہونے والے تھے۔ اپنے چھوٹے بھائی کو، جس کے ساتھ اس نے بچپن میں کھیلا تھا، لڑا جھگڑا تھا، ساتھ گھوما پھرا تھا، آج اس حالت میں دیکھ کر اس سے صبر نہیں ہو پا رہا تھا۔

’’السلام و علیکم!‘‘۔ کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک لیڈی ڈاکٹرکمرے میں داخل ہو ئیں۔ سب ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔
’’دو دن پہلے ایڈمٹ ہوئے ہیں یہ……‘‘
’’آپ لوگ فکر نہ کریں…… اتنا مشکل کیس نہیں ہے…… جلد ریکوری ہو جائے گی‘‘۔
’’سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ خود یہاں اپنی خوشی سے آئے ہیں…… اور ہم سب سے بہت تعاون کر رہے ہیں‘‘۔
’’میں اپنے آفس میں ہی ہوں …… آپ لوگ تھوڑی دیر میں فارغ ہو کر وہاں آ جائیں…… کچھ ہسٹری لینی ہو گی ان کی…… ‘‘۔ یہ کہہ کر وہ وحید کی طرف بڑھیں۔

’’کیسے ہو وحید؟؟؟‘‘
’’ذیادہ بے چینی تو نہیں ہو رہی؟؟؟ ‘‘ ۔ انہوں نے زرا اونچی آواز میں وحید سے پوچھا جیسے عام طور پر ڈاکٹر حضرات مریضوں سے پوچھا کرتے ہیں۔
’’تھوڑے دنوں کی بات ہے…… انشاء اﷲ پندرہ بیس دن تک حالت بہتر ہو جائے گی‘‘۔ ’’او کے؟؟؟‘‘
وحید نے سر ہلا کر او کے کا جوابی اشارہ کیا۔

’’کتنے دن رکھنا ہو گا؟؟؟‘‘۔ ذولفقار کی امی نے فکرمندی اور پریشانی سے پوچھا۔
’’ام م م ……ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے…… آپ لوگ ذہن میں کم از کم چھ ماہ رکھیں……مگر آئندہ جو پراگرس ہو گی اسی پر ڈیپنڈ کرتا ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحبہ نے جواب دیا۔ امی کا چہرہ مزید اتر گیا۔
’’ایسا کریں آپ میرے ساتھ آجائیں‘‘۔ انہوں نے ذولفقار کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور دونوں وحید کے کمرے سے نکل گئے۔

ڈاکٹر سے ملنے کے بعدذولفقار باہر ہی اس سینٹر کے گارڈن کی بینچ پر بیٹھ گیا۔ بہت بھاری سا دل ہو رہا تھا اس کا۔
’’یا اﷲ!……‘‘۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا۔
’’بے چارہ……کتنا اچھا بھائی تھا میرا!!! …… ‘‘۔ اس کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی۔
’’یا اﷲ اسے جلدی سے ٹھیک کر دے۔ آمین‘‘۔ اس نے دل کی گہرائیوں سے اپنے بھائی کے لئے دعا کی۔’’تیرا کتنا احسان ہے مجھ پر……‘‘۔

وحید ان لوگوں کے ہاتھ سے تو نکل چکا تھا۔مگر ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق وحید از خود یہاں علاج کے لئے آیا تھا۔ذولفقار کو یہ جان کر بہت اطمینان ہوا۔اوپر سے یہ تھا بھی ایک فلاحی ادارہ اور انہیں صاف صاف بتا دیا گیا تھا کہ کسی بھی قسم کی کوئی مالی زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔وحید کے علاج کے سارے اخراجات یہ این جی او ہی برداشت کرے گی۔ ورنہ اتنے پیسے وحید پر لگانے کی ان کی گنجائش کہاں تھی!!!

’’یا اﷲ! تو نے کتنا اچھا معاملہ کیا ہے…… ہمیں ذرا سی بھی تکلیف نہ دی‘‘۔ ذولفقار کی آنکھیں بھر آئیں ۔ وہ بار بار اﷲ کا شکر ادا کر رہا تھاکہ اب وحید اچھا ہو جائے گااور اس معاشی تنگدستی کے دنوں میں ان پر ذرا سا بھی وحید کے علاج کا بوجھ نہ پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔

ذولفقار تیار ہو کر یونیورسٹی پہنچا۔ کئی طالب علم اور اساتذہ آگے پیچھے یونیورسٹی آ رہے تھے۔ اس کی کلاس شروع ہونے میں ابھی کافی وقت تھا۔ وہ چائے پینے کچن میں پہنچا۔ چند ایک اور ٹیچرز بھی وہاں موجود تھے۔
’’اسلام و علیکم!‘‘۔ ذولفقار نے وہاں کھڑے دو حضرات سے ہاتھ ملایا۔
’’و علیکم السلام! …… آ پ نے ابھی جوائین کیا ہے نا؟؟؟‘‘۔ ایک صاحب بولے۔
’’میں ریحان‘‘۔ دوسرے صاحب جو ساتھ ہی کھڑے تھے نے اپنا تعارف کرایا۔
’’میں ذولفقار …… جی میں نے ابھی ہی جوائین کیا ہے‘‘۔ ’’ بس ایک ہفتہ ہوا ہے تقریباََ……‘‘۔ ذولفقار نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ چند فی میل ٹیچرز ان کے پیچھے کھڑی چائے بنا رہی تھیں اور ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی آواز میں باتیں کر رہی تھیں۔ شاید وہ اپنی باتیں میل ٹیچرز سے خفیہ رکھنا چاہتی تھیں۔

’’ویلکم ! میں آصف‘‘۔ وہیں کھڑے ایک اور حضرت نے ذولفقار کو مخاطب کیا۔
’’تھینک یو‘‘۔ ذولفقار نے شکریہ ادا کیا۔
’’کون سا سبجیکٹ پڑھا رہے ہیں آپ؟‘‘۔ سر آصف پوچھنے لگے۔ وہ ذولفقار سے کوئی چار پانچ سال سینیئر ہوں گے۔
’’مجھے انڈسٹرئیل آٹومیشن دیا ہے‘‘۔ ذولفقار نے جواب دیا۔ وہ نیا نیا آیا تھا۔ وہ تھوڑا جھجھک رہا تھا سینیئر ٹیچرز سے بات کرتے ہوئے۔
’’او…… ‘‘۔ سر آصف سر ہلانے لگے۔
’’اور …… آپ……؟؟؟ آپ کتنے عرصے سے ہیں؟؟‘‘۔ ذولفقار نے بھی جواب میں پوچھ لیا۔
’’مجھے یہاں پانچ سال ہو گئے ہیں پڑھاتے ہوئے‘‘۔ ’’ میں کنٹرول انجینیرنگ پڑھا رہا ہوں‘‘۔
’’اچھا ! ما شاء اﷲ‘‘۔
اتنے میں کچھ فی میل ٹیچرز چائے بنا کر باہر نکل گئیں، مگر ایک ٹیچر ابھی بھی وہیں کھڑیں تھیں، چائے کی الیکٹریکل کیٹل کا بٹن دبائے، پانی گرم ہونے کے انتظار میں……
گابی رنگ کا جوڑا زیب تن کئے…… وہی جوبصورت، اسمارٹ جسم، سیدھے لمبے براؤن بال جن میں ایک بل بھی نا تھا۔ذولفقار فوراََ پہچان گیا کہ یہ وہی ہے۔ مگر اب تک وہ سامنے سے ان کا چہرہ نہ دیکھ پایا تھا۔ ذولفقار کا جی چاہا کہ تھوڑا دائیں جانب سرک کر دیکھے کہ یہ وہی ہیں یا کوئی اور ……

وہ ایک قدم دائیں جانب ہوا اور اس سراپا حسن پر ایک نظر ڈالی۔ اس نے بھی منہ موڑ کر دیکھا ، ایک نظر اس پر ڈالی پھر جائے کے پانی کو دیکھنے لگیں۔
’’اوہ…… یہ……‘‘۔ نیلوفر نے اپنے آپ سے کہا اور اپنی ظلفوں کو ایک انگلی سے اپنے کاندھوں سے اٹھا کر پیچھے کو ڈال دیا۔

ذولفقار کچھ جھجھک سا رہا تھا۔ وہ ایک ایسی لڑکی تھی کہ کوئی اسے نا پسند کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اس نے دل میں سوچا کہ ہمارا تعارف تو ہو ہی چکا ہے، میں اسے سلام کیوں نہ کر لوں۔ مگر پھر وہ رکا کہ اب تو بہت دیر ہو چکی ہے، اگر بات کرنی ہی تھی توپہلے ہی کر لینی چائیے تھی، جب اس نے اس کی طرف دیکھا تھا۔

نیلوفر نے اپنے بیگ سے اپنا آئنہ نکالااور اپنا چہرہ دیکھنے لگی۔ اس کی نظروں میں خود کے لئے تعریف تھی۔ وہ بھی جانتی تھی کہ وہ کتنی خوبصورت لگ رہی ہے۔ اور یہ بھی جانتی تھی کہ ابھی کتنے ہی میل ٹیچرز تحسین آمیز نظروں سے اسے کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ خاص طور پر ذولفقار۔

چائے کا پانی کافی دیر سے ابل رہا تھا۔ نیلوفر جانتی تھی کہ پانی ابل چکا ہے مگر وہ جان بوجھ کر خود کو آئنے میں غرق کئے ہوئے تھی تا کہ کوئی اسے ٹوکے اور وہ……

’’ام م م…… سوری ! وہ پانی بوائل ہو گیا ہے‘‘۔ ذولفقار نے دھیمے سے لہجے میں کہا۔ نیلوفر نے کچھ خاص توجہ نہ دی، بلکہ اسے دیکھا تک نہیں۔ تھوڑا توقف کیا۔ پھر آرام سے اپنا چھوٹا سا آئنہ بند کیا، اسے بیگ میں ڈالا، اور ٹوکنے والے پر نظر کئے بغیر بڑی بے نیازی سے کپ میں پانی انڈیلااور چل دی۔

ذولفقار خود کو بڑا بے وقعت سا محسوس کرنے لگا۔ پیچھے کھڑے میل ٹیچرز من ہی من میں مسکرائے۔ وہ تو نیلوفر کی اداؤں سے خوب واقف ہی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔

ذولفقار نے ایک چھوٹے سے گلاس میں آب زم زم لیا اور اوپر اپنے کمرے میں آیا۔کسی نے محلے میں عمرہ کیا تھا اور انہیں آب زم زم اور عجوہ کھجوریں بھجوائیں تھیں۔ کل اتوار تھا۔ یونیورسٹی نہیں جانا تھا۔ لہذا اس نے عشاء کے بعد عبادت کا اہتمام شروع کر دیا۔ کمرے میں لیمپ جلایاجس کی ہلکی ہلکی روشنی نے کمرے میں بڑا پیارا سا سما باندھ دیا۔ جائے نماز بجھائی اور اس پر عطر مل دیا۔پھر تھوڑا سا عطر اپنے کپڑوں پر بھی لگایا۔عشاء کی نماز وہ مسجد میں پڑھ آیا تھا۔ اس نے قرآن مجید ہاتھ میں لیا اور مصلے پر بیٹھ کر لیمپ کی ہلکی ہلکی روشنی میں اس کا ترجمہ پڑھنے لگا۔کئی ایک آیات پڑھ کر اس پر رقت طاری ہو جاتی اور اس کی آنکھیں بھر آتیں ۔ پھر وہ اٹھا اور دو نفل ادا کئے ۔ پھر ہاتھ اٹھا کر اﷲ سے دعائیں مانگنے لگا۔

’’اے اﷲ تعالی! تیرا لاکھ احسان ہے مجھ پر …… تو نے وحید کو ٹھیک کرنے کا ذریعہ بنایا۔ مجھے جاب دلا دی۔ مجھے اپنی طرف بلایا…… مجھے سیدھے رستے پر لگایا…… ‘‘
’’……اور یہ دنیا کی زندگی تو نرا ایک کھیل اور تماشہ ہے اور کچھ نہیں……‘‘(سورۃ انعام)۔ اس نے قرآن مجید کی ایک آیت پڑھی اور کہنے لگا۔ ’’اے اﷲ! مجھے اب دوبارہ اس دنیا کے کھیل تماشے میں غرق نہ کرنااﷲ!‘‘۔
’’میں کتنا برا لڑکا تھا! میں نے کتنے برے کام کئے ہیں!‘‘ ذولفقار اپنے گزرے ہوئے وقت کو یاد کرنے لگا۔
’’……اگر تم اﷲ کی شکر گزاری کرو اور اس پر ایمان رکھو ، تو خدا کو تمہیں عذاب دے کر کیا کرنا ہے…… اﷲ تو شکر گزاروں کا قدردان اور ان کے حال سے واقف ہے……‘‘۔’’…… سو جو لوگ اﷲ پر ایمان لائے اور انہوں نے اسی کا سہارا پکڑا تو اﷲ بھی ان کو عنقریب اپنی رحمت کے سائے اور فضل کی پناہ میں لے لے گا اور ان کو اپنے حضور تک پہنچنے کا سیدھا رستہ بھی دکھا دے گا……‘‘ (سورۃ النساء)۔
اور پھر شیطان نے اس کے دل میں وسوسہ ڈالا اور اچانک ذولفقار کا ذہن نیلوفر کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس کی خوبصورتی، اسکی ادائیں…… اور نا جانے کیا کیا……
کچھ دیر بعد اس نے اپنے ذہن کو جھڑکا اور قرآن مجید ہاتھ میں لے کر بولا۔
’’یہ سب دنیاوی خیالات تو میرے دل میں آتے ہی رہیں گے اﷲ! ……کہ شیطان جو میرے پیچھے پڑا ہے…… نہ جانے کیسے کیسے طریقوں سے مجھے بہکانا چاہتا ہے……‘‘ ’’……لیکن خدایا! مجھے بچانا! اور جس راستے پر چل کر مجھے تیری رضا ملے ، مجھے بس اسی پر چلانا…… خدایا مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ ان برائیوں سے بچ سکوں…… اور اس دنیا میں تو ناجانے کیا کیا دھوکے بھرے پڑے ہیں …… میں کہاں لوگوں اور شیطان کے فریب سے بچ سکتا ہوں‘‘۔ ’’ مجھے بچانے والا تو بس ایک تو ہی ہو سکتا ہے‘‘۔

رات کے دو بج چکے تھے بلشاکمرے میں داخل ہوا۔ ذولفقار وہیں جائے نماز پر بیٹھا دعائیں مانگ رہا تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ رات کے اس پہر آیا ہو اور ذولفقار جاگ رہا ہو۔ وہ وہیں ذولفقار کے بیڈ پر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا۔اور تیوری چڑھا کر ، تیکھی نظروں سے ذولفقار کو گھورنے لگا۔

’’ہونھ …… زمانے گزر گئے …… آج تک میں اپنے عمل میں نا کام نہیں رہا‘‘۔ بلشا اپنے آپ کو داد دے رہا تھا۔اسے اپنے علم پر بڑا گھمنڈ تھا۔
’’آج تو ویسے بھی میرا آخری وار ہے ابن آدم!‘‘۔

اس کا جادو آج مکمل ہو جانا تھا۔ وہی جادو جو اس نے اپنے جد حکما سے سیکھا تھا۔ یہی وہ علم تھا جس کی بدولت اس کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ اس کا علم اسے دھوکہ دے جائے، ایسا کبھی نہ ہوا تھا۔ جب بھی جس پر بھی یہ جادو چلایا…… اس کا کام تمام کر ڈالا۔ بہت مغرور تھا وہ اپنی جنس میں…… بہت احترام تھا اس کا اس کے کارناموں کی بدولت…… مشکل سے مشکل کام اسی کے سپر کیا جاتا تھا۔ اور یہ کام…… یعنی اولاد کو اس کے والدین کا دشمن کر دینا ، کوئی آسان کام نہ تھا۔ مگر بلشا تو لفظ ناکامی سے ناوقف تھا۔

ذولفقار مسلسل قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر پڑھ رہا تھا۔
جادوگر بولے، ’’موسی! تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں؟‘‘
موسی نے کہا، ’’ نہیں ، تم ہی پھینک چلو!!!‘‘۔ یکایک جادوگروں کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے زور سے موسی کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں، اور موسی دل ہی دل میں ڈر گئے۔ ہم (اﷲ) نے کہا ’’ڈر مت! تو ہی غالب رہے گا‘‘۔
’’پھینک (اپنا عصا) جو تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی ان کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلے جاتا ہے‘‘۔
’’ یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں ……یہ تو جادو کا فریب ہے، اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، خواہ کسی شان سے آئے‘‘۔(سورۃ طہ)

’’جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا!!!‘‘۔
’’جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا!!!‘‘۔ ذولفقار دہرانے لگا۔ ’’خواہ کسی شان سے آئے ……‘‘۔
’’اے اﷲ! مجھے اپنی حفاظت میں رکھنا‘‘۔ ’’اے اﷲ! مجھے اپنی پناہ میں رکھنا‘‘۔ ذولفقار اپنے خوفناک خوابوں کو یاد کر کے اﷲ کی پناہ مانگنے لگا۔وہ یہی دہراتا ہوا مصلے سے اٹھا اور بستر کی جانب بڑھا۔بلشا فَٹ سے بستر سے اٹھ کر نیچے آ کھڑا ہوا۔ وہ ذولفقار کو دیکھ سکتا تھا مگر ذولفقار اُسے نہیں۔ دونوں فرشتے ذولفقار کے دائیں اور بائیں کھڑے سارا ماجرا دیکھ رہے تھے۔ذولفقار نے ہاتھ میں پکڑا آب زم زم تھوڑا سا پیا اور باقی میز پر رکھے جگ میں انڈیل دیا۔ایک عجوہ کھجور کھائی اور تسبیح کرتے کرتے بیڈ پر لیٹ گیا۔ اﷲ نے اس کی روح اپنی اور بلا لی اور وہ سو گیا۔

بلشا بڑے اہتمام سے ذولفقار کے بیڈ کے عین سامنے چونکڑا مار کر بیٹھ گیا۔ وہ اپنا عمل شروع کر چکا تھا۔ کافی دیر اسی طرح بیٹھے منتر پڑھنے کے بعد وہ اٹھا اور بڑی بے نیازی سے اپنی دم لہراتا ہوا ذولفقار کی جانب بڑھا۔ وہ گہری نیند سو رہا تھا۔ بلشا نے احتیاط سے ذولفقار کے سر کے تین بال توڑ لئے۔ پھر جگ سے آب زم زم گلاس میں انڈیل کر اپنا سحر چلانے لگا۔اس نے ذولفقار کا ایک بال ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا اور کوئی منتر بڑبڑا رہا تھا۔پھر وہ اس بال کو پانی میں گھولنے لگا۔ بال پانی میں گھل گیا۔ مگر پانی کا رنگ و بو سب جوں کا توں تھا۔ بلشا ایک لمحے کو ٹھٹھک سا گیا۔ہمیشہ کی طرح پانی کو لال ہو جانا چائیے تھا۔اس نے پانی کو گھورا کہ شاید وہ اسے صحیح طرح دیکھ نہیں پا رہامگر بے سود۔ بلشا نے سر جھٹک کر دوسرے بال پر عمل کیا اور اسے پانی میں گھولا…… مگر بے سود…… آب زم زم تو ایسا شفاف تھا جیسے ابھی ابھی کنویں سے نکالا گیا ہو…… بلشا کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ ایک لمحے کو تو سکتے کی سی حالت میں جہاں تھا وہیں جم کر رہ گیا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کی ناکامی کا کیا مطلب ہے……اسکے ساتھیوں میں اسکی ذلت، لعنت، تمسخر، اس کی برسوں کی عزت کا خاک میں مل جانا……

’’کچھ غلط ہو گیا ہے!!!‘‘۔ بلشا کے ہاتھ ٹھنڈے پڑ چکے تھے۔ اسکے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ اپنے آپ کو تسلی دینے لگا۔ وہ خوب جانتا تھا کہ ایسا ناممکن ہے۔ کئی سو سالوں سے وہ ناجانے کتنے لوگوں کو اپنے سحر کا شکار بنا چکا تھا۔کتنے شوہروں اور بیویوں میں جدائی ڈال چکا تھا، کتنے بچوں کو ان کے والدین کا نافرمان بنا چکا تھا ،کتنے بھائیوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن کر چکا تھا…… یہ سب تو اس کے لئے بچوں کا کھیل تھا۔

’’ایسا نہیں ہو سکتا…… یہ کیسے ہو گیا!!!‘‘۔ وہ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگا۔ اسے اپنے حواس پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ’’نہیں نا ممکن ہے……‘‘۔ وہ پھر کچھ سوچ کر بڑبڑایا کہ اس کی ناکامی ناممکن ہے۔
’’کچھ غلط ہو گیا ہے……‘‘۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ وہ چند قدم پیچھے ہوا۔ شاید وہ اپنا عمل دوبارہ سے شروع کرنا چاہتا تھا۔پھر نا جانے اس کے دل میں کیا خیال آیا…… وہ پلٹا اور ذولفقار کے سینے پر چڑھ گیا۔ ’’غا غا غا ……‘‘۔ اس کے منہ سے ایک عجیب گھناؤنی چیخ نکلی ۔ اسے ایسا لگا جیسے وہ دہکتے انگاروں پر بیٹھ گیا ہو۔ وہ ایک زور دار جھٹکے سے اڑتا ہوا کمرے کی دیوار سے ٹکرایا اور ایک کونے میں جا پڑا۔بلشا سر سے پاؤ ں تک کانپنے لگا۔
’’کون ہے ! کون ہے!!!‘‘۔ وہ چلانے لگا۔ ایک شور و غل مچ گیا۔ ’’غا غا غا……‘‘۔ وہ کراہ رہا تھا۔ یہ کونسی طاقت ہے جس نے ذولفقار کو بچا لیا۔ یہ کیسے ہو گیا۔ یہ کیا ہو گیا۔ بلشا اپنے جھلسے ہوئے تلوؤں کو پکڑ کر چیخ رہا تھا۔وہ درد کی شدت سے گھسٹ گھسٹ کر کمرے کے دائیں بائیں تڑپنے لگا۔ وہ اڑنا چاہتا مگر ہمت نہ کر پاتا۔ایک ہی وار میں اسے یقین ہو گیا کہ جو بھی طاقت ذولفقار کی حفاظت کر رہی ہے…… جان لیوا ہے ۔ وہ طاقت اب اسے زندہ نہیں چھوڑے گی۔

وہ سسکتا ہوا کمرے کے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا۔وہ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا کہ نا جانے اب اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔شاید اس کے لئے یہ ایک قیامت کا دن تھا۔ جب اس کا سارا کیا کرایا لمحہ بھر میں برباد ہو گیا تھا۔بلشا اپنی موت کا انتظار کرنے لگا۔ ویسے بھی اب اس کے لئے موت ہی بہتر تھی۔ جس گھمنڈ اور غرور سے وہ اپنے شیطان ساتھیوں کے ساتھ رہتا تھا، اب وہ زندگی ممکن نہ تھی۔ اس کی اس ناکامی کا مطلب تھا ہمیشہ کی ذلت، رسوائی اور سب سے بڑھ کر درگاندہ دربار ابلیس ہونا……

بلشا کا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ وہ خوب جان چکا تھا کہ جس طاقت نے اس کے نا قابل شکست سحر کو بے اثر کر دیا ہے اس کا منبہ کوئی ایسی ذات ہے جس کا کوئی مقابل نہیں ۔ وہ اس دنیا میں تو ایسی کسی طاقت کو نہ پہچانتا تھا۔ یہ تو کوئی آسمانی وار تھا…… وہ خوب جان چکا تھا کہ حق چھا گیا اور باطل مٹ گیا۔ وہ مان گیا کہ اس کا سارا شعبدہ جھوٹ، مضر اور باطل ہی تھا۔

بہت دیر تک وہ ایسے ہی سہما کانپتاکمرے کی دو دیواروں کے کونے میں دبک کر بیٹھا رہا۔ پھر چاہا کہ کسی طرح وہاں سے بھا گ جائے۔ وہ سسک سسک کر کمرے کی کھڑکی کی طرف بڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔جو ذولفقار کے بیڈ کے عین پشت پر تھی۔ شاید وہ وہاں سے فرار چاہتا تھا۔ تھوڑا قریب جانے پربلشا کو ذولفقار کے گرد ایک حصار سا نظر آیا۔جیسے ایک دائرہ ہو، ہوا میں معلق، نیلی نیلی بجلی کی سی لہریں اس میں جلتی بجھتیں……ذولفقار اس حصار کی حفاظت میں اطمینان کی نیند سو رہا تھا۔

بلشا کا ذولفقار کے قریب پہنچنا تھا کہ فدائیل اور سومائیل نے میان سے تلواریں نکال لیں……بجلی کا حصار ایسے کڑکنے چمکنے لگا جیسے طوفان میں بجلی کے کڑکنے کی آوازیں آتی ہیں اور آسمان چمک اٹھتا ہے۔پورا کمرہ دہل رہا تھا۔ بلشا وہیں سہم کر اپنا منہ ٹانگوں میں چھپا کر کراہنے لگا۔
’’مجھے معاف کر دو…… مجھے بخش دو……‘‘۔
’’میں اس کی اطاعت کرتا ہو جس نے ذولفقار کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہے‘‘۔ بلشا ذولفقار کے بچھائے ہوئے مصلے کی طرف بڑھنے لگا۔ ’’مجھے بچا لو…… ‘‘۔ اچانک کمرے میں بجلی سی کڑکی اور بلشا سجدے میں گر پڑا۔ وہ پہچان گیا تھا کہ جو کچھ آج اس کے ساتھ ہو رہا ہے کوئی جادو ٹونا، جنتر منتر نہیں……
’’میں اس طاقت کی بڑائی کا اقرار کرتا ہوں …… میں اس ذات سے معافی مانگتا ہوں جس کی عبادت میں یہ آدمی جُتاتھا……میں بخشش مانگتا ہوں……میں بخشش مانگتا ہوں……میں بخشش مانگتا ہوں……‘‘۔ بلشا زار و قطار رونے لگا،فریاد کرنے لگا۔

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 86320 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More