وحید کی زندگی برباد ہو رہی تھی۔
اس کی زندگی میں کبھی ایسا موقع بھی آئے گا، اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
وہ تو اپنے گھر کا چہیتا تھا۔امی کی آنکھوں کا تارا، اپنے ابو کا
لاڈلاچھوٹا بیٹا…… جب بھی کچھ چاہا سو ملا۔ مگر اب وہ چرس کا عادی اپنے آپ
سے بیزار ایک انسان تھا۔ جس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں تھا۔شکل و صورت سے
بھی اب وہ کوئی نشوئی ہی لگتا…… کپڑے بھی ڈھیلے ڈھالے ، میلے ……وہ کوئی
آوارہ لڑکا ہی نظر آتا جسے اپنا کچھ ہوش نہ ہو……گھر سے باغی……وہ اپنوں ہی
کو اپنا دشمن سمجھتا……اور غیروں میں اپنائیت ڈھونڈے کی کوشش کرتا……
’’اس بندے سے کہتا ہوں……‘‘۔ وحید نے بس اسٹاپ پر کھڑے ایک شخص کے بارے میں
سوچا۔ گھر کی حالت کا تو اسے پتا چل چکا تھا کہ اب وہاں سے کچھ مال ملنے
والا نہیں۔ وہ شخص آگے بڑھ کر ایک بس میں چڑھ گیا۔
’’کیسے کروں……‘‘۔ وہ بہت جھجھک رہا تھا۔ اس نے ایک اور آدمی کو بس اسٹاپ
پرکھڑا دیکھا اور اس کی طرف ایک قدم بڑھا کرپھر رک گیا۔ اس کا چہرا اور کان
گھبراہٹ اور شرم کی ملی جلی کیفیت سے لال ہو رہے تھے۔ اس کا دل تیزی سے
دھڑک رہا تھا۔ اتنے میں وہ آدمی چل کر اس سے زرا دور جا کھڑا ہوا۔ وحید پھر
ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
’’چلو ان بزرگ سے کہتا ہوں…… شاید یہاں کچھ بات بن جائے……‘‘۔ اس نے بس
اسٹاپ پر کھڑے ایک بزرگ کے بارے میں سوچا جو حال حلئیے سے نرم مزاج سے لگ
رہے تھے۔ وہ چل کر ان کے قریب آ گیا اور ان کی طرف دیکھا تا کہ ان کی توجہ
حاصل کر سکے۔ انہوں نے بھی وحید کو ایک نظر دیکھا پھر لا پر وائی سے بس کے
انتظار میں آنے والی ٹریفک پر نظریں گاڑھ دیں۔
وحید بار بار کچھ سوچتے ہوئے ان کی طرف دیکھتا پھر ہمت ہار کر سامنے دیکھنے
لگتا۔ اسے بہت ڈر لگ رہا تھا۔
’’ایکسکیوز می!‘‘ اس بار جو ان سے نظریں ملیں تو وہ ایک قدم ان کی جانب
بڑھا اور شرمندہ سا ہو کر کہا۔
’’جی!‘‘۔ انہوں نے نہایت کرخت انداز میں کہا۔ ان کا لہجے ان کے حلئیے کے
بالکل متضاد تھا۔
’’وہ…… ایکچلی……‘‘۔ وحید کے منہ میں جیسے الفاظ پھنس گئے۔ ان کے تیور اور
سخت ہو گئے۔
’’وہ…… میرا والٹ گم ہو گیا ہے‘‘۔بزرگ سامنے دیکھنے لگے۔ ’’ میرے پاس گھر
جانے کے لئے کرایہ نہیں ہے……‘‘۔ وحید پھر چپ ہو گیا۔ ’’پلیز کچھ ہیلپ کر
دیں!!!‘‘۔ وحید نے جو جھوٹی کہانی ذہن میں سوچ رکھی تھی اُنہیں کسی امید پر
ڈر ڈر کر سنا ڈالی۔
’’اچھا!!!…… بٹوا نہیں ہے؟؟؟‘‘۔ بزرگ نے اونچی آواز میں کہا۔ آس پاس کھڑے
لوگ انہیں دیکھنے لگے۔
’’جی‘‘۔ مشکل سے وحید کے منہ سے نکلا۔ بڑے میاں حقیر نظروں سے اسے دیکھنے
لگے جیسے ابھی اس کے منہ پر ایک طمانچہ ہی رسید کر دیں گے۔
’’کتنے پیسے چائیے تمہیں؟؟؟‘‘۔ انہوں نے طنزیا انداز میں پوچھا۔ ان کی آواز
ویسی ہی اونچی تھی۔ بس اسٹاپ پر کھڑے ہر شخص کی توجہ انہی پر مزکور ہوگئی۔
وحید کے ذہن میں اب تو بس یہی تھا کہ کسی طرح یہاں سے بھاگ جائے۔اسے پتا چل
چکا تھا کہ اس نے جس کام کا آغاز کرنا چاہا تھا وہ اس میں بری طرح نا کام
ہو گیا ہے ۔ وہ اپنے پہلے ہی شکار کے ہاتھوں خود شکار ہو گیا تھا۔
’’کتنے پیسے چائیے؟؟؟‘‘۔ بزرگ نے پھر طنزیا انداز میں پوچھا۔ وحید کے پاس
کوئی اور چارہ نہ تھا۔ تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اب یہ کہانی ختم کر کے ہی
اسے فرار تھا۔
’’سوری…… جو آپ سے ہو سکے!‘‘۔ وحید نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا۔
’’جانا کہاں ہے تمہیں؟؟؟‘‘۔ بزرگ کے تیور اور چڑھ گئے۔ جیسے ان کا پالا روز
ایسے فراڈیوں سے پڑتا ہو۔
’’کیا بھول گئے ہو کہاں جانا ہے؟‘‘۔ وہ چیخے۔
’’دفع ہو جاؤ…… بے غیرت آدمی!‘‘ ۔
’’روز تم جیسے ہزار لوگ آ جاتے ہیں……شرم نہیں آتی اتنے جوان جان ہوتے ہوئے
بھیک مانگتے ہو‘‘۔ وہ چیخ چیخ کر وحید کو بے عزت کر رہے تھے۔ وحید کا دل
زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ جیسے ابھی اسے ہارٹ اٹیک ہی ہو جائے گا۔ اس کی
آنکھیں لال ہو گئیں۔ وہ ڈر کر پیچھے کو ہٹااور آگے پیچھے دیکھے بغیر تیز
تیز قدم چلتا بس اسٹاپ سے دور بھاگنے لگا۔’’بے شرم لوگ!‘‘ پیچھے سے بدستور
اسے لعن طعن اور گالیوں کی آوازیں آ رہیں تھیں۔
وحید کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ چکے تھے۔ وہ وہاں سے بہت دور جا کر ادھ موئی سی
حالت میں ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے آساب پر قابو پانے کی کوشش کی۔
’’یہ میں کیا کر رہا ہوں؟‘‘
’’نہیں…… میں غلط کر رہا ہوں۔‘‘
’’میں کہاں جاؤں؟؟؟‘‘
’’میں کیا کروں؟؟‘‘۔ وحید اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپاکر رونے لگا۔ وہ
بہت بھوکا تھا اور نشے کی طلب میں مر رہا تھا۔
’’مجھے مر جانا چائیے……‘‘
’’میں مر جاتا ہوں……‘‘۔
’’مجھے خودگشی کر لینی چائیے……‘‘ اس کا جی چاہا کہ اپنے آپ کو مار ڈالے۔
’’ہائے……‘‘ وہ نڈھال ہو کر بینچ پر گر پڑا۔ ’’میں کیا کروں…… میں برباد ہو
گیا‘‘۔وہ بدستور رو رہا تھا۔ مغرب کاوقت تھا۔ لوگ آتے جاتے اسے عجیب نظروں
سے دیکھ رہے تھے۔ وہ ہر ایک سے بے خبر کسی مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا۔ اچانک
اسے ایک خیال آیا۔ وہ بینچ سے اٹھا اور سڑک پر کھڑا ہو کر بے چینی سے
گاڑیوں کو رکنے کا اشارہ کرنے لگا کہ کوئی اسے لفٹ دے دے۔ تھوڑی دیر بعد
کسی کو اس پر رحم آ گیا اور ایک گاڑی رک گئی۔
’’مجھے ایدھی سینٹر چھوڑ دیں‘‘۔ اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔
ذولفقار محلے کے چند بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہا تھا۔ ساتھ ساتھ پیپرز کی تیاری
بھی ہو رہی تھی۔ وہ حسن کے گھر اس سے پڑھائی کے متعلق کچھ سمجھنے پہنچا۔
’’اور بتاؤ کہیں سے کوئی جواب آیا؟‘‘ حسن نے اپنی طرف ذولفقار کی کتابیں
کرتے ہوئے پوچھا۔ وہ اس کی نوکری کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔
’’نہیں یار!……‘‘
’’ابھی تک صرف دو ہی انٹرویوز ہوئے ہیں…… وہ تو تمہیں بتا ہی دیا تھا میں
نے……‘‘
’’اس کے علاوہ تو اور کوئی جواب نہیں آیا۔ روز پتا نہیں کتنی کمپنیز میں سی
وی ڈال رہا ہوں……‘‘ ۔ ذولفقار نے پریشان کن لہجے میں بتایا۔ جو انٹرویوز اس
کے پہلے ہو چکے تھے ، وہاں سے تو کوئی خاطر خواہ جواب نہیں آیا آیا تھا۔
’’اچھا! …… چلو کوشش کرتے رہنا‘‘۔ حسن کو بھی افسوس ہو رہا تھا۔
’’شاید ساری hiringپہلے ہی ہو گئی ہے…… آئی مین دو تین مہینے پہلے تم سب
لوگوں نے اپلائے کیا تھا…… اب کافی دیر ہو چکی ہے‘‘۔ ذولفقار نا امید سا ہو
رہا تھا۔
’’چلو خیر! کوئی بات نہیں……‘‘۔
’’ہاں ! تھوڑا مشکل تو ہو گا اب…… مگر انشاء اﷲ ہو جائے گا‘‘۔حسن نے اسے
حوصلہ دیا اور اسے پڑھانے میں مصروف ہو گیا۔ چند دن بعد رمضانوں میں
ذولفقار کے پیپرز تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔
رمضان آ گئے۔ذولفقار کے پیپرز ہو چکے تھے۔ مگر وہ اب بھی بہت پریشان تھا۔
گھر کے مالی حالات روز بروز ابتر ہوتے جا رہے تھے۔ اب تو اس کی امی اور
عائشہ سے بھی آئے دن پیسوں کے معاملے میں تکرار ہوتی رہتی تھی۔ اور جاب نہ
ملنے پر تو آئے دن سب کے طعنے اسے سننے پڑتے تھے۔ مگر درحقیقت یہ تینوں ہی
پریشان تھے کہ آگے گھر کیسے چلے گا۔
’’آگے عید بھی آ رہی ہے…… کچھ سمجھ نہیں آ رہا…… یا اﷲ!‘‘۔ ذولفقار کی امی
نے پریشان کن لہجے میں کہا۔ عائشہ، ذولفقار اور انکی امی، تینوں صبح چار
بجے سحری کے لئے اٹھے ہوئے تھے۔ ناجانے کتنے عرصے بعد ذولفقار اس طرح
اہتمام سے سحری کے لئے اٹھ رہا تھا۔اور یہ ہی وہ پہلا رمضان تھا جس میں ان
کے ّآگے سحری افطاری میں بہت کم کھانے پینے کی چیزیں ہوتی تھیں۔سب بہت ہاتھ
کھینچ کھینچ کر خرچا کر رہے تھے۔ اگلا مہینہ گزارنا بہت مشکل نظر آ رہا
تھا۔
’’ابھی کتنے پیسے ہیں بینک میں؟‘‘۔ عائشہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
’’بس تیس ہزار تک ہیں‘‘۔ ذولفقار نے بتایا۔
’’چچ……آئے ہائے…… ‘‘۔ عائشہ کے منہ سے نکلا۔
’’بہت پریشانی ہو رہی ہے مجھے تو……‘‘۔ امی آہستہ سے پراٹھے کا ایک نوالہ
منہ میں ڈالتے ہوئے بولیں۔ ’’تمہارے ابو ہوتے تھے تو……‘‘۔ وہ گزرے ہوئے دور
کو یاد کرنے لگیں جب انہیں کسی چیز کی کوئی فکر نہ تھی۔ ان کی آنکھوں میں
نمی آ گئی۔ عائشہ کا منہ بھی رونے جیسا ہو گیا۔
’’دعا کریں جاب کا کچھ ہو جائے……‘‘۔ ذولفقار بولا۔ مگر اسے پتا تھا کہ جاب
کا لفظ سن کر اسکی امی ضرور کچھ نہ کچھ بولیں گی۔
’’کیا منحوس…… ایک تو یہ جاب کیوں نہیں ملتی تمہیں……؟؟؟‘‘۔اسکی امی نے چڑ
کر کہا۔
’’کیا فائدہ ایسی پڑھائی کا……‘‘۔ وہ پھر بولیں۔ ذولفقار کا چہرہ لال ہو
گیا۔اندر ہی اندر اسے غصہ آ رہا تھاکہ ایک بار پھر ان کی جھڑپ شروع ہونے
والی ہے۔
’’امی! چھوڑیں نا…… بے چارہ اتنا تو کوشش کر رہا ہے۔ ہر وقت تو اپلائے کرتا
رہتا ہے……‘‘۔ عائشہ نے امی کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’اب نہیں مل رہی تو…… بس دعا کریں…… اﷲ……!‘‘۔
’’میں نے بھی روز گرامر اسکول میں اپلائے کیا ہے……وہاں سے اﷲ کرے جاب مل
جائے مجھے……‘‘۔عائشہ نے محلے کے ایک اسکول میں ٹیچنگ کے لئے درخواست دے
رکھی تھی۔
سب جلدی جلدی چائے پراٹھے کھا رہے تھے اور دل ہی دل میں آنے والے وقت کے
بارے میں سوچ رہے تھے۔
’’اب عید پہ کیا کریں گے…… پتا نہیں……‘‘۔ ذولفقار کی امی کو بار بار یہی
خیالات آ رہے تھے۔ و ہ بہت فکر کر رہی تھیں۔ لہذا انہوں نے پھر وہی بات
شروع کر دی۔
’’ام م م…… میں کسی سے ادھار لینے کی کوشش کروں گا……‘‘۔ ذولفقار کے ذہن میں
حسن ہی تھا کہ اس سے کچھ پیسے ادھار لے کر گھر میں دے دے گا۔
آذانوں کی آ واز آئی۔ انہوں نے آخری نوالے کھائے، پانی وغیرہ پیا اور سحری
بند کی۔ذولفقار ویسے تو رمضانوں میں فجر کی نماز کے لئے مسجد جا رہا تھا۔
مگر آج امی کی فکر اور پریشانی دیکھ کر اس کا دل بھاری سا ہو رہا تھا۔ وہ
گھر کے بارے میں ہی سوچتا ہوا اوپر اپنے کمرے ہی میں چلا گیا اور وضو کر کے
وہیں نماز پڑھنے لگا۔
’’کس طرح ایک بار میں نے امی کے پیسے چرا کے سبا کو انگوٹھی دی تھی……‘‘۔
’’اب دیکھو …… کیا حالت ہو چکی ہے ذولفقار!‘‘۔ وہ نماز میں کھڑا سوچ رہا
تھا۔
’’اور ایک بار میں نے امی کی انگوٹھی چرائی تھی……‘‘
’’کیسے میں آرام سے بینک سے پیسے نکال نکال کر اڑا دیا کرتا تھا……‘‘۔ اس کا
ذہن کہا ں تھا اور وہ کر کیا رہا تھا۔ نماز میں کھڑا اپنی پرانی حرکتیں یاد
کر کے پچھتا رہا تھا۔ اس نے سلام پھیرا۔
’’ہونھ! …… کیا نماز پڑھی ہے میں نے……‘‘۔ وہ اپنی کمزور نماز پر خود ہی طنز
کرنے لگا۔ وہ لاچار سا اپنا سر جھکا کر بیٹھا رہا۔ ’’ہونھ!……‘‘۔ اسے اپنا
آپ بہت برا لگ رہا تھا۔
’’جس حال میں میں ہوں ……میں نماز پڑھ بھی کیسے سکتا ہوں میرے اﷲ!‘‘۔ اس نے
بے خودی سے اپنی کہنیاں زمین پر ٹکا دیں۔
’’میری ماں پریشان ہے…… وہ رو رہیں ہیں……‘‘۔ اس کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔
’’میرا گھر ……‘‘
’’ہمارے پاس پیسے ختم ہو گئے ہیں اﷲ تعالی……‘‘۔ اس نے کسی معصوم بچے کی طرح
اﷲ سے مانگنا شروع کر دیا۔
’’تو نے جو کچھ بھی مجھے دیا تھا…… میں نے سب اڑا دیا……‘‘۔ وہ آہیں بھرنے
لگا۔ وہ ہر لفظ کھینچ کھینچ کر بول رہا تھا۔
’’میں نے سب اڑا دیا……‘‘
’’میں نے سب اڑا دیا اﷲ!‘‘۔ وہ رونے لگا۔
’’مجھے معاف کر دیں…… مجھے معاف کر دیں‘‘
’’ہمارے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں اﷲ…… مجھے معاف کر دیں……مجھے معاف کر
دیں…… ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا اﷲ! ‘‘
’’…… ہمارے ساتھ برا نہ کرنا…… ہمارے ساتھ برا نہ کرنا اﷲ!!!!‘‘۔
’’اب کیا تو ہمیں بھوکا ہی مارے گا!!!‘‘۔ اس کی آواز اونچی ہو چکی تھی۔ اور
سر سجدے میں پڑا تھا۔ وہ آہیں بھر بھر کر اﷲ کے آگے رو رہا تھا۔
’’اﷲ نے کبھی کسی جاندار کوبھوکا نہیں مارا……مگر یہ کہ انہوں نے آپ ہی زمین
میں فساد برپا کیا ہو……یا اپنے کئے سے اﷲ کے عذاب میں گرفتار ہوں…… اس نے
تو زمین میں رزق کا نہایت عمدہ انتظام کر چھوڑا ہے‘‘۔ ذولفقار اپنے آپ کو
جواب دینے لگا۔
’’زمین میں کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اﷲ کے ذمے نہ ہو……اسی نے تمہیں
پیدا کیا ہے اور تمہارا رزق بھی اسی کے ذمے ہے‘‘۔
’’…… اوردیکھو !وہ سب کو روزی دیتا ہے مگر کسی سے لیتا نہیں‘‘۔
’’زمین میں کتنے ہی جانور ایسے ہیں جو اپنی پیٹھ پر اپنا رزق لئے نہیں
گھومتے …… اﷲ انہیں بھی رزق دیتا ہے ، سو تمہیں بھی دے گا‘‘۔
’’اپنے رب سے معافی مانگ لو…… بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے…… تم پر
آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا،مال اور اولاد سے تمہاری مدد کرے گا……
تمہارے لئے باغ پیدا کرے گا…… تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا‘‘۔
’’ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اﷲ کے لئے کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟؟؟‘‘۔
ذولفقار پر رقت طاری ہو گئی۔ وہ سجدے میں گر پڑا اور اﷲ سے اپنے کئے کی
معافیاں مانگے لگا۔
’’……اور اﷲ کے سوا بندوں کے گناہوں کا معاف کرنے والا اور ہے ہی کون؟؟؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
ذولفقار اپنی سی پوری کوشش کر رہا تھاکہ کہیں جاب مل جائے۔ انجنیئرنگ
کمپنیز سے لے کر اسکول ، کالج، یونیورسٹی، اسپتال تک اس نے ہر جگہ اپلائے
کر رکھا تھا کہ کہیں سے کوئی جواب آ جائے۔ وہ روز رات تراویح پڑھ کر سو
جاتا ،پھر دوبارہ فجر سے کچھ وقت پہلے اٹھ کر اﷲ سے دعائیں مانگتا۔
یہ ستائیسویں کی رات تھی۔ شب قدر۔ ذولفقار افطاری کے بعد مسجد کی طرف
بھاگا، مغرب کی نماز پڑھی ،پھر واپس گھر آ کر کھانا کھایا…… تھوڑی دیر گھر
والوں کے ساتھ وقت گزار کر عشاء کی نماز اور تراویح پڑھیں۔ اس نے پورا
ارادہ کر رکھا تھا کہ وہ آج رات عبادت میں گزارے گا۔
گھر آتے ساتھ ہی وہ چھت پر اپنے کمرے میں چلا گیااور دروازہ بند کر دیا۔
جائے نماز بچھائی اور اس پر تھوڑا سا عطر مل دیا۔ کمرہ خوشبو سے مہک اٹھا۔
کمرے میں گھپ اندھیرا تھااس نے لائٹیں آف کر دیں تھیں۔ اس نے وہاں رکھی ایک
خوبصورت سی موم بتی جلائی۔ اسے یہ اہتمام کرنے میں بڑا مزہ آنے لگا۔ وہ
جینز اور ٹی شرٹ پہنے ہوئے تھا۔ اسے کچھ خیال آیا ۔ اس نے الماری سے اپنا
صاف شفاف سفید رنگ کا ایک خوبصورت شلوار قمیض کا جوڑا نکالا اور نہا کر اسے
زیب تن کیا۔ اپنے کپڑوں پر ایک پیارا سا پرفیوم لگایا اور بسم اﷲ کہہ کر
مصلے پر کھڑا ہو گیا۔ غیر ارادی طور پر اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آ گئی
، سارا ماحول پاکیزگی میں نہا گیاتھا۔
…… وہ کمرے میں اکیلا نہ تھا۔ ایزائیل اور سومائیل بھی موجود تھے۔ انہوں نے
جو ذولفقار کا ارادہ بھانپاتو بہت خوش ہوئے اور آپ بھی ذولفقار کے دائیں
بائیں کھڑے ہو گئے کہ اﷲ کی بندگی میں اس کے ساتھ ہو جائیں۔ ویسے بھی آج
رات انکے سردار ، انکے افسر، سب سے افضل فرشتے، جبرئیل امینؑ کا دنیا پر
نزول ہونا تھا۔ اور اگلے آنے والے سال کے بارے میں انہیں نئی ھدایات ملنی
تھیں۔
ذولفقار نے نفل پڑھنے شروع کئے، پھر وہ تسبیح پڑھتا، پھر اﷲ کے حضور سجدہ
کرتا…… پھر قرآن مجید کی تلاوت کرتااور اسکا ترجمہ و تفسیر پڑھتا۔ کبھی اﷲ
کے آگے روتا…… دعائیں مانگتا…… مغفرت مانگتا…… فرشتے اس کی یہ حالت دیکھ کر
پڑھنے لگے۔
’’بھلا جو شخص رات کے اوقات تنہائی میں خدا کی بندگی میں لگا ہے…… کبھی اس
کی جناب میں سجدہ کرتا …… کبھی اس کے حضور میں دست بستہ کھڑا ہوتاہے…… آخرت
سے ڈرتا اور اپنے پروردگار کے فضل کا امیدوار ہے۔ کہیں ایسا شخص بندہء
نافرمان کے برابر ہو سکتا ہے!!!‘‘
کافی رات ہو گئی ذولفقار مصلے پر ہی بیٹھا تھا۔ اس پر نیند کا غلبہ ہونے
لگا۔ اس نے سوتے سوتے اپنی جاب کے لئے خاص طور پر دعا کی۔ پھر اپنی گھڑی
وغیرہ اتار کر پاس ہی پڑے گملے میں رکھ دی اور وہیں سو گیا۔
اس کی آنکھیں بند تھیں مگر دل جاگ رہا تھا۔ وہ خواب میں کھڑا نماز ادا کر
رہا تھا۔ تسبیح کر رہا تھا ۔ اﷲ کی حمد میں لگا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا
جیسے وہ سویا ہی نہ ہو۔ وہی خوشبو میں مہکتا کمرہ …… وہ خواب کے عالم میں
بھیاس خوشبو سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں اس نے دیکھا کہ اس کے
دائیں اور بائیں جانب سے دو نورانی ہستیاں نمودار ہو رہی ہیں۔
وہ دو فرشتے تھے۔ ذولفقار نے دونوں کی طرف حیرت سے دیکھا مگر کوئی بات کئے
بغیر پھر اپنی عبادت میں لگ گیا۔ وہ بھی اس کے آپ پاس کھڑے ہو کر اﷲ کی
تسبیح و تقدیس میں مگن ہو گئے۔ ساری رات یہی اعمال چلتے رہے۔
’’اب سحری کا وقت ہوا جاہتا ہے…… اٹھ کر سحری کر لو‘‘ ،فجر سے کوئیآدھے
گھنٹے پہلے وہ دونوں فرشتے ذولفقار سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ۔
’’دیکھو‘‘۔ ان میں سے ایک نے ذولفقار کی گھڑی جو گملے میں پڑی تھی اٹھا کر
ذولفقار کو وقت دکھایا اور گھڑی مصلے پر رکھ دی۔
ذولفقار نے یک دم اپنی آنکھیں کھول دیں جیسے سمجھ رہا ہو کہ سحری کا وقت
نکل گیا۔
اس نے سامنے مصلے پر پڑی گھڑی اٹھائی تو دیکھا کہ آذان ہونے میں ابھی آدھا
گھنٹہ باقی ہے۔ وہ کچھ مطمعین ہو گیا اور تھوڑی دیر وہی مصلے پر بیٹھا اپنے
اردگرد دیکھنے لگا۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ شاید وہ کسی کو تلاش کر رہا تھا۔
ان دو نورانی ہستیوں کو!!!
’’یہ میرا خواب تھا‘‘ اس نے دل میں کہا۔
’’ایسا لگ رہا ہے کہ گویا حقیقت ہو‘‘ اس نے پھر اِدھر اُدھر سر گھما کر کسی
کو ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ وہ اپنے ذہن میں اپنا پورا خواب دُھرانے لگا۔
اچانک اس کا ذہن مصلے پر پڑی گھڑی پر مبذول ہو گیا۔
’’یہ گھڑی اور والٹ تو میں نے گملے میں رکھ دیا تھا نا!!!‘‘ اس نے نظر اٹھا
کر پاس رکھے گملے کی مٹی کو دیکھا تو اپنا والٹ وہاں رکھا موجود پایا۔
’’تو یہ گھڑی مصلے پر کیسے پہنچی!!!‘‘ ذولفقار ڈر گیا۔ اس نے فوراََ کمرے
کا دروازہ کھولا اور نیچے گھر والوں کے پاس جا بھاگا۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’تو آپ جارہے ہیں……‘‘ الیکڑرونکس ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ نے اپنے ایک لیکچرار سے
کہا۔
’’جی سر !……آئی ایم سوری ……مجھے سمیسٹر کے بیچ میں ہی سب چھوڑ کر جانا پڑ
رہا ہے ……‘‘۔وہ تھوڑے شرمندہ تھے ۔
’’میری کینیڈا کی نیشنیلٹی کا کیس فائنل ہو گیا ہے ……تو……‘‘سر نے وضاحت کی
انہوں نے استعفی دے دیا تھا ۔
’’مگر اسٹوڈنٹس کو تو مسئلہ ہو جائے گا نا ……امتحان سر پر آرہے ہیں ……اس
طرح ارجنٹ بیسس پر ہم کیسے نئے بندے کو رکھیں گے ……‘‘
’’سر ابھی میں ایک ماہ کے لیئے تو ہوں……آپ ایڈورٹائز دے دیں اخبار میں
……انشاء ﷲ……‘‘
’’وہ تو کرنا ہی ہے……چلیں ……انشاء ﷲ ……‘‘ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ نے بات ختم کی۔
۔۔۔۔۔۔۔
عید کے اگلے ہی روز اخبار میں ذولفقار نے ایک چھوٹاسا اشتہار پڑھا۔
فوری ضرورت
رحمان انسٹیٹیوٹ آف انجینیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کو ایک عدد لیکچرار کی ضرورت
ہے۔
تعلیم ،بی۔ای ) الیکٹرانکس(
تجربہ تین سال
سبجیکٹ انڈسٹریل آٹومیشن
P.O Box 11235
’’انڈسٹریل آٹومیشن ……‘‘ ذولفقار بڑبڑایا ۔اس نے ابھی ابھی اسی سبجیکٹ کا
پیپر دیا تھا ۔اور حقیقتاََ یہی دو سبجکٹس اسے صحیح سے سمجھ آئے تھے جن کی
سپلی اس نے دی تھی۔ کیونکہ باقی چار سال تو وہ مشکل سے پاس ہوتا رہا
تھا۔مگر ان دو سبجکٹس کی حسن نے اسے بڑی اچھی تیاری کروادی تھی۔ اسے ایسا
لگنے لگا جیسے یہ جاب اسی کے لئے ہے ۔
’’مگر تین سال کا تجربہ مانگا ہے ……‘‘ ذولفقار پھر اپنے آپ سے بولا ۔ اس نے
تو کہیں ایک ماہ بھی نہیں پڑھایا تھانہ نوکری کی تھی۔
بہرحال وہ تو ہر جگہ، جہاں کوئی امید ہی نہ ہو وہاں بھی اپلائے کررہا تھا
تو یہاں تو پھر بھی اسے کچھ امید نظر آرہی تھی ۔
لہذا اس نے یہاں بھی اپلائے کردیا۔
دس دن گزر چکے تھے مگر ذولفقار کو کوئی کال نہیں آئی ۔
’’دیکھیں سر ! صرف پانچ ایپلیکیشنز آئی ہیں ……‘‘ ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ نے سر کو
مخاطب کرکے کہا جو استعفی دے کر کینیڈا جارہے تھے ۔ ’’دس دن گزر گئے ہیں
……‘‘ ان کے کینیڈا جانے میں صرف بیس دن رہ گئے تھے ۔
شاید اتنی کم ایپلیکیشنز اس لئے آئیں تھیں کیونکہ یہ کوئی بڑی اور معروف
یونیورسٹی نہیں تھی اور جو لوگ ذولفقار کے ساتھ ہی پاس ہوئے تھے ان میں سے
تقریباََ سب کو اب تک جاب مل چکی تھی۔ ویسے بھی بہت ہی کم لوگ اپنا کریئر
لیکچرار کے طور پر بنانا چاہتے تھے۔
’’ان سب ہی کو کال کر لیتے ہیں ……‘‘، ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ نے ساتھ بیٹھے اساتذہ
سے کہا۔
اسی دن ذولفقار کو انٹرویو کال آگئی ۔اس نے اچھے طریقے سے اپنا کورس ریوائز
کیا اور دوسرے دن انٹرویو دینے پہنچ گیا۔
اس کا انٹرویو بہت اچھا ہوا ۔قریباََ چھ افراد نے مل کر اس سے سوال جواب
کیئے ۔اس نے تو ابھی چند روز پہلے ہی اس مضمون کا امتحان دیا تھا لہذا ایک
جواب بھی غلط نہ ہوا۔
’’کیا کیا جائے ……جوابات تو انہوں نے سارے ٹھیک دیئے ہیں……مگر کوئی تجربہ
نہیں……‘‘ ذولفقار کے جانے کے بعد ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ کہنے لگے۔
’’ان کو ابھی کوئی جواب نہ دیں وہ جو این ۔ای ۔ ڈی میں پڑھارہے ہیں ان کو
آفر کر دیں پہلے ……‘‘ایک پروفیسر نے مشورہ دیا ۔
’’ہاں انکا انٹرویو بھی اچھا ہوا تھا ……‘‘ ایک دوسرے پروفیسر بولے۔
’’ہم م م م م……مگر یہ اچھا لڑکا ہے……‘‘ اﷲ نے ان کے دل میں ذولفقار کو خاص
کردیا تھا ۔
’’ٹھیک ہے پہلے ان سے پوچھ لیتے ہیں……۔ ‘‘ ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔
یہ ذولفقار کا یونیورسٹی میں پہلا دن تھا۔وہ بے حد خوش تھا ۔سب بہت خوش تھے
۔ اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اسے یہ جاب مل گئی ہے۔ وہ اچھی طرح سے تیار
ہو کر یونیورسٹی پہنچا۔ اب ذولفقارکوئی لڑکا نہیں بلکہ ایک وجیہ نوجوان
تھا۔ خوش لباس، اچھا پرکشش قد کاٹھ، طاقتور جسم، پرکشش رنگت ، نکوش…… ہر
لڑکی اسے اپنا جیون ساتھی بنا کر فخر کر سکتی تھی۔
’’بہت خوش قسمت ہیں آپ……بلکہ کسی کی دعائیں ہیں آپ کے ساتھ ……‘‘۔ ذولفقار
ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ کے کمرے میں بیٹھا تھا۔ان کی یہ بات سن کر وہ مسکرانے لگا۔
’’تھینک یو سر!بس اﷲ کا شکر ہے۔ ‘‘
’’کیونکہ بہت مشکل تھا کہ آپ سلیکٹ ہو جاتے ……‘‘۔ وہ پھر بولے۔
’’ایک دوسرے صاحب تھے…… این ۔ای۔ڈی کے ہم نے انہیں آفر دی تھی……وہ پڑھارہے
ہیں ابھی وہاں…… مگر انہیں ہماری آفر کم لگی ……‘‘
’’اپلیکیشنز بھی بہت کم آئی تھیں اس پوزیشن کے لیئے……اور ہمیں بندہ بھی
ارجنٹ چاہیئے تھا ……‘‘
’’آپ کا انٹرویو بھی بہت اچھا ہوا تھا ……‘‘
’’ماشاء ﷲ ……بہت خوش قسمت ہیں آپ…… ورنہ فریش گریجویٹس کو ہم نہیں
رکھتے……‘‘۔ ایچ او ڈی بار بار ذولفقار کو بتا رہے تھے کہ عام حالات میں
اسکا سلیکشن ناممکن تھا۔یہ تو اﷲ ہی نے ذولفقار کی دعا قبول کی اور اسکی
جاب کے لیئے ساری تدبیر بنائی ورنہ یونیورسٹی کی پالیسی کے حساب سے وہ کسی
فریش انجینئرکو اپنے ہاں نہیں رکھ سکتے تھے۔ مگر اﷲ چاہتا تو کوئی اور
تدبیر نکلتی اورجو کام اﷲ کو کرنا منظور تھا وہ ہو کر رہتا۔
’’سر! مے آئی کم ان؟‘‘۔ ایک شوخ آواز ذولفقار کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس نے سر
گھما کر دیکھا تو ہلکے پیلے جوڑے میں ملبوس ایک لڑکی کو آفس کے اندرآتا
پایا۔ بہت خوبصورت اور خوش لباس لڑکی، پتلی دبلی،اچھا قد، سر سے پاؤں تک وہ
چمک رہی تھی۔ اس کے بال بھی ڈائے ہوئے ہوئے تھے اور اس کے کپڑوں سے ان کا
رنگ میچ کر رہا تھا۔ نزدیک پہنچی تودپتا چلاکہ اس کی براؤن آنکھیں بھی اس
کے پورے گیٹ اپ پر بہت جچ رہی ہیں۔ درمیانے سے سائز کے چمکدار بندے اور
سینڈل…… اسکی بچوں جیسی گوری رنگت پر ہلکی لال سی لپ اسٹک بہت کھل رہی تھی۔
’’یہ ہمارے الیکٹرانکس ڈیمارٹمنٹ میں لیکچرار ہیں……یہیں سے گریجویٹ کیا ہے
انہوں نے……‘‘۔ ایچ او ڈی نے تعارف کروایا۔
’’السلام و علیکم! آئی ایم نیلوفر‘‘۔ وہ اپنے ہونٹوں کو ایک جانب کر کے
مشکل سے مسکرائی۔ اس کی آنکھوں میں کچھ انجانے سے شرارے دہکے۔
’’و علیکم السلام! میں ذولفقار احمد…… میں نے آج ہی جوائن کیا ہے‘‘۔ اُس کے
تیکھے سے تیور دیکھ کر ذولفقار کا دل ایک بار زور سے دھڑک کر رہ گیا۔
’’ابھی فریش گریجویٹ ہیں یہ بھی…… مگر یہیں سے پاس آؤٹ ہیں اس لئے ہم نے
ہائر کر لیا‘‘۔ سر ایچ او ڈی نے مزید بتایا۔ ذولفقار نے ’’ام م م ……‘‘ کر
کے اپنا سر ہلادیا۔
’’سر ! یہ اس سیمسٹر کا شیڈول ہے۔‘‘۔ نیلوفر نے کچھ صفحات ایچ او ڈی کو
دئیے۔ وہ ان پر سرسری نظر ڈالنے لگے۔ نیلوفر وہیں ان کے دائیں جانب کھڑی
تھیں۔ اس نے نظریں گھما کر ذولفقار کو دیکھا ۔ ذولفقار کی نظریں بھی اس سے
ملیں۔ پھر ذولفقار نے سامنے سر کو دیکھنا شروع کر کیا۔ نیلوفر نے بھی نظریں
ہٹائی۔ مگر شاید وہ پھر اسے دیکھنا چاہتی تھی۔ ذولفقار نے پھر اسے دیکھا تو
نیلوفر کو ا پنی طرف دیکھتا پایا۔ ذولفقار ہلکا سا فارملی مسکرا دیا۔ مگر
جو نیلوفرجواباََمسکرائی تو ایک ادا سے اپنے چمکتے ہونٹوں کو ایک جانب
کیا…… آنکھوں کو تھوڑا سا چھوٹا کر کے ایک دو بار پلکیں جھپکیں…… پہلے ایک
نظر نیچے ذولفقار کے ہاتھوں کو دیکھا پھر دوبارہ پلکیں اٹھا کر اس کی نظر
سے نظر ملائی …… جیسے کسی شیرنی نے اپنا شکار چن لیا ہو!
ذولفقار کچھ کنفیوز سا ہو گیا۔ ایسی ہوشربا ادائیں تو اس نے فلموں میں
ہیروئنز کی ہی دیکھیں تھیں۔ بلکہ یہ تو اس سے بھی کچھ بڑھ چڑھ کر تھیں۔یہ
ذولفقار کا پہلا دن تھا۔ وہ زرا سنبھل کر بیٹھ گیا اور اپنی نظریں سامنے
بیٹھے ایچ او ڈی پر ٹکا دیں۔
’’ٹھیک ہے بیٹا! میں بعد میں دیکھتا ہوں‘‘۔ سر نے نیلوفر کی طرف دیکھا۔ اس
کی کم عمری کے باعث وہ اسے بیٹا کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔
’’اوکے۔ تھینک یو سر!‘‘۔ نیلوفر یہ کہہ کر دروازے کی جانب بڑھی۔ ذولفقار نے
ایک بار پھر اسے جاتے جاتے دیکھا مگر اس بار اس نے اس پر نظر کرم نہ کی اور
سیدھا باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے |