اصل عزت وزلت اور اسکی پہچان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج کل ایک خاص عنوان، کے جس کے تہت میں اکثر لکھتا ہوں، وہ ہے معاشرتی اور سماجی دباؤ. اسکو انگریزی میں (Societal pressure) اور کبھی کبھی (peer pressure) بھی کہتے ہیں. یعنی معاشرتی دباؤ کے تہت ھم وہ اعمال کرتے ہیں جس کا شائد ہمارا دل تو چاہتا ہو مگر جیب اجازت نہیں دیتی. مگر چونکہ لوگو کے نزدیک اس عمل کی جھوٹی عزت ہوتی ہے تو وہ عمل کرنے پر وہ شخص مجبور ہوجاتا ہے.

اس معاشرتی یا سماجی دباؤ کی ایک مثال شادی بیاہ، نکاح اور منگنی کی کیفیت ہے. مگر کیونکہ اکثر و بیشتر شادی جیسا عنصر زندگی میں ایک ہی دفعہ منعقد ہوتا ہے تو ھم سماجی دباؤ کی وجہ سے وہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو ھمیں نہیں کرنا چاہیے مثلا ہزاروں رپووں کی انگھوٹیاں اور زیورات اور کپڑے بنوانا، پرتعیش کھانوں کا انتظام کرنا، اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے غیر ضروری طور پر ہزاروں لاکھوں کے قرضہ لینا وغیرہ

اللہ عزوجل نے قرآن میں فرمایا:
(أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ)

ترجمہ و مفہوم:
کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کر دیا ہے اور اسکے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اسکی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے، اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے

حوالہ سورۃ الجاثیہ سورۃ نمبر:45 آیت نمبر:23

جبکہ شریعت میں شادی جیسا عنصر بہت آسان ہے. یعنی دو گھرانوں کے درمیان صرف سچا قول ہی کافی ہے. کسی بڑی تقریب کی کوئ ضرورت نہیں، برات کا کوئ فلسفہ اسلام میں نہیں بلکہ صرف نکاح ہے اور نکاح میں حق مہر ہے جو مرد اپنی بیوی کو ادا کرے گا، اور جہیز کا کوئ فلسفہ اسلام میں نہیں ہے. اس عورت، کے جسکا نکاح ہوا اسکے والدین یا قریبی رشتہ دار اسکو اسکے خاوند کے گھر چھوڑ آئیں اور اگلے دن اسکے خاوند کا اپنی استطاعت کے مطابق ولیمہ منعقد کرنا، یہ ہے شرعی، اسلامی اور آسان ترین شادی.

جبکہ اسکے مقابلہ میں شادی کے عنصر میں ہمارا عمل صرف اور صرف سماجی اور معاشرتی دباؤ پر محیط ہوتا ہے کہ اگر ھم نے إسطرح نہ کیا اور أسطرح نہ کیا اور فضول خرچی نہ کی تو لوگ کیا کہیں گے؟ اور معاشرے میں ھماری ناک کٹ جاۓ گی، اور اگر یہ عمل کرنے کی استطاعت نہ ہو تو ایک عورت کے والدین غیر ضروری طور پر اداس اور پریشان ہوتے ہیں کیونکہ أنکے نزدیک معاشرے اور سماج کے پیچھے چلنا ہی أصل عزت ہے، جبکہ اللہ کے نزدیک یہ قطعا عزت نہیں، کیونکہ اس ميں اللہ کے رسول کی اتباع نہیں کی گئ.

اسکی ایک اور مثال معاشرتی اور سماجی اور طبقاتی تقسیم ہے مثلا ایک شخص ایک ادارے میں کام کرتا ہے وہ مختلف لوگوں کی اونچ نیچ دیکھتا ہے جو رہایش سے لے کر آمدنی اور ضروریات و تعیشات پر مبنی ہوتا ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ کیونکہ وہ اسکو حقیقت سمجھتا ہے تو وہ یہ نہیں جان سکتا اس تبقاتی تقسیم کی اللہ کے نزدیک کوئ حیثیت نہیں ہے. مثلا ایک شخص کے پاس برینڈ نیو ہنڈا یا لینڈ کروزر یا پراڈو ہے، ایک کنال کا فرنشڈ گھر ہے، نیا ٹچ موبائیل ہے، ٹھیک ٹھاک قسم کی آمدنی کا ذریعہ ہے مگر دوسری طرف وہ نہ تو اپنے رب کی توحید کو جانتا ہے نہ سنۃ نبوی پر عمل کرتا ہے اور نہ ہی پانچ وقت کا نماز کا پابند ہے نہ تو داڑھی کو رکھنا اسکی نظر میں کوئ ضروری امر ہے، اسی طرح سود خوری بھی شاید اسکی نظر میں کوئ معنی نہیں رکھتی. تو جس کے پاس یہ دنیاوی مال واسباب نہیں ہے یا کم ہے یا ایک مسکین یا اسکے ماتحت جو شاہد اسکو حاجی صاحب، انجنیر صاحب یا ڈاکٹر صاحب یا سر جی کہنے سے نہیں تھکتا یا پھر وہ اسکی زندگی کو اصل سمجھتا ہے حالانکہ وہ تو اللہ کی نافرمانی میں سر سے پاؤں تک کپھا ہوا، تقوی سے کوسوں دور. اگرچہ بعض لوگ کہتے ہیں تم اسکی حالت کو کیا جانتے ہو، ہو سکتا ہے اس میں اللہ سے خوف موجود ہو. یہ بات درست ہے کہ تقوی اور اللہ سے خوف دل کی عبادت ہے مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص کے دل میں تقوی بھی ہو اور اسکا عمل بھی قرآن والسنۃ کے متاصدم ہو. یعنی معلوم ہوا کہ تقوی اور اللہ کا خوف ھمیں قرآن والسنۃ کی اتباع میں لیجاۓ گا. جیسا کہ اللہ نے فرمایا:

الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ‌ عِندَ رَ‌بِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ‌ أَمَلًا ﴿٤٦﴾

ترجمہ ومفہوم: مال واولاد تو دنیا کی ہی زینت ہے، اور (ہاں) البتہ باقی رہنے والی نیکیاں از روۓ ثواب اور (آئیندہ کی) اچھی توقع کے بہت بہتر ہے

(سورۃ کہف، 18 آیت:46)

اور ایک جگہ فرمایا:

وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٨﴾

ترجمہ ومفہوم: اور اس روز وزن بھی حق ہے،جس شخص (کی نیکیوں) کا پلا بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہوں گے

(حوالہ: سورۃ الاعراف 7 آیت: 8)

اور فرمایا:

فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ ﴿٦﴾ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّ‌اضِيَةٍ ﴿٧

ترجمہ ومفہوم: پھر جس کے (نیکیوں کے) پلڑے بھاری ہوں گے. وہ تو دل پسند آرام کی زندگی میں ہوگا

(حوالہ: سورۃ القارعۃ 101 آیت 6-7)

اور ایک جگہ فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿١﴾

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور اسکے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہو.."

(حوالہ: سورۃ الحجرات: 49 آیت: 1)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول تقوی کے بارے میں:

التقوى هي الخوف من الجليل ، والعمل بالتنزيل ، والقناعة بالقليل ، والاستعداد ليوم الرحيل

ترجمه: تقوی رب ذولجلال کا خوف اپنے دل میں بٹھانے کا نام ہے، اور جو احکام نازل ہوۓ ہیں اس پر عمل کرنے والا ہو اور (حلال) پر قناعت کرنے والا ہو (چاھے تھوڑا ھی ہے) اور دنیا میں چند دن گزار لینے کے بعد، جہاں جانا ہے اسکی لیے تیاری کرنا.

اس قول کی اسنادی حیثیت میں نہیں جانتا، مگر اکثر علماء اس کو سیدنا علی سے منسوب کرتے ہیں، مگر موقوفا اس قول کی حیثیت ہے، واللہ اعلم.

اس سے ظاہر ہوا کہ تقوی سے مراد ہے کہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائ ہوئ حدوں کو نہ پھلانگنا اور یہ ہی اصل ڈر وخوف ہے. اسلیے وہ مسلمان جو ظاہر میں اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جاۓ مثلا شرک وبدعات سے مذین ہو یا اسکی زندگی عموما ظاہری گناہوں پر مشتمل ہو حتی کے وہ گناہ کر کے برملا اسکا اظہار بھی کرے وغیرہ اور اسکو ان عمور کی بار بار دلائل اور اخلاق سے تنبیہ بھی کی جاۓ مگر پھر نہ سنے تو ایسے شخص کے تقوی اور اللہ کے ڈر کے دعوی کا کوئ اعتبار نہیں دوسری جانب ایک مسلمان جو ظاھر میں اللہ اور اسکے رسول کی اتباع کرتا ہے توحید کی پہچان رکھتا ہے. شرک وبدعات کی نفی کرتا ہے مگر باطن میں اسکا عمل قرآن والسنۃ کے خلاف ہو مگر وہ عمل یا گناہ دوسروں سے چھپا اور پوشیدہ ہو تو ایک مسلمان کو اس سے کوئ سروکار نہیں کیونکہ وہ چھپا ہوا ہے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے باطن کی ٹوہ نہیں کرتا. اسی طرح ایک اور مثال خوارج کی ہے کہ سیدنا علی کے وقت میں شکل و صورت سے تو خوارج اچھے نیک و صالح اور دین دار لگ رہے تھے مگر انہوں نے اس وقت کے علماء یعنی صحابہ اور کبار تابعین کی مخالفت کی. اور اپنا فہم انکے سمجھانے کے باوجود قرآن والسنۃ سے مخالفت میں رکھا اور حتی کے سیدنا علی اور صحابہ پر تکفیر کی اور اسپر قرآن والسنۃ شاھد ہے، اور اس طرح کی کئ اور مثالیں ھمارے معاشرے میں عام ہیں.

اب ھم ان شاء اللہ آخر میں یہ دیکھتے ہیں کہ اب تک کی مثالوں سے ھم نے کیا سیکھا. سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ھمارا معاشرہ مختلف طرح کے تبقات اور سماجی اور معاشی ومعاشرتی اونچ نیچ میں تقسیم ہے جس کی اللہ کی نظر میں کوئ حیثیت نہیں. پیسہ،مال واولاد کی زیادتی عزت کا مقام نہیں بلکہ یہ تو صرف دنیا کی زینت وآزمایش اور فتنہ ہے، اس لیے اسکو اس پیرایے میں سمجھنا چاہیے.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

‏ "‏مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلاَّ كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ"‏‏.‏

ترجمہ ومفہوم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے ، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے
(حوالہ: صحیح بخاری، رقم الحدیث: 2320)

فوائد: اس حدیث کے کئ فوائد ہو سکتے ہیں. مثلا تجارت کی ترغیب، پودے اور کاشتکاری کی ترغیب، یا پھل دار درخت اور پودے سے صدقہ جاریہ. اور ایک فائدہ میری دانست میں یہ بھی ہے کہ کسی چھوٹے سے عمل کرنے سے بھے، جو اللہ کی رضا کے لیے کیا جاۓ، اس سے ایک مسلمان کی عزت بڑھتی ہے، واللہ اعلم.

گویا جس کے پاس مال واسباب کم ہوں یا زیادہ وہ دونوں صورتوں میں آزمائیش وفتنہ میں ہے اور اسکا عزت سے کوئ تعلق نہیں. بلکہ عزت اور بڑائ اور تقوی تو قرآن والسنۃ اور توحید کو منہج السلف کی روشنی میں صحیح یا حسن روایت کی روشنی میں عمل پر ہے اسی طرح شرک وبدعات وخرافات سے برآءت اور دوری پر ہے اسی طرح نیک اعمال پر استقامت بھی ہے، اللہ ھمیں اصل عزت وزلت اور اسکی پہچان عطا فرماۓ، آمین
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448643 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.