گلزار جلتے ہیں!!

جس کسی نے گلاب جیسے نرم و نازک مہکتے ہوئے ننھے ننھے اپنے ہی خون میں ڈوبتے ہوئے سراپے نہیں دیکھے، وہ ضرور دیکھیں اخبارات میں، ٹی وی میں انٹرنیٹ پر نظر آ رہے ہیں کسی کے غنچہ جیسے دہن کھلے رہ گئے ہیں، کتنے سیمیں بدن بکھرے پڑے ہیں، کسی نے مضبوطی سے آنکھیں بند کر لی ہیں جنہوں نے ہمیشہ پیار، دلار دیکھا اور بوسوں کی بارش دیکھی وہ آگ اور لوہے کی بارش نہیں دیکھ سکتے تھے سو سختی سے آنکھیں میچ لیں ۔ کسی کی حیرت زدہ آنکھیں کھلی رہ گئی ہیں اور پاس کوئی نہیں جوان پر ہاتھ رکھ کر بند کر دے۔

ایک ہی اسٹریچر پر پانچ بچے آپس میں گڈ مڈ جیسے چھوٹے سے کمرے میں بہت سارے بھائی بہن ایک ہی دری پر سو جاتے ہیں صبح ہونے تک کسی کے پاؤں کسی کے سر پر اور کسی کا گھٹنا کسی کے پیٹ پر اور ماں باپ یہ دیکھ کر محبت سے مسکراتے ہیں اور ان کی درازی عمر کی دعائیں کرتے ہیں ۔ کہیں میدان میں ایک بچہ اوندھا پڑا ہے اور ہاتھ پاؤں بکھرے ہوئے ہیں۔ آس پاس خون کا تالاب بنا ہوا۔ یہ وہ ریشمی نرم و ملائم معصوم فرشتوں جیسے وجود ہیں جن کا ہر ماں کو، ہر باپ کو، ہر قریبی رشتہ دار کو پتا ہے جب شیر خوار بچے کو چوما جاتا ہے، گلے سے لگایا جاتا ہے تو ایک انوکھی مہک آتی ہے وہ مہک دنیا کی کوئی شے سے نہیں آ سکتی ، کسی فیکٹری میں وہ خوشبو نہ تیار کی جا سکتی ہے نہ ہی محفوظ کی جا سکتی ہے، یہ مہک حضور پاک ﷺ کو اتنی پسند تھی کہ آپ چھوٹے بچوں کو چومتے بھی تھے اور ناک لگا کر سونگھتے بھی تھے۔

دیکھیے فوراً دیکھیے شاید یہ سب کچھ دیکھ کر امت مسلمہ کے پتھر دل پگھل جائیں۔

خالہ جان ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا ہے ، وہ کتنی دیر سے چپ چاپ کھڑااس کی محویت کو دیکھ رہا تھا۔ کل رات ظہیر کے کہنے پر وہ رک گیا تھا، سحری کے بعد سویا تو ابھی اٹھا آخر آواز دے کر متوجہ کرنا پڑا۔

ہاں آں! ایک طویل ہاں کے بعد پھر نظریں جھکالیں کیا ہوا خالہ؟ کچھ بتائیے تو ․․․‘‘

’’میں تمہیں بتاؤں یہ؟ تم اور تمہارے جیسے نوجوان جو ہر وقت انٹرنیٹ سے چپکے ہوتے ہیں ، تمہیں نہیں پتا، ہاں مگر تم اس سائٹ پر کب جاتے ہو،؟تم اخبار بھی نہیں پڑھتے ہو ،میرا بیٹا پھر کیسے معلوم ہو کہ دنیا بھر میں امت مسلمہ پر کیا کیا قیامتیں گزر رہی ہیں کیسے ان کو اور ان کی نسلوں کو مٹایا جا رہا ہے اور دیکھو……یہ دیکھو اخبار بھرا پڑا ہے خونِ مسلم کی یہ ارزانی دیکھو اس نے اخبار پھیلا کر رکھ دیا، خود بھی دیکھتی جا رہی تھی۔

دیکھا! دیکھ لیا؟

’’جی․․․‘‘ اب فواد کی باری تھی نظریں جھکانے کی اس نے خالہ جانی کی بھیگی ہوئی آنکھیں بھی دیکھ لی تھیں۔

’’تو اب میرے بیٹے اس سب کے بعد بھی ہم عید کے لیے چار چار، چھ چھ سوٹ بنوائیں گے، نئے نئے ڈیزائن کے جوتے چپلوں کے ڈھیر لگائیں گے؟کیا اب بھی ہماری بہو بیٹیاں ہزاروں روپے کے سوٹ سلوائیں گی؟․․․‘‘

کیا ہزاروں روپے پارلر میں میک اَپ اور بالوں کے اسٹائل پر پھونک دیں گی؟

کیا اب بھی چاند رات کو نوجوان لڑکے، لڑکیاں نئے بیاہے جوڑے اور بچوں والے اپنے بچوں کو ہزاروں کی شاپنگ کرانے نکلیں گے؟

کیااسی طرح ہمارا ٹی وی عریانی اور فحاشی کے مناظر دکھاتا رہے گا،؟

کیاہمیں نہیں پتاکہ ہمارے مال میں ان کا بھی حصہ ہے جو بے گھر، بے در برستی آگ سے بچنے کے لئے میدانوں میں ، خیموں میں پڑے ہیں ، ان کا بھی حصہ ہے جو تنگ دستی ، بیماری کے ہاتھوں مجبور ہیں اور ان کا بھی جو غیر مسلموں کے ہاتھوں قہر و جبر، ظلم و ستم کا شکار ہو رہے ہیں ……آہ……

’’مگر ہم کیا کر سکتے ہیں خالہ جی؟ ‘‘ اس نے تڑپ کر سر اٹھایا اور بولی۔

ہم……؟ ہم بہت کچھ کر سکتے تھے، مسلسل8 6سال سے اشارے ہو رہے ہیں !مسلمانو! اٹھو، کچھ کرو اپنے دین کی خاطر، اپنے اﷲ کی رضا کے لئے مگر ہم نے کان بھی بند کر لیے اور آنکھیں بھی! مسلسل ساٹھ سال سے زیادہ ہمارا وہی حال رہا، تیرے امیر مال مست تیرے غریب حال مست اور اب……اب تو بہت دیر ہو چکی اب تو بس اﷲ کے فیصلے کا انتظار کرو۔ سورۃ توبہ میں فرمان الہٰی ہے: ’’تم نہ اٹھو گے تو اﷲ تمہاری جگہ کسی اور کو اٹھائے گا اور تم اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔‘‘

چند دن بعد عید ہو گی ، کیا عید ہو گی بس ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے گئے روزوں کی ادائیگی پر شکرانے کی نماز ایک راستے سے مسجد جانا اور دوسرے راستے سے واپس آ جا اور مغفرت کی امید لگانا اور بس۔

اچھی خالہ کچھ تو ہو گا نا؟ کچھ تو کر سکیں گے ہم؟

وہ اسی طرح مخاطب کرتا تھا اپنی اکلوتی خالہ کو ہر دفعہ نئے لقب سے پکارنا اچھا لگتا تھا۔
ہاں بیٹا اس وقت کو انفرادی نہیں اجتماعی استغفار کی ضرورت ہے، ہر جگہ مسلمان اکٹھے ہو کر استغفار کریں اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کریں، ناک رگڑیں اس رحیم و کریم رب کے آگے ہمارے مخلص علماء کو یہ کام کرنا ہو گا کاش وہ کر سکیں'․․․․․․․․․․․․․․․․․!!!
Aasia Abdullah
About the Author: Aasia Abdullah Read More Articles by Aasia Abdullah: 23 Articles with 22268 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.