دھاندلا اور جوڈیشل کمیشن ۔۔۔۔

معزز و محترم جسٹس صاحبان پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کی مکمل رپورٹ منظرعام پر آچکی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس معتبر ترین رپورٹ کو پبلک کرنے والا وہ خاندان شریفیہ ہے ، جو جوڈیشل کمیشنز کی رپورٹس کو دبانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ کچھ عرصہ قبل ہی جسٹس باقر نجفی یک رکنی کمیشن کی رپورٹ آئی تھی مگر شریف برادران اس رپورٹ کو شیر مادر کی طرح پی گئے ۔ یہی خاندان شریفیہ نے اب ناصرف رپورٹ پبلک کی ہے بلکہ تقاریر بھی فرمائی ہیں اور اب رہی سہی کسر انکے پالتو وزراء پوری فرما رہے ہیں ۔ عمرآن خان اور انکی جماعت کو جوڈیشل کمیشن سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں اور انکا خیال تھا کہ آذاد عدلیہ کے ہونہار جسٹس صاحبان پاکستان کی جوڈیشل تاریخ بدل دیں گے ، اور بہت بڑا انقلاب برپا کردیں گے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ خان صاحب اب تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ عدلیہ آذاد ہے ۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ یہ کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔ جج صاحبان کی تقرریوں کے سسٹم کو آپ سمجھ لیں تو آذاد عدلیہ کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوٹ جائے گا ۔ مجھے اس جوڈیشل رپورٹ پر ذرا برابر بھی حیرت نہیں ہوئی اسکی وجہ ہے کہ میں کافی عرصہ سے کہہ رہا ہوں کہ کمیشن میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ درست رپورٹ مرتب کرسکے وہ اسٹیک اور اثرات کو دیکھتے رہے انصاف کا خون کرتے رہے ۔ اسکا اعتراف خود جسٹس صاحبان نے کیا کہ پورا سسٹم اور بہت کچھ اسٹیک اور داؤ پر لگا تھا لہذا ہم نےبہت احتیاط سے کام لیا ہے ۔ حالانکہ کرسی عدل پر متمکن قاضی کا کام عدل وانصاف سے فیصلے کرنا ہے نہ کہ رسک اور اسٹیک اور اثرات کی جانب دیکھنا ۔ عمرآن خان صاحب ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مس کیلکولیشن کرگئے اور اس گٹھ جوڑ اور محکمانہ الفت و محبت کو سمجھنے سے قاصر رہے ۔ میں تھوڑی وضاحت کرتا ہوں تاکہ ہر خاص وعام سمجھ سکے ۔ ٢٠١٣ کا الیکشن آر او کے الیکشنز کے نام نامی اسم گرامی کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے ۔ اور آر اوز معزز عدلیہ سے تھے جنکے نگرآن قبلہ جسٹس کانہ صاحب تھے ۔ جسطرح فوج اپنے جرنیلز کا دفاع و تحفظ کرتے ہیں اسی طرح جج ججز وکلاء وکیل کا دفاع اور تحفظ کرتے ہیں ۔ جوڈیشل کمیشن اپنے سابقہ چیف کی داڑھی نہیں نوچنا چاہتا تھا ۔ لہذا مبہم سی رپورٹ دی مگر جسٹس کانہ اور نون لیگ کو کلین چٹ عنائیت کردی ۔ دوسرا عمرآن خان نون لیگ کی بہترین مینجمینٹ کو بھی سمجھنے سے قاصررہے اور بھول گئے کہ شریف برادران عدلیہ اور میڈیا کو مینیج کرنے کے ماہر ہیں ۔ پیپلز پارٹی والے اس فیلڈ میں بالکل اناڑی تھے لہذا میڈیا اور عدلیہ نے روز پیپلزپارٹی کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہوتا تھا ۔ آج حالات پیپلزپارٹی کے دور سے ذرا بھی نہ بہتر ہے اور نہ ہی مختلف مگر نہ میڈیا اونچی آواز میں آہ کرتا ہے اور نہ ہی عدلیہ جنبش کرتی ہے ۔ میرے دیس میں اگر میڈیا چہرے دیکھ کر پروگرام نہ کرتا اور عدلیہ چہرے دیکھ کر فیصلے نہ کرتی تو میرا ملک اس نہج پر کبھی نہ پہنچتا ۔ معاشرے کفر کے ساتھ چل سکتے ہیں مگر ظلم اور ناانصافی کے ساتھ ہرگز نہیں چل سکتے ۔ یہ کوئی حادثاتی طور پر ایک رآت میں پاکستان کے حالات اچانک خراب نہیں ہوئے بلکہ برسوں کے چور اور کتی کے گٹھ جوڑ نے ملک کو اس نہج پر پہنچایا ہے ۔ جب تک ان لٹیروں کا احتساب توپوں کے سامنے کھڑا کرکے نہیں کیا جاتا اور اس سارے سسٹم کو دریا برد نہیں کیا جاتا اسوقت تک عام آدمی کو نہ انصاف مل سکتا ہے اور نہ ہی ملکی وسائل میں حصہ ۔ ٢٠١٣ کے انتخابات میں دھاندلی نہیں دھاندلا ہوا تھا مگر جوڈیشل کمیشن کو نظر نہیں آیا وہ بھی مجبور تھے کچھ ٹرم آف ریفرنس کے ہاتھوں اور کچھ سسٹم کے ہاتھوں کیونکہ جو بھی ہو ہیں تو وہ بھی اسی سسٹم کا حصہ ۔ خان صاحب کو بھی اپنا طرز سیاست بھی بدلنا چاہئیے اور اس سسٹم ناانصافیانہ اور چور اور کتی کے گٹھ جوڑ کو بھی سمجھنا چاہئیے ۔ اور خان صاحب مشیران بالا نشین بھی بدلیں اور میتھمیٹکس کی ٹیوشن بھی رکھیں تاکہ مستقبل میں مس کیلکولیشن نہ کرسکیں ۔ خوابوں کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں آئیں ۔ ٰ
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186420 views System analyst, writer. .. View More