مشرق کا عبقری: جس نے کارہائے علمیہ کے ذریعے اسلاف کی یاد تازہ کردی
(Ghulam Mustafa Rizvi, India)
10شوال’’یومِ ولادتِ رضا‘‘ پر
خصوصی تحریر
دُنیا کو تہذیب وتمدن آشنا کرنے والی قوم ’’مسلم‘‘ صہیونی سازشوں سے مائل
بہ زوال ہوئی۔تمام تر قابلِ افتخار سرمایہ ہمارے یہاں تھا۔ حیاتِ انسانی کا
ہر شعبہ، سائنس علوم کے جملہ فنون، علم اقتصادیات کی ہر شاخ، شعر وادب کی
ہر صنف، سیاست و جغرافیہ کی ہر جہت، مدنیت و شہریت کے تمام اُصول- ہمارے
اسلاف نے فارمولیٹ کیے۔ دُنیا نے بہ حیثیت اشرف المخلوقات زندگی گزارنے کا
ہُنر مسلمانوں سے سیکھا۔ علم اور فن کی ہر شاخ اسلاف کی آبیاری سے شاداب ہے،
تہذیب وتمدن کے تمام ضابطے اور قوانین مسلم مفکرین کے مرہونِ منت ہیں۔
عہدِ عروج کے بعد اپنی ہی کوتاہیوں سے اسلامی مملکتوں کا سیاسی پھر علمی
زوال آیا۔احکامِ دینی سے دوری کے نتیجے میں فکری زوال آیا۔ سازشوں کے نتیجے
میں اتحاد ختم ہوا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے احترام وادب سے دوری نے
رہے سہے اَساسے کو بھی تاراج کر دیا۔ایسے عہدِ قحط الرجال میں اسلامی
دُنیامیں کم ہی اُمید تھی کہ کوئی علم وفن کا شناور جنم لے یا کوئی ایسا
’’فخرِ مشرق‘‘ نابغہ و عبقری پیدا ہو جس پر اسلامی دُنیا ناز کرسکے۔حالاں
کہ اسلامی علوم سے استفادہ کرنے والے بیگانوں نے اپنے ملک و قوم کو فخر کی
راہ ڈالا ہے۔
۱۴۷۳ء میں کو پرنیکس پیدا ہواجس نے دُنیا کو سورج کے گرد زمین کی گردش کا
نظریہ دیا، جس پرپولینڈ کے ماتحت پر شیانازاں ہے۔
۱۵۶۴ء میں دوربین کا مؤجد گلیلیوپیدا ہوا، جس نے دور بین ایجاد کرکے اس کی
مدد سے کو پرنیکس کے نظریہ کو تسلیم کرایا، گرتے ہوئے جسم کی ہیئت پر
موجودہ تحقیق بھی اسی سے منسوب ہے۔جس پر اٹلی فخر کرتا ہے۔
۱۵۷۱ء کو کیپلرپیدا ہوا،ستاروں کی حرکت کا جدید نظریہ پیش کیا ، نظامِ شمسی
سے متعلق اُصول و قوانین ترتیب دے کر جرمنی کو نازاں کیا۔
۱۶۴۲ء کو آئزک نیو ٹنپیدا ہوا اور نظریۂ حرکت اور نظریۂ کشش ثقل اسی سے
منسوب ہے۔ ۱۷۹۱ء میں مائیکل فریڈنے جنم لیا، برقی عہد کا پیش رو کہلایا،جن
پر برطانیہ کو فخر ہے۔
۱۷۰۷ء کو سوئیڈن میں لیننا یوس پیدا ہوا ،جسے سائنسی دُنیا علم نباتات کے
مؤجد سے جانتی ہے ۔ ۱۷۴۳ء کو انطون پیدا ہوا ، جس نے آکسیجن کی دریافت کی ،
اور جدید علم کیمیا کا بانی بھی کہلایا ۔ یوں ہی ۱۷۴۴ء میں ماہرِعلم
حیوانیات جین انطون نے جنم لیا۔
۱۷۶۶ء میں جون ڈارٹن پیدا ہوا، جس نے جوہر کی تشخیص کی ۔کمبر لینڈ کو آج
بھی اس پر ناز ہے۔
چارلس لائٹر نے ماہرار ضیات کی حیثیت سے شہرت پائی،اوراس فن کا بانی
کہلایا۔اسکارٹ لینڈکو اس پر فخر ہے۔
۱۸۷۹ء کو البرٹ آئن اسٹائن سائنس داں پیدا ہوا، جس نے نظریۂ اضافت پیش
کیا۔مغربی جرمنی آج بھی اسے باعثِ افتخار جانتا۔
لیکن! مشرق میں عہدِ انحطاط میں وہ عظیم بچہ ۱۰؍شوال ۱۲۷۲ھ/۱۸۵۶ء میں پیدا
ہوا۔ جس کی علمی مہارت اور فنی خدمات دیکھ کر غزالی و رازی، شاہِ جیلانی و
مجدد الفِ ثانی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ اس بچے نے دین کی حفاظت اور قومی
وقار کی بلندی کے لیے تحقیق و تدقیق کے دریا بہائے۔ ۶۵؍سے زائد فنون پر
سیکڑوں کتابیں لکھیں۔ سائنس کے خلافِ اسلامی نظریات کی بیخ کنی کی۔ اس ضمن
میں ’’معین مبین بہر دورِ شمس وسکونِ زمین‘‘، ’’مقامع الحدید‘‘،
’’فوزِمبین‘‘، ’’نزولِ آیاتِ فرقان بسکونِ زمین وآسمان‘‘ ملاحظہ کی جاسکتی
ہے۔فلاسفہ کے قدیم نظریات کی اصلاح پر اس کی تصنیف ’’الکلمۃالملھمۃ‘‘ دیکھ
کر غزالی کی ’’تہافۃالفلاسفۃ‘‘ یاد آجاتی ہے۔سمتِ قبلہ پر ’’کشف العلۃ‘‘
میں علم کے دریا بہائے۔ علم نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ’’الدولۃالمکیۃ‘‘
اور سیرت کے اہم عنوان ’’سراپائے اقدس‘‘ پر قصیدۂ سلامیہ ’’مصطفی جانِ رحمت
پہ لاکھوں سلام‘‘ بے مثل و مثال ہیں۔
ترقی یافتہ دُنیاکا اہم عنوان اقتصادیات ہے، اس عنوان پر مشرق کے اس نابغہ
نے ’’کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم‘‘ اور ’’تدبیر فلاح و نجات
و اصلاح‘‘ لکھ کر اپنی معاشی مہارت کا ثبوت دیا۔ مسلمانوں کی اصلاح کے لیے
درجنوں رسائل لکھے، قبیح و غیر شرعی رسوم کے خلاف جہاد کیا۔ انگریزی تمدن
سے نفرت کی۔ انگریزی کورٹ ’’عدالت‘‘ کہنے سے اجتناب کیا، انگریزی کورٹ میں
کبھی قدم نہ رکھا، ڈاک کے لیے لفافے پر جارج پنجم کا ٹکٹ ہمیشہ اُلٹا چسپاں
کیا کہ سرِ انگریز ’’سرنگوں‘‘ رہے۔
اس نے ہمیشہ مسلمانوں کو بارگاہِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم سے وفاداری کا
درس دیا۔ کبھی اپنی محبت کا سودا نہ کیا۔ ایک ہی در پر بِکا، درِ طیبہ کے
علاوہ کوئی در سے اُسے سرو کار نہ تھا، اسی لیے اس نے سوزِ دل کا اظہار ان
الفاظ میں کیا
جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزا نازِ دوا اُٹھائے کیوں
واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا
نہیں سُنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
وصف رُخ ان کا کیا کرتے ہیں، شرح والشمس وضحی کرتے ہیں
ان کی ہم مدح و ثنا کرتے ہیں، جن کو محمود کہا کرتے ہیں
وہ ادب کا رمز شناس تھا، شعر وادب میں مہارت کا زمانہ معترف اور ’’حدائق
بخشش‘‘اس پر دال ہے۔اس نے اپنے معرکہ آرا فتاویٰ کے ذریعے مسلمانوں کو
بدعات سے روکا، مزاراتِ اولیا و صالحین پر خلافِ شرع ہونے والی رسوم کے
خلاف کھل کر لکھا۔ سجدۂ تعظیمی کے حرام ہونے پر ’’الزبدۃالزکیۃ‘‘ لکھی۔
عورتوں کی مزارات پر حاضری کی مخالفت میں فتویٰ لکھا، غیرشرعی مراسمِ محرم
کی مخالفت میں ’’اعالی الافادۃ‘‘ لکھی، فضائل صحابہ میں ’’غایۃالتحقیق‘‘
لکھی، سیدنا امیر معاویہ کی بے ادبی کرنے والوں کی خبر لی۔ توحید کی عظمتوں
کا اُجاگر کیا۔ احترامِ رسالت پر فتاوے صادر فرمائے۔ مسلمانوں کی اخلاقی
اصلاح پر تحریری کام کیا۔ عہدِ زوال میں اسلامی علوم و فنون سے قوم کے
رشتوں کو جوڑا۔ وہ ماہرِ علومِ دینیہ تھا، اپنے تعلیمی افکارکے ذریعے
مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا کی۔ اس کے افکار میں جذباتیت نہیں واقعیت
تھی، اس کی فکر قرآن کریم سے مستفیض و مستنیر تھی، کتاب اﷲ کسوٹی تھی؛اسی
لیے اس نے سائنسی و صہیونی نظریات کو جہاں خلافِ کتاب اﷲ پایا مذمت میں
تحقیق کے جوہر دکھائے۔وہ مخلص تھا، صاحبِ دل تھا، روحانیت میں اعلیٰ درجات
پر فائز تھا، غوث اعظم کے مشن کا ترجمان تھا، خواجہ غریب نواز کی فکر
کامحافظ تھا، مخدومی افکار کا نقیب تھا، اولیاء اﷲ کی تعلیمات کا مظہر تھا۔
اس کا نام ’’احمد رضا‘‘ تھا، دُنیا اسے اعلیٰ حضرت، محدث بریلوی، جامع
العلوم، عبقری الشرق، امام اہلِ سنت کے القاب سے جانتی پہچانتی ہے اور علمی
ودینی خدمات کی معترف ہے۔ |
|